خلاصۂ فتوی :
بعنیہ حرام اشیا کی تجارت،لین دین، ہدیہ اور صدقات سب حرام ہیں جیسے چوری کا سامان.
حرام اشیا کی تجارت سے حاصل شدہ قیمت خود تاجر کے لیے حرام اور دوسروں کے لیے حرام نہیں ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بلا تخصیص یہودیوں کی دعوت قبول کی اور ان سے معاملات بھی کیا۔
حلال و حرام کمائی کرنے والے کی دعوت و صدقات جائز ہے؛ کیوں کہ بعینہ مال حرام میں پڑنے کا امکان نہیں ہے۔
مال حرام کی قیمت بہر صورت مشتبہ اموال سے ہے اس لئے اس سے بچنا تقوی و احواط ہے۔
لیکن ہمارے زمانے میں ایسے مشتبہات سے بچنا خاص طور سے تجارت ولین دین کے معاملہ میں انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے، اس لیے بلاضرورت کسی مسلمان کی دعوت کا بائیکاٹ کرکے اسے مشتبہ ومتہم کرنے سے بچنا چاہیے۔
تفصیلی فتوی:
سوال ۔کیا فرماتے ہیں علماء اہلِ سنت اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حرام اشیاء کی تجارت کرتا ہے مثلاً شراب؛ تاڑی وغیرہ فروخت کرتا ہے اور وہ خود کو مسلمان کہتا ہے ،اس کے یہاں دعوت کھانا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمِ
جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں تجارت کو حلال قرار دیا اور نبی کریم ﷺ نےعملی صورت میں تجارت کرکے دکھا یا۔ تجارت سنت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکتیں رکھی ہیں ،تجارت کے لئے شریعت نے حلال وحرام کے احکام بھی بیان کیے ہیں جن کے دائرے میں رہ کر ہی ایک مسلمان کو تجارت کرنی ہے ، خاص طور سے مسلمان تاجروں کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ حلال اشیاء کی تجارت کریں اور حرام کی تجارت سے اجتناب کریں اگر چہ اس میں نفع زیادہ ہو ، اللہ کے رسول ﷺ نے حرام اشیاء کی خرید وفروخت کوسختی کے ساتھ منع فرمایا ہے،چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انوتں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کےسال مکہ ہی میں یہ فرماتے ہوئے سنا : إن الله ورسوله حرم بيع الخمر، والميتة والخنزير والأصنام»( صحيح البخاري (3/ 84)
ترجمہ۔ بے شک اللہ اور اس کے رسولﷺنے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔
دوسری حدیث جو حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے ،اس میں نبی کریم ﷺ نے حرام تجارت سے حاصل کی گئی قیمت کو بھی صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے ۔ :إِنَّ اللّٰہَ إِذَا حَرَّمَ عَلٰی قَوْمٍ أَکْلَ شَیْءٍ حَرَّمَ عَلَیْھِمْ ثَمَنَہُ۔(سنن ابی داؤد، کِتَابُ الْاِجَارَۃِ، بَابُ فِی ثَمَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْتَۃِ) اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیا ،تو ان پر [اس شی کی خرید و فروخت کرکے ]اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے۔
غیر شرعی طور سے حاصل شدہ مال کو کھانا، غلط طریقے سے لوگوں کے مال ہڑپنے کی طرح ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُـوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَـرَاضٍ مِّنْكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَنْفُسَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا ۔[النساء: 29]
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر باہم رضا مندی سے تجارت کرکے ، اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے: وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ. [البقرة: 188]
اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔
ایسا شخص جس کا سارا مال حرام ہو اس سے معاملہ کرنے کے تعلق سے سارے ائمہ متفقہ طور سے منع کرتے ہیں، اور جس کا اکثر مال حرام ہو اس سے بھی معاملہ کرنے، اس کے ہدیہ قبول کرنے اور اس کی دعوت کھانے کے حوالے سے جواز مع الکراہۃ کا قول کرتے ہیں، کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ وہ خود بعینہ مال ِحرام کو استعمال نہ کرلے ۔ کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے شبہات سے بھی بچنے کا حکم دیا ہے :
نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ. (متفق علیہ)
ترجمہ ۔ بلا شبہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، اوران دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو کوئی شبہ کی ان چیزوں سے بچتا ہے وہ اپنے دین و آبرو کو بچا لیتا ہے اور جو ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں پڑ گیا اس چرواہے کی طرح جو (شاہی ) چراہ گاہ کے اردگرد اپنی بکریوں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ جانوروں کو اس میں داخل کردے۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی) اللہ کی چراہ گاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر ایک ٹکڑا ہے جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا جسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، سنو ! وہ ٹکڑا دل ہے۔
علامہ دسوقی مالکی لکھتے ہیں : وأما من كان كل ماله حرام وهو المراد بمستغرق الذمة؛ فهذا تمنع معاملته ومداينته ويمنع من التصرف المالي وغيره (حاشيۃ على الشرح الكبير، 3/ 277، ط. دار احياء الكتب العربيۃ)
ترجمہ۔ وہ شخص جس کا کل مال حرام کا ہو ،تو اس کے ساتھ ہر طرح کے معاملات کرنا ، لین دین کرنا منع ہے اور ایسے شخص کو مالی تصرف سے بھی روکا جائے گا ۔
امام نووی شافعی لکھتے ہیں: ولا يجوز مبايعة من يعلم أن جميع ماله حرام لما روى أبو مسعود البدرى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عن حلوان الكاهن ومهر البغى وعن الزهري: في امرأة زنت بمال عظيم قال لا يصلح لمولاها أكله لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مهر البغى. (المجموع شرح المهذب، 9 / 343)
ترجمہ ۔ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کا پورا مال حرام کا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ معاملا ت کرنا جائز نہیں ہے ،جیسا کہ ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کاہن کی اجرت اور زنا کی قیمت سے منع فرمایا ۔امام زہری نے ایسی عورت جس نے زنا سے بہت سارا مال کمایا ہو ، اس کے تعلق سے فرمایا کہ ایسی عورت کے آقا کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کا مال کھائے ، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے زنا کی قیمت سے منع فرمایا ۔
اوروہ شخص جو حرام و حلال دونوں طرح کی تجارت و بزنش کرتا ہو ،اور اس کے پاس ہر طرح کے پیسے ہوں، حلال و حرام میں کوئی امتیاز نہ ہو، تو ایسے شخص سے معاملات مثلاً خرید وفروخت کرنے ،ہدیہ قبول کرنے ، اور دعوت کھانے کے سلسلے میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔
پہلا قول ۔ جواز مع الکراہت کا ہے ،یعنی ایسے شخص کے ساتھ معاملات جیسے خرید وفروخت کرنا ، ہدیہ قبول کرنا ،ان کی دعوت کھانا حرام نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، یہ امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور مالکیہ میں سے فقیہ عبد الرحمن بن القاسم(متوفی ،۱۹۱) کا مفتی بہ اور معتمد علیہ قول ہے ۔ امام نووی شافعی مجموع میں لکھتے ہیں ۔وَكَانَ فِي مَالِ الْمُشْتَرِي حَلَالٌ وَحَرَامٌ وَلَمْ يَعْلَمْ مِنْ أَيْنَ يُوَفِّيهِ الثَّمَنَ لَمْ يَحْرُمْ عَلَى الْإِنْسَانِ الْمَوْهُوبِ لَهُ وَلَكِنَّ الْوَرَعَ تَرْكُهُ وَيَتَأَكَّدُ الْوَرَعُ أَوْ يَخِفُّ بِحَسَبِ كَثْرَةِ الْحَرَامِ فِي يَدِ الْمُشْتَرِي وَقِلَّتِهِ۔ (المجموع شرح المهذب 9/ 344)
ترجمہ ۔ مشتری کے پاس حلال وحرام دونوں طرح کے مال ہوں اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس پیسے سے قیمت ادا کیا ہے ،تو ہبہ قبول کرنے والے کے لیے اس کا ہبہ قبول کرنا حرام نہیں ، البتہ اس کے ترک میں تقوی ٰ ہے، پھر جو مال مشتری کے پاس ہے اس میں حلال و حرام کی کمی زیادتی سے تقوی ٰ کے درجات میں بھی فرق آئے گا ۔
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی لکھتے ہیں: معاملة من أكثر ماله حرام إذا لم يعرف عينه لا يحرم في الأصح، لكن يكره، وكذا الأخذ من عطايا السلطان إذا غلب الحرام في يده كما قال في "شرح المهذب": إن المشهور فيه الكراهة لا التحريم.(الأشباه والنظائر، ص: 107)
ترجمہ ۔جس کا اکثر مال حرام ہو مگر یقینی طور سے حرام کی تعیین نہ ہو، تو صحیح قول یہ ہےکہ ایسے شخص سے معاملا ت کرنا حرام نہیں ہوگا البتہ مکروہ ہوگا ، یہی حکم بادشاہ کے عطایا کا ہے جس کا اکثر مال حرام کا ہو ، اسی طرح شرح ِمہذب میں بھی ہے ۔اس حوالے سے فقہاء شوافع کا مشہور قول کراہت کا ہے نہ کہ حرمت کا ۔
اس کے علاوہ فقہ شافعی کی متعدد کتابوں میں امام نووی کی کتاب ‘‘المجموع ’’کے حوالے سے کراہت کا ہی قول نقل کیا ہے ،البتہ امام غزالی سے حرمت کا قول بھی منقول ہے جس کو مذہب شافعی میں شاذ قرار دیا گیا ہے ۔چنانچہ اعانۃ الطالبین میں ہے :قال في المجموع: يكره الاخذ ممن بيده حلال وحرام.(اعانۃ الطالبین ، 2/ 405)
ترجمہ ۔مجموع میں ہے کہ جس کے پاس حلال و حرام دونوں طرح کے مال ہوں اس سے کچھ لینا مکروہ ہے ۔
فقیہ ابو الحسن علی بن سلیمان مرداوی حنبلی(متوفی ،۸۸۵ھ) نے علامہ ابن قدامہ حنبلی کے حوالے سے اس مسئلے میں چار طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد چوتھے قول ( عدم تحریم )کو راجح قرار دیا ، لکھتے ہیں ۔ :الْقَوْلُ الرَّابِعُ: عَدَمُ التَّحْرِيمِ مُطْلَقًا. قَلَّ الْحَرَامُ أَوْ كَثُرَ، لَكِنْ يُكْرَهُ وَتَقْوَى الْكَرَاهَةُ وَتَضْعُفُ بِحَسَبِ كَثْرَةِ الْحَرَامِ وَقِلَّتِهِ. جَزَمَ بِهِ فِي الْمُغْنِي، وَالشَّرْحِ. (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف ۔ 8/ 323)
ترجمہ ۔چوتھا قول یہ ہے کہ مطلقاً حرام نہیں ہے خواہ حرام مال زیادہ ہو یا کم ،البتہ مکروہ ہے ،اور کراہت میں شدت وخفت کا حکم مالِ حرام کی کثرت وقلت کی بنا پر ہوگا ، مغنی اور شرح کبیر میں اسی پر جزم کیا گیا ہے ۔
علامہ ابن قدامۃ حنبلی لکھتے ہیں: إذا اشترى ممن في ماله حرام وحلال؛ كالسلطان الظالم والمرابي، فإن علم أن المبيع من حلال ماله فهو حلال، وإن علم أنه حرام فهو حرام...؛ لأن الظاهر أن ما في يد الإنسان ملكه، فإن لم يعلم من أيهما هو كرهناه؛ لاحتمال التحريم فيه، ولم يبطل البيع؛ لإمكان الحلال، قل الحرام أو كثر، وهذا هو الشبهة، وبقدر قلة الحرام وكثرته تكون كثرة الشبهة وقلتها. (المغني، 4 / 180)
علامہ ابن قدامہ حنبلی نے اس مسئلہ میں امام احمد بن حنبل سے یہ روایت نقل کیاہے کہ آپ سے ایسے مال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ایسے مال سے کھانا مجھے پسند نہیں ۔قال أحمد : لا يعجبني أن يأكل منه (المغنی ،4/ 333)
