Donate Now
سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی صفوی قدس سرہ

سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی صفوی قدس سرہ

سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی صفوی عرف شیخ امیر علی چشتی نظامی، الٰہ آباد کے ایک قصبہ ، سید سراواں کے مشہور و معروف عثمانی زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت ۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء کے قریب ہوئی۔ والد ماجد شیخ وارث علی (م ۱۳۳۰ھ/ ۱۹۱۲ء) علاقے کے مشہور رؤسا میں سے تھے ۔

آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ سوم امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ والدہ ماجدہ سیدہ عظیم النساء (م ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء) مخدوم جہانیاں حضرت سید جلال الدین بخاری قدس سرہٗ کی اولاد میں سے تھیں۔ 

آپ فخر خاندان، فخر عصر اور علم و معرفت میں یکتائے روزگار ہوئے۔ آپ کے فضل و کمال کا اعتراف معاصرین و متأخرین سب کو تھا۔ مؤلف ’’مرآت جلالی‘‘ رقم طراز ہیں :

’’مخدوم حضرت امیر علی شاہ [حضرت شاہ عارف صفی محمدی] ساکن سید سراواں ضلع الٰہ آباد، شیخ عثمانی ہیں۔ آپ کے مورث اعلیٰ شیخ بہاؤ الدین سپہ سالار غزنی کے رہنے والے تھے ،ہمراہ حضرت سید قطب الدین محمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ،بغرض جہاد ہندوستان تشریف لائے تھے اور قلعۂ کڑا کو فتح کیا تھا اور محی الدین پور چروا ضلع الٰہ آباد میں قیام فرمایا۔جملہ شیخ زادے سید سراواں آپ کی اولاد سے ہیں، جو اِس وقت صاحب اقتدا ر ہیں۔ حضرت امیر علی شاہ اسی خاندان میں تھے ،معرفت میں یگانۂ روزگار ہوئے۔‘‘({ FR 8387 })

تعلیم و تربیت

 ابتدائی تعلیم گھر کے بزرگوں سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے سیدسراواں کے مقتدر علما مولانا سید ابو میاں اور مولانا منظور حسین رحمہما اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ا ُن سے علوم ظاہری میں فراغت حاصل کی۔ ۱۶؍ سال کی عمر میں رسمی علوم کی تکمیل کی۔ آپ کا فارسی واردو دیوان آپ کے اعلیٰ علمی ذوق کا بین ثبوت ہے۔

اخلاق وعادات

بچپن ہی سے آپ عمدہ اخلاق و عادات سے مزین تھے۔ ذہانت،سنجیدگی، اطاعت شعاری ، غربا پروری ، منکسرالمزاجی اور رحم دلی آپ کا خاصہ تھا۔ والدین کی اطاعت اور اساتذہ کے ادب و احترام میںمثالی نمونہ تھے۔زمانۂ طالب علمی میں شفقت و رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ ہم سبق طلبہ میں جو کمزور ہوتے اُن کو سبق یاد کراتے ، سمجھاتے اور مشقی کاموںکی انجام دہی میں اُن کی مدد فرماتے۔ ہر شخص کی فلاح و بہبود ہمیشہ پیش نظر رہتی تھی۔جو لوگ آپ سے بغض و حسد رکھتے اُن سے بھی خندہ روئی سے ملتے اور ضرورت پڑنے پر ہر طرح کی مدد فرماتے اور کبھی کسی کی دل آزاری گوارا نہ فرماتے ۔

