Donate Now
قطب الاقطاب حضرت مخدوم شاہ صفی قد س سرہ

قطب الاقطاب حضرت مخدوم شاہ صفی قد س سرہ

صفی پورضلع اناؤ کاقدیم ترین قصبہ ہے،جوانائو سے ۲۷؍کلومیٹر جانب مغرب واقع ہے اوراناؤ شمالی ہندکے کثیرآبادی والے صوبہ اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے جانب جنوب ۶۴؍کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے۔ اس قصبہ کاپرانانام ’’سائیں پور‘‘ تھا۔

آٹھویں صدی ہجری میں ایک درویش کامل حضرت مولانا شیخ اکرم عثمانی سہروردی قدس سرہ (م ۷۹۵ھ/ ۱۳۹۳ء) یہاں تشریف لا ئے، جن کی کاوشوں سے اس خطے میں شمعِ توحید روشن ہوئی۔ آپ کی تیسری پشت میں مخدوم شاہ صفی قدس سرہٗ کی ولادت ہوتی ہے، جن کے نامِ نامی سے موسوم ہوکر یہ قصبہ سائیں پور سے صفی پور ہوگیا۔ مخدوم صاحب کی ولادت نویں صدی کے آخری رُبع تقریباً ۸۸۰ھ / ۱۴۷۵ء میں ہوئی۔ 

خاندانی پس منظر

آپ کا نام نامی  عبدالصمد اور عرفیت صفی ہے۔ والد ماجد مولانا شیخ عَلَم الدین بن شیخ زین الاسلام عثمانی کا شمار اُس عہد کے نامور مشائخ میں ہوتا تھا۔ آپ کے آباء واجداد ظاہری وباطنی خوبیوں کے جامع اورفقرودرویشی کے امین تھے اور طریقۃً سہروردی نسبت کے حامل بزرگ تھے۔ مولانا شیخ علم الدین کو اپنے والدبزرگوار حضرت شیخ زین الاسلام قدس سرہ سے اجازت و خلافت تھی جن کو اپنے والد ماجد حضرت مولانا شیخ اکرم سہروردی قدس سرہٗ (۷۹۵ھ / ۱۳۹۳ء) سے اجازت و خلافت تھی اور انہیں روحانی نعمت اپنے والد مولانا شیخ علی قدس سرہٗ سے حاصل ہوئی۔ ( )

نسب

آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ سوم امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ دستیاب اسما درج ذیل ہیں: حضرت مخدوم شیخ عبدالصمد عرف شاہ صفی بن مولانا شیخ علم الدین بن شیخ زین الاسلام بن شیخ اکرم بن شیخ علی بن شیخ نور بن شیخ عبد اللہ قدَّس الله أسرارهم۔( )مکمل شجرہ راقم کودست یاب نہ ہوسکا۔

تعلیم وتربیت 

  ابتدائی تعلیم والد ماجد مولانا شیخ علم الدین قدس سرہ کے زیر سایہ صفی پور میں ہی ہوئی۔ ۱۲ - ۱۳ سال کی عمر میں خیرآباد تشریف لے گئے اور وارثُ الانبیاء والمرسلین مخدوم شیخ سعد الدین خیر آبادی قدس سرہ (م: ۹۲۲ھ /۱۵۱۶ء)کے مدرسے میں حاضر ہوئے اور حصول تعلیم میں مصروف ہو گئے ۔ ایک روز قطب العالم مخدوم شیخ سعد قدس سرہٗ کی نظر آپ پر پڑی تو آپ کو بلایا اور نام پوچھا۔ آپ نے ’’عبد الصمد عرف صفی بن مولانا علم الدین‘‘ بتایا تو سکونت دریافت کی۔ آپ نے ’’سائیں پور‘‘ بتایا۔ حضرت قطب العالم آپ کے والد ماجد مولانا علم الدین سے واقف تھے۔فرمایا کہ اب سے تم ہمارے پاس پڑھا کرو، کسی اور کے پاس مت پڑھو۔ہم خود تمھیںتعلیم دیں گے۔ اس دن سے آپ حضر ت مخدوم کی خدمت میں حاضر رہنے لگے اور ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ کچھ روز بعدحضرت مخدوم نے فرمایا کہ تم باورچی خانے میں مت کھایا کرو، ہمارے ساتھ کھایا کرو۔ حضرت قطب العالم روزہ رکھا کرتے تھے، اکثر فاقہ کشی کرتےاور دوسرے تیسرے روز کھانا تناول فرماتے۔ چنانچہ حضرت مخدوم شاہ صفی بھی آپ کے ساتھ کھانا کھانے لگے اوربھوک پیاس کی سختی برداشت کرنے لگے۔اس طرح آپ نے اپنے استاذ گرامی اور پیر و مرشد کی خدمت واطاعت میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں کی۔ ( )

بیعت و اجازت

آپ نے قطب العالم حضرت مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی کے دست مبارک پر بیعت کی اور آپ ہی سے ۹۱۶ھ میں خرقۂ خلافت پہنا۔( )سبع سنابل میں رقم ہے: 

’’چون حضرت مخدوم شیخ سعد، مخدوم شیخ صفی را در اربعین نشاندند، سیومی روز فتح باب شد و علویات و سفلیات ہمہ مکشوف گشت، و بہ مقامات عالیات مردمان ترقی حاصل شد۔ وچون ایشان را جامۂ خلافت عنایت فرمودند بر جملۂ خلفاے مخدوم سبقت گرفتندو بہ مقام وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ  رسیدند۔‘‘( ) 

