Donate Now
حاجی الحرمین مخدوم قوام الدین عباسی قدس سرہٗ

حاجی الحرمین مخدوم قوام الدین عباسی قدس سرہٗ

محتسب عارفاں حاجی الحرمین مخدوم شیخ قوام الدین محمد بن ظہیر الدین عباسی کڑوی لکھنوی، حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی کے مریداور مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری کے اجل خلفا میں تھے۔ 

حضرت شیخ قوام الدین کومخدوم جہانیاں سیدجلال الدین بخاری اوردوسری جگہوں سے بھی تلقین ذکرحاصل تھی۔حضرت شیخ قطب الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ مصنف رسالہ مکیہ سے بھی تلقین ذکرحاصل تھی۔

فوائد سعدیہ میں ہے:

’’آپ قطب المشائخ خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کے مرید اور سید السادات مخدوم جہانیاں قدس سرہ کے خلیفہ تھے۔مرید وں کی تربیت میں اعلیٰ شان رکھتے تھے۔ کئی سال تک حضرت مخدوم جہانیاں کی صحبت میں رہے، حرمین شریفین زَادَهُمَا اللهُ شَرفًا وَ تَعظِیمًا کی زیارت سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے اکثر مشائخ زمانہ سے ملاقات کی۔ دمشق میں رسالہ مکیہ کے مصنف شیخ قطب الدین دمشقی سے تلقین ذکر حاصل کیا۔ آپ کومقام تجرید و تفرید میں کمال حاصل تھا۔‘

بزرگی و علوّ شان

علم ظاہر و باطن میں کامل و مکمِّل ہونے کے باوجود اکابر مشائخ کی صحبت و تربیت میں آپ نے خود کو سپرد کیا اور ریاضت و مجاہدہ سے وہ مقام حاصل کیا کہ ایک زمانے کے مرشد و ہادی ہوئے۔

خزانۂ جلالی میں آپ کاذکرِ خیر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ آپ نے اپنے پیر خلافت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے سلوک سے متعلق ایک سوال کیا ہے ، جس کے جواب میں تفصیلی مکتوب حضرت مخدوم جہانیاں نے آپ کو روانہ فرمایا ، وہ سوال اور مکتوب گرامی دونوں خزانۂ جلالی میں محفوظ ہیں۔ نیز حضرت مخدوم نے جو مثال (خلافت نامہ) بہ دست خود رقم فرما کر آپ کو عطا کی تھی، وہ بھی اس میں منقول ہے، مخدوم جہانیاں نے اس مثال شریف کو ۲۴؍ رجب ۷۶۸ھ بروز جمعہ [۲۷؍ مارچ ۱۳۶۷ء] کو قلمبند فرمایا ہے۔

مریدین و سالکین کی تربیت میں آپ درجۂ کمال پر فائز تھے۔ آپ کو قطب العالم مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی نے ’’رئیس درویشان و محستبِ عارفان‘‘ ، ’’سلطان العارفین‘‘ اور ’’ برہان السالکین‘‘ جیسے القاب سے یاد فرمایا ہے۔

تواضع

شاہِ ولایت اودھ حضرت مخدوم شاہ مینا لکھنوی فرماتے ہیں:

قطب العالم مخدوم شیخ قوام الدین ایک روز سماع سن رہے تھے اورخزینۂ معرفت کے معانی کی گہرائی میں کھوئے ہوئے تھے۔ حاضرین میں سے ایک پرگریہ طاری تھا، جس سےاس کی شکستہ دلی اور شکستہ حالی ظاہرہورہی تھی۔ حضرت مخدوم نے جو رئیس درویشاں اور محتسب عارفاں تھے،اس شخص کاحال دریافت کیاکہ اے عزیز! اس حال سے تم نے کیاسمجھا اورتم پر یہ حال کیوں ظاہرہوا؟اس بے چارے نے جواب دیا: اے شیخ محترم!صوفیہ کے حال ومقام کی مجھے ذرہ برابر خبرنہیں،میں خود کو صاحبان حال میں شمار نہیںکرتا،لیکن میرے دل میں ایک خطرہ گزرااوراسی پر میری آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے کہ مولیٰ! تو پاک ہے،ہمارے وجود سے پیشتر ایسی کیا بات ہوئی کہ تونے مجھے عاصیوں اور گنہگاروں کی صف میں شامل کردیا اور حضرت مخدوم کے وجود سے پہلے ایسی کیا بات ہوئی کہ ان کوعارف کامل بنایااورتخت معرفت پر جلوہ افروز کردیا؟ حضرت مخدوم جوابھی تک سکون واطمینان کی حالت میں تھے، اس بات کو سنتے ہی آپ کے ذوق وشوق میں اضافہ ہوگیا، آپ نے اس بے چارے سے بڑی شفقت کا مظاہرہ کیا،بغل گیر ہوکر زاروقطار رونے لگے اور باربار اپنی زبان مبارک سے فرمانے لگے کہ حقیقی ذوق تجھ کوحاصل ہوا ہے کسی اور کو نہیں اور قوام الدین کو تیرے صدقے میں ذوق حاصل ہواہے اور دیر تک اس آیت کریمہ کی تکرار کرتے رہے: وَمَاكُنَّالِنَهْتَدِيَ لَوْلَا اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ (الاعراف:۴۳) (اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ دیتاتوہرگز ہمیں ہدایت نہ ملتی۔) اس کی وجہ سے حاضرین مجلس پر بھی بڑی کیفیت طاری رہی۔ ‘‘

تلامذہ و مریدین

آپ کے مریدین و متوسلین کی بڑی تعداد تھی، جن میں سلطان العارفین مخدوم شیخ سارنگ کا نام نامی علمی و روحانی اعتبار سے نہایت بلند ہے۔

تصانیف

آپ نے تصوف و سلوک پر قابل قدر تصنیفات یادگار چھوڑیں، ان میں سے تین کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے:

(۱) ارشاد المریدین (۲) اساس الطریقۃ (۳) معیار التصوف (عربی)

آپ کے اشعار بھی عرفان و تصوف کے اعلیٰ ترجمان ہیں۔ وارث الانبیاء والمرسلین مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی نے اپنی تصنیف لطیف مجمع السلوک والفوائد میں آپ کی کتب سے بہت سے اقتباسات بطور سند پیش کیے ہیں، نیز بیشتر مقامات پر آپ کے اشعار بھی درج کیے ہیں۔

تعلیمات وارشادات

ذیل میں آپ کے چند ارشادات مجمع السلوک سے نقل کیے جاتے ہیں: آپ اپنی کتاب معیار التصوف میں لکھتے ہیں:

’’قَالَ الفَقِیْرُ العَبَّاسِیُّ: الذِّکْرُ سَبَبُ الوُصُوْلِ وَتَصْفِیَةُ القُلُوْبِ، فَلَا یَجُوْزُ لِلسَّالِکِ المُسَاکَنَةُ مَعَه، وَقَالَ الحَسَنُ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ تَنْظِیْفُ السِّرِّ عَنِ الآلِهَةِ، وَإِذَا خَلَا السِّرُّ عَنْ تَعْظِیْمِ غَیْرِه فَلَا وَجْهَ لِهٰذَا القَوْلِ، وَقَالَ الفَقِیْرُ العَبَّاسِیُّ: سَمِعْتُ مِنَ الشَّیْخِ العَالِمِ العَارِفِ مُحَمَّدِ بنِ الفَرهِی- السَّاکِنِ فِی بَیْتِ المَقْدِسِ -أَنْشَدَ هٰذَیْنِ البَیْتَیْنِ -رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا-:

بِذِکْرِ اللهِ تَنشَرِحُ القُلُوْبُ

وَ تَنْکَشِفُ السَّرَائِرُ وَ الْغُیُوْب

وَتَرْکُ الذِّکْرِ أَفْضَلُ مِنْهُ حَالًا

فَشَمْسُ الذَّاتِ لَیْسَ لَهَا غُرُوْب

وَسَألْتُ أَیْضًا مِنْ شَیْخِ العَالَمِ بَقِیَّةِ السَّلَفِ قُطُبِ الحَقِّ وَالشَّرْعِ وَالدِّیْنِ الدِّمَشْقِی- مُؤَلِّفِ الرِّسَالَةِ المَکِّیَّةِ- حِیْنَ لَقَّنَنِی کَلِمَةَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ بَیَّنَ کَیْفِیَّةَ النَّفْیِ وَالإِثْبَاتِ، فَقُلْتُ:  یَا سَیِّدِي وَبَرَکَتِی! إِذَا لَمْ یَبْقَ فِی قَلْبِ السَّالِکِ وُجُوْدُ الغَیْرِ فَمَا یَنْبَغِی بَعْدَه؟ فَأَجَابَ الشَّیْخُ ـ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ وَأَدَامَ بَرَکَتَه عَلَی العَالَمِیْنَ ـ : مَا دَامَ وُجُوْدُ السَّالِکِ بَاقٍ لَا بُدَّ لَه مِنَ النَّفْیِ لِمَن اعْتَبَرَ الوُجُوْدَ حَتّٰی تَزُوْلَ اثْنَیْنِیَّتُه.

وَالجَوَابُ الثَّانِی: لَا بُدَّ لِلسَّالِکِ مِنَ النَّفْیِ، لِأَنَّ نَفْیَ الوُجُوْدِ فِی مَحَلِّ الجَمْعِ، وَأَمَّا فِی التَّفْرِقَةِ فَإِثْبَاتُ الوُجُوْدِ، بَلْ إِثْبَاتُ وُجُوْدِ جَمِیْعِ المَوْجُوْدَاتِ، لِأَنَّ النَّظَرَ إِلَی المُکَوِّنِ جَمْعٌ، وَالکَوْنِ تَفْرِقَةٌ، فَلَا بُدَّ أَنْ یَنْفِیَ المَوْجُوْدَاتِ وَیَدْخُلَ فِی فَرَادِیْسِ الجَمْعِ، حَتّٰی یَصِیْرَ مُسْتَهْلِکاً فِی الجَمْعِ، وَهٰذا المَقَامُ عَزِیْزٌ لَا یَصِلُ إِلَیْهِ إِلَّا أَفْرَادُ المُوَحِّدِیْنَ العَارِفِیْنَ، لِأَنَّ الجَمْعَ وَالتَّفْرِقَةَ یَتَنَافَیَانِ، إِلَّا أَنَّ المَشَایِخَ المُسْلِکِیْنَ نَظَرُهُمْ إِلَی الجَمْعِ أَکْثَرُ وَبَرَکَتُهُمْ فِی العَالَمِیْنَ أَوْفَرُ. اللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِن مُحِبِّیْهِمْ وَلَا تَحْرَمْنَا مِن بَرَکَاتِ أَنْفَاسِهِم بِحُرْمَةِ النَّبِیِّ وَآله الأَمْجَادِ.

(ترجمہ) فقیرعباسی کہتاہے : ذکر،وصال حق کاسبب اورقلوب کی صفائی کا ذریعہ ہے، اس لیے سالک کوکسی بھی حال میں ذکر سے باز رہنا جائز نہیں ہے۔ حضرت حسن کا ارشادہے : لاإلٰہ إلااللہتمام معبودوں کی آلائش سے سِرکی نظافت کاذریعہ ہے اور جب سرّمیں غیرکی تعظیم موجود ہی نہ ہو تو اس قول کوکہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ فقیر عباسی کہتاہے کہ میں نے عارف حق آگاہ حضرت محمدبن الفرہی ساکن بیت المقدس کویہ دواشعار گنگناتے ہوئےسنا:

بِذِکْرِ اللهِ تَنشَرِحُ القُلُوْبُ

وَ تَنْکَشِفُ السَّرَائِرُ وَ الْغُیُوْب

وَتَرْکُ الذِّکْرِ أَفْضَلُ مِنْهُ حَالًا

فَشَمْسُ الذَّاتِ لَیْسَ لَهَا غُرُوْب

(اللہ کی یادسےہی دل معمور ہوتے ہیں،اسی سے اسرارورموز منکشف ہوتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ ترک ذکراس سے افضل حال ہے، کیوں کہ ذات حق کے آفتاب کے لیے کبھی غروب نہیں ہے۔) شیخ العالم، بقیۃ السلف، قطب الحق

والشرع حضرت شیخ قطب الدین دمشقی مؤلف رسالہ مکیہ نے جب مجھ کوکلمہ لاإلٰہ إلااللہ  کی تلقین فرمائی اور نفی واثبات کی کیفیت بیان کی، تومیں نے ان سے عرض کیا: میرے سردار، باعث برکات! جب سالک کے قلب میں غیر کاوجود باقی نہ رہ جائے تواب وہ کس کی نفی کرے گا؟

اس پر شیخ رضی اللہ عنہ- اللہ ان کی برکتوں کوسارے جہان پر قائم ودائم رکھے- نے جواب دیاکہ جب تک سالک کاوجودباقی ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ جس جس وجود کاقائل ہے اس کی نفی کرتارہے،یہاں تک کہ دوئی زائل ہو جائے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ سالک کے لیے نفی ضروری ہے ،اس لیے کہ مقام جمع میں وجود کی نفی ہوتی ہےاورمقام تفرقہ میںوجود کااثبات ہوتاہے،بلکہ تمام موجودات کے وجود کااثبات ہوتاہے۔ خالق کائنات کی جانب نظر کرنا مقام جمع ہےاورکائنات کی طرف نظرکرنامقام تفرقہ ۔اس لیے ضروری ہے کہ سالک موجودات کی نفی کرے اور جمع کے باغات میں داخل ہوجائے، یہاںتک کہ اسی مقام میںفناہوجائے۔یہ مقام کم لوگوں کوحاصل ہوتا ہے۔ اس مقام تک اصحاب توحید و معرفت ہی پہنچتے ہیں۔ جمع اورتفرقہ دونوں متضاد حالتیں ہیں، البتہ سلوک طے کرانے والے مشائخ کی نظر عام طور پر جمع کی طرف ہوتی ہے اورکائنات ان سے خوب فیض یاب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے محبین میں شامل فرمادے اور نبی کریم ﷺ اور ان کی آل امجاد کے طفیل، ہمیں ان کے انفاس کی برکات سے محروم نہ فرمائے۔

ارشاد فرمایا: خلوت، طاعت کا وہ سمندرہے کہ مردان خدا کے سینے میں چھپے حقیقت کے موتی اس سمندر کے علاوہ کہیں اورظاہرنہیں ہوتے؛ لیکن اس کے لیے سیدنا رسول اللہ ﷺ تک سلسلے کا اتصال اور بقدر ضرورت علم شریعت لازم ہے۔

ارشاد فرمایا: درویشی کی کسوٹی اور اس کامعیار کتاب و سنت اور قابل اقتدا اسلاف کی سیرتیں ہیں، صرف اجازتوں کا ہونا اور متبرک مقام پرہونا کافی نہیں کہ فلاں شخص فلاں بزرگ کا فرزند ہے اور فلاں اپنے آبا و اجداد کا جانشین ہے، اگر وہ اس مقام کے لائق نہ ہوتا تو اس کو جانشینی کا شرف حاصل نہ ہوتا! یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ انسان کا شرف اوراس کی بزرگی زمان ومکان سے نہیں، بلکہ تقویٰ سے ہے۔

ارشاد فرمایا: ولی کی تین قسمیں ہیں:

۱۔وہ ولایت جومحض ایمان سے حاصل ہوتی ہے،جس میں عمل صالح سے آراستگی، حرام چیزوں اورگناہوں سے اجتناب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﯚاَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاﯙ (البقرۃ:۲۵۷)اللہ تعالیٰ ایمان والوں کاولی ہے۔ یہ ولایت کفرکی عداوت سے نکالنے والی اورحق تعالیٰ کی محبت عطاکرنے والی ہے۔

۲۔ دوسرا درجہ وہ ہے جومسلسل اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگاہو ، اس میں گناہوں کا خلل نہ ہو،یہ عام ولی کی علامت ہے،ان کو علم شریعت یا اصطلاحی زبان میں عالم باللہ کہتے ہیں اوراس معنی کے علاوہ دوسرے معنی پر اس کا اطلاق نہیں کرتے۔ جو ایسے نہیں ہیںان کوفاسق اورظالم کہتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسے لوگوں کاحکم یہ ہے کہ اگروہ چاہے توان کوعذاب دے اور چاہے توبخش دے۔

۳۔ ولایت کاتیسرادرجہ جو نبوت کے بعدہوتاہے،وہ اجتبا،اختصاص اور اصطفا والی ولایت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﯚيَجْتَبِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُﯙ (الشوریٰ:۱۳) (اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنی راہ کی ہدایت دیتاہے۔) اس ولایت میں بندے کاباطن کائنات کے ملاحظے سے پاک ہوجاتا ہے اور ایسا شخص سراپا طاعت وبندگی اور بے گناہ بن جاتا ہے۔

ذکر جہری اور سری

حاجی الحرمین مخدوم شیخ قوام الدین عباسی لکھنوی ذکر خفی کو ترجیح دیتے تھے، جب کہ آپ کے پیر تربیت و خلافت مخدوم جہانیان جہاں گشت اور آپ کے مرید وتربیت یافتہ مخدوم شیخ سارنگ اور ان کے مرید و خلیفہ مخدوم شاہ مینا ذکر جہری کو ترجیح دیتے تھے۔

وصال

آپ کا وصال ۲۰؍ شعبان ۸۰۶ھ / ۱۴۰۴ء میں ہوا۔( )مزار مبارک لکھنؤ میں میڈیکل کالج کے کیمپس میں ہے۔

روضۂ شریفہ

افضل العلما قاضی محمد ارتضا علی صفوی گوپاموی (۱۲۷۰ھ) رقم طراز ہیں:

’’ آپ کا وطن عزیز دہلی ہے، شیخ مبارک بجنوری سے قلبی تعلق کی بناپر لکھنؤ آکر مقیم ہو گئے ، بعض مریدوں نے وہاں آپ کےلیے خانقاہ اور گھر تعمیر کیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر شریف پر گنبد بنوایا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد تیرہویں صدی ہجر ی کے اوائل میں وہاں کے حاکم نے آپ کے روضہ و خانقاہ کو منہدم کر کے اس جگہ پر اپنا گھر بنالیا۔اس وجہ سے آپ کا مرقد مبارک دیوان خانے کے چبوترے کے نیچے آ گیا ،اس جگہ کے معماروں نے چبوترے کے پاس نشان متعین کر دیا ہے، آج اس ظالم بد طینت کے گھرپر خاندانی ریاست کی بقاکے باوجود الو اور کوے بول رہے ہیں اوراس کا وہ گھر تاریکیوں میں ڈوبا ہواہے۔

ایک معتبرشخص سے میں (قاضی ارتضا علی صفوی)نے سنا ہے کہ اس زمانے میں ایک شخص رات میں آپ کے روضہ مبارک کے قریب سویا کرتاتھا۔جب وہ صبح کو اٹھ کر وضو کر کے مصلےپر بیٹھاتو کیا دیکھتاہے کہ آسمان سے نورانی شکل والے چار لوگ آئے، روضے کا دروازہ کھولا، اندر داخل ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد ایک نعش کو ایک تابوت پر رکھ کر چاروں طرف سے اٹھا کرآسمان کی طرف لے گئے، اسی دن آپ کا روضہ مبارک منہدم ہوا۔ ‘ ‘

 
Ad Image