Donate Now
داڑھی کی شرعی حیثیت

داڑھی کی شرعی حیثیت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع میں اس مسئلہ میں ایک حافظ قرآن داڑھی کاٹتا تھا لیکن تراویح کی امامت سے پہلے اس نے مسلمانوں کے درمیان میں توبہ کی اور داڑھی نہ کاٹنے کا عہد کیالیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ توبہ کرنے اور آئندہ داڑھی نہ کاٹنے کا عہد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک داڑھی حد شرع تک نہ ہو جائے امامت نہیں کرسکتا، تو کیا تائب ہونے کے بعد شریعت اسے نماز تراویح جماعت سے پڑھانے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب ۔ بلاشبہ داڑھی رکھنا سنت صحیحہ سے ثابت ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام نے داڑھی رکھا، اور نبی کریم ﷺ نے داڑھی رکھنے کا حکم بھی دیا ہے:

۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ: رَسُولُ ﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوااللِّحَی خَالِفُوا الْمَجُوسَ: إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ (صحیح بخاری :۵۸۹۳)  

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مونچھیں کم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو، کیوں کہ وہ مونچھیں بڑھاتے ہیں اور داڑھیاں منڈاتے ہیں ۔ لہذا تم ان کی مخالفت کرو۔ 

۲۔عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ. (صحیح بخاری: ۵۵۵۳) 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں باریک کرو ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔

۳۔عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ" قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ۔ (صحيح مسلم:261)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت (انبیاء کی سنت) سے ہیں: مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے پوروں اور جوڑوں کو دھونا، بغل کے بال اکھاڑنا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا اور استنجا کرنا۔ حضرت مصعب کہتے ہیں: دسویں بات میں بھول گیا، شاید وہ کلی کرنا ہو۔

نبی کریم ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان میں داڑھی رکھنے کا حکم تو ہے، مگر یہ حکم وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے؟ یہ واضح نہیں ہے۔  نیز ان احادیث کریمہ میں داڑھی رکھنے کی  مقدار کی بھی تعیین نہیں کی گئی ہے ۔بلکہ فقط داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

لیکن نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام داڑھی مطلق نہیں چھوڑ دیتے تھے، بلکہ اپنی اپنی پسند کے مطابق داڑھی کاٹتے تھے۔ جس سے داڑھی منڈوانے والے کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن کس مقدار میں داڑھی رکھ کر زائد کو کٹوائی جائے، اس اجمال کی تفصیل رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کے عمل سے حتمی طور سے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ 

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:

 أَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا. (سنن ترمذی: ۲۷۶۲) 

 نبی کریم ﷺ اپنی داڑھی کو لمبائی اور چوڑائی میں کم کرتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو چہرے کے قریب سے کاٹتے تھے۔ اس روایت کو امام ابی شیبہ، امام محمد بن عبد البر، امام زید وغیرہ نے نقل کیا:

  کَانَ عَلَيً رضی الله عنه يَأخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِيْ وَجْهَهُ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۵۴۸۰) 

حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے چہرے کے قریب سے داڑھی کاٹتے تھے۔

مروان بن سالم مقفع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا:

 يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَی الْکَفِّ. (سنن ابی داوود: ۲۳۵۷) 

 وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔

فائدہ۔ یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔

حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 کَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقْبِضُ عَلَی لِحْيَتِهِ ثُمَّ يَأخُذُ مَافَضَلَ عَنِ القُبْضَةِ. (مصنف ابن ابی شیبہ:۲۵۴۸۱) 

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے۔

عن أبي هلال قال: سألت الحسن وابن سيرين فقالا: لا بأس به أن نأخذ صول لحيتك (مصنف ابن ابی شیبہ: ٢٥٤٨٠)

 ابو ہلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ اور ابن سرین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ داڑھی کے زائد حصہ کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ۔

