قطب العالم حضرت مخدوم شیخ سعد الدین بن قاضی بڈھن انّاوی خیر آبادی قدس سرہ اناؤ کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد ماجد بھی عالم دین تھے اور مرتبۂ قضا پر فائز تھے۔ رفیق گرامی قدر مولانا ذیشان احمد مصباحی (استاذ جامعہ عارفیہ) جنہوں نے مخدوم صاحب کی فقہی خدمت پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، آپ کے حالات میں لکھتے ہیں:
’ مخدوم صاحب کے والد کانام عام طور سے بڈھن مشہور ہے، لیکن مخدوم صاحب نے اپنی کتاب شرح اشعار لباب الاعراب کے دیباچے میں اپنا نام اس طرح لکھا ہے:
’’أضعف عباد الله القوی العالی سعد بن مکرم المعروف قاضی بدهن البلخی الفرشولی.‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ کے والد کانام مکرم تھا اور عرفیت بڈھن تھی۔ آپ کے والد،قاضی بڈھن قدس سرہ کا مزار مبارک انائو ریلوے اسٹیشن کے قریب زیارت گاہ خاص وعام ہے۔‘( )
آپ قاضی قدوہ کی اولاد میں سے تھے۔ علوم ظاہری اورباطنی میں یکتائے زمانہ تھے ۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲعلیہ ’’اخبارالاخیار‘‘ میں حضرت مخدوم کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مرید شیخ میناست۔ بزرگ بود، حافظ حدود شریعت وآداب طریقت، ہمتے عالی داشت وموصوف بود بترک وتجرید۔ او نیز برطریقۂ پیر خود حصور بود، ومولع بود بوجد وسماع۔ عالم بود بعلوم شریعت وطریقت۔‘‘( )
(آپ شیخ مینا قدس سرہ کے مرید تھے، حدود شریعت اور آداب طریقت کے پاسدار بزرگ تھے۔ آپ بلند ہمت تھے ،ترک و تجرید کی شان رکھتے تھے۔ نیز اپنے پیرومرشد کی طرح مجرد وغیر شادی شدہ تھے اور وجد و سماع کاشوق رکھتے تھے۔ علوم شریعت و طریقت کے عالم تھے۔)
علامہ غلام علی آزاد بلگرامی تحریرکرتے ہیں:
’’برطریقۂ حضرت مرشد حصور زیست وسالہامسند تدریس و ارشاد را رونق بخشید۔ وشروح غرا بر متداولات بقلم آورد۔مثل شرح بزودی وحسامی و کافیہ و مصباح و امثال آں۔ ومجمع السلوک نام شرحے بر رسالہ مکیہ نوشتہ۔ دریں کتاب ملفوظات وحالات شیخ مینا بسیار درج کردہ۔ مزار فائض الانوارش در خیرآباد حاجت روائے خلائق است۔ ‘‘( )
(اپنے مرشد کے طریق کے مطابق مجرد غیر شادی شدہ زندگی گزاری۔ سالوں تک مسند تدریس و ارشاد کو رونق بخشی۔کتب متداولہ کی اعلیٰ شرحیں لکھیں، مثلا: شرح بزدوی ،شرح حسامی،شرح کافیہ ،شرح مصباح،وغیرہ۔اور مجمع السلوک کے نام سے رسالہ مکیہ کی ایک شرح لکھی۔اس کتاب میں انہوں نےشیخ مینا کے بہت سے ملفوظات و احوال درج کیے ہیں۔ آپ کا مزار پُر انوار خیرآباد میں خلق خدا کے لیےقبلۂ حاجات ہے۔)
علمی عظمت
