Donate Now
جمعہ کے بعد ظہر ادا کرنے کا حکم

جمعہ کے بعد ظہر ادا کرنے کا حکم

سوال۔کیافرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ہذا میں کہ: موضع کھدولی ایک دیہی علاقہ ہےجس میں دومسجدیں واقع ہیں جن میں سےایک مسجد میں تقریباًچالیس پچاس سال سےجمعہ کی نماز قائم ہے جب کہ دوسری مسجد میں لوگ تقریبا اسی۸۰؍برس سےجمعہ قائم کرکےپڑھتے آرہے ہیں ،اب کچھ حضرات یہاں جمعہ اورظہردونوں قائم کرنےپر مصرہیں۔ واضح ہوکہ اول الذکرمسجد میں سوافراد سےزائدلوگ جمعہ کی نمازاداکرتے رہے ہیں جب کہ موخرالذکرمسجد میں تقریباًایک سوپچاس افرادجمعہ کی نماز اداکرتے آرہے ہیں۔جمعہ اورظہردونوں قائم کرنے کی بنیاد پرسخت خلفشاراورسورش بپاہےاوراختلاف وانتشارکاماحول برپاہوگیاہےاورلوگ مسجدیں چھوڑ رہےہیں۔لہذا آپ حضرات سےگزارش ہےکہ قرآن وحدیث اورائمہ اہل سنت کےفرامین کےمطابق احوال وکوائف کومد نظررکھتے ہوئےجوابات عنایت فرمائیں اورعنداللہ ورسولہ ماجور ہوں ۔

مستفتی :

حامدر ضاسلطانی ۔موضع : کھدولی ،تحصیل،لمبھواضلع سلطان پور، یوپی۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم

خلاصہ فتاوی:

1۔ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی ہر جگہ جمعہ صحیح ودرست ہے۔

2۔ امام ابو یوسف کے قول کے مطابق، جن لوگوں پر جمعہ فرض ہے وہ سب لوگ اگر جمع ہوجائیں تو بڑی مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو بلکہ دوسری مسجد کی ضرورت پڑے وہ مصر ہے وہاں جمعہ درست ہے ۔

3۔مشائخ احناف ان جگہوں میں جہاں جمعہ کی ادائیگی میں شک ہو وہاں جمعہ کی ادائیگی کے بعد بغیر اعلان واظہار ظہر ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ یہ حکم خاص اہل علم کے لیے ہے، عوام کے لیے نہیں کہ وہ جس طرح بھی اللہ کو یاد کر لیں کافی ہے ۔ احتیاطی ظہر کا حکم کسی صاحب مذہب ِ یا ان کے اصحاب کا نہیں ہے ۔بلکہ ایک مختلف فیہ شرط کی بنیاد پر ہے اس لیے اس مسئلہ پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے ۔

4۔آج جب کہ شہر کی بحث ہی ختم ہو چکی ہے کیوں کہ آج کے دیہات کل کے شہر سے بھی بڑھ چکے ہیں ایسی صورت میں بعض علاقوں میں جمعہ کے بعد بلا تفریق عوام وخواص ظہر کی جماعت قائم کرنا فتنہ وفساد کا سبب اور مسلمانوں کے درمیان انتشار واختلاف کا باعث ہے نیز اس طرح کرنا عوام کو جمعہ سے بھی دور کرنا ہے لہذا ایسے عمل سے احترازلازم ہے۔واللہ اعلم


تفصیلی فتاوی:


جس طرح ہر دن پانچ نمازیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں اسی طرح جمعہ کے دن جمعہ کی نماز بھی فرض ِعین ہے اس پر تمام امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور کتاب وسنت سے شواہد موجود ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا نُـوْدِىَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰـہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (جمعہ:9)

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف تیزی سے بڑھو، اور خرید وفروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ "، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: طَارِقُ بْنُ شِهَابٍ، قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئًا (سنن ابی داؤد:1/ 280)

حضرت طارق ابن شہاب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ مسلمان پر حق ِ واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت، بچہ اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔

فائدہ: امام ابوداؤد نے کہا کہ طارق ابن شہاب نے نبی کریم ﷺ کی زیارت کی ہے لیکن بلا واسطہ حضورﷺ سے حدیث کی سماعت ثابت نہیں ہے ۔علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَعَلَيْهِ الْجُمُعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا عَلَى مَرِيضٍ، أَوْ مُسَافِرٍ، أَوْ صَبِيٍّ، أَوْ مَمْلُوكٍ، وَمَنِ اسْتَغْنَى عَنْهَا بِلَهْوٍ أَوْ تِجَارَةٍ اسْتَغْنَى الله عَنْهُ، وَاللهُ غَنِيٌّ حُمَيْدٌ (سنن كبرى از بیہقی :3/ 261)

حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہےمگر مریض، مسافر، غلام، بچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے جمعہ کی نماز سے بے پروائی کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے نیاز ی کرے گا ۔ اللہ بے نیازلائق حمدہے۔

عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ -وَكَانَ لَهُ صُحْبَةٌ- قَالَ: قَالَ رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، تَهَاوُنًا بِهَا، طُبِعَ عَلَى قَلْبِهِ (سنن ابن ماجہ :2/ 213)

صحابی رسول حضرت ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تین جمعہ سستی وکاہلی کی وجہ سے چھوڑتا ہے، اس کے دل پہ مہر لگا دی جاتی ہے ۔

حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا الزُّهْرِيُّ حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ الدَّوْسِيَّةُ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجُمُعَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ قَرْيَةٍ فِيهَا إِمَامٌ وَإِنْ لَمْ يَكُونُوا إِلَّا أَرْبَعَةٌ. الْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ مَتْرُوكٌ، وَلَا يَصِحُّ هَذَا عَنِ الزُّهْرِيِّ كُلُّ مَنْ رَوَاهُ عَنْهُ مَتْرُوكٌ (سنن دارقطنی :2/ 317)

ولید ابن محمد والی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:ہر ایسے گاؤں والوں پر جمعہ واجب ہے جس میں نماز پڑھانے والا امام موجود ہو اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔

فائدہ۔امام دار قطنی نے کہا کہ اس حدیث میں ایک راوی ولید بن محمد موقری ہے جو متروک ہے۔ امام زہری سے اس بارے میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے ۔

عن أبي رافع، أن أبا هريرة كتب إلى عمر رضي الله عنه يسأله عن الجمعة وهو بالبحرين فكتب إليهم : أن أجمعوا حيث ما كنتم ۔(معرفۃ السنن والآثاراز بیہقی :5/ 51)

حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جس وقت بحرین میں تھے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جمعہ قائم کرنے کے متعلق دریافت کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں ہو وہیں جمعہ قائم کر لو ۔

اس حدیث کی شرح میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث ثابت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تم جس گاؤں میں ہو اسی گاؤں میں جمعہ قائم کرلو اس لئے کہ وہ لوگ بحرین کے ایک دیہات میں تھے ۔ امام احمد ابن حنبل نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند حسن ہے ۔ (معرفۃ السنن والآثار: 4/ 323)

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ: كُلُّ قَرْيَةٍ فِيهَا أَرْبَعُونَ رَجُلًا فَعَلَيْهِمُ الْجُمُعَةُ» (مسند شافعی ص: 61)

مسند امام شافعی میں، عبید اللہ بن عتبہ تابعی سے منقول ہے کہ: ہر وہ گاؤں جہاں چالس لوگ ہوں وہاں ان پر جمعہ فرض ہے ۔

مذاہب ائمہ

تمام فقہا، محدثین، سلف صالحین، ائمہ مجتہدین امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل کے نزدیک بالاتفاق جمعہ کی نماز فرضِ عین اور شعائر اسلام سے ہے ۔ لیکن قیام ِجمعہ کے شرائط میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل کے نزدیک شہر کے علاوہ گاؤں دیہات میں بھی جمعہ کی نماز جائز ودرست ہے اسی طرح جمعہ قائم کرنے کے لیے ان حضرات کے نزدیک سلطان کا ہونا بھی شرط نہیں ہے، ائمہ ثلاثہ کے برخلاف امام ابوحنیفہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کے لیے شہر کا ہونا بنیادی شرط ہے لہذا کسی گاؤں دیہات میں جمعہ کی نماز جائز ودرست نہیں ہے ۔ اسی طرح ان کے نزدیک جمعہ قائم کرنے کے لیے سلطان کا ہونا بھی شرط ہے لہذا سلطان یا اس کی اجازت کے بغیر کسی کا جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے ۔