دوسرا قول ۔ یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ معاملات کرنے میں غلبہ کا اعتبارکیا جائے گا ،اگر مال حلال زیادہ اور حرام مال کم ہو تو ایسے شخص کے ساتھ معاملہ کرنا ،جائز ہے اور اگر مالِ حرام زیادہ اور حلال کم ہو تو معاملہ کرنا ،ناجائز ہے ، یہ حنفیہ اور مالکیہ کا مفتی ٰ بہ قول ہے۔
فقیہ عبد الرحمن بن محمد بن سمانان شیخ زادہ معروف بہ داماد آفندی (متوفى 1078ھـ) بزازیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ غَالِبُ مَالِ الْمُهْدِي إنْ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِقَبُولِ هَدِيَّتِهِ وَأَكْلِ مَالِهِ مَا لَمْ يَتَبَيَّنْ أَنَّهُ مِنْ حَرَامٍ؛ لِأَنَّ أَمْوَالَ النَّاسِ لَا يَخْلُو عَنْ حَرَامٍ فَيُعْتَبَرُ الْغَالِبُ وَإِنْ غَالَبَ مَالَهُ الْحَرَامُ لَا يَقْبَلُهَا وَلَا يَأْكُلُ إلَّا إذَا قَالَ إنَّهُ حَلَالٌ أُورِثْتُهُ وَاسْتَقْرَضْتُهُ ۔(مجمع الالنہر فی شرح ملتقی الابحر ،2/ 529)
ترجمہ ۔بزازیہ میں ہے کہ ہدیہ دینے والے کے مال میں اگر غالب حصہ حلال مال کا ہو، تو اس کا ہدیہ قبول کرنے اور اس کے مال سے کھانے میں کوئی حرج نہیں جب تک یہ ظاہر نہ ہو کہ یہ ہدیہ حرام مال ہی کا ہے ،اس لیے کہ لوگوں کا مال عام طور سے تھوڑے بہت حرام کی آمیزش سے خالی نہیں ہوتا،لہٰذا غلبہ کا اعتبار ہوگا ، اوراگر اس کے مال کا اکثر حصہ حرام کا ہوگا، تو نہ اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز اور نہ اس کا کھانا ،کھانا جائز،مگر جب یہ کہے کہ یہ حلال مال ہی سے ہے یا اس نے وراثت میں یہ مال پایا ہے یا کسی سے قرض لیا ہے تواب اس کا لینا اور کھانا جائز ہے ۔
اسی طرح فتاوی ہندیہ میں ہے ۔:أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع۔(الفتاوى الهندیہ، 5/ 342)
ترجمہ ۔کوئی شخص کسی کو کچھ ہدیہ دے یا ضیافت کرے تو اگر اس کے مال کا غالب حصہ حلال ہو، تو اس کا ہدیہ قبول کرنے اور اس کے مال سے کھانے میں کوئی حرج نہیں ،مگر جب یقین ہوجائے کہ یہ حرام مال ہی کا ہے، اور اگر اس کے مال کا اکثر حصہ حرام کا ہوتو نہ اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز اور نہ اس کا کھانا ،کھانا جائز،مگر جب یہ کہے کہ یہ حلال مال ہی سے ہے یا اس نے وراثت میں یہ مال پایا ہے یا کسی سے قرض لیا ہے تو لینا اور کھانا جائز ہے ، ایسا ہی ینابیع میں ہے ۔
علامہ حموی حنفی لکھتے ہیں: معاملة من أكثر ماله حرام ولم يتحقق المأخوذ من ماله عين الحرام فلا تحرم مبايعته؛ لإمكان الحلال وعدم التحريم، ولكن يكره خوفًا من الوقوع في الحرام، كذا في فتح القدير. (غمز عيون البصائر، 1/ 192، ط. دار الكتب العلميۃ)
ترجمہ ۔ ایسے شخص سے معاملہ کرنا جس کا اکثر مال حرام کا ہو مگر یقین سے یہ معلوم نہ کہ جو مال اس سے لیا ہے بعینہ وہی حرام ہے تو یہ معاملہ کرنا حرام نہیں ہو گا اس لیے کہ ممکن ہے کہ وہ حلال ہو حرام نہ ہو ، لیکن حرام میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مکروہ ہوگا جیسا کہ ،فتح القدیر میں ہے۔
فقیہ ابو الوليد محمد بن احمد بن رشد قرطبی مالکی (متوفى ،450هـ)لکھتے ہیں۔:إذا كان الغالب على ماله الحلال ، وابن القاسم يجيز ذلك ، وهو القياس ؛ واصبغ يحرمه ،۔(البيان والتحصيل (18/ 515)
ترجمہ ۔جب اس کے مال کا غالب حصہ حلال ہوتو ابن قاسم (ابو عبد الله عبد الرحمن بن القاسم بن خالد بن جنادة (متوفی ، 191 ھ)نے اس کو جائز قرار دیا اور یہی قیاس کا تقاضہ بھی ہے اور اصبغ (أصبغ بن الفرج ،متوفی ،۲۲۵ھ )نے اسے حرام قرار دیا ۔