مخدوم صاحب کا علمی مقام بہت بلند ہے۔ آپ کا شمار پندرہویں /سولہویں صدی کے اکابر علما اور ممتاز مشائخ میں ہوتا ہے۔ علامہ قاضی ارتضا علی خاں گوپاموی (۱۲۷۰ھ /۱۸۵۴)لکھتے ہیں:
’’در علوم شرعیہ آن قدر تبحر می داشت کہ شبے عارفے در عالم معاملہ از حضرت رسالت پناہ ﷺ پرسید کہ شیخ سعد را در علما چہ مرتبہ است؟ فرمودہ: در اجتہاد رتبۂ امام احمد بن حنبل دارد۔‘‘
’’علوم شرعیہ میں آپ کو اس قدر تبحر علمی حاصل تھا کہ ایک شب کسی عارف نے عالم معاملہ میں جناب رسالت مآب ﷺ سے سوال کیا کہ زمرۂ علما میں مخدوم صاحب کاکیا مرتبہ ہے؟ فرمایا: اجتہاد میں امام احمدبن حنبل کے مقام پر فائزہیں۔‘‘( )
جود و نوال
مخدوم صاحب کے یہاں جود وعطا اور خدمت خلق کے اوصاف بھی خوب ملتے ہیں۔ آپ کی خانقاہ کیا تھی ، طالبین و سالکین کے ساتھ بھوکوں، پیاسوں، بیماروں اور پریشان حالوں کی امیدگاہ تھی۔ لنگر عام فیض عام تھا۔ خواجہ کمال لکھتے ہیں:
’’حضرت شیخ سعد کے مطبخ میں روزانہ ۱۴- ۱۵ ؍ من میدہ خرچ ہوتا تھا، جو صوفیوں، قوالوں، طلبہ، مجاورین و مسافرین پر صرف ہوتا تھا۔ تقریباًچار پانچ ہزار تنکہ جو بمنزلہ روپیہ کے تھا، محتاجوں کی بخشش میں صرف ہوتا تھا۔ اگر ایسا موقع آجاتا کہ کچھ موجود نہ رہا تو تاجروں سے دلوادیتے تھے۔اکثر لشکری جن کے گھوڑے مرگئے یا از کار رفتہ ہوگئے، اپنی حاجت پیش کرتے تھے۔ آپ تلاش کرواکے جہاں بھی دست یاب ہوتے خرید کر عطا فرما دیتے۔‘‘( )
تصانیف
مخدوم صاحب خیر آبادی کا شمار ان صوفیہ میں ہوتا ہے،جو صاحب تصانیف عالم و فقیہ تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں لکھی ہیں، مثلاً:
(۱) شرح اصول بزدوی: امام فخر الاسلام بزدوی(۴۸۲ھ) کے مشہور و معروف متن اصول فقہ کی شرح ہے ۔
(۲) شرح ارشاد النحو : علامہ شہاب الدین دولت آبادی (۸۴۹ھ) کے متن نحو کی شرح ہے۔
(۳) شرح حسامی : امام حسام الدین محمد اخسیکثی (۶۴۴ھ)کے رسالہ اصول فقہ کی شرح ۔
(۴) شرح مصباح: علم نحو میں علامہ عبد القاہر جرجانی (۴۷۱ھ) کے رسالہ المصباح کی شرح ہے۔
(۵) شرح لباب الاعراب /شرح اشعار لباب الاعراب: اس کا ایک نام تحفۃ المحمودیۃ بھی ہے، اسے آپ نےاپنے برادر زادے شیخ محمود کے لیے تحریر فرمایا تھا۔ غالباً یہ علامہ تاج الدین اسفرائینی (۶۸۴ھ) کی فن نحو کی مہتم بالشان کتاب لباب الاعراب کی یا اس میں درج شدہ اشعار کی شرح ہے۔
(۶) شرح کافیہ /شرح حاشیہ کافیہ : نحو میں علامہ ابن حاجب کے مشہور متن کافیہ کی شرح ہے۔ ( اس کے دونوں طرح سے نام تذکروں میں ملتے ہیں، ممکن ہے کہ دونوں الگ الگ کتاب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی ہو ، تذکرہ نگاروں کو نام درج کرنے میں سہو ہوا ہو ۔واللہ اعلم)