داڑھی کا شرعی حکم اور اس کی مقدار

داڑھی رکھنے کا ثبوت نبی کریم ﷺ کے قول وفعل سے ہے۔ اس پر علماے کرام وفقہاے عظام کا اتفاق ہے، کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ متقدمین ائمہ سلف اور فقہا ے مذاہب نے داڑھی رکھنے کو تو کہا ہے، لیکن نہ ہی اسے واجب قرار دیا ہے اور نہ ہی اس کی کسی مقدار کی تحدید فرمائی ہے۔ لیکن ان کے متبعین فقہا نے احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور ائمہ مذاہب کے اقوال کی روشنی میں اپنے اجتہاد وآرا سے داڑھی رکھنے کا اور اس کی مقدار کا، نیز داڑھی حلق کرانے کا حکم بیان کیا ہے۔ 

داڑھی کا حکم شرعی

 داڑھی کے شرعی حکم میں فقہا کے تین اقوال ہیں:

 (۱) داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں میں بعض کا قول ہے کہ عرف کے مطابق داڑھی رکھنا واجب ہے، ایک مشت ضروری نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ اعفاے لحیہ مطلق واجب ہے، کاٹنا حرام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مشت واجب ہے اور زائد کا کاٹنا مستحب ہے ۔ 

 (۲) داڑھی رکھنا واجب نہیں ہے، بلکہ سنت ومستحب ہے ۔ اس مذہب کے قائلین میں بعض تو ایک مشت داڑھی رکھنے کو مستحب مانتے ہیں، جب کہ اکثر مطلق استحباب کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک داڑھی حلق کرانے والا یا ایک مشت سے کم رکھنے والا خلاف مستحب امر کا ارتکاب کرنے والا ہوگا، فاسق و فاجر نہیں ہوگا۔ 

(۳) داڑھی رکھنا شعار عرب سے تھا، اس لیے یہ سنت عادیہ  ہے، ایک امر مباح ہے۔ جیسے: کھانا ، پینا، لباس وغیرہ ۔ اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا ہے تو اس پر کوئی حکم شرع نہیں ہے۔ 

پہلا مذہب: وجوب کے قائلین اور ان کی دلیلیں:

حنفیہ: متقدمین ائمہ حنفیہ سے داڑھی سے متعلق کوئی حتمی حکم نہیں ملتا ہے۔امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ حضرت حماد کے واسطے ابراہیم نخعی سے روایت نقل کرتے ہیں:

امام ابو حنیفہ حضرت حماد کے واسطے ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا :  

لا بأس ان يأخذ الرجل من لحيته مالم يتشبه بأهل الشرك (ابو يوسف يعقوب بن ابراہیم /كتاب الآثار: ٢٣۵)

داڑھی کوکاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جب تک کہ مشرکین سے مشابہت نہ ہو۔

 شمس الائمہ محمد بن احمد بن ابو سہل سرخسی (483ھ) نے حالت احرام میں مونچھ کے کاٹنے پر دم واجب نہ ہونے کی بحث کرتے ہوئے اعفاءا للحیۃ کو سنت قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:  

وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُهُ الدَّمُ، لِأَنَّهُ طَرَفٌ مِنْ أَطْرَافِ اللِّحْيَةِ، وَهُوَ مَعَ اللِّحْيَةِ كَعُضْوٍ وَاحِدٍ، وَإِنْ كَانَتْ السُّنَّةُ قَصَّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءَ اللِّحَى (مبسوط، سرخسی :4/ 74) 

صحیح یہ ہے کہ دم لازم نہیں ہوگا ۔کیوں کہ وہ داڑھی کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ اسی لیے وہ داڑھی کے ساتھ مل کر ایک عضو کی طرح ہے۔ اگرچہ سنت مونچھ کترنا اور داڑھی بڑھانا ہے۔ 

لیکن متاخرین فقہاے احناف میں سے علامہ کاسانی (۵۸۷ھ) ، محقق ابن ہمام (861ھ) علامہ حصکفی صاحب ِدر مختار (۱۰۸۸ھ) وغیرہ وجوب کے قائل ہیں:

علامہ علاء الدين ابو بكر بن مسعود بن احمد كاسانی حنفی (587ھ) لکھتے ہیں : 

  (حلق) اللِّحْيَةِ من بَابِ الْمُثْلَةِ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى زَيَّنَ الرِّجَالَ بِاللِّحَى وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ على ما رُوِيَ في الحديث أن لِلَّهِ تَعَالَى مَلَائِكَةً تَسْبِيحُهُمْ سُبْحَانَ من زَيَّنَ الرِّجَالَ بِاللِّحَى وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ وَلِأَنَّ ذلك تَشَبُّهٌ بِالنَّصَارَى فَيُكْرَہ (بدائع الصنائع (2/ 141)  