فقیہ محمد بن احمد بن دسوقی مالكی (متوفى،1230ھ)لکھتے ہیں ۔
اعْلَمْ أَنَّ مَنْ أَكْثَرُ مَالِهِ حَلَالٌ وَأَقَلُّهُ حَرَامٌ الْمُعْتَمَدُ جَوَازُ مُعَامَلَتِهِ وَمُدَايَنَتِهِ وَالْأَكْلِ مِنْ مَالِهِ كَمَا قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ خِلَافًا لِأَصْبَغَ الْقَائِلِ بِحُرْمَةِ ذَلِكَ، وَأَمَّا مَنْ أَكْثَرُ مَالِهِ حَرَامٌ وَالْقَلِيلُ مِنْهُ حَلَالٌ فَمَذْهَبُ ابْنِ الْقَاسِمِ كَرَاهَةُ مُعَامَلَتِهِ وَمُدَايَنَتِهِ وَالْأَكْلِ مِنْ مَالِهِ وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ خِلَافًا لِأَصْبَغَ الْمُحَرِّمِ لِذَلِكَ۔( الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشیہ الدسوقی۔3 / 277)
ترجمہ ۔جان لو کہ جس شخص کے مال کا اکثر حصہ حلال ہو اور اقل حصہ حرام ، تو قابل اعتماد بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ معاملات کرنا ، لین دین کرنا جائز ہے ،جیسا کہ فقیہ ابن قاسم نے کہا، بر خلاف اصبغ کے جو اس کو حرام کہتے ہیں ۔اسی طرح جب اس کے مال کا اکثر حصہ حرام ہو اور اقل حصہ حلال ، تو فقیہ ابن قاسم کا مذہب یہ ہےکہ اس کے ساتھ معاملات کرنا ، لین دین کرنا اور اس کے مال سے کھانا مکروہ ہے ،یہی معتمد علیہ ہے، برخلاف اصبغ کے، جو اس کو بھی حرام کہتے ہیں ۔
فقہا کے اقوال سے یہ بات تو بالکل واضح ہوگئی کہ ایسا شخص جس کے پاس کل مال حرام ہوتو اس سے معاملہ کرنا حرام ہے، کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ بعینہ مال حرام اس کے حصے میں آجائے، جیسے چوری کی ہوئی اشیا ، غصب کی ہوئی زمین وغیرہ کی خرید و فروخت ،نیزہدیہ اور تبرعات قبول کرنا حرام ہے ،کیوں کہ ہر حال میں یہ اشیا اپنے مالک کی طرف لوٹ جائیں گی۔
اوروہ شخص جو حرام و حلال دونوں طرح کا مال رکھتا ہویااس کا غالب مال یا کل مال حرام ہو ،لیکن بعینہ مال حرام میں پڑنے کا امکان نہ ہو ،تو ایسے شخص سے معاملات مثلاً خرید وفروخت کرنا ،ہدیہ قبول کرنا ، اور دعوت کھانا جائز ہے؛ کیوں کہ ثمن کبھی بھی عقود میں متعین نہیں ہوتا ہے یعنی بعینہ ثمن کسی کے حق میں حرام نہیں ہوتا ہے، مثلاً شراب بیچنے والے کے لیے اس کی قیمت خود اس کے حق میں تو حرام ہے مگر وہی قیمت کسی دوسرے کو دے دے یا اس سے کھانا خرید کر اپنے اہل و عیال یا دوسروں پر خرچ کرے تو یہ ان کے حق میں حرام نہیں ہوگا لیکن تقوی یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان سے بچاجائے، لیکن ہمارے زمانے میں تقوی، ورع اور احوط فتووں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے جیسا کہ متاخرین فقہا نے اس کی صراحت کی ہے۔
علامہ برہان الدين محمود بن مازه حنفی (616ھ)لکھتے ہیں: رُوِيَ عن علي بن إبراهيم أنه سُئِل عن هذه الشبهات، فقال: ليس هذا زمانَ الشبهات؛ اتق الحرام عيانًا؛ بمعنى: إن اجتنبت عن عین الحرام كفاك]اهـ، (المحیط، 5/ 499، ط. دار الكتب العلميۃ)
علی بن ابراہیم سے روایت ہے کہ جب ان سے شبہات کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ شبہات سے بچنے کا زمانہ نہیں ہے، واضح حرام سے بچو، یعنی اگر تم واضح حرام سے بچ جاتےہو توتمہارےلیےیہی کافی ہے ۔
فقیہ قاضخا ن (592ھ) لکھتے ہیں:ليس زمانُنا زمانَ الشبهات؛ فعلى المسلم أن يتقيَ الحرامَ المُعايَن] اهـ. (فتاوی قاضیخان، 3/ 402، مطبوعہ حاشیہ الفتاوى الهنديۃ، ط: الاميريۃ 1310ھ)
ہمارا زمانہ شبہات سے بچنے کا زمانہ نہیں ہے،ایک مسلمان کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ وہ واضح اور بین حرام سے بچے ۔