دلائل

امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات ِ ظاہری میں شہر ہی میں جمعہ قائم فرمایا ۔اور گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کی جو روایت آپ ﷺ سے ملتی ہے وہ سب شہر سے متصل گاؤں کی روایت ہے جو فناے شہر میں داخل ہے ۔اسی طرح صحابہ کرام نے بہت سارے ملکوں کو فتح کیا لیکن انہوں نے شہر کے علاوہ کہیں جمعہ قائم نہیں فرمایا ۔نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا صریح قول بھی موجود ہے کہ گاؤں دیہات میں جمعہ درست نہیں ہے :

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَا جُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيقَ إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ (مصنف عبد الرزاق صنعانی: 3/ 167)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جمعہ اور تشریق نہیں ہے مگر شہر کی جامع مسجد میں ۔

فائدہ ۔امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے ۔ البانی نے کہا کہ مرفوعاً اس کی کوئی اصل نہیں، امام ابو یوسف کے کتاب الآثار کے علاوہ کہیں نہیں ملتا ہے ۔علامہ زرقانی نے کہا کہ یہ حضرت علی پر موقوف ہے ۔ اورابوعبید کے واسطے سے اس کی سند صحیح ہے۔ اور علامہ ابن حزم ظاہری نےبھی اس حدیث کو موقوفاً صحیح قرار دیا ہے ۔ حافظ زیلعی نے بھی نصب الرایہ میں اس کو موقوف ہی قرار دیا ہے۔ (شرح زرقانی:2/ 550)

امام شمس الائمہ محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی (483ھ)جمعہ کی شرائط میں لکھتے ہیں :

فَأَمَّا الشَّرَائِطُ فِي غَيْرِ الْمُصَلَّى لِأَدَاءِ الْجُمُعَةِ فَسِتَّةٌ الْمِصْرُ وَالْوَقْتُ وَالْخُطْبَةُ وَالْجَمَاعَةُ وَالسُّلْطَانُ وَالْإِذْنُ الْعَامُّ أَمَّا الْمِصْرُ فَهُوَ شَرْطٌ عِنْدَنَا وَقَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -: لَيْسَ بِشَرْطٍ فَكُلُّ قَرْيَةٍ سَكَنَهَا أَرْبَعُونَ مِنْ الرِّجَالِ لَا يَظْعَنُونَ عَنْهَا شِتَاءً وَلَا صَيْفًا تُقَامُ بِهِمْ لِمَا رُوِيَ أَنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي الْإِسْلَامِ بَعْدَ الْمَدِينَةِ جُمِّعَتْ بِجُوَاثَى وَهِيَ قَرْيَةٌ مِنْ قُرَى عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْبَحْرَيْنِ وَكَتَبَ أَبُو هُرَيْرَةَ إلَى عُمَرَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يَسْأَلُهُ عَنْ الْجُمُعَةِ بِجُوَاثَى فَكَتَبَ إلَيْهِ أَنْ جَمِّعْ بِهَا وَحَيْثُمَا كُنْت..(مبسوط للسرخسی :2/ 23)

مصلی کے لیے جو شرطیں ہیں ان کےعلاوہ بھی جمعہ کی ادا ئیگی کے لیے چھ شرطیں ہیں ۔ شہر، وقت، خطبہ، جماعت، سلطان،اذن ِعام ۔فرماتے ہیں جمعہ کے لیے مصر یعنی شہر کاہونا ہمارے نزدیک شرط ہے اور امام شافعی نے فرمایا کہ مصر شرط نہیں ہے بلکہ ہر وہ جگہ جہاں ہر موسم میں چالیس لوگ رہتے ہوں وہاں جمعہ قائم کرنا درست ہے جیساکہ روایت ہے کہ اسلام میں سب سے پہلا جمعہ مدینہ کے بعد جواثی میں قائم کیا گیاتھا وہ بحرین میں عبد قیس کے گاؤں میں سے ایک گاؤں تھا ، اسی طرح جب حضرت ابو ہریرہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جواثی میں جمعہ قائم کرنے کے بارے میں دریافت کیا توحضرت عمر نے فرمایا تم جہاں ہو وہیں جمعہ قائم کر لو۔