داڑھی کا حلق کرانا مثلہ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے داڑھی کے ذریعہ مردوں کو اور سر کے لمبے بالوں کے ذریعہ عورتوں کو زینت بخشی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جن کی تسبیح ہی ’’ سُبْحَانَ من زَيَّنَ الرِّجَالَ بِاللِّحَى وَالنِّسَاءَ بِالذَّوَائِبِ‘‘ ہے، یعنی پاکی ہے اس ذات کی جس نے داڑھی کے ذریعہ مردوں کو اور زلف  کے ذریعہ عورتوں کو زینت بخشی ہے ۔نیز داڑھی کے حلق کرانے  کومثلہ  قرار دینے کی دوسری وجہ   نصاریٰ سے مشابہت  ہے ، اس لیے داڑھی کا حلق کرانا مکروہ ہے

علامہ کمال الدین ابن ہمام (861ھ) لکھتے ہیں:

 وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد.  (شرح فتح القديراز كمال الدين محمد بن عبد الواحدسيواسی۔ 2/ 348) 

داڑھی حلق کرنا یا کم کرنا جیسا کہ اہل مغرب اور ہیجڑے کرتے ہیں، کسی بھی شخص کے لیے مباح نہیں ہے ۔ 

محمد بن علی بن محمد علاؤ الدین حصکفی(۱۰۸۸ھ) لکھتے ہیں:

 يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ قَطْعُ لِحْيَتِهِ، وَالْمَعْنَى الْمُؤَثِّرُ التَّشَبُّهُ بِالرِّجَالِ ۔ (در مختار وحاشیہ ابن عابدين :6/ 407)

  مرد پر داڑھی کاٹنا حرام ہے اور حرمت کی وجہ مشابہت ہے ۔ 

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۷۲ھ) لکھتے ہیں :

 اللحية هِيَ الفارقة الصَّغِير وَالْكَبِير وَهِي جمال الفحول وَتَمام هيأتهم فَلَا بُد من إعفائها، وقصها سنة الْمَجُوس، وَفِيه تَغْيِير خلق الله، ولحوق أهل السؤدد والكبرياء بالرعاع (حجۃ الله البالغۃ : 1/ 309)

  داڑھی صغیر وکبیر میں فرق کرنے والی ہے اور اس میں جوانوں کا جمال اور جسمانی ساخت کی کمال ہے، لہذا داڑھی بڑھانا ضروری ہے اور اس کا کاٹنا مجوس کا طریقہ ہے۔ نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی ہے اور سرداروں اور اہل تکبر سے مشابہت ہے۔ 

 متاخرین فقہا جنھوں نے داڑھی کے وجوب کا قول کیا ہے ، ان سب کی بنیاد تین چیزوں پر ہے :مثلہ ، مشابہت ، تغییر ۔ لیکن اہل نظر پر مخفی نہیں کہ داڑھی کے حلق کرانے یا کم کرانے میں مثلہ کی صورت نہیں بنتی ہے۔ ورنہ ، سر کے بال حلق کرانے میں بھی مثلہ کا حکم ہونا چاہیے ۔ دوسری بات ’’مشابہت ‘‘ اگر داڑھی ایک مشت سے کم بھی ہو تو عورت سے مشابہت نہیں ہوسکتی ، اسی طرح اگر مکمل حلق کر ا لیا جائے اور مونچھ باقی رہے تو بھی عورت سے مشابہت نہیں ہو سکتی ۔ تیسری بات ’’ تغییر ‘‘ اگر داڑھی حلق کرانے یا کم کرانے میں تغییر ہوتی ہے، تو سر کے حلق کرانے اور بغل کے بال کاٹنے ، ناک کے با ل اکھاڑنے اور ناخن تراشنے میں بھی تغییرخلق اللہ ہونی چاہیے، حالاں کہ کسی عاقل سے ایسا قول متصور نہیں ہو سکتا ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عرب کے قدیم معاشرے یا عرف  کے  مطابق حلق کو مثلہ ، مشابہت یا  تغییر  سے تعبیر کر سکتے ہیں، حقیقی معنوں میں حلق کو مثلہ ، عورت سے مشابہت یا  تغییرِ خلق   نہیں کہا جاسکتا ہے۔