ترجمہ: جب حضرت مخدوم شیخ سعد نے مخدوم شاہ صفی کو چلے میں بیٹھایا تو تیسرے روز ہی فتحِ باب ہوگیا اور تمام علویات و سفلیات آپ پر منکشف ہو گئے اور آپ کاملین کے درجے میں پہنچ گئے۔ اور جب حضرت مخدوم شیخ سعد نے آپ کو جامۂ خلافت سے نوازا تو آپ تمام ما سبق خلفا پر سبقت لے گئے اور مقامِ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ( ) پر فائز ہو گئے۔

مقبولیت

آپ اپنے پیرو مرشد کی بارگاہ میں بہت مقبول تھے۔ بارگاہ شیخ میں آپ کی مقبولیت و محبوبیت کے بہت سے واقعات کتابوں میں درج ہیں۔ بڑے صاحب جلال تھے، جس پر نظر پڑجاتی وہ دیر تک بے خود رہتا۔ 

تواضع

انکسار و عاجزی کا یہ حال تھا کہ حضرت مخدوم شیخ سعد کی خانقاہ میں ’’صفیا‘‘نامی ایک غلام تھا، جب کوئی اسے آواز دیتا تو آپ جواب دے دیتے اوریہ خیال نہ فرماتے کہ آپ کو اس طرح کون پکارے گا! ( )

اطاعت مرشد

ایک مرتبہ حضرت مخدوم شیخ سعد نے آدھی رات کو آپ سے فرمایا کہ اس وقت مولی کہیں سے مل سکتی ہے؟ آپ نے اس وقت یہ نہیں عرض کیا کہ آدھی رات کا وقت ہے اور مولی کی فصل بھی نہیں ہے! بلکہ فوراً عرض گذار ہوئے کہ جا کر تلاش کرتا ہوں۔ آپ آدھی رات کو خیر آباد کی ایک ایک گلی گھومتے رہے اور ایک محلے سے دوسرے محلے میں جاتے مگر کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں تھا اور نہ کوئی بیدار تھا کہ دریافت کریں، آخر تھک گئے اور ایک جگہ پر بیٹھ کر رونے لگے۔ ایک شخص کی آنکھ کھل گئی، اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی درد مند رو رہا ہے خبرلینی چاہیے۔وہ شخص گھر سے باہر نکلا اور پوچھا کون ہو اور کیوں رو رہے ہو؟ آپ نے بتایا: مجھ کومولی درکار ہے۔ اس نے کہا کہ مولی کی فصل نہیں ہے! اس گفتگو میں دو تین آدمی اور جمع ہوئے۔ ایک عورت نے کہا کہ میں نے فلاں کے گھر میں مولی لگی ہوئی دیکھی ہے۔ سب مل کر اس شخص کے دروازے پر گئے اور اہل خانہ کو بیدار کر کے ماجرا بتایا، چنانچہ صاحب خانہ دو مولیاں لے آیا، لوگوں نے پانی سے صاف کر کے آپ کو دیں۔ آپ اپنے پیرو مرشد مخدوم شیخ سعد کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت مخدوم شیخ سعد نے آپ سے فرمایا: تم سے ہر دشوار کام اور ہر مشکل مہم ان شاء اللہ آسان ہو جائے گی۔( )

تجرد

اپنے پیرومرشد کی طرح آپ بھی مجرد و غیر شادی شدہ رہے۔ اس حوالے سے صاحب عین الولایت ایک حکایت نقل کرتے ہیںکہ ایک روز آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر کمر بند باندھ رہے تھے، اسی دوران حضرت مخدوم شیخ سعد نے آپ کو آواز دی، آپ نے جواب دیا۔ پیرومرشد نے دریافت کیا کہ کیا کر رہے ہو؟ آپ نے عرض کیا کہ کمر بند باندھ رہا ہوں۔ فرمایا: مضبوط باندھنا۔ آپ نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ قیامت تک نہ کھلے گا۔ چنانچہ عمر بھر آپ مجرد رہے۔

 دوسری طرح اس کرامت کا ظہور یوں ہوا کہ جب آپ نے رحلت فرمائی تو کمر بندکی گرہ نہیں کھلی، اسے چاقو سے کاٹاگیا۔ وہ خرقۂ متبرکہ مع کمر بند مخدومی حضرت عین اللہ شاہ عرف شاہ خلیل احمد صفی پوری (۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) کی خانقاہ کے تبرکات میں موجود ہے، وہ گرہ ویسی ہی لگی ہوئی ہے۔ 

اسی طرح آپ نے رحلت فرماتے وقت ایک کاغذی لیموں چوسا تھا اس کا چھلکا بھی اسی خرقۂ متبرکہ کے ساتھ وہیں موجود ہے۔ اس سال (۱۴۴۲ھ) تک ۴۹۷؍ برس گذر گئے ہیں لیکن آج تک یہ دونوں تبرکات بجنسہ رکھے ہوئے ہیں۔ لیموں اب کسی قدر سیاہ ہو گیا ہے اور اس پر چاقو کا خط مثلث شکل کا ویساہی بنا ہوا ہے۔ راقم (حسن سعید صفوی) نے حضرت شاہ خلیل میاں کے آستانۂ شریفہ پر ان تبرکات کی زیارت کی ہے۔ حضرت شاہ محمد عزیز اللہ صفی پوری فرماتے ہیں: 