جذبۂ خدا طلبی وبیعت

 تعلیم کے بعد والد ماجد نے زمینداری کے کاموں میں لگانا چاہا ،لیکن آپ کی طبیعت سے یہ کام بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ رعایا اور زمینداروں کے مابین صورت ِحال دیکھ کر آپ کا دل موروثی زمینداری سے متنفر تھا، اس لیے ملازمت کی طرف آپ کی طبیعت مائل ہوئی ، چنانچہ آپ محکمۂ پرمٹ سے ملحق ہوکر ضلع بارہ بنکی میں تعینات ہوئے۔ دینداری، خدا ترسی اور للّٰہیت کا وہ جذبہ جو قسام ازل نے آپ میں ودیعت فرمایا تھا، جوش زن ہوا۔ بچپن ہی سے شرع شریف کے پابند ہو گئے تھے۔ مرشد کامل کی طلب ہوئی۔ اسی دوران حضرت حاجی وارث علی شاہ قدس سرہٗ کا نام نامی سنا تو زیارت کے مشتاق ہوئے اوربارہ بنکی میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر حال باطن بیان کیا اور بیعت کی خواہش ظاہر کی ۔آپ نے سر جھکایا اور کچھ دیر بعد فرمایا:

 ’’مالک عنقریب آپ کو بلند مراتب پر فائز فرمانے والا ہے، البتہ آپ کاحصہ میرے پاس نہیں، بلکہ حضرت قل ہوا للہ شاہ صاحب کے پاس ہے، آپ انھیں کی خدمت میں حاضر ہوں ۔‘‘

قطب عالم واقف سرّ قل ہوا للہ شاہ عبد الغفور محمدی صفوی قدس سرہٗ( ۱۲۳۵ھ- ۱۳۲۴ھ) بارہ بنکی میں ہی محلہ رسول پور میں جلوہ افروز تھے ۔آپ کے یہاں ہر ماہ گیارہویں شب کوفاتحہ اور محفل سماع منعقد ہوتی تھی جس میں آپ کے خلفا، مریدین ومعتقدین حاضر ہوتے تھے ۔

حضرت سلطان العارفین اسی ماہ کی گیارہویں کو اپنے اردلی جناب بہادر خاں کو ہمراہ لے کر حضرت قطب عالم قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عشا کی نماز آپ کی اقتدا میں ادا کی اور بعدنماز عشا محفل میں شریک ہو گئے۔ اکتساب فیض کا سلسلہ فجر تک چلا۔ فجر کی نماز حضرت قطب عالم قدس سرہٗ کی اقتدا میں پڑھ کر آپ اپنے مقام واپس تشریف لائے، لیکن بےقراری اور اضطراب نے دوبارہ خدمت میں حاضر ہونے پر مجبور کیا۔ آپ نے غسل کیا اور شیرینی ہمراہ لے کر پیر ومرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ فرائض منصبی مکمل کرکے آپ ہمیشہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور تعلیم و تلقین حاصل کرتے۔

اجازت وخلافت

 پیر و مرشد کی تعلیمات کے مطابق مجاہدات بھی شروع فرمادیے ،کچھ عرصے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اب کامل یکسوئی سے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ بالآخر سلوک کی تکمیل فرما کر حضرت پیرو مرشد قدس سرہٗ نے ۱۱؍ رمضان المبارک ۱۲۹۸ھ مطابق ۷؍اگست ۱۸۸۱ء کو اجازت وخلافت عطا فرمائی اور ’’شاہ عارف صفی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔

 اس وقت عمر شریف ۲۰ ؍سال تھی۔

اجودھیا میں استقامت

پیر ومرشد نے آپ کو اجودھیا کی مسجد میں متوکلا ً علی اللہ استقامت گزیں ہونے کا حکم فرمایا، چنانچہ آپ بارہ بنکی سے براہِ راست وہاں منتقل ہوگئے اور وہیں ریاضت و مجاہدے میں مشغول ہوگئے۔ 

والدین کریمین اور گھر کے دیگر افراد کو آپ کی فرقت و جدائی نہایت گراں گزر رہی تھی،بالخصوص والدہ ماجدہ، جن کے آپ منظور نظر تھے ،وہ آپ کی جدائی کے صدمے سے پریشان اور مضمحل ہوتی جا رہی تھیں۔ چنانچہ آپ کے نانا نے آپ کی والدہ ماجدہ کو ہمراہ لے کر بارہ بنکی شریف حاضری دی اور آپ کی والدہ کی صورتِ حال آپ کے پیرومرشد گرامی کے حضور میں عرض کی۔ 