مالکیہ: امام مالک اور ان کے اصحاب سے داڑھی کے سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں ہے ۔ لیکن، متاخرین مالکیہ میں سے بعض نے حلقِ لحیہ کو حرام یا مکروہ تحریمی قرار دیا ہے:

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد عليش مالكی (1299ھ) لکھتے ہیں :  

وَيَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ حَلْقُ اللِّحْيَةِ وَالشَّارِبِ وَيُؤَدَّبُ فَاعِلُهُ (منح الجليل شرح مختصر خليل :1/ 82)

 مرد پر داڑھی اور مونچھ حلق کرانا حرام ہے، ایسا کرنے والوں کی تادیب کی جائے گی ۔ 

علامہ ابو عبد الله محمد بن احمدشمس الدين قرطبی مالکی (671ھ) لکھتے ہیں: 

 وَأما حلق اللِّحْيَة فتشويه ومثله لَا يَنْبَغِي لعاقل أَن يَفْعَلهَا بِنَفسِهِ (الاعلام بما فی دين النصارى من الفساد والاوهام، ص: 444) 

داڑھی حلق کرانا یا ترشوانا مثلہ ہے، کسی عاقل کو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ 

 اس قول میں لَا يَنْبَغِي حرمت کے لیے ہے، کیوں کہ حلق کو مثلہ قرار دیا گیا ہے اور مثلہ بالاتفاق حرام ہے۔

قاضی ابو الفضل عياض مالکی (۵۴۴ھ) نے کراہت تحریمی کا قول کیا ہے :

 وكُرِه قَصُّها وحلقُها وتحريقُها، وقد جاء الحديث بذم فاعل ذلك، وسُنَّةُ بعض الأعاجم حلقُها وجزُها وتوفير الشوارب (اكمال المعلم بفوائد مسلم: 2/ 63)  

داڑھی کم کرنا، حلق کرانا، جلانا مکروہ ہے۔ حدیث میں ایسا کرنے والوں کی مذمت آئی ہے کہ داڑھی حلق کرانا یا ترشوانا اور مونچھیں بڑھانا عجمیوں کا طریقہ ہے ۔ 

ایک دوسرے مقام پر قاضی ابو الفضل عياض مالکی (۵۴۴ھ) لکھتے ہیں :  

يكره حلقها وقصها وتحريقها أما الأخذ من طولها وعرضها فحسن (شرح مسلم :1/154)

 داڑھی کم کرنا، حلق کرانا، جلانا مکروہ ہے، لیکن لمبائی چوڑائی سے کم کرنا بہتر ہے ۔ 

شافعیہ: امام شافعی سے بھی اس سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں ہے۔ بعض شافعیہ داڑھی کے وجوب کے قائل ہیں ۔ جیسے: علامہ ابن رفعہ، فقیہ اذرعی وغیرہ ۔ 

  علامہ اذرعی نے کہا: الصواب تحريم حلقها جملة لغير علة بها، كما يفعله القلندرية.(اعا نۃ الطالبين: 2/ 386)

بغیر کسی عذر کے داڑھی کا مکمل حلق کرانا حرام ہے، جیسا کہ قلندریہ کراتے ہیں ۔ 

حنبلیہ: امام احمد بن حنبل سے بھی داڑھی کے تعلق سے کوئی صریح نص موجود نہیں ہے۔ البتہ، متاخرین حنابلہ نے داڑھی کے حلق کو معصیت میں شمار کیا ہے ۔ عمدہ کی شرح میں داڑھی حلق کرانے کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: 

 حلق اللحية معصية لكنها صغيرة. (شرح "العمدة" لابن قدامۃ من أول الطلاق ص: 16) 

داڑھی حلق کرانا گناہ ہے، لیکن یہ صغیرہ گناہ ہے ۔ 

اس مذہب کے ماننے والوں کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے: 