فقہاے احناف کے نزدیک جمعہ کے لیے مصر یعنی شہر کا ہونا شرط تو ہے ،لیکن مصر کہتے کسے ہیں اس میں مختلف اقوال ہیں۔ متاخرین فقہا ومشائخ احناف نے اپنے طور سے اگرچہ ترجیح وتعیین کی صورت کو اپنایا ہے لیکن اولِ نظر میں تعارض وتضاد ضرور سمجھ میں آتاہے ۔ علامہ بدر الدین عینی نے بخاری کی شرح میں تمام اقوال کو یکجا کیا ہے:

اختلف أصحابنا في المصر الذي تجوز فيه الجمعة فعن أبي يوسف هو كل موضع يكون فيه كل محترف ويوجد فيه جميع ما يحتاج إليه الناس من معايشهم عادة وبه قاض يقيم الحدود وقيل إذا بلغ سكانه عشرة آلاف وقيل عشرة آلاف مقاتل وقيل بحيث أن لو قصدهم عدو لأمكنهم دفعه وقيل كل موضع فيه أمير وقاض يقيم الحدود وقيل أن لو اجتمعوا إلى أكبر مساجدهم لم يسعهم وقيل أن يكون بحال يعيش كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يشتغل بحرفة أخرى وعن محمد موضع مصرة الإمام فهو مصر حتى إنه لو بعث إلى قرية نائبا لإقامة الحدود والقصاص تصير مصرا فإذا عز له ودعاه يلحق بالقرى (عمدة القار ی شرح صحيح البخار ی : 10/ 54)

ہمارے اصحاب یعنی فقہاے احناف اس مصر کی تعریف میں مختلف ہیں جس میں جمعہ جائز ہے چنانچہ امام ابو یوسف سے ایک روایت ہے: (1) مصر وہ جگہ ہے جہاں ہر پیشہ کے لوگ موجود ہوں جس کی عام طور سے لوگوں کی ضرورت ہو اور وہاں قاضی بھی ہو جو حدود قائم کر سکے ۔ (2) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں رہنے والوں کی تعداد دس ہزار ہو۔ (3) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں دس ہزار فوجی رہتے ہوں ۔ (4) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں اتنی تعداد میں لوگ رہتے ہوں کہ ضرورت کے وقت دشمن کا دفع کر سکیں ۔ (5) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں حاکم اور قاضی رہتے ہوں جو حدود قائم کر سکیں ۔ (6) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے کہ جن پر جمعہ فرض ہے وہ سب لوگ جامع مسجد میں جمع ہوں تو وہ جامع مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو ۔ (6) ایک قول میں کہا گیا ہے کہ مصر وہ جگہ ہے جہاں ہر پیشہ کے لوگ کم از کم ایک سال تک اپنے پیشہ سے زندگی گزار سکیں جب تک وہ دوسرے پیشہ سے منسلک نہ ہوجائیں ۔ (7)امام محمد سے ایک روایت ہے کہ ہر وہ جگہ مصر ہے جس کو امام مصر قرار دے دے یہاں تک کہ اگروہ اپنے کسی نائب کو کسی گاؤں میں حدود وقصاص قائم کرنے کے لیے بھیج دے تو وہ گاؤں مصر ہوجائے گا، پھر جب نائب کو معزول کر دے گا تو وہ جگہ دوبارہ گاؤں قرار پائے گا۔

مذکورہ بالا اقوال میں امام کرخی نے ظاہرِ روایت کو ترجیح دیا ہے یعنی مصر وہ جگہ ہے جہاں حاکم وقاضی رہتے ہو ں اور وہ حدود قائم کرنے پر قادر ہوں اسی قو ل پر اکثر فقہاے احناف ہیں ۔ اور امام ابو عبد اللہ ثلجی نے امام ابویوسف کے قول کو ترجیح دیا ہے یعنی مصر وہ جگہ ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ فرض ہے وہ سب لوگ اگر جمع ہوجائیں تو بڑی مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو بلکہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے دوسری مسجد کی ضرورت پیش آئے ۔ صاحب وقایہ ، صاحب متن ِ مختار و در مختار نے امام ابویوسف کے قول کو اختیار کیا ہے اور صدر الشریعہ صاحبِ شرح وقایہ نے لوگوں کی سستی وکاہلی کی بنا پر اسی قول کو ترجیح دیا ہے ۔

