(درشان مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم منقبت کے اکیس اشعار بہ نسبت تاریخِ شہادت)
جدھر دیکھو جلوہ ہے مولیٰ علی کا
انوکھا تجلا ہے مولیٰ علی کا
رہِ عقبیٰ رستہ ہےمولیٰ علی کا
عدو بھٹکا پھرتا ہے مولیٰ علی کا
گدا گرچہ تنہا ہے مولیٰ علی کا
ولیکن سہارا ہے مولیٰ علی کا
مرے سایےسے بھی بلا کیوں نہ بھاگے
مرے سر پہ سایہ ہے مولیٰ علی کا
فلک محوِ حیرت ہے . ہے کون اونچا
ہوں میں یا کہ تلوا ہےمولیٰ علی کا
خدا کا وہی ہے نبی کا وہی ہے
جو مولیٰ علی کا ہے مولیٰ علی کا
مع المرتضیٰ حق. من المرتضیٰ حق
زحق ربط گہرا ہے مولیٰ علی کا
انہیں
"صالح المومنیں" بولےقرآں
وقار اتنا اونچا ہے مولیٰ علی کا
ہیں قرآن میں تذکرے مرتضیٰ کے
"بلندی پہ رتبہ ہے مولیٰ علی کا"
انا منک یا مرتضی انت منی
نبی سے یہ رشتہ ہے مولیٰ علی کا
و
"من کنت مولاہ" ازبر ہے ہم کو
ہے جو مصطفیٰ کا ہے مولیٰ علی کا
ہوئیں آفتیں خود گرفتارِآفـت
جو نعرہ لگایا ہے مولیٰ علی کا
دعائیں ہوئی مستجاب ایک پل میں
جو پکڑا وسیلہ ہے مولیٰ علی کا
ہیں حسنین بیٹےاوربیٹی ہیں زینب
بڑا پیارا کنبہ ہے مولیٰ علی کا
چلی نسلِ سرکار مولیٰ علی سے
گھرانہ نبی کا ہے مولیٰ علی کا
وہ خیبرشکن اشجع الاشجعیں ہیں
شجاعت میں شہرہ ہے مولیٰ علی کا
محبت علی کی نشانی ہے حـق کی
مرے دل پہ قبضہ ہے مولیٰ علی کا
کلامِ الہٰی رفیقِ علی ہے
جو کوثر ہے دریا ہے مولیٰ علی کا
جسے حق تعالیٰ ہے مبغوض رکھتا
وہی بغـض رکھتا ہے مولیٰ علی کا
یہ شعر و سخن صدقہٴ پنجتن ہے
سحرؔ سب عطیہ ہے مولیٰ علی کا
ہوکیوں خوف ظلمت کا دل میں سحرؔکے
سحرؔ بھی تو بندہ ہے مولیٰ علی کا
Leave your comment