 حدیث: ’’ خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشوارب‘‘اس میں نبی کریم ﷺ نے داڑھی کے سلسلے میں ’’امر‘‘ کا  صیغہ استعمال کیا ہے، امر اگر چہ وجوب واستحباب دونوں کے لیے آتا ہے، لیکن امر کی اصل وجوب ہے جب تک وجوب سے پھیرنے والا کوئی واضح دلیل نہ ہو ۔

 نیز یہ امر مشرکین کی مخالفت کے ساتھ معلل ہے، تو ان کی مخالفت لازم ہوگی، کیوں کہ ان سے مشابہت’’ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘کی وجہ سے حرام ہے۔

دوسرا مذہب: استحباب کے قائلین اور ان کی دلیلیں:

حنفیہ: یہ بیان ہوا کہ  متقدمین ائمہ حنفیہ نے کوئی حتمی حکم صادر نہیں کیا ہے، اسی لیے متاخرین فقہا کے اقوال مختلف ہیں ۔ استحباب کے قائلین میں: علامہ بدر الدین عینی(۸۵۵ھ) کا نام آتا ہے۔

علامہ بدر الدین عینی نے مطلقاً داڑھی چھوڑنے کو ممنوع بتایا اور کاٹنے کی حد کو عرف وعادت پر محمول کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :

 كان أبو هريرة يقبض على لحيته فيأخذ ما فضل وعن ابن عمر مثله وقال آخرون يأخذ من طولها وعرضها ما لم يفحش ولم يجدوا في ذلك حدا غير أن معنى ذلك عندي ما لم يخرج من عرف الناس (عمدة القاری شرح صحيح البخاری: 32/ 67)

 حضرت ابو ہریرہ اپنی داڑھی کو قبضہ میں پکڑتے اور اس سے زائد کو کاٹ دیتے تھے اور حضرت عبد اللہ ابن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے، اور بعض دوسرے حضرات لمبائی اور چوڑائی سے پکڑتے تھے اس کے علاوہ داڑھی کے مقدار کی کوئی حتمی حد نہیں ہے۔ میرے نزدیک داڑھی کی حد عرف ناس ہے، جب تک لوگوں کے عرف سے تجاوز نہ کرے ۔ 

 مالکیہ: فقہاے مالکیہ بھی کسی ایک قول پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ استحباب کے قائلین میں ابو الولید ابن رشد (۵۹۵ھ) اور علامہ زرقانی (۱۱۲۲ھ) وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

خمس من الفطرة، فذكر منها قص الشارب (البيان والتحصيل 17/ 389)

 پانچ چیزیں فطرت میں سے ہے، ان میں مونچھ کم کرنا بھی ہے۔ 

شافعیہ: علماے شوافع کے نزدیک اصح یہ ہے کہ حلق ِ لحیہ مکروہ ہے، جیسا کہ امام رافعی، ابن حجر، امام غزالی وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ امام نووی شافعی لکھتے ہیں: 

 وَالْمُخْتَارُ تَرْكُ اللِّحْيَةِ عَلَى حَالِهَا وَأَلَّا يَتَعَرَّضَ لها بتقصير شیء أَصْلًا (شرح نووی على مسلم :3/ 151)

مختار اور پسندیدہ یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دے، کاٹ چھانٹ کے ذریعہ اس سے تعرض نہ کرے ۔

علامہ زين الدين محمدمناوی شافعی (۱۰۳۱ھ ) لکھتے ہیں : 

 (وأعفوا اللحى) وفروها فلا يجوز حلقها ولا نتفها ولا قص الكثير منها كذا في التنقيح (فيض القدير1/ 198)

 یعنی داڑھی بڑھاؤ ۔ لہذا، اس کا حلق کرنا اکھاڑنا اور کا ٹنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ تنقیح میں مذکور ہے۔ 

حنبلی: امام احمد بن حنبل سے حلق کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے مکروہ فرمایا: 

 سَأَلْت أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الْحَفِّ؟ فَقَالَ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ لِلنِّسَاءِ، وَأَكْرَهُهُ لِلرِّجَالِ. (مغنی لابن قدامۃ: 1/ 68)

  میں نے ابو عبد اللہ (امام احمد بن حنبل) سے چہرہ صاف کرنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: عورت کے لیے کوئی حرج نہیں اور مرد کے لیے میں نا پسند کرتا ہوں ۔