وطن واپسی

آپ کے مرشد گرامی حضرت مخدوم قل ہو اللہ شاہ قدس سرہ نے آپ کو وطن واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور گھر کے بجائے حضرت سید السادات محمد حقانی سہروردی قدس اللہ سرہٗ کے مزار مبارک کے پاس رہنے کا حکم دیااور دن میں ایک دفعہ والدہ صاحبہ کی زیارت کے لیے گھر جانے کا حکم فرمایا۔ 

آپ پیر ومرشد کے حسب حکم واپس تشریف لائے اور حضرت مخدوم سید محمد حقانی قدس سرہٗ ({ FR 8388 }) کے مزار مقدس کے قریب اِملی کے درخت کے سائے میں ایک جھونپڑی ڈال کر اس میں قیام کیا اور ریاضت و مجاہدے میں مصروف ہو گئے۔ 

حضرت سید السادات کے مزار پر آپ نے جس جگہ سالہا سال ریاضت و عبادت کی، اس متبرک مقام پر آپ کے خلف اصغر حضرت مخدوم شاہ احمد صفی خادم محمد قدس سرہٗ نے ایک چھوٹی مسجد تعمیر کرا دی تھی، جو اب منہدم ہوکر تعمیر نو کی متقاضی ہے۔ 

رجوع خلق و فیض رسانی

آٹھویں صدی ہجری میں جس مقام پر سید السادات حضرت محمد حقانی سبزواری قدس سرہٗ نے شمع ہدایت روشن فرمائی تھی،اسی مقام پر ایک طویل عرصے کے بعد سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی -قَدَّسَ اللہُ رُوحَہٗ- سے دوبارہ ہدایت و معرفت ، علم و آگہی اور امن و محبت کا سر چشمہ جاری ہوا۔خلق خدا جو ق در جوق اِس سرچشمۂ حیات سے سیرابی حاصل کرنے لگی ۔مختصر سی مدت میں سیکڑوں افراد دولت ایمان سے مالا مال ہوئے۔ حضرت سلطان العارفین نے تیرہویں صدی کے اواخر میں خانقاہ قائم فرمائی تھی اور صرف بیس بائیس سال کی مختصر مدت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو عموماً مدت دراز میں بھی لوگوں کو نصیب نہیں ہوتے ۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤتِیْہِ مَن یَّشَاءُ۔

پیر ومرشد کی بارگاہ میں مقبولیت 

حضرت پیر ومرشد کی بارگاہ میں آپ کی فنائیت و خود سپردگی کے بہت سے واقعات ہیں۔ آپ کے حق میں آپ کے پیرومرشد نے ایک موقع پر فرمایا:

’’جو کچھ عارف صفی کریں گے عین مرضی میری ہے۔‘‘

اور ایک موقع پر ارشادفرمایا:

’’عارف صفی کا ہاتھ عین میرا ہاتھ ہے۔ ( یَدُہُ کَیَدِیْ)‘‘

آپ کے پیرومرشد گرامی نے ایک مرتبہ آپ کو اطلاع فرمائی کہ فلاں تاریخ کو میں عرس کے موقع پر صفی پورشریف پہنچ رہا ہوں، آپ بھی وہاں آجاتے تو اچھا رہتا ۔ حسبِ فرمائش مقررہ تاریخ پر آپ صفی پور شریف حاضر ہو گئے۔ حضر ت اقدس آپ کو ہمراہ لے کراپنے پیرومرشد حضرت مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ کے آستانۂ عالیہ پر حاضر ہوئے۔ حضرت اقدس پیرومرشد و دیگر حضرات اندرون روضہ تشریف لے گئے مگر آپ مؤدب دست بستہ باہر چوکھٹ پر کھڑے رہے ۔ تھوڑے وقفے کے بعد حضرت روضہ شریفہ سے باہر تشریف لائے اور آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ــ’’ماشاء اللہ ماشاء اللہ ! آپ کو سرکار کی بارگاہ سے ’’لاہوتی ‘‘ اور ’’محبوب الٰہی گیسو دراز ‘‘ کا لقب عطا ہوا ہے۔‘‘ 

