Donate Now
کوویڈ 19 ویکسین  کاحکم شرعی

کوویڈ 19 ویکسین کاحکم شرعی

کوویڈ 19 ویکسین  کاحکم شرعی

خلاصۂ فتوی:

کوویڈ 19 وبا پورے عالم کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے ، اس وبا سے نجات کا واحد راستہ ویکسین ہی ہے اور یہ ویکسین حکومت کے ماتحت ہی لگوایا جائے گا، اس لیےاس ویکسین میں کسی بھی طرح کا مادہ ملا ہو خواہ حرام ہی کیوں نہ ہو، ویکسین میں اس کی ہیئت باقی نہیں رہتی ہے اس لیے حنفیہ کے یہاں مفتی بہ قول کے مطابق اس کا استعمال جائز ہے، نیز ضرورت اور عموم بلوی کی وجہ سے اس کا لگانا اور اس وبا سے نجات کے لیے حکومت کے دوش بدوش کھڑاہونا مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔

تفصیلی فتوی:

سوال: کوویڈ 19 ویکسین ابھی تک ملک میں نہیں آیا ہے لیکن اس  بارے میں مسلم اسکالرز، مفتیان کرام اور عوام میں ایک بےچینی سی محسوس کی جارہی ہے کہ آیا اس کا استعمال حلال  و جائز ہے یا حرام ہے؟ مسلمانوں کے ایک طبقے کی جانب سے اس سلسلے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اس کی وجہ سے ملکی میڈیا ،اسلام اور مسلمانوں پر طعن و تشنیع کر رہی ہے، لہٰذا اس حوالے سے صحیح رہنمائی فرمائیں۔

حافظ قیام الدین ، چھپرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب: کوویڈ 19 ویکسین کا حکم شرعی جاننے سے پہلے چند چیزوں کا جاننا بے حد ضروری ہے۔

حرام اشیا کے تعلق سے عمومی حکم

)۱) حرام اشیا جیسے خمر وخنزیر کےکسی بھی جز کا بعینہ استعمال حرام ہے، اس بات پر جمہور فقہا کا اتفاق ہے۔

(۲) لیکن شدید ضرورت کے وقت حرام اشیا  کا بعینہ استعمال بقدر ضرورت جائز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ [البقرة: 173]

مردار ، خون، سور کا گوشت اور اس جانورکو  جواللہ کےعلاوہ کسی  کے نام سے ذبح کیا گیا ہو اللہ تعالیٰ نے  تم پر حرام کیا ہے لیکن جو شخص مجبور ہو یا حالت اضطرار میں ہو  تو اس  کے لیے ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں بہ شرط کہ وہ ان کی خواہش نہ رکھتا ہو اور نہ قدر ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا ہو۔

(۳) اشیاء میں اصل اباحت و طہارت ہے،جب تک  حرمت ونجاست پر حتمی و یقینی دلیل قائم نہ ہو جائے اس وقت  تک محض شکوک  و شبہات کی بنا پر کسی شے پر   حرمت  یا نجاست کا  حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔

(۴)  فقہ کا مشہور قاعدہ ہے: مَنْ اُبْتُلِيَ بِبَلِيَّتَيْنِ، وَهُمَا مُتَسَاوِيَتَانِ يَأْخُذُ بِأَيَّتِهِمَا شَاءَ، وَإِنْ اخْتَلَفَا يَخْتَارُ أَهْوَنَهُمَا؛ لِأَنَّ مُبَاشَرَةَ الْحَرَامِ لَا تَجُوزُ إلَّا لِلضَّرُورَةِ وَلَا ضَرُورَةَ فِي حَقِّ الزِّيَادَةِ. (الاشباه والنظائر،ابن نجیم،ص: 76)

جب کوئی شخص دو مصیبت میں مبتلا ہو اور دونوں برابر ہو، دونوں میں سے جسے چاہے اختیار کرے۔ اور اگر ان میں کوئی کم نقصان دہ ہو اور کوئی زیادہ تو کم نقصان والے کو اختیار کرے، اس لیے کہ حرام کا ارتکاب بغیر ضرورت کے جائز نہیں ہےاور یہاں  زیادہ نقصان والے کو اختیار کرنے میں  ضرورت کا تحقق نہیں ۔

 (5) دوا مفرد ہو یا مرکب اس کا ترکیبی و تحلیلی  عمل سے گزارنا ناگریز ہوتا ہے، اس کیمیائی ترکیب و تحلیل کے دوران جڑی بوٹیاں یا دوسرے کیمیائی اجزا کی اصل صورت و ہیئت عام طور سے باقی نہیں رہتی ہے، بلکہ ایک نئی صورت نئے نام کے ساتھ متعارف ہوجاتی ہے جس کو فقہاء کی اصطلاح میں استحالہ یا استہلاک کہا جاتا ہے۔