(۷) مجمع السلوک والفوائد (شرح رسالہ مکیہ) : شاہ صفی اکیڈمی (خانقاہ عالیہ عارفیہ، سید سراواں) سے اس کا اردو ترجمہ دو ضخیم جلدوں میں ۱۴۳۸ھ / ۲۰۱۶ء میں شائع ہو چکا ہے۔
شعروسخن
مخدوم صاحب کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو شعر و سخن کا اعلیٰ ذوق تھا۔ بلکہ حضرت کی ایک تصنیف مستقل طور سے شعرو شاعری کے حوالے سے ہی ہے۔ آپ نے لباب الاعراب میں مذکور اشعار کی شرح فرمائی۔ آپ کا کلامِ بلاغت نظام جو آج بھی محافل سماع میں پڑھا جاتا ہے اور اصحاب ذوق کے سکون قلب کا سامان ہے، حسب ذیل ہے: ( )
نشان بر تختۂ ہستی نبود از عالم و آدم
کہ دل در مکتبِ عشق از تمنای تو می بردم
برو ای عقلِ نامحرم کہ امشب با خیالِ او
چنان خوش خلوتی دارم کہ من ہم نیستم محرم
کہ دارد این چنین عیشی کہ در عشق تو من دارم
شرابم خون، کبابم دل، ندیمم درد، نُقلم غم
اگر پرسند سعد از عشق او حاصل چہا داری
ملامت ہای گوناگون، جراحت ہای بی مرہم
(۱)صفحۂ ہستی پر جب عالم و آدم کا وجود بھی نہیں تھا،اس وقت سے دل مکتب عشق میں تیرا شیدائی ہے۔
(۲)اے عقل نامحرم! آج تو دفع ہوجا، کیوں کہ آج کی رات اس کے خیال میں مجھے ایسی خلوت در پیش ہے کہ اس میں میں خود بھی محرم نہیں ہوں۔
(۳)تیرے عشق میں جو عیش زندگی مجھے حاصل ہے، وہ بھلا اور کس کو حاصل ہوگا، میرا خون شراب بن چکا ہے، دل کباب کی صورت میں ہے ، درد میرا ہمدم ہے اور غم میری خوراک ہے۔
(۴)اگر لوگ پوچھیں کہ سعد! اس کے عشق میں حاصل کیا ہوا؟ تو میں جواب دوں گا: دنیا بھر کی ملامتیں اور ایسے کاری زخم جن کا کوئی مرہم نہیں ہے۔
تعلیمات وارشادات
مجمع السلوک سے آپ کے چند ارشادات اس مقام پر درج کیے جا رہے ہیں:
ارشاد فرمایا: جب تک شریعت مصطفوی پر نہیں چلوگے، محبوبیت کے حق دار نہیں بنو گے۔ جو بھی نعمت پائوگے رسول اللہ ﷺ کی پیروی سے پائوگے اور جن بلندیوں تک رسائی حاصل کروگے ان کی پیروی سے ہی حاصل کروگے ،ان کی پیروی کے بغیر دونوں جہان میں مردود اور دین و دنیا میں رسوا ہوگے ۔
ارشاد فرمایا:جوشخص دنیا کی طرف مائل ہوتاہے حق تعالیٰ اس کو حرص کی آگ میں خاکستر اور فتنے کی ہوا میں پراگندہ کردیتاہے۔
ارشاد فرمایا: جہاں تک ہوسکے بھوک برداشت کرےاورآہستہ آہستہ خوراک کم کرتا جائے؛ کیوں کہ بھوکا رہنا تمام عبادتوں کی اصل ہے۔
ارشاد فرمایا: جس مقام پرگفتگوکرنے میں اللہ کی رضا حاصل ہو، وہاں گفتگونہ کرنا برا ہے اورجس مقام پرنہ بولنے میںرضائے الٰہی حاصل ہو وہاں بولنا گناہ ہے۔
ارشاد فرمایا: جس کو حسن خلق عطاہوگیااس کوتمام صفات حمیدہ عطا ہو گئیں ۔
ارشاد فرمایا: خواب غفلت ہی تمام بدبختیوں کی جڑہے،غافل انسان سے آرزؤں اور تمنا ؤں کے سوا کچھ نہیں بن پاتا۔ یہ امید و شوق بھی شیطان کا ایک ہتھیار ہے جس کے سہارے وہ غافلوں کوفریب خوردہ کرکے معطل بنادیتاہے۔