پھر برادران طریقت میں جن حضرات سے ملاقات ہوتی، سب سے فرماتے کہ ان سے ملیے ،انھیں سرکار کی بارگاہ سے لقب ملا ہے۔

تصانیف 

آپ سے نظم و نثر اردو و فارسی میں چند تصنیفات بھی معرض و جود میں آئیں، جن کے اسما یہاں درج ہیں:

۱۔گنجینۂ اسرار (فارسی) ۲۔مرآۃ الاسرار (اردو)۳۔مثنوی معرفت (فارسی)   ۴۔ دیوان فارسی۵۔دیوان اردو ۶۔دیوان ہندی

خلفا 

 آپ نے متعدد افراد کو اجازت و خلافت سے نوازا ۔ چند مشہور حضرات یہ ہیں:

  (۱)حضرت مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی عرف شاہ نیاز احمد عثمانی (خلف اکبر و جانشین اول)

(۲) حضرت شاہ ظہور اللہ محمدی عرف سید عبد اللطیف(۱۳۶۴ھ) پرخاص( کوشامبی)

(۳)حضرت شاہ نعمت اللہ محمدی عرف مولاناسید محمد امین بخاری (۱۳۶۰ھ، کلکتہ)

(۴) حضرت شاہ علیم اللہ محمدی عرف عبد العلی (۱۳۴۹ھ،نیم سرائے، الٰہ آباد)

(۵) حضرت شاہ نعیم اللہ محمدی عرف خان بہادر حافظ محی الدین صدیقی(لکھنؤ)

(۶) حضرت شاہ حجت اللہ صفوی عرف سید رحمت علی (۱۳۴۵ھ، بھانے مئو)

(۷) حضرت شاہ بشیر اللہ صفوی عرف بشیر الدین (چھیتے مئو)

تعلیمات

 ذیل میں حضرت سلطان العارفین کے چند ارشادات پیش ہیں ، جو تذکرۃ الاصفیا(حصہ سوم) سے ماخوذ ہیں:

ے اگر تمہارا اَثر دوسروں پر نہ پڑے تو کم از کم دوسروں کااَثر تم پر تو نہ پڑے ۔

ے خرقۂ درویشی، اللہ کے شیروں کا لباس ہے ۔جو شخص اس لباس کو پہنے اس کو اللہ کاخوف کرناچاہیے ۔ایک ٹکڑا روٹی کے لیے در بدر ہو کر اس (فقر و درویشی) کو ذلیل نہ کرانا چاہیے۔ اس کو پہن کر مر د خدا بننا چاہیے نہ کہ طالب دنیا ۔

ے والدین کی خدمت کو ترک کرنا،خدا کے قہر کا سبب ہوتاہے ۔

ے  دوسروں کی حاجت روائی کرے لیکن اپنی حاجت دوسروں کے سامنے پیش نہ کرے۔

ے  طریق عشق میں دلیل و برہان کی کوئی ضرور ت نہیں ہوتی ۔حکم خدا و رسول و مرشدین مجتہدین کا فی ہوتاہے ۔  

ے کسی سے اپنی عزت کی خواہش نہ رکھے تاکہ دل پر نورِالٰہی وارد ہو۔

وصال

 سلطان العارفین قدس سرہٗ نے صرف ۴۱؍۴۲ سال کی عمر پائی۔ عاشورۂ محرم الحرام ۱۳۲۰ھ/ اپریل ۱۹۰۲ء کے بعد سے سلسلۂ امراض شروع ہوا اور طبیعت دن بہ دن مضمحل ہوتی گئی۔ وقتی افاقہ ہوتا لیکن مکمل آرام نہ ہوا۔ بالآخر ۱۸؍ ذو القعدۃ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۶ ؍ فروری ۱۹۰۳ء سہ شنبہ کے روز بوقت صبح صادق آپ واصل بحق ہوئے۔

 آپ کا وصال آپ کے پیر و مرشد کی حیات میں ہوا ۔جس وقت آپ نے پردہ فرمایا اس وقت آپ کے پیر و مرشد نے فرمایا: ’’آج میری کمرٹوٹ گئی۔‘‘ 