امام شمس الائمہ محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی (483ھ) لکھتے ہیں :

وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ فِي بَيَانِ حَدِّ الْمِصْرِ الْجَامِعِ أَنْ يَكُونَ فِيهِ سُلْطَانٌ أَوْ قَاضٍ لِإِقَامَةِ الْحُدُودِ وَتَنْفِيذِ الْأَحْكَامِ.

(مبسوط للسرخسی :2/ 23)

فرماتے ہیں کہ ظاہر ِمذہب کے مطابق مصر وہ جگہ ہے جہاں حدود واحکام قائم کرنے کے لیے سلطان یا قاضی موجود ہو ۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:

قَالَ ابْنُ شُجَاعٍ: أَحْسَنُ مَا قِيلَ فِيهِ إذَا كَانَ أَهْلُهَا بِحَيْثُ لَوْ اجْتَمَعُوا فِي أَكْبَرِ مَسَاجِدِهِمْ لَمْ يَسَعْهُمْ ذَلِكَ حَتَّى احْتَاجُوا إلَى بِنَاءِ مَسْجِدٍ آخَرَ لِلْجُمُعَةِ وَهَذَا الِاحْتِيَاجُ غَالِبٌ عِنْدَ اجْتِمَاعِ مَنْ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ، وَالْأَوَّلُ اخْتِيَارُ الْكَرْخِيِّ وَهُوَ ظَاهِرُ الرِّوَايَةِ وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ الْفُقَهَاءِ وَالثَّانِي اخْتِيَارُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الثَّلْجِيِّ ... وَفِي الْوَلْوَالِجيَّةِ وَهُوَ صَحِيحٌ بَحْرٌ، وَعَلَيْهِ مَشَى فِي الْوِقَايَةِ وَمَتْنِ الْمُخْتَارِ وَشَرْحِهِ وَقَدَّمَهُ فِي مَتْنِ الدُّرَرِ عَلَى الْقَوْلِ الْآخَرِ وَظَاهِرُهُ تَرْجِيحُهُ وَأَيَّدَهُ صَدْرُ الشَّرِيعَةِ بِقَوْلِهِ لِظُهُورِ التَّوَانِي فِي أَحْكَامِ الشَّرْعِ سِيَّمَا فِي إقَامَةِ الْحُدُودِ فِي الْأَمْصَارِ(در مختار وحاشیہ ابن عابدين : 2/ 137)

علامہ ابن شجاع نے کہا کہ مصر کے تعلق سے فقہا کے جو اقوال مذکور ہیں ان میں سب سے احسن قول یہ ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ فرض ہے وہ سب لوگ اگر جمع ہوجائیں تو بڑی مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو بلکہ دوسری مسجد کی ضرورت پڑے ۔ پہلے قول (یعنی مصر وہ جگہ ہے جہاں حاکم و قاضی رہتے ہو ں اور وہ حدود قائم کرنے پر قادر ہوں)کو امام کرخی نے اختیار کیا ہے اور یہی ظاہر روایت ہے اور اسی پر اکثر فقہا ہیں ۔ اور دوسرے قول کو امام ابو عبد اللہ ثلجی نے اختیار کیا ہے اور ولوالجیہ میں ہے کہ یہی صحیح ہے اسی کو صاحب وقایہ ، صاحب متن ِ مختار و در مختار نے اپنایا ہے اور صدر الشریعہ صاحبِ شرح وقایہ نے لوگوں کی سستی وکاہلی کی بنا پر اسی قول کو ترجیح دیا ہے ۔

ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کی دلیل مذکورہ بالا آیت کریمہ ہے جس میں مطلقاً بغیر کسی قیدو شرط کے جمعہ کے لیے سعی کو فرض قرار دیا گیا ہے، اسی طرح ہر وہ حدیث جس میں مخصوص افراد کے علاوہ سب پر جمعہ کو فرض قرار دیا گیا ہے اور مصر کی کوئی شرط ذکر نہیں کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ حضرت کعب بن مالک، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن عمر سے گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کی روایت ہے ۔نیز حضرت ابوہریرہ والی روایت بھی شاہد ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیہات میں جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ تفصیل ماسبق میں گزری ۔ موسوعہ فقہیہ میں ہے:

ذَهَبَ الْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ إِلَى أَنَّهُ تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ كَانَ خَارِجَ الْمِصْرِ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ: 38/ 27)

مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ اس طرف گئے ہیں کہ شہر سے باہر رہنے والوں پر بھی جمعہ واجب ہے ۔

ماسبق کے کلام سے واضح ہوا کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کے نزدیک جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، امام شافعی، امام احمد حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی ہر جگہ جمعہ صحیح اور جائز ہے۔ چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش بھی ہے لہذا ائمہ کے اقوال میں جمع وتطبیق کی صورت کو اپنانا اور اختلافات سے بچنے کی صورت اختیار کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔

حنفیہ سے مصر کی تعریف و تحدید میں جومختلف اقوال منقول ہیں ان میں سے اگر امام ابو یوسف کے قول کو اختیار کیا جائے تو بہت حد تک ائمہ اربعہ کے اقوال میں تطبیق کی صورت نکل آتی ہے کیوں کہ عام طور سے دیہات میں جہاں جمعہ قائم ہے وہاں کی اکثر بڑی مسجد تمام باشندگان کے لیے کافی نہیں ہوتی ہے لہذا امام ابو یوسف کے قول پر وہاں جمعہ درست ہے اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک تو بغیر کسی شرط کے پہلے ہی سے جمعہ کی نماز درست تھی لہذا ایسی صورت میں سواے چند مواضع کے عام جگہوں میں بالاتفاق ائمہ اربعہ کے نزدیک جمعہ کی نماز درست قرار پائے گی ۔

اور جہاں تک موجودہ عصر کی بات ہے تو پوری دنیا ایک گاؤں کی طرح ہوچکی ہے جہاں ضرورت کی ساری چیزیں ملتی ہیں بلکہ انٹر نیٹ نے تو ضرورت اور تعیش کے ہر سامان کو ہر جگہ میسر کر رکھا ہے اور پنچائتی اور پولس کے نظام نے تو کسی خطے کو اپنے دائرے سے باہر نہیں رکھاہے حکومتی عملہ کسی نہ کسی صورت میں ہر جگہ موجود رہتے ہیں ۔ کل کے شہر آج کے دور کے گاؤں اور دیہات کے مساوی بھی نہیں ہیں بلکہ بعض معاملات میں آج کے دیہات تو کل کے شہروں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔اس لیے کل کے مقابلے میں مصر وشہر کی بحث ہی اس وقت لغو ہو چکی ہے ۔

ظہر احتیاطی کا حکم

ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، امام شافعی، امام احمد حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک چوں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی ہر جگہ جمعہ صحیح ودرست ہے تو ظہر احتیاطی کا ان کے نزدیک کوئی مطلب ہی نہیں رہتا ہے ۔ اور امام ابویوسف کے قول کو اختیار کیا جائے توبھی سواے چند کے اکثر مقامات پر جمعہ صحیح ہوگا ظہر احتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی ۔ لیکن ظاہر مذہب پر عمل کیا جائے تو ہر وہ جگہ جہاں مصر ہونے میں شک وشبہ ہو وہاں ظہر احتیاطی کا حکم ہوگا جیسا کہ علامہ برہان الدین بخاری حنفی (616ھ) نے لکھا ہے:

كُلُّ مَوْضِعٍ وَقَعَ الشَّكُّ فِي كَوْنِهِ مِصْرًا يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا بَعْدَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا بِنِيَّةِ الظُّهْرِ احْتِيَاطًا حَتَّى إنَّهُ لَوْ لَمْ تَقَعْ الْجُمُعَةُ مَوْقِعَهَا يَخْرُجُونَ عَنْ عُهْدَةِ فَرْضِ الْوَقْتِ بِأَدَاءِ الظُّهْرِ(المحيط البرهانی فی الفقہ النعمانی :2/ 66)