’’سنا جاتاہے کہ ایک بار کوئی عالم کہیں سے آئے تھے، انہوںنے کہا کہ یہ سب واہیات بے اصل ہے، ہم اس گرہ کو کھول دیں گے! جس وقت خرقۂ متبرکہ کی زیارت کو گئے اور چاہا کہ گرہ کھولنے کے واسطے ہاتھ بڑھاویں دونوں ہاتھ خشک ہو گئے، لا محالہ بجز توبہ کے کچھ نہ بن پڑی، یہ مضمون پیش آیا ؎

در پاش فتادہ ام بہ زاری 

آیا بود آن کہ دست گیرد ‘‘( )

 

[ان کے قدموں پر عاجزی کے ساتھ پڑا ہوں، کاش کہ میری دستگیری فرمائیں]

استغناء

حضرت مخدوم صاحب نے کسی بادشاہ، امیر یا وزیر سے کوئی جاگیر قبول نہیں کی۔( ) بادشاہِ وقت ہمایوں (۱۵۰۸ - ۱۵۵۶ء) آپ کی زیارت کے قصد سے روانہ ہوا، لیکن آپ نے اپنی ہمت و توجہ سے اسے خدمت میں حاضر ہونے سے باز رکھا۔ حضرت شاہ محمد عزیز اللہ صفی پوری نے اس واقعے کی جو تفصیل درج کی ہے، وہ حسب ذیل ہے: 

ہمایوں بادشاہ جب لکھنؤ پہنچا تو وہاں آپ کا شہرہ سن کر ملاقات کا خواہش مند ہوا۔ آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا: ’’ گدھے نے ماری لات، ہمایوں جائے پڑا گجرات!‘‘ جب وہ لکھنؤ سے لوٹنے لگا تو صفی پور کے پاس اس کی آنکھ لگ گئی۔ ملازمین ادب کی وجہ سے بیدار نہ کرسکے ، چنانچہ شاہی سواری صفی پور کے پاس سے گزر گئی۔ جب فتح پور چوراسی پہنچا تو بیدار ہوا۔ معلوم ہوا کہ صفی پور پیچھے رہ گیا۔ اسی وقت گجرات سے کوئی بری خبر آپہنچی، لا چار وہاں کا قصد کیا اور کہا کہ شاید حضرت شاہ صفی کو میرا آنا منظور نہیں ہوا۔

پھر دو بہت خوبرو نوجوان کنیزیں زیورات سے آراستہ مع نذر ، وزیر کےہمراہ روانہ کیں کہ یہ دونوں آپ کی خدمت کے لیےحاضر ہیں۔جس وقت وزیرآپ کی خدمت میں پہنچا اس وقت آپ وضو کر رہے تھے۔آپ نے ان دونوں کنیزوں کو ایسی پُر تاثیر نگاہ سے دیکھا کہ ان دونوں نےاسی وقت لاالہ الا اللہ کہہ کر شاہی پوشاک اور زیور کو اتار کر اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا اور تنگ پائچوں کا پائجامہ اور زانو تک پیرہن اور دو پٹہ اوڑھ کرایک پانی بھرنے لگی اور دوسری جھاڑو دینے کی خدمت میں مصروف ہو گئی۔

 جب وزیر رخصت ہونے لگا تب آپ نے نذر کو واپس کیا اور تھوڑے سے تنکے مصلے کے اس کو دیے۔ اس نے جا کر ہمایوں کو پیش کیا۔ہمایوں نے کہا: گجرات میں ہماری فتح ہوگی اور چھاؤنی بنے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 

دونوں کنیزیں عمر بھر خانقاہ شریف میں اپنی اپنی خدمتیں انجام دیتی رہیں۔ ان دونوں کی قبریں درگاہ شریف میں موجود ہیں۔( )

اناؤ ڈسٹرکٹ گزٹ میں اس واقعہ کی تاریخ ۱۵۳۴ء مذکور ہے۔ 

The king of Delhi is said to have come to visit him in 1534 A.D.  

ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ دہلی کا بادشاہ ۱۵۳۴ء (۹۴۰ھ) میں آپ کی زیارت کے لیے آیا تھا۔( )

سماع 

 مخدوم صاحب اپنے پیرانِ طریقت کی طرح ہی صاحبِ سماع تھے۔ البتہ مجالسِ سماع میں کوئی نا اہل شخص نظر آتا تو آپ وجد وکیف کا اظہار نہ فرماتے۔ ایسے ہی قوالوں کو سماع سننے کی غرض سے بھی نہ طلب فرماتے، کوئی از خود حاضر ہوتا اور سماع و نغمہ سناتا تو انکار نہ فرماتے۔

 آپ کے دست گرفتہ حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی سماع کے سلسلے میں آپ کا عمل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’حضرت پیر دستگیر مخدوم شاہ صفی -قَدَّسَ اللہُ رُوحَہٗ- ایسی مجلس کہ جس میں کوئی شخص صرف سماع و رقص کو دیکھنے کے لیے آیا ہوتا اس میںآپ وجد و رقص نہ فرماتے اور بالکل جنبش نہ کرتے۔ نیز سماع کے لیے قوالوں کو خاص طور سے طلب نہ فرماتے۔ ایسے ہی اگرچہ صاحبانِ وجد صوفیہ خانقاہ میں حاضر ہوتے اور قوال بھی موجود ہوتا پھر بھی مشائخ کے عرس کے لیے خاص سماع کی محفل کا انعقاد نہ کرتے۔