اگر کوئی شے اپنی اصل وحقیقت اور صفت و خاصیت بدل کر دوسری حقیقت و ہیئت اور صفت و خاصیت اختیار کرلے تو اس کو استحالہ کہتے ہیں جیسے گوبر  راکھ  ہوجائے، شراب سرکہ ہوجائے، نمک کی کان میں خنزیر نمک ہوجائے۔

 اور اگر ایک شے دوسرے اشیا میں گھل مل کر مغلوب ہوجائے تو اس کو استہلاک کہتے ہیں، جیسے شراب یا کسی بھی نجس شے کو دہ دردہ تالاب میں ڈال دیا جائے، جس کی وجہ سے پانی کی کوئی صفت نہ بدلے تو پانی پاک رہے گا اور شراب یا نجاست کو ہلاک یعنی کالعدم قرار دیا جائے گا۔

استحالہ میں اس بات پر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ شراب خود سے سرکہ بن جائے تو وہ پاک اور حلال ہے۔ لیکن دوسری اشیا کے حوالے سے فقہا کے یہاں دو نظریے پائے جاتے ہیں:

پہلا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کسی شے پر حکم اس شے کی ماہیت و صورت کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے، جب وہ صورت و ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے جیسے شریعت نے مشک، عنبر وغیرہ کو پاک و حلال قرار دیا ہے، حالاں کہ یہ ناپاک اشیا کی بدلی ہوئی صورت ہیں۔یہ نظریہ فقہ حنفی کی اکثر متون و شروح میں صراحت کے ساتھ موجود ہے، اصلاً یہ قول امام محمد کا ہے لیکن بعض مشائخ حنفیہ نے اسے امام ابو حنیفہ کا قول بھی قرار دیا ہے اور فقہائے احناف کے نزدیک یہی قول مفتی بہ بھی ہے۔ مالکیہ اور اصحاب ظواہر کی بھی یہی رائے ہے۔  (البحر الرائق، ۱/۲۳۹۔ رد المحتار، ۱/۲۹۱۔فتح القدير، ١/ 201)

فتح القدیر کے الفاظ یہ ہیں:

وَهُوَ بِانْقِلَابِ الْعَيْنِ فِي غَيْرِ الْخَمْرِ كَالْخِنْزِيرِ وَالْمَيْتَةِ تَقَعُ فِي الْمُمْلِحَةِ فَتَصِيرُ مِلْحًا تُؤْكَلُ، وَالسِّرْقِينُ وَالْعَذِرَةُ تَحْتَرِقُ فَتَصِيرُ رَمَادًا تَطْهُرُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ....

وَكَثِيرٌ مِنْ الْمَشَايِخِ اخْتَارُوا قَوْلَ مُحَمَّدٍ، وَهُوَ الْمُخْتَارُ لِأَنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النَّجَاسَةِ عَلَى تِلْكَ الْحَقِيقَةِ، وَتَنْتَفِي الْحَقِيقَةُ بِانْتِفَاءِ بَعْضِ أَجْزَاءِ مَفْهُومِهَا فَكَيْفَ بِالْكُلِّ، فَإِنَّ الْمِلْحَ غَيْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجَسُ وَيَصِيرُ خَلَّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا. وَعَلَى قَوْلِ مُحَمَّدٍ فَرَّعُوا الْحُكْمَ بِطَهَارَةِ صَابُونٍ صُنِعَ مِنْ زَيْتٍ نَجِسٍ۔

دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ شے نجس کی حقیقت بدل جانے سے بھی اس کا حکم نہیں بدلتا ہے، وہ اب بھی حرام و نجس ہی رہے گا، یہ امام احمد بن حنبل کا مشہور قول ہے۔(المغنی، از قدامہ حنبلی، ۱/۵۹)

اورحنفیہ میں سے امام ابویوسف کا بھی یہی قول ہے۔(فتح القدير، ١/ 201)

اس سلسلے میں شوافع نجس لعینہ اور نجس لغیرہ کے حکم میں فرق کرتے ہیں، نجس لعینہ میں وہ حنابلہ کے ساتھ ہیں یعنی نجس لعینہ کی حقیقت بدل جانے سے بھی اس کے حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ جب کہ نجس لغیرہ میں وہ حنفیہ کے مفتی بہ قول کی تائید کرتے ہیں یعنی حقیقت بدلنے سے حکم بھی بدل جائے گا۔(مہذب، از شرازی، ۱/۴۸)