 آپ کے حسب خواہش آپ کے معالج، الٰہ آبادکے مشہور عالم وطبیب مولانا حکیم سید مسیح الدین قادری رحمہ اللہ(۱۳۳۳ھ)نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 

مزار مبارک خانقاہ عالیہ عارفیہ، سید سراواں شریف میں مرجعِ خلائق ہے۔

قطعۂ تاریخ

از حضرت نعیم اللہ شاہ عرف خان بہادر حافظ محیی الدین لکھنوی

شاہِ عارف صفی ولیِّ حق

زین جہان چون بہ اوجِ قدس رسید

بود مستِ الست ہموارہ

زان شرابِ طہور سیر چشید 

در مقامِ حریمِ مقعدِ صدق

جلوۂ حق بہ دیدۂ حق دید

ہیژدہ بود از مہِ ذیقعد

صبح صادق چو روئے فجر دمید

سالِ وصلش چو جستم از ہاتف

از وفورِ طرب چو گل خندید

ترکِ حرفِ دوئی نمود سپس

گفت: قربِ عظیم سالِ مجید

نظم کرد این نعیم از سرِ صدق

بہرِ انعام و اختصاصِ مزید

اولاد امجاد

 سلطان العارفین کے اخلاف میں دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں۔

(۱) محتسب العارفین مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی قدس سرہٗ

آپ کا اسم گرامی نیاز احمد اور لقب صفی اللہ شاہ ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت ۲۸؍ رمضان ۱۳۰۵ھ مطابق ۹؍ جون ۱۸۸۸ء شنبہ کے روز ہوئی۔ حضرت سلطان العارفین کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اورآپ کے مرید وخلیفہ اور جانشین ہوئے۔ اکابرِ سلسلہ نے آپ کو اپنے خانوادے کا’’شیر نر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ 

۲۸؍ شعبان المعظم ۱۳۷۴ھ مطابق ۲۲ ؍اپریل ۱۹۵۵ء جمعہ کے روز وصال فرمایا۔ پسماندگان میں چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی زوجہ جناب سید مجیب احمدصاحب مرحوم (مدفون کراچی ) تھے۔ صاحب زادگان کے اسما حسب ذیل ہیں:

 ا۔حضرت شاہ نہال عارف عرف حکیم آفاق احمد (۱۹۰۹-۲۰۰۱ء، خانقاہ عالیہ عارفیہ)

۲۔جناب صابر حسین صاحب (۱۹۱۷-۱۹۸۲ء، کراچی، پاکستان) 

۳۔ جناب امتیاز احمدعثمانی ملقب بہ شاہ الہام صفی (۱۹۲۸-۲۰۱۱ء، کراچی) 

۴۔ مخدومی جناب انیس احمد عثمانی مد ظلہٗ (پ: ۱۹۳۲ء، ساکن کراچی )  

(۲) حجۃ العارفین مخدوم شاہ احمدصفی محمدی خادم محمد صفوی قدس سرہٗ

آپ کا اسم گرامی خادم محمد عرف ریاض احمد ہے۔ ولادت باسعادت ۱۳۱۳ھ/ ۱۸۹۶ء میں ہوئی۔ حضرت سلطان العارفین قدس سرہٗ کے وصال کے وقت آپ ۶-۷  سال کے تھے۔ والد ماجد سے شرف بیعت حاصل تھا اور اجازت وخلافت اپنے برادر گرامی سے تھی۔ اپنے اسلاف کی سیرت و صورت کے مکمل آئینہ دار تھے۔ اپنے بزرگوں کی روش سےبال برابر بھی تجاوز گوارا نہ تھا۔ برادرگرامی کے وصال کے بعد مسند نشین ہوئے۔

طویل مدت تک خلق خد اکو فیض یاب فرمانے کے بعد ۱۵؍محرام الحرام ۱۴۰۰ھ مطابق ۶؍دسمبر ۱۹۷۹ء پنجشنبہ کے روز دار باقی کی جانب کوچ فرمایا۔