 اور اگر کہیں سے قوال توبہ وبیعت کے لیے یا قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتے اور نغمہ سناتے اور اس وقت اگر کسی صوفی پر وجد وکیف طاری ہوتا یا خود آپ کو رقت ہوتی اور حظ حاصل ہوتا، اس وقت مجلسِ سماع و نغمہ منعقد ہوتی اور اس کا خصوصیت کے ساتھ انکار بھی نہ فرماتے، کیوں کہ وقت کی پہچان اور علم معرفت کے دقائق سے آشنائی صاحبانِ بصیرت کے ساتھ خاص ہے۔ جو علم و عمل ان حضرات کو حاصل ہے اُس کو یہی لوگ بہتر جانتے ہیں۔‘ ( )

 مناجات

آپ نے کسی خاص وقت میں ایک مناجات کی، جو اپنی اثرانگیزی کی بنا پر بزرگوں کے یہاں بطور وظیفہ معمول رہی ہے۔ ہم اُسے تبرکاً یہاں نقل کرتے ہیں: 

الٰہی من ضعیفِ درماندہ را

و من نحیفِ درہا راندہ را

 

الٰہی من عاجزِ دربدر گشتہ را

و من شکستہ دل خاطر خستہ را

 

الٰہی من گنہگارِ بد افعال را

و من خاکسارِ بد اعمال را

 

الٰہی من مطیعِ فرمانِ شیطان را

و من استادِ مکتبِ عاصیان را

 

الٰہی من تائبِ ناتمام را

و من عہد شکنِ خودکام را

 

الٰہی من زنّار دارِ بُت پرست را

و من مدہوشِ سیہ مست را

 

الٰہی من سیاہ روی و سیاہ نامہ را

و من منافقِ تباہ کامہ را

 

الٰہی من مرائی خرقہ پوش را

و من گندم نماے جو فروش را

 

الٰہی بہ فضل عمیم خود و بہ لطفِ قدیمِ خود از نفسِ امّارہ خلاصی دہ، و از کیدِ خشمِ بدکام مناصی دہ، الٰہی توبۂ نصوح کرامت کن کہ طاقتِ عدلِ تو ندارم، الٰہی بہ حرمتِ آن وقتے کہ تو بودی و کسے نبود، و تو خواہی ماند و کسے نخواہد ماند بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن. ( )

ترجمہ: الٰہی ! مجھ کمزور و ناتواں کو اور دردر کے دھتکارے ہوئے کو

الٰہی! مجھ عاجز اور در بدر پھرے ہوئے کو ، مجھ شکستہ دل اور خستہ خاطر کو

الٰہی! مجھ گنہگار ، بد افعال کو اور مجھ خاکسار بد اعمال کو

الٰہی! مجھ شیطان کے فرماں بردار کو اور مجھ گنہگاروں کے مکتب کے استاد کو

الٰہی! مجھ ناقص توبہ کرنے والے کو اور مجھ خود غرض عہد شکن کو

الٰہی! مجھ زنّار دار بت پرست کو اور مجھ مدہوش سیہ مست کو

الٰہی! مجھ سیاہ رو، سیاہ کار کو ، اور مجھ منافقِ تباہ کار کو

الٰہی ! مجھ ریاکار خرقہ پوش کو اور مجھ گندم نماے جَو فروش کو 

الٰہی! اپنے فضلِ عمیم و لطفِ قدیم سے نفسِ امارہ سے نجات عطا فرما اور بدخواہ دشمن کے فریب سے پناہ عطا فرما۔ الٰہی! توبۂ نصوح سے نواز۔ مولیٰ! میں تیرے عدل کی طاقت نہیں رکھتا ۔ الٰہی! اُس وقت کی حرمت کے طفیل جب تو تھا اور کوئی نہ تھا اور تو رہے گا اور کوئی نہ رہے گا، اپنی رحمتِ کاملہ کے صدقے، اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! 

وردِ سیفی

’’صفی سعد مینا- مینا سعد صفی ‘‘آپ کے خاندان کی نہایت قوی الاثر اور سریع التاثیر سیفی ہے۔ جو اس خانوادے کے مشائخ طالبین کو تعلیم فرماتے ہیں۔ 

تعلیمات وارشادات 

ارشاد فرمایا:  اولیا کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے خوش خوئی، خوش گوئی اور تازہ روئی سے پیش آنے والے ہوتے ہیں، شگفتہ پیشانی ہوتے ہیں، انکار نہیں کرتے اور عذر قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ ( )

ارشاد فرمایا: فقیری مرنے کی راہ ہے، لوگ جینے کی تدبیر کر کے اس راہ میں قدم رکھتے ہیں، اور اکثر فقیری کو ذریعۂ معاش جانتے ہیں، اور خلقِ خدا کے رجوع پر فریفتہ ہوتے ہیں۔( )

’’ کوئی شیخ فاضل دانشمند، کسی بادشاہ کے یہاں گئے، لیکن دربان نے باہر ہی روک دیا تو انہوں نے یہ شعر پڑھا: 

سرورا! سرہنگ را فرمان بدہ

دستِ دربان بشکند یا پاے من

 

(بادشاہ سلامت! اعلیٰ افسر کو حکم دیجیے کہ یا تو پہرے دار کا ہاتھ توڑے یا میرے پاؤں توڑ دے۔ )

حضرت مخدوم شیخ صفی قدس اللہ سرہ نے اس شعر کے مصرع ثانی میں ایک نادر تصرف فرمایا ع  

’’دستِ دربان نشکند جز پاے من‘‘

(دربان کا ہاتھ نہ توڑے، میرا ہی پاؤں توڑ دے۔) ( )

ایسے ہی حضرت مخدوم صاحب نے مشہور مقولہ ’’ پیرِ ما خس است، اعتقادِ ما بس است‘‘ میں یہ لطیف نکتہ پیدا فرمایا: ’’پیرِ ما بس است، اعتقادِ ما خس است‘‘۔ (یعنی ہمارا پیر کافی ہے، ہمارا اعتقاد ہی بے حیثیت ہے۔) ( )

کمال، اتباعِ شرع میں ہے!