(۶) جب کسی دوا میں کوئی نجس شے ملی ہوئی ہو اور وہ اپنی طبیعت پر باقی بھی ہو، لیکن ماہرین  اطباو معالجین کے مطابق اس کے علاوہ کوئی متبادل دوا نہ ہو اور اس کے بغیر علاج   بھی ممکن نہ ہو تو اس کا استعمال  بھی جائز ہے۔

 (۷) یہ خیال رہے کہ ضرورت و حاجت کا معنی احوال واشخاص  کے اعتبارسے مختلف ہوتے رہتے ہیں اور انسان کی عمومی حاجت کو ضرورت کی منزل میں مانتے ہیں۔اسی کو  کبھی عموم بلوی  بھی کہا جاتا ہے۔علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں: أن الحاجة العامة تتنزل منزلة الضرورة  (الأشباه والنظائر ،از سیوطی ،ص 88) 

(۸) مرض کی صورت میں دوا کرانا  ایک انسانی ضرورت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے دوا کرانے کاحکم بھی فرمایا ہے، صحيح حديث میں ہے: تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ (ابو داود) دوا کراؤ ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھاپا کے علاوہ جو بھی بیماری پیدا کی ہے تواس کی دوا بھی پیدا کی ہے ۔

(۹) اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہے کہ یہ زمانہ سلف صالحین کی طرح تقوی و عزیمت کا زمانہ  نہیں ہے ،بلکہ دین و اسلام کی حفاظت آسانی و رخصت کو اختیارکرنے میں ہے: علامہ برہان الدين محمود بن مازه حنفی (616ھ)لکھتے ہیں: رُوِيَ عن علي بن إبراهيم أنه سُئِل عن هذه الشبهات، فقال: ليس هذا زمانَ الشبهات؛ اتق الحرام عيانًا؛ بمعنى: إن اجتنبت عن عین الحرام كفاك]اهـ، (المحیط، 5/ 499، ط. دار الكتب العلميۃ)

علی بن ابراہیم سے روایت ہے کہ جب ان سے شبہات کے بارے  پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ شبہات سے بچنے کا زمانہ نہیں ہے، واضح حرام سے بچو، یعنی اگر تم واضح حرام سے بچ جاتےہو توتمہارےلیےیہی کافی ہے ۔

کوویڈ 19 ویکسین کی حقیقت اور حکم شرعی

کودیڈ ۱۹ ویکسین کے تعلق سے اب تک برقی ذرائع، شوسل میڈیا اور متعدد ماہرین طب اور دنیا کے مختلف دار الافتا کے ذمہ داروں کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے

(۱) جن کمپنیوں نے ویکسین تیار کیا ہےان میں بعض نے صراحت کی ہے کہ اس نے اس میں خنزیر کے جلیٹن (Gelatin) کا استعمال نہیں کیا ہے:

ایسوسی ایٹڈ پریس (Associated Press)  نے بتایا کہ کورونا ویکسین بنانے والی دوا ساز کمپنیاں فائزر (Pfizer) موڈرنا (Moderna)  اور آسٹرا زینیکا (AstraZeneca) نے اس بات  کی وضاحت کی ہے کہ  کورونا وائرس کی نئی ویکسینوں میں سور کی مصنوعات نہیں ملائی گئی ہیں ۔

(۲)چینی  دوا ساز کمپنی سینوفارم (Sinopharm)  اور  کنسینو بائیولوجکس (CanSino Biologics) نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے کرونا ویکسین کی تحقیق کے سلسلے میں رابطہ کرنے پر  اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا ان کی ویکسین میں سور کی مصنوعات موجود ہیں یا نہیں۔( )

لیکن برٹش اسلامک میڈیکل کے جنرل سکریٹری ، ڈاکٹر سلمان وقار نے کہا: ویکسین کے ڈیمانڈ، سپلائی کے موجودہ تسلسل، اس کی لاگت اور  جن ویکسینوں میں پلسین جیلیٹن شامل نہیں ہے ان کا کم مدت کے لیے قابل استعمال ہونا اس بات کو بتاتا ہے  کہ پلسین جیلیٹن کا استعمال سالوں تک اکثر ویکسین  میں جاری رہے گا۔

ان سب بیانوں کی وجہ سے  مسلمانوں کے درمیان ویکسینوں کے استعمال میں  ایک زمانے سے مخمصےکی صورت رہی ہے۔کیوں کہ اس بارے میں مسلم اسکالرز میں اختلاف ہے کہ حرام اشیا جیسے  سورکی جلیٹن جن کو متعدد  کیمیائی ترکیب و تدوین کے مرحلے سے گزارا جاتا ہےتو کیا اب بھی ان ویکسینوں کو شرعی  لحاظ سے ناپاک اور حرام سمجھا جائے گا؟

