برہان العاشقین حاجی الحرمین مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہٗ نامور شرفاے عصر میں سے تھے اور فیروز شاہ تغلق کے امرا میں نہایت ممتازاور بلند عہدے پر فائز تھے۔ آپ کی بہن سلطان محمد بن فیروز شاہ کے عقد میں تھیں، اس قرابت کی بنا پر بھی دربارِ سلطانی میں آپ کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ سبع سنابل میں تحریر ہے: ’’دوازدہ ہزار سوار چاکرِ ایشان بود۔ فہمے و فراستے وکیاستے زائد الوصف داشتند۔‘‘(۱۲؍ ہزار سوار آپ کے ماتحت تھے۔ آپ بے حد فہم وفراست اور سوجھ بوجھ والے تھے۔ )
سارنگ پور نام کا شہر آپ ہی کا آباد کیا ہوا ہے۔ آپ کو ملک سارنگ کہا جاتا تھا۔ جس زمانے میں حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الحق بخاری اور آپ کے برادرِ خرد حضرت مخدوم سید صدر الدین ابوالفضل راجوقتال دلی تشریف لائے تو بادشاہ کی طرف سے آپ خدمت پرمامور ہوئے۔ ان بزرگوں کی صحبت نے جذبۂ اطاعت الٰہی اور حبّ حقیقی کاشعلہ بھڑکادیا۔ کچھ عرصے بعد آپ حضرت حاجی الحرمین قوام الدین عباسی کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ پھر تارک الدنیا ہوکر حرمین شریفین کا قصد کیا اور ایک زمانے تک مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ میں مقیم رہے اور ریاضت و مجاہدہ میں زندگی گزاری، اس کے بعد بارگاہ نبوی سے اجازت پا کر ہندوستان واپس تشریف لائے اور قصبہ ایرچ میں حضرت مخدوم شیخ یوسف ایرچی کی بارگاہ میں حاضرہوکر کتبِ سلوک کا درس لیا اور تلقین ذکر و اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔
حضرت مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی مجمع السلوک میں رقم طراز ہیں:
’’سلطان العارفین شیخ سارنگ قدس سرہ کونسبتِ ارادت حضرت مخدوم شاہ قوام الدین عباسی لکھنوی سے اور خلافت حضرت مخدوم سید راجو قتال بخاری سے حاصل تھی۔ آپ ہمیشہ ان دونوں بزرگوں کے اقوال وافعال کی پیروی کرتے اوران کی پیروی سے ذرہ برابر تجاوزنہیں کرتے ۔‘‘
حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہٗ مختلف مشائخ سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت قدس سرہٗ (وصال: ۷۸۵ھ) سے شرف ملاقات حاصل تھا۔ زمانۂ امارت میں ہی حاجی الحرمین مخدوم قوام الدین لکھنوی سے مرید ہوئے اور تلقینِ ذکر حاصل کیا، جس کی برکتوں سے عنایاتِ الٰہی آ پہنچیں اور آپ نے تمام دولت و حشمت کو یکبارگی ترک کر دیا اور اہل وعیال کے ساتھ حرمین شریفین کا سفر کیا۔ بعد میں حضرت مخدوم سید صدرالدین ابوالفضل محمد راجو قتال قدس سرہٗ سے اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔
حضرت مخدوم جہانیاں جلال الحق بخاری قدس سرہٗ کومختلف سلاسل میں اجازت و خلافت تھی۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت مخدوم سیدابوالفضل صدر الدین محمد راجوقتال، حاجی الحرمین قوام الدین بن ظہیر الدین عباسی لکھنوی اورحضرت سید یوسف ایرچی کو ان تمام سلاسل کی اجازت عطا فرمائی۔ ان تمامی سلاسل کی اجازت و خلافت حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہ کے واسطے سےسلسلہ مینائیہ صفویہ میں آج بھی مروّج ہے۔
خلفاء
آپ نے صرف دو حضرات کو خلافت دی: مخدوم شاہ مینا لکھنوی اور مخدوم شیخ حسام الدین صوفی
صاحب بحر زخار آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حضرت مخدوم شیخ سارنگ مرید و خلیفہ مخدوم قوام الدین است ،شانی عظیم و کراماتی بزرگ و خوارق اکثر داشت ۔در مقام ترک و تجرید در وقت خود نظیر ی نداشت۔‘‘
ترجمہ: حضرت مخدوم شیخ سارنگ ،حضرت مخدوم شیخ قوام الدین کے مرید و خلیفہ تھے ،عظیم شان رکھتے تھے اور بہت سی خوارق عادات بڑی کرامتوں کے حامل تھے ۔ترک و تجرید میں اپنے زمانے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
واضح رہے کہ حضرت مخدوم شیخ سارنگ کو بیعت ارادت حضرت حاجی الحرمین شیخ قوام الدین سے تھی، البتہ اجازت و خلافت مخدوم سید صدر الدین راجو قتال بخاری سے حاصل تھی۔ جیسا کہ مجمع اسلوک کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں بیان ہوا۔
وصال
آپ نے ۱۲۰؍ سال کی عمر میں ۱۶؍ یا ۱۷؍ شوال ۸۵۵ ھ مطابق ۱۱؍ نومبر ۱۴۵۱ء کو سفرِ آخرت فرمایا۔ لکھنؤ سے تقریباً ۴۰؍ کیلو میٹر دور مجھگواں شریف ضلع بارہ بنکی میں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔
Leave your comment