مخدوم شیخ حسین سکندرآبادی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ پیر دستگیر حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اللہ سرہ کی خانقاہ میں ایک درویش آیا جو رات دن طاعت و عبادت میں مشغول رہا کرتا تھا، کبھی ذکر و فکر میں لگا رہتا اور کبھی اوراد اور تلاوت قرآن میں مصروف رہتا، ایک لمحہ بھی خود کو بے کار نہیں رکھتا تھا اور گھڑی بھر بھی زمین پر نہ لیٹتا۔ وہ میری نظروں میں بھا گیا۔

 ایک روز میں نے اس کے حال کی تعریف پیر ومرشد کی بارگاہ میں کی، آپ نے فرمایا: لَیْسَ بِشَیْءٍ  (کوئی چیز نہیں ہے!)

 جب میں نے ایک عرصے تک اسی حال میں اُسے دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ شاید اب کسی مقام پر پہنچ گیا ہو! چنانچہ میں نے پھر سے پیرو مرشد کی بارگاہ میں اس کی تعریف کی، آپ نے دوبارہ فرمایا: لَیْسَ بِشَیْءٍ! میں اُس کے احوال کی تفتیش میں لگ گیا۔ ایک روز ماہِ رمضان میں عصر کی نماز ادا کرکے وہ ایک گوشے میں گیا اور میں چھپ کر اسے دیکھتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ازاربند کی گرہ کھولی اور اس میں سے افیون (افیم) نکالی اور منھ میں ڈال کر نگل گیا۔ اس کے بعد مجلس شریف میں حاضر ہو گیا۔ اس وقت مجھ پر منکشف ہوا کہ وہ کچھ نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کم نصیب نے رمضان کےاپنے سارے روزے اسی طرح ضائع کیے بلکہ سب رمضانوں کے روزے اسی طرح خراب کرتا رہا ہے؛ کیوں کہ وہ افیمچی تھا اور ایسے اکثر افیمچی اور خشخاشی ( )زندیق وبے دین ہوتے ہیں جنہیں خود اپنی بے دینی کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ الا ما شاء اللہ! ( )

ہمنامی سے شبہہ

حضرت مخدوم صاحب کے ایک خلیفہ مخدوم سید مبارک بن حسین سنڈیلوی قدس سرہٗ( )کےمرید و خلیفہ سید صفی حسینی انبالوی تھے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: 

سید صفی مردے بود از انبالہ، بہ اوصافِ درویشان موصوف وبہ احوالِ ایشان متحقق ودر لباسِ ستر و اخفا مستور، مریدِ شیخ مبارک سندیلہ بود. 

ترجمہ: سید صفی انبالہ کے رہنے والے ایک مرد تھے۔ درویشوں کے اوصاف سے موصوف اور ان کے احوال سے متّصف۔ اخفا و پوشیدگی کے لباس میں چھپے ہوئے تھے۔ شیخ مبارک سنڈیلوی کے مرید تھے۔( )

آپ پر جذب و سکر کی کیفیت تھی، چوںکہ لباسِ ستر و خفا میں رہتے، لہٰذا ان کے بارے میں معلومات کم فراہم ہیں، جب کہ مخدوم صاحب مشہورِ زمانہ ہیں۔ اس کے سبب بعض تذکرہ نویسوں کو ان کی بعض باتوں پر مخدوم صاحب کا شبہہ ہوااور انہوں نے مخدوم صاحب کے ملفوظات کے ضمن میں ان کی باتوں کو درج کردیا۔ 

مؤرخِ سلسلۂ صفویہ حضرت شاہ محمد عزیز اللہ صفی پوری لکھتے ہیں: 

’فائدہ: سید مبارک سنڈیلوی، مخدوم شیخ سعد کے مرید ہیں اور مخدوم شاہ صفی کے خلیفہ ہیں۔ ان کے ایک مرید کا نام سید صفی ہے اور وہ بھی درویش تھے، انبالہ ان کا وطن ہے، چوںکہ مخدوم شاہ صفی شہرۂ آفاق ہیں اور وہ اس قدر مشہور نہ تھے مگر اسی خاندان کے فقیر تھے، لا محالہ اکثر لوگوں کو بعضے اُن کی باتوں میں آپ کا دھوکہ ہوتا ہے۔ فرقِ مراتب سے سمجھ لینا چاہیے۔‘ ( )

بحر زخار میں مخدوم شاہ صفی کے تذکرے میں اقتباس الانوار کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا: 

(۱) مردم اللہ را جویند ونمی یابند، مرا چرا نمی جویند کہ اللہ و رسول ومرا یکجا یابند، یافتنِ من کافیست، اگر مرا یابند ہمہ را یابند، اگر مرا نیابند ہیچ نیابند، یافتنِ من یافتِ کل است وفقدانِ من فقدانِ کل.