 جانشینی

حضرت مخدوم شاہ احمد صفی محمدی خادم محمد صفوی قدس سرہ نے اپنے بھتیجے و خلیفہ مخدومی حکیم شاہ آفاق احمد صاحب رحمہ اللہ کے صاحب زادے مخدومنا و مولانا عارف باللہ شاہ احسان اللہ محمدی صفوی معروف بہ شیخ ابو سعید حفظہ اللہ ورعاہ  کو حضرت سلطان العارفین کے عرس مبارک کے موقع پر ۱۸؍ ذوالقعدۃ ۱۳۹۸ھ بمطابق۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو بیعت فرما کر اجازت و خلافت سے نوازا اور اپنا جانشین مقرر کیا ۔ 

داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی

آپ کی ولادت اپنے آبائی وطن سید سراواں (ضلع الٰہ آباد) میں ۵؍ محرم الحرام ۱۳۷۷ھ مطابق ۲؍ اگست ۱۹۵۷ء بروز جمعہ کو ہوئی۔ 

والد ماجد حکیم آفاق احمد عثمانی (۱۹۰۹ - ۲۰۰۱ء) نبیرۂ سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی صفوی قدس سرہ، ایک حاذق حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ دل درویش بھی تھے۔ حضرت داعی اسلام نے والد ماجد اور خانوادہ کے اکابر کی آغوش میں تربیت پائی ۔ آپ کی پرورش و تربیت میں سب سے اہم نام آپ کی خالہ محترمہ اہلیہ جناب شکیل احمد عثمانی ({ FR 8389 }) رحمہما اللہ تعالی کا ہے ۔ 

ابتدائی تعلیم اور میٹرک پاس کرنے کے بعد ۱۹۷۵ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں قدم رکھا، یہاں P.U.C. کرنے کے بعد بی اے آنرس (فارسی زبان و ادب) سے ملتحق ہوئے اور ۱۹۸۰ء تک تعلیمی مشغولیت جاری رکھی۔ علی گڑھ کے دوران تعلیم ہی آپ کے والد ماجد کے حقیقی عم مکرم حجۃ العارفین شاہ خادم محمد احمد صفی محمدی صفوی نے سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی کے عرس مبارک کے موقع پر بیعت فرما کر سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت سے نوازا اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ 

۱۴۱۳ھ / ۱۹۹۳ء میں آپ نے خانقاہ عالیہ عارفیہ کے احاطے میں جامعہ عارفیہ کی بنیاد رکھی جس نے ایک علمی ، فکری ، روحانی اور تعمیری ادارے کی حیثیت سے ملک و بیرون ملک اپنی شناخت قائم کی۔۲۰۰۸ء میں آپ نے شاہ صفی اکیڈمی قائم کی جس کے تحت اسلامیات  خصوصاً تصوف پر قدیم و جدید لٹریچر کی اشاعت جاری ہے۔ علاوہ ازیںآپ درجنوں مدارس کی سرپرستی اور اعانت فرما رہے ہیں۔ مساجد کی تعمیر، غربا پروری اور علمی و تحقیقی کاموں سے آپ کو خاص شغف ہے اور آپ کا شب و روز انہی کاموں سے عبارت ہے۔

عہدِ ارشاد حضرات مشائخ خانقاہ عالیہ عارفیہ 

(۱) حضرت سلطان العارفین:  ۱۲۹۸ تا ۱۳۲۰ھ / ۱۸۸۵ تا ۱۹۰۳ء 

(۲) حضرت محتسب العارفین:  ۱۳۲۰ تا ۱۳۷۴ھ / ۱۹۰۳ تا ۱۹۵۵ء 

(۳) حضرت حجۃ العارفین:  ۱۳۷۴ تا ۱۴۰۰ھ / ۱۹۵۵ تا ۱۹۷۹ء 

(۴) حضرت داعی اسلام:  ۱۴۰۰ تا حال / ۱۹۷۹ تا حال

اللہ رب العزت حضرت پیر و مرشد گرامی کا سایۂ عاطفت دراز فرمائے۔ 

چمنے کہ تا قیامت گلِ او بہار بادا 

صنمے کہ بر جمالش دوجہان نثار بادا

Ad Image