مقدسی نے محیط سے نقل کیا ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں مصر ہونے میں شک وشبہ ہو تو مناسب ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد احتیاطاًچار رکعات ظہر کی نیت سے ادا کرے تاکہ جمعہ اگراپنی جگہ درست واقع نہ ہو تو چار رکعات کے ذریعہ وقتی فرض یعنی ظہر کی ادائیگی سے بری الذمہ ہو جائے ۔

مقدسی کے اس قول پر چند معروضات ہیں ۔ (1) احتیاطی ظہر کا حکم کسی صاحب مذہب ِ یا ان کے اصحاب کا نہیں ہے ۔ (2) جمعہ کے لیے مصر کی شرط میں اختلاف ہے اور پھر مصر کی شرح میں بھی اختلاف ہے تو ایسی صورت میں دو فرضوں کو جمع کرنا ایک بدعت ہے کیوں کہ ایک دن میں اسلام میں صرف پانچ نماز فرض ہے تو احتیاط کے نام پر چھ نمازیں ادا کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ۔ جب کہ مسئلہ کی بنیاد مختلف فیہ پر ہے ۔ (3) احتیاطی ظہر کی ضرورت ایک وقتی اور عارضی مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن جہاںمستقل جمعہ قائم ہے وہاں مستقل ظہر ادا کرنا اور اس پر جبر کرنا عوام میں انتشار وافتراق کا سبب ہے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے ظہر احتیاطی کا حکم دیا ہے انہوں نے بھی اس حکم کو خواص ہی کے لیے رکھا ہے اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ظہر احتیاطی کا حکم کی بنیاد کس قدر کمزور ہے ۔ چنانچہ یہی علامہ مقدسی جن کے حوالے سے احتیاطی ظہر کا حکم بیان ہوا، وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں:

نَعَمْ إنْ أَدَّى إلَى مَفْسَدَةٍ لَا تُفْعَلُ جِهَارًا وَالْكَلَامُ عِنْدَ عَدَمِهَا وَلِذَا قَالَ الْمَقْدِسِيَّ نَحْنُ لَا نَأْمُرُ بِذَلِكَ أَمْثَالَ هَذِهِ الْعَوَامّ بَلْ نَدُلُّ عَلَيْهِ الْخَوَاصَّ وَلَوْ بِالنِّسْبَةِ إلَيْهِمْ اهـ وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ (در مختار وحاشہ ابن عابدين :2/ 146)

ہاں؛ اگر احتیاطی ظہر کا ادا کرنا کسی فساد کا داعی یا سبب بنے تو اعلانیہ ظہر ادا نہ کرے کیوں کہ کلام جمعہ کی عدم ِ صحت پر ہے (جو قطعی ویقینی نہیں ہے) اسی لیے علامہ مقدسی نے کہا کہ اسی لیے ہم عوام کو ظہر ِاحتیاطی کا حکم نہیں دیتے ہیں بلکہ عوام کی بنسبت ہم خاص لوگو ں کو ظہر احتیاطی کا حکم دیتے ہیں ۔ واللہ اعلم

اس سے واضح ہوگیا کہ احتیاطی ظہر کا حکم دینا اگر چہ ضعیف ہے پھر بھی اسی وقت مناسب ہے جب کہ اس کی وجہ سے عوام میں انتشار وافتراق نہ ہو اور اگر احتیاطی ظہر کی وجہ سے آپس میں اختلاف وانتشار ہو تو ہر گز عوام کواحتیاطی ظہر کا حکم نہ دیں کیوں کہ ایسی جگہوں میں جمعہ کی صحت واحتیاطی ظہر کا حکم دونوں اجتہادی اور مختلف فیہ ہیں اجماعی اور قطعی نہیں ہے اور مسلمانوں کے درمیان انتشار وفساد پھیلانے کی حرمت قطعی واجماعی ہے لہذا شرعی حکم بیان کرنے کے وقت موقع محل اور عوام کی رعایت کا خیال رکھنا چاہیے۔ آج کے حالات میں عوام جس طرح اللہ کو یاد کر یں غنیمت ہے ۔اس طرح کے اجتہادی مسائل میں اس قدر سختی نہیں برتنی چاہیے جس سے قوم ِ مسلم میں فساد پھیلے ۔واللہ اعلم

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

جامعہ عارفیہ سید سراواں الہ آباد

3/نومبر 2021ء

Ad Image