(۲) من در اوّلِ سلوک بہ مقامے رسیدم بر سرِ ہر قبر کہ می رسیدم اہلِ آن قبر زندہ شد سرگشتِ خود بیان می کرد ، اگر معذّب بودے بہ مقدور اورا از عذاب خلاص می خواستم، واگر در جنت بودے اورا بہ رویت [و] مشاہدہ موافقِ استعدادِ وے می رساندم، واگر قابلی شہودِ ذاتی داشتے بہ آن واصل می ساختم. ( )

ترجمہ: (۱) لوگ اللہ کو ڈھونڈتے ہیں اور نہیں پاتے، مجھے کیوں نہیں ڈھونڈتے کہ اللہ اور رسول اور مجھ کو ایک ساتھ پا لیتے۔ مجھ کو پا لینا کافی ہے۔ اگر مجھ کو پالیں گے تو سب کو پا لیں گے ، اگر مجھ کو نہیں پائیں گے تو کچھ نہیں پائیں گے۔ مجھ کو پا لینا سب کو پا لینا ہے اور مجھ کو کھو دینا سب کو کھو دینا ۔ 

(۲) میں ابتداے سلوک میں ایسے مقام پر پہنچا کہ جس قبر کے پاس پہنچتا، صاحبِ قبرزندہ ہو کر اپنا حال خود ہی مجھ سے بیان کرتا۔ اگر وہ عذاب میں مبتلا ہوتا تو میں اپنی کوشش سے اس کو عذاب سے چھٹکارا دلا دیتا اور اگر راحت و سکون میں ہوتا تو اس کو اس کی استعداد کے مطابق مقام رویت و مشاہدہ تک پہنچا دیتا۔ اور اگر اس کے اندر مشاہدۂ ذات کی لیاقت ہوتی تو اس مقام تک اس کی رسائی کرا دیتا۔ 

اقتباس الانوار میں درج یہ دونوں ملفوظ اپنے مخصوص انداز بیان سے اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ سید صفی حسینی انبالوی کے ہیں اور ان کا انتساب مخدوم شاہ صفی کی طرف درست نہیں ہے۔ 

مؤرخین کی نظر میں 

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی نے اخبار الاخیار میں آپ کے پیر و مرشد مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہ کے ذکر خیر میں مختصراً آپ کا تذکرہ کیا ہے:

’’و او را مریدان بسیار اند چنانچہ شیخ صفی بزرگ بود وصاحب ذوق و حالت و بر قدم پیر حصورو مجرد زیست ۔ ‘‘( )

ترجمہ: شیخ سعد خیرآبادی قدس سرہ کے بہت سے مریدین ہیں ،چنانچہ حضرت شیخ صفی صاحبِ ذوق و حال بزرگ تھےاور اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر مجرد و غیر شادی شدہ رہے۔

شیخ عبد الرحمٰن چشتی (۱۰۹۴ھ / ۱۶۸۳ء) اپنے مشہور و معروف تذکرۂ صوفیہ ’مرآۃ الاسرار‘ میں رقم طراز ہیں: 

حضرت مخدوم شیخ صفی ساکن قصبۂ سائی پور بزرگترین خلفاے شیخ سعد قدس سرہ است، در سیر سلوک بسیار ترقی کردہ بود، مشربِ عشق و سماع بر حالِ او غلبہ داشت، چنانچہ اثرِ آن ظاہر است۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ ( )

ترجمہ: حضرت مخدوم شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ ساکن قصبۂ سائی پور شیخ سعد قدس سرہٗ کے بزرگ ترین خلفا میں سے ہیں۔ سیر سلوک میں آپ نے بہت ترقی فرمائی تھی۔ مشربِ عشق و سماع کا آپ پر غلبہ تھا، جس کے آثار نمایاں ہیں۔

’’مآثرالکرام‘‘ میں علامہ سید غلام علی آزادبلگرامی نے، مخدوم شاہ صفی قدس سرہٗ کاذکراِس طرح تحریر فرمایا ہے:

’’شیخ صفی الدین عبدالصمد بن شیخ علم الدین سائی پوری قدس سرہ ازکمل اولیاء واکابر خلفاے شیخ سعدالدین خیرآبادی است۔ قدس سرہٗ‘‘( )

ترجمہ:شیخ صفی الدین عبد الصمد بن شیخ علم الدین سائی پوری قدس سرہ اولیائے کاملین اور شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہ کے اکابر خلفا میں ہیں۔( )

ملا وجیہ الدین اشرف لکھنوی بحر زخار میں لکھتے ہیں: 

’’احوال آن جام جہان نمای عین القین [الیقین]، آن ساغر لبریز بر بادۂ حق القین [الیقین]، آن گلدستہ گلزار خاندان چشت، آن مقبول دودمان اہل بہشت، آن ناظر انوار اسرار بچشم مخمور،قطب الاقطاب مخدوم شیخ صفی الدین ساکن صفی پور ،مرید و خلیفہ باستحقاق شیخ سعد خیرآبادیست۔از اعظم اولیا و اکبر مشائخ، مرجع اقاصی و ادانی بودہ،در کشف حقایق و تربیت طالبان شانے عظیم داشت کہ بہ اندک توجہ ساکنان عالم سفلی را بہ مقام علوی می رسانید۔‘‘ ( )

ترجمہ: عین الیقین کے جام جہاں نما ،بادہ حق الیقین کے ساغر لبریز ،گلدستۂ گلزار خاندانِ چشت،مقبول خاندان اہل بہشت ،مخمور نگاہوں سے انوارِ اسرار کا مشاہدہ فرمانے والے ،قطب الاقطاب مخدوم شیخ صفی الدین صفی پوری، شیخ سعد الدین خیرآبادی کے لائق و فائق مرید و خلیفہ ہیں،عظیم اولیا اور کبار مشائخ میں سے ہیں، دور و نزدیک کےباشندوں کے لیے مرجع ہیں، حقائق کے کشف اور طالبین کی تربیت میں اس قدر اعلی مقام رکھتے تھے کہ تھوڑی سی توجہ سے پستی میں رہنے والوں کو بلندی تک پہنچا دیتے ۔ 

افضل العلماء قاضی محمد ارتضا علی عمری گوپاموی (۱۲۷۰ھ) آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 

’’صدر نشینِ مسندِ ہدایت، جامعِ خصائصِ ولایت، اخترِ برجِ کرامت... 