 علامہ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان تمیمی (1206ھ) لکھتے ہیں:

 يستحب إعفاء اللحية. (مختصر الا نصاف والشرح الكبير ص: 28)  داڑھی بڑھانا مستحب ہے 

استحباب کے قائلین کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے:

’’ خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشوارب ‘‘میں مشرکین کی مخالفت کے ساتھ امر متعلق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مطلقاً کفار ومشرکین کی مخالفت واجب نہیں ہے۔ جیسے: حدیث پاک ’’غيّروا الشيب ولا تتشبهوا باليهود ‘‘میں بھی یہود سے مخالفت کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح بخاری شریف میں ایک حدیث ہے: ’’إن اليهود والنصارى لا يَصبغون فخَالِفُوهم ‘‘ بعض صحابہ کرام بالوں کو رنگتے تھے اور بعض نہیں رنگتے تھے، مگر کسی فقیہ ومجتہد نے ان دونوں جگہوں میں وجوب کا قول نہیں کیا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ مطلقا ً مخالفت واجب نہیں ہے، بلکہ ان امور میں مخالفت واجب ہے جو ان کے خاص عقائد سے متعلق ہوں۔ تفصیل کے لیے علامہ ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری دیکھی جا سکتی ہے ۔ 

تیسرا مذہب: سنن عادیہ کے قائلین اور ان کی دلیلیں:

داڑھی رکھنا نہ واجب ہے نہ مستحب، بل کہ داڑھی رکھنا سنن و عادات سے ہے۔ جیسے: کھانے، پینے، لباس پہننے کا حکم، خضاب لگانے کا حکم، نعلین میں نماز ادا کرنے کا حکم ۔ یہ امور جس طرح واجب ومستحب نہیں ہیں، سنن وعادات میں سے ہیں، اسی طرح داڑھی کے سلسلے میں حدیث نبوی کے اندر جوامر آیا ہے وہ وجوب کے لیے نہیں، بلکہ عادت بتانے کے لیے ہے۔ اس تیسرے قول کے قائلین میں علماے معاصرین کی ایک جماعت شامل ہے۔ جیسے: دار الافتاء المصریہ ا زہر شریف، علامہ محمد رشید رضا، محمود شلتوت، محمد ابو زہرہ، مفتی علی جمعہ وغیرہ ہیں ۔

 علامہ محمد رشید رضا مجلۃ المنار میں لکھتے ہیں کہ مونچھیں پست کرنا اور داڑھی بڑھانا سنن اور اسلامی آداب سے ہے ۔(ص : ۴۴۰/۴۴۰)

 داڑھی کی مقدارمیں اختلاف 

ان فقہاے کرام کے درمیان جو داڑھی کے وجوب یا استحباب کے قائل ہیں، ان کے یہاں مقدار کے بارے میں اختلاف ہے۔ 

جمہور فقہا، محدثین کے علاوہ امام ابو حنیفہ سے لے کر علامہ ابن عابدین شامی تک تمام کے نزدیک داڑھی کی کوئی خاص مقدار واجب نہیں ہے ۔ البتہ، ایک مشت داڑھی رکھنا سنت ہے ۔ فقہ حنفی کی مستند ومعتمد کتب فقہ میں ایک مشت کی مقدار کو سنت قرار دیا گیا ہے:

فقیہ عبد الله بن محمود بن مودود موصلی حنفی(683ھ) لکھتے ہیں :

 قَالَ مُحَمَّدٌ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ: وَالتَّقْصِيرُ فِيهَا سُنَّةٌ، وَهُوَ أَنْ يَقْبِضَ الرَّجُلُ لِحْيَتَهُ فَمَا زَادَ عَلَى قَبْضَتِهِ قَطَعَهُ لِأَنَّ اللِّحْيَةَ زِينَةٌ وَكَثْرَتَهَا مِنْ كَمَالِ الزِّينَةِ وَطُولَهَا الْفَاحِشَ خِلَافُ السُّنَّةِ. ( الاختيار لتعليل المختار4/ 167)

  امام محمد نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ داڑھی کم کرنا سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑے اور اس سے جو زائد ہو اس کو کاٹ دے ، اس لیے کہ داڑھی زینت ہے اور اس کی کثرت کمال ِ زینت ہے اور طول ِ فاحش سنت کے خلاف ہے ۔