ارشاد فرمایا: وہ گناہ صغیرہ جس کی تمہاری نگاہ میں کوئی وقعت نہیں، در حقیقت وہ تمہارے لیے چند کوہ قاف کے برابر ہے۔تم کہتے ہو: ہمارے دین میں کیاکمی ہے؟ ایک بال جب تمہاری آنکھ میں پڑجاتاہے تو تمہیں بےقرار کر دیتا ہے۔ چشم دین، چشم سر سےبھی زیادہ نازک ہے۔
ارشاد فرمایا: عالم وفقیہ وہ نہیں ہے جومسائل اورکتابوں سے بہت واقفیت رکھتا ہو بلکہ فقیہ وہ ہے جودنیا سے بے رغبت ہواور جو اپنے باطن کو آلائش دنیاکی محبت، جاہ وحشم، مال ودولت،عزت واقبال مندی، منصب وعہدہ، مفاخر و مناقب کی طلب، فریب، دھوکہ ،حسد،کینہ، عداوت اوربغض سے پاک کرنے والاہو۔
ارشاد فرمایا: فقیہ کامل وہ ہے جو شرعی احکام کاعالم بھی ہواوران پرعامل بھی ہو۔ اگرکوئی شخص علم رکھتا ہو لیکن ا س پرعمل پیرانہ ہوتووہ فقیہ کامل نہیں ہے، بلکہ وہ علمائے سو میں سے ہے۔
ارشاد فرمایا: جو عالم صفات کمال سے موصوف نہ ہو،دنیاکی محبت اور جاہ ومال کی محبت سے منہ پھیرنے والانہ ہو،وہ عالم باللہ اور شفاعت کااہل نہیں ہوگا،ایسے لوگوں کوعالم دنیاکہتے ہیں اورعالم دنیا شیخ بننے بلکہ مریدبننے کے بھی لائق نہیں ہوتا، بلکہ معاذ اللہ ایسے لوگ عذاب اور وبال والوں میں سے ہیں۔
ارشاد فرمایا: طالب علم کو چاہیے کہ علم کی تعظیم وتکریم کرے،کتاب کوزمین پرنہ رکھے، بے وضو نہ رہےاورجس سے علم حاصل کررہاہے اگرچہ وہ کم سن ہو، اس سے خلوت وجلوت میں تواضع وتعظیم کے ساتھ پیش آئے۔ ہمیشہ اس کے ساتھ حسن سلوک کامظاہرہ کرے اور جس طرح بھی ہوسکے اس کی خدمت اور اس کی امدادواعانت میں کوتاہی نہ کرے،تاکہ استاذکی شفقت اس کے دل میں جم جائے۔استاذاورپیرکی شفقتوں کا کامل اثرہوتاہے اوران کی شفقت کے بغیر بڑا نقصان ہوتاہے؛کیوں کہ ایک انسان کے ساتھ جن لوگوں کے حقوق متعلق ہوتے ہیں، ان میں پیر اور استاذ کے حقوق بہت بلندہیں اورشرف میں بھی وہ سب سے اعلیٰ ہیں۔
ارشاد فرمایا: عوام کاایک گروہ عمل پرعلم کی فضیلت کاقائل ہے۔وہ کہتاہے کہ علم ہونا چاہیے اگرچہ عمل نہ ہو،لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ایک گروہ علم پر عمل کی فضیلت کاقائل ہے کہ جب تک عمل نہیں ہوگامقصد حاصل نہیں ہوگا لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ مشائخ نے فرمایا ہے:العِلْمُ وَالعَمَلُ مُتَلَازِمَانِ علم وعمل لازم وملزوم ہیں۔علم بھی چاہیے اورعمل بھی، تاکہ بندہ راہ راست پر قائم اور مومن کامل ہوجائے۔
ارشاد فرمایا: علم تصوف کوئی حسی چیز نہیںہے کہ آیات واحادیث کے پڑھ لینے سے حاصل ہوجائے گا،جب تک بندہ راہ تصوف سے آشنا اورصاحب بصیرت شیخ کامل کی پیروی نہیں کرے گا اس وقت تک وہ اس مقصودکامل تک پہنچ نہ سکے گا، جہاں کاملین پہنچے ہیں۔