ویکسین کے سلسلے میں اس  بحث وتحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی مارکٹ میں بعض ویکسن صرف حلال اشیا پر ہی مشتمل ہے جب کہ اکثر ویکسینوں میں سورکی جلیٹن کا استعمال ناگزیر ہے ؛ کیوں کہ اس کے بغیر ویکسین دیرپا نہیں ہوتے اور ہر جگہ اور ہر موسم کے قابل نہیں رہ پاتے ہیں۔

لیکن جن میں سورکی جلیٹن استعمال کیا جاتا ہے اس میں سور کے گوشت یا دیگر اجزا بعینہ صورت  میں باقی نہیں رہتی بلکہ متعدد کیمیائی مراحل سے انھیں گزارا جاتا ہے جس کی وجہ سے خنزیر کی اصل اجزا ،اپنی اصلی ہئیت پرباقی نہیں رہ پاتی ہیں جس کی وجہ سے اسے حرام لعینہ نہیں کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سلسلے میں امام محمد کا قول اوپر مذکور ہوا کہ جب نجس اشیا کی اصل ہیئت و صفت کو کسی بھی طرح بدل دیا جائے تو وہ ناپاک نہیں رہتیں اور عموم بلوی کی وجہ سے ان کا استعمال بھی جائز ہے، اسی پر ائمہ احناف کا فتوی ہے۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسانی جان کی ہلاکت کا ضرر ویکسین میں حرام اشیا کے  استعمال کےضرر سے زیادہ ہےاسی وجہ سےدواؤں میں حرام اشیا کے استعمال کے باوجود جواز کا فتوی دیا جاتا رہاہے۔ 

کوویڈ 19 ویکسین کے تعلق سے عالم اسلام کے جن متعدد دار الافتاء سے جواز کا فتوی صادر ہوا ہے ،ان میں سے  مصری دار الافتاءکا فتوی ملاحظہ کریں:

دار الافتاء مصريہ کے امین عام  مفتی خالد عمران نےویکسین کا واضح حکم بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے:

عالم اسلام دواؤوں اورویکسینوں میں حرام اشیا کی آمیزش کی وجہ سےبرابر  مخمصے کی کیفیت سے دوچار رہی ہےجب کہ اس حوالے سے دار  الافتاء مصریہ  نے متعدد بار اس کی وضاحت کی ہے کہ ان حرام اشیا کو کئی بار کیمیائی مراحل سے گزارا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنی اصل ہیئت و صورت سے نکل کر دوسری شکل اختیار کرلیتی ہیں جس کو فقہی اصطلاح میں استحالہ(تغیر) کہاجاتا ہے، جس پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔

اس کے علاوہ  فتوی کونسل، عرب امارت نے بھی کوویڈ کے ویکسین کو استحالہ اورحاجت عامہ  کو بنیاد بناکر جائز قرار دیا ہے۔

اسی طرح جامعہ اشرفیہ مبارک پور کےاستاذ اور دار الافتا کے مفتی ،استاذی الکریم حضرت علامہ ومولانا مفتی بدر عالم صاحب قبلہ نے بھی اپنے بیان میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نجس وحرام اشیا سے ملی ہوئی دواؤں  وویکسین کا استعمال ضرورت وحاجت کے پیش نظر جائز ودرست ہے۔مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں پڑنے کی بجائے کوویڈ ۱۹/ کی ہلاکت سے اپنے اور اپنے ملک کے باشندوں کو بچانے کے لیے ویکسین کا استعمال کرنا چاہیے اور کسی کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہیے ۔

یہ خیال رہے کہ کوویڈ 19 وبا پورے عالم کو اپنے لپیٹ میں لے چکا ہے  اور اس کی ویکسین کی تعداد فوری طور  پر  ہر ایک لیے میسر  ہونا ممکن نہیں ہے اس لیے حکومتیں اپنے اصول وضوابط کے مطابق ہی عام شہریوں کے لیے  ویکسین مہیا کراے گی  جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انفرادی طور پر کسی بھی ملک میں ویکسین  انتخاب کرنے کا اختیار عام شہری کو نہیں رہے گا۔ ایسی صورت میں جلیٹن والی ویکسین کا استعمال بھی درست ہوگا۔ اس تعلق سے بلاوجہ انتشار پھیلانا اور فقہی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ دینا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اگر ویکسین انتخاب کرنا عام شہریوں کے اختیار میں ہوتا تو خنزیر کی جلیٹن والی ویکسین کو استعمال نہ کرنا ورع اور تقویٰ ہوتا۔

ہذا ما ظھر لی والعلم عند اللہ

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

دار الافتاالعارفیۃ ،سید سراواں ،کوشامبی

۱۳/جمادی الاولیٰ  ۱۴۴۲ھ ۔ ۲۹ /دسمبر ۲۰۲۰ء

Ad Image