فقیہ زين الدين بن ابراہیم بن محمد،معروف بہ ابن نجیم مصری (970ھ) لکھتے ہیں :

 وَالسُّنَّةُ قَدْرُ الْقَبْضَةِ فَمَا زَادَ قَطَعَهُ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق / 12)  

سنت قبضہ کی مقدار ہے اور جو زائد ہو اس کو کاٹ دے ۔ 

علی بن سلطان محمدقاری حنفی رحمہ اﷲ (۱۰۱۴ھ)، شرح مسند ابو حنیفہ میں لکھتے ہیں: 

فالتقدير: لو أخذتم نواحي لحية طولا وعرضا، وترکتم قدر المستحب وهو مقدار القبضة، وهي الحد المتوسط بين الطرفين المذمومين من إرسالهما مطلقاً، ومن حلقها. (شرح مسندابی حنیفہ :1/ 423)  

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو جو داڑھی کاٹنے کا حکم دیا تھا، اس میں حکماً یہ ارشاد ہے کہ اگر تم داڑھی کو طولاً عرضاً کاٹو اور قدر مستحب چھوڑ دو (تو بہتر ہے) اور وہ مستحب قبضہ کی مقدار ہے۔ اور یہ مطلقاً داڑھی چھوڑنے یا منڈوانے اور جڑ سے کاٹنے کی افراط اور تفریط والی مذموم جانبوں میں حد متوسط ہے۔

اصول فقہ کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو بھی ایک مشت داڑھی کو واجب نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ واجب کی تعریف داڑھی پر صادق ہی نہیں آتی ہے ۔ علامہ ابن عابدین شامی واجب کی یوں تعریف کرتے ہیں: 

واجب اسے کہتے ہیں جو دلیل ظنی سے ثابت ہویعنی جس کام کا نبی کریم ﷺ حکم دیں اور پھر اس کے نہ کرنے پر وعید فرمائیں، اسے واجب کہتے ہیں۔ (شامی، درمختار ج 1 ص 53)

 اہل علم جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے داڑھی رکھنے کا حکم تو دیا ہے لیکن اس کے خلاف کرنے پر کوئی  وعید نہیں فرمائی ہے ۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اس کی   کوئی بھی مقدار مقرر نہیں فرمائی اور نہ ہی ایک مشت داڑھی رکھنے کا حکم ہی دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلق داڑھی رکھنے کو واجب  کہنا  قول ِمرجوح ہے،   چہ جائے کہ ایک مشت کو واجب کہا جائے۔

 خلاصہ

احادیث وآثار اور فقہا کرام کی عبارتوں سے یہ بات واضح ہوتی  ہےکہ داڑھی رکھنا سنت ہے ، جس کی کوئی خاص مقدار حدیث پاک سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ، اتنی مقدار ہونی چاہیے جس کو عرف عام میں داڑھی کہی جاسکے ۔

 داڑھی کے واجب ہونے میں اختلاف ہے، اور یہ بات بھی اہل علم پر روشن ہے کہ کسی بھی حکم شرعی میں جب فقہا کا اختلاف ہو جائے تو اس حکم شرعی میں رخصت وآسانی آجاتی ہے اور فسق کا حکم ساقط ہوجاتا ہے ۔ اور رخصت کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اس کے تارک پر فسق وفجور کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے اور نہ انھیں فاسق معلن کہا جا سکتا ہے ۔ البتہ اہل علم، خاص طور سے جو دینی علوم سے متعلق ہیں ،لوگوں کی نگاہ میں دین دار کہلاتے ہیں اورانھیں اگرکوئی مجبوری بھی نہ ہو، تو داڑھی ایک مشت ہی رکھنی چاہیے تاکہ لوگوں کے درمیان اختلاف وانتشار پیدا نہ ہو۔  عام لوگوں کو احوالِ زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے داڑھی رکھنے پر جبر نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انھیں فاسق متصور کرنا چاہیے، ضرورتاً ان کی اقتدا میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرنا چاہیے۔وا للہ اعلم بالصواب۔

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

۷ /ستمبر ۲۰۲۱ء

Ad Image