ارشاد فرمایا: پہلے سالک دین کا علم حاصل کرے پھرراہ سلوک میں قدم رکھے اورشیخ کامل کی صحبت اختیار کرے۔
ارشاد فرمایا: شیخ ایک ہوناچاہیےدونہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ شیخ قریب ہو اور زندہ ہو اور اگرشیخ زندہ تو ہو لیکن وہاں تک پہنچناممکن نہ ہوتو خود کو ہلاکت وگمرہی سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کو شیخ تربیت اورشیخ صحبت بنانا جائز ہے ، لیکن شیخ تربیت و صحبت ایسا ہو جو شیخ ارادت کے مخالف نہ ہو،تاکہ شیخ ارادت کے ساتھ مرید کے معاملے میں خلل واقع نہ ہو ۔یوں ہی شیخ کی وفات کے بعد ارشاد و تربیت کے لیے دوسرے شیخ کی جانب توجہ کرنا جائز ہے،تاکہ مرید محرومی سے دور اور کمال سے ہم کنار ہوسکے اور اگر شیخ ارادت زندہ ہو،قریب بھی ہو،تو ایسی صورت میں شیخ دو نہیں ایک ہونا چاہیے اور اسے چھوڑ کر دوسرے کی جانب توجہ نہیں کرنی چاہیے، لیکن یہ بھی اس صورت میں ہے جب شیخ مذکورہ تمام اوصاف کا جامع ہو۔شیخ اسی وقت شیخ ہونے کااہل ہوگا جب وہ طریقت و حقیقت کے معاملے میں مرید کی رہنمائی کرے اور اس کو مقصود تک پہنچادے اوراگر شیخ ایسا نہ ہوتوایسی صورت میں شیخ ارادت کے باوجود دوسرے کوشیخ تربیت وصحبت بنانا جائز ہے۔
خلفاء
مخدوم صاحب ایک باکمال مرشدو مربی بھی تھے۔ خلق خدا کی بڑی تعداد آپ سے فیض یاب ہوئی۔میر صاحب نے سبع سنابل میں ذکر کیا ہے:
’’ مخدوم- قَدَّسَ اللهُ رُوحَه -خلفا بسیار داشت وجملہ خلفاے او دانشمندانند، وبعضی دانشمند وحافظ ہم بودند۔‘‘( )
ترجمہ: مخدوم صاحب -قُدِّسَ سِرُّه- کے بکثرت خلفا تھے اور آپ کے تمام خلفا عالم ودانش مند تھے اور بعض دانش مند اور حافظ دونوں تھے۔
آپ کے مشہور خلفا میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ محمود بلخی، شیخ مبارک لکھنوی،شیخ ملک حسین آبادی، قاضی محمد من اللہ کاکوروی، شیخ ملک شمس آبادی، شیخ چاند، قاضی راجہ میاں خیرآبادی، شیخ سکندر نصراللہ خیرآبادی، قاضی بڈھ عماد بلگرامی، شیخ ابراہیم بھوج پوری، شیخ ابراہیم راجو، شیخ عبد الصمد عرف مخدوم صفی سائیں پوری [صفی پوری] رَحِمَهُمُ اللهُ أَجْمَعِیْن۔
وصال
آپ نے اپنے پیر ومرشد مخدوم شاہ مینا کی بارگاہ میںعمر مبارک کا بیشتر حصہ گزارا۔ مرشد کے وصال (۸۸۴ھ / ۱۴۷۹ء) کے چند سال بعد مرشد کے اشارۂ باطنی پر خیرآباد (اودھ)میں سکونت اختیارکی اور وہیں اپنی قائم کردہ خانقاہ و مدرسے میں ۱۶؍ ربیع الاول ۹۲۲ھ/ ۱۵۱۶ء کو سفر آخرت فرمایا۔ روضۂ مبارکہ زیارت گاہِ خلائق ہے۔( )
Leave your comment