شيخ خليل نحلاوی حنفی (1350ھ) لکھتے ہیں : [الورعُ من تناول الشبهات في الحلال والحرام ليس كالورع في أمر الطهارة والنجاسة، بل هو أهمُّ في الدين، وهو سيرةِ السلف الصالحين، ولكن في زماننا هذا لا يمكن ذلك الورعُ من الشبهات في الحلال والحرام، بل لا يمكن الأخذُ بالقول الأحوط في الفتوى] اهـ. (الدرر المُباحۃ فی الحظر والاباحۃ، ص: 80):
حلال و حرام میں شبہات سے بچنا اور ورع وتقوی اختیار کرنا نجاست وطہارت میں تقوی اختیار کرنے کی طرح نہیں ہے بلکہ حلال و حرام میں تقوی دین کا بہت ہی بلند وبالا معیار ہے جو صرف اور صرف سلف صالحین کا حصہ ہے لیکن ہمارے زمانے میں ایساتقوی اختیار کرنا ممکن نہیں ہےیہاں تک کہ فتوے کے باب میں بھی احوط قول پر عمل کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔
شيخ محمد سعيد برہانی داغستانی (1386ھ) فتاوی قاضیخان اور ہدایہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وزمانُهما قبل ستمائة سنة من الهجرة النبوية، ولا خفاء أنّ الفساد والتغيّر يزيدان بزيادة الزمن؛ لبعده عن عهد النبوة، فالورع والتقوى في زماننا: في حفظ القلب واللسان وسائر الأعضاء، والتحرز عن الظلم وإيذاء الغير بغير حق] اهـ. (التعليق على الدرر المباحۃ، ص: 80)
قاضی خان اور صاحب ہدایہ کا زمانہ آج سےتقریباً چھ سو سال پہلے کا ہے ،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ عہد نبوی سے دوری کی وجہ سے فساداورتغیردن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں تو اب ہمارے زمانہ میں تقوی بس یہ ہے کہ آدمی اپنے دل، زبان اور تمام اعضا کی حفاظت کرلے اور دوسروں پر ناحق ظلم وزیادتی اور ایذا رسانی سے اپنے آپ کو بچا لے ۔
ان تمام باتوں سے واضح ہوگیا کہ آج کے زمانے میں شہبات سے بچنا ممکن نہیں ہے، خاص طور سے اس دور ظلمت میں جہاں حرام و حلال کی کوئی تمییز نہیں، رشوت اور دھوکے سے شاید ہی کوئی کاروباراورنوکری خالی ہو،جھوٹ ، فریب اور بہتان سے شاید ہی کوئی اپنی تجارت کو محفوظ رکھ پاتا ہو۔صرف اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کی مکمل کمائی کا دار ومدار خالص عین مال حرام جیسے شراب ، ربا یا زنا کے مال پر ہو ان سے معاملہ نہ کرے ،اوران کےعلاوہ دوسرے لوگوں سے معاملات کرنے ، ان کی دعوت اور تبرعات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔رہے ایسے لوگ جو ظالم و جابر ہو، ساتھ ساتھ ان کا مال بھی شبہات سے پُر ہو اور لوگ ان سے نفرت بھی کرتے ہوں تو ان سے بھی معاملات کرنے سےبچنا چاہیے،ظاہراً و باطناً تقوی یہی ہے ۔ہاں اگر ان سے معاملات کرنے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی وجہ سے ان کے شر سے بچا جاسکتا ہو یا ان کی اصلاح ممکن ہویا اس سے معاملات کرنا مجبوری ہو،تو ایسی صورت میں ضرورت یا تالیف کی خاطر ان سے معاملہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل اور صحابہ و سلف صالحین کے اقوال اس پر شاہد ہیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: إذَا دَخَلْت عَلَى مُسْلِمٍ لَا يُتَّهَمُ فَكُلْ مِنْ طَعَامِهِ، وَاشْرَبْ مِنْ شَرَابِهِ. (صحیح بخاری، باب الرجل يدعى الى طعام فيقول: وهذا معی، ح :5461) جب تم کسی مسلمان کے پاس جاؤ جس پر کبھی کوئی تہمت نہ لگی ہو تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا پانی پیو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ً روایت ہے : إذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ فَأَطْعَمَهُ طَعَامًا فَلْيَأْكُلْ مِنْ طَعَامِهِ وَلَا يَسْأَلْهُ عَنْهُ (مسند احمد:9184) جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کے پاس جاؤ اور وہ تمہیں کچھ کھلائے تو اسے کھاؤ اور اس کے بارے میں سوال نہ کرو ۔ (کہ یہ کھانا کیسا ہے ؟ )
عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: لِي جَارٌ يَأْكُلُ الرِّبَا ولا يزال يدعوني، فقال: مهنؤه1لَك وَإِثْمُهُ عَلَيْهِ (مصنف عبد الرزاق:14675)
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے ان سے کہا کہ میرا ایک پڑوسی ہے جو سود کا کاروبار کرتا ہے اور وہ مجھے برابر دعوت پر بلاتا ہے تو میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا :وہ تمہارے لئے جائز ہے ،اوراس کے عمل کا گناہ اس پر ہے ۔
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:وَمِمَّنْ كَانَ يَقْبَلُ جَوَائِزَهُمْ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةُ وَغَيْرُهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ، مِثْلُ الْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ. وَرَخَّصَ فِيهِ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمَكْحُولٌ، وَالزُّهْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ. وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ بِأَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا، وَمَاتَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَهُ» . «وَأَجَابَ يَهُودِيًّا دَعَاهُ، وَأَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ.» وَقَدْ أَخْبَرَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُمْ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ، - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، أَنَّهُ قَالَ: لَا بَأْسَ بِجَوَائِزِ السُّلْطَانِ، فَإِنَّ مَا يُعْطِيكُمْ مِنْ الْحَلَالِ أَكْثَرَ مِمَّا يُعْطِيكُمْ مِنْ الْحَرَامِ. وَقَالَ: لَا تَسْأَلْ السُّلْطَانَ شَيْئًا، وَإِنْ أَعْطَى فَخُذْ، فَإِنَّ مَا فِي بَيْتِ الْمَالِ مِنْ الْحَلَالِ أَكْثَرُ مِمَّا فِيهِ مِنْ الْحَرَامِ. (المغنی لابن قدامۃ، 4/ 202 ط مكتبۃ القاهرة)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کا نا م شمار کرایا ہے جو بادشاہوں کا ہدایا قبول کرتے تھے ان میں عبد اللہ ابن عمر ، عبد اللہ ابن عباس ،عائشہ صدیقہ اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کرام جیسے حضرت حسن، حسین ، حسن بصری ، مکحول ، امام زہری ، امام شافعی ، رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ،بعض حضرات نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے کھانا خریدا، اور جب آپ ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی ڈھال اس یہودی کے پاس گروی تھی ۔اسی طرح آپ ﷺ نے ایک یہودی کی دعوت قبول کی اوراس کا کھانا تناول فرمایا ، جب کہ اللہ تعالی ٰ نے خبر دی ہے کہ یہ لوگ (یہود) سود کھانے والے ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بادشاہوں کے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اس لیے کہ وہ جو تمہیں حلال میں سے دیتے ہیں وہ زیادہ ہوتا ہے اس سے جو وہ تمہیں حرام میں سے دیتے ہیں ، اور فرمایا کہ بادشاہ سے کچھ طلب نہ کرو مگر وہ کچھ دیں تو لے لو اس لیے کہ بیت المال میں حرام سے زیادہ حلال ہوتا ہے ۔
واللہ اعلم
محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
6،جمادی الاولی1442ھ/22،دسمبر 2020ء
Leave your comment