جنیدِ زمان شبلی روزگار ؛ بہ مُلکِ حقیقت شہِ نامدار... شیخ المشایخ، قطب العرفاء الواصلین، غوث الاسلام والمسلمین پیر دستگیر شاہ عبد الصمد الصفی بن شیخ علم الدین قدَّس الله تعالیٰ ذاته و أفاض علینا برکاته ...‘‘ ( )

مولاناحکیم سید عبدالحی رائے بریلوی(۱۳۴۱ھ) لکھتے ہیں:

’’ الشيخ الأجل عبد الصمد بن علم الدين بن زين الإسلام العثماني الشيخ صفي الدين السائنبوري، أحد كبار المشايخ الجشتية، ولد ونشأ بسائين بور قرية اشتهرت بعد ذلك بصفي بور نسبة إليه.كان مفرط الذکاء، جیّد القریحة، سلیم الذهن ، سافر للعلم إلی خیرآباد ودخل فی مدرسة العلامة سعد الدین الخیرآبادی،  وجدّ فی البحث والاشتغال ثم بالأذکار والأشغال ، حتی نال حظّا وافرا من العلم والمعرفة ولبس من الشیخ المذکور الخرقة، وصار من أکابر المشایخ فی حیاة شیخه. أخذ عنه خلقٌ کثیرٌ من العلماء والمشایخ، منهم الشیخ نظام الدین الرضوی الخیرآبادی والشیخ فضل الله الجونپوری وغیرهما، وکان سائر الذکر بعید الصیت، أشهر العارفین قدرا و ذکرا، تذکر له کشوف وکرامات۔مات لاثنتي عشرة بقين من محرم سنة ثلاث وثلاثين وتسعمائة، وقبره مشهور ظاهر في صفي بور. ( )

ترجمہ: شیخ بزرگ عبد الصمد بن علم الدین بن زین الاسلام عثمانی (معروف بہ) شیخ صفی الدین سائیں پوری، اکابر مشائخ چشت میں سے ہیں۔ آپ کی ولادت و نشو نما سائیں پور میں ہوئی، سائیں پور ایک گاؤں ہے جو بعد میں آپ کی طرف منسوب ہوکر صفی پور ہو گیا۔ آپ انتہائی ذہین،خوش طبع اورزیرک و ذہین تھے۔ حصول علم کے لیے خیرآباد کا سفر کیااور علامہ سعد الدین خیرآبادی کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ پہلے بحث ومباحثے میں اورپھرذکرواذکارمیں خوب محنت کی ،یہاں تک کہ علم و معرفت سے خوب خوب حصہ پایا۔شیخ مذکورسے اجازت وخلافت بھی حاصل ہوئی اور ان کی حیات ہی میں اکابر مشائخ میں شمارہونے لگے۔شیخ نظام الدین رضوی خیرآبادی اور شیخ فضل اللہ جونپوری وغیرہ بہت سے علماومشائخ نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ آپ بے پناہ مقبول تھے اور آپ کی شہرت دوردور تک پھیلی ہوئی تھی۔ شہرت ومنزلت ہر لحاظ سے عظیم ترین عارفین میں سے تھے۔ آپ کی طرف بہت سی کشف وکرامات منسوب ہیں۔ آپ کی وفات ۱۸؍ محرم ۹۳۳ھ میں ہوئی۔ آپ کی تربت صفی پور میں ظاہر و مشہور ہے۔ 

وصال

حضرت مخدوم کا وصال شب دوشنبہ ۱۹؍ محرم الحرام ۹۴۵ھ / ۱۷؍ جون ۱۵۳۸ء میں ہوا۔ ( ) بعض تذکروں میں ۱۸؍ محرم بھی تاریخ ملتی ہے، ۱۹ ؍ محرم مشہور ہے اور اسی کے مطابق آپ کے خلیفہ شیخ ابو الفتح آسیونی کی تحریر ہے (جو آئندہ صفحات میں درج ہے) نیز اسی تاریخ میں آپ کا عرس مبارک بھی ہوتا ہے۔ 

سن وصال کی تحقیق 

آپ کا سن وصال بعض تذکرہ نگاروں نے ۹۳۳ھ لکھاہے، میر غلام علی آزاد بلگرامی (۱۲۰۰ھ) ’مآثر الکرام‘ میں تحریرکرتے ہیں: 

’’وفات شیخ صفی نوزدہم ماہ محرم ۹۳۳ھ‘‘۔( )

(شاہ صفی کی وفات ۱۹ محرم ۹۳۳ھ کو ہوئی۔)

’فوائدسعدیہ‘ میں قاضی ارتضا علی صفوی (۱۲۷۰ھ) تحریرکرتے ہیں:

’وفاتش ہژدہم محرم الحرام سنہ نہصدوسی وسہ ہجری، ومزارمبارکش درسائی پور زیارتگاہ خلائق است۔ بر مرقدِ شریفش آنقدر ہیبت و جلال است کہ حینِ زیارت در بدن رعشہ می افتد۔‘(آپ کی وفات ۱۸ محرم الحرام ۹۳۳ھ کو ہوئی۔ آپ کا مزار مبارک سائی پور میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ آپ کی مرقدِ شریف پر ایسی ہیبت اور ایسا جلال ہے کہ زیارت کے وقت جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔( )

میر آزاد بلگرامی نے مآثرالکرام میں میر عبدالواحد بلگرامی کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے تاریخ وصال ’’شیخ پاک‘‘کہی ہے۔ شیخ پاک کاعدد ۹۳۳ ہی نکلتا ہے۔ لیکن سلسلۂ صفویہ کی عظیم علمی شخصیت حضرت شاہ محمد عزیزاللہ صفی پوری عین الولایت میں تحریر فرماتے ہیں:

’’وفات شریف سنہ نو سو پینتالیس (۹۴۵ھ)میں واقع ہوئی۔ چنانچہ جب آپ نے حضرت شیخ ابوالفتح آسیونی کو خلیفہ کیاہے تب مثال اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کرمرحمت فرمائی ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے :’’کتبہٗ صفی بن عَلَم ۹۴۴ھ أربع وأربعین وتسعمأۃ۔‘‘ اور اسی مثال کے حاشیہ پرحضرت شیخ ابو الفتح نے آپ کے اسم مبارک کے پاس اپنے ہاتھ سے لکھاہے کہ آپ کی وفات دوشنبہ کی رات کو محرم کی انیسویں تاریخ سنہ نو سو پینتالیس (۹۴۵ھ) میں واقع ہوئی۔ 

یہ مثال حضرت امیراللہ شاہ صاحب کے پاس موجودہے اوراس پرآپ کی مہربھی لگی ہوئی ہے۔ اس کا نقش یہ ہے: ’’عبد الملک العلام صفی علم بن زین الاسلام‘‘ اور مہرگولی ہے۔ اسی کے موافق جناب ماموں صاحب قبلہ مولوی حکیم ہدایت اللہ مرحوم خیر آباد سے خواہ کہیںاورسے حضرت شیخ پیارہ آپ کے خلیفہ کے مثال پران کا لکھا ہوادیکھ آئے تھے۔ اسی حساب سے ’’شیخ پاک بود‘‘اور’’مخدوم صفی زاہد ولی بود‘‘  دونوں تاریخیں قدیم سے چلی آتی ہیں۔ جو لوگ ’’بود‘‘کوان دونوں میں سے نابودکرتے ہیں،محض بےسودکرتے ہیں۔ ‘‘( )

ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت میر عبدالواحدبلگرامی نے تاریخِ وفات ’’ شیخ پاک بود‘‘ (۹۴۵) کہی ہے، مگر ناقلین سے لفظ ـ’’بود‘‘ (۱۲) سہواً رہ گیا، جس سے تاریخ میں غلطی در آئی۔ 

قطعۂ تاریخ 

 حضرت مخدومی شاہ محمد عزیز اللہ عزیز رحمہٗ اللہنے حسب ذیل تاریخ کہی ہے:

شاہ صفی حضرتِ عبد الصمد

رفت بہ جنت ز سہ پنجی سراے

 

مصرع تاریخ نوشتم عزیزؔ

مردِ خدا بود و ولی ہاے ہاے

 

ترجمہ: شاہ صفی حضرت مخدوم عبد الصمد اس دنیاے فانی سے جنت میں تشریف لے گئے۔ عزیز ـ!میں نے مصرعہ تاریخ لکھا: مردِ خدا بود و ولی ہاے ہاے(۹۴۵ھ) آپ مرد خدا ولی تھے۔ 

قطعۂ دیگر

عاشق پاکباز شاہِ صفی

آنکہ او بود مست جام الست

 

آنکہ مانند او بہ زہد وصلاح

صانع باکمال نقش نبست

 

آنکہ باکیف عشق و حالت سعد

بود ہر دم زِ جامِ مینا مست

 

عارفے کز کمالِ استغنا

از دو عالم بداشت یکسر دست

 

بہ غناے وجود باقی شد

تاکہ از بند انتقال برست

 

ہست را کمترک زِ نیست شمرد

نیست دانست ہرچہ بودہ وہست

 

ناگہانی بہ امتثالِ قضا

رخت چوں از سراے فانی بست

 

شور و فریاد از جہاں برخاست

ہمہ عالم بہ ماتمش بنشست

 

اشک حسرت زِ چشم ہا بچکید

آتش غم زِ سینہ ہا برجست

 

اے ولایت خرد ز رحلت اُو

بہر تاریخ سال فکرت بست

 

گفت ناگہ سروش در گوشش

با علی شاہِ اولیا پیوست

 

ترجمہ:شاہ صفی عاشق پاک باز ،وہ صفی جو جام الست سے مست تھے ۔

وہ صفی کہ ان کے جیسے زاہد و صالح کا نقشہ صانع باکمال نے نہیں کھینچا۔

وہ صفی جو کہ کیف عشق و سعادت میں ہر لمحہ جام مینا سے مست تھے۔

ایسے عارف کہ اپنے کمال استغنا کی وجہ سےدونوں عالم سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ 

وہ موجود باقی ذات کے ساتھ باقی ہوگئے تاکہ فنا کی زنجیر سے آزاد ہوجائیں۔ 

انہوں نے اس فانی وجود کو عدم سے بھی کمتر جانا اور اس کائنات کو معدوم سمجھا ۔

قضا و قدر کی اطاعت کرتے ہوئے اچانک انہوں نے جب سرائے فانی سے رخت سفر باندھا ۔تو دنیا سے آہ و نالہ بلند ہوااور سارا عالم ماتم کناں ہوگیا ۔ 

آنکھوں سے حسرت و افسوس کے آنسوں ٹپکنے لگے اور سینوں سے غم و اندوہ کی آگ نکلنے لگی۔ اےولایت!ان کے وصال پر سال تاریخ کی تخریج کے لیے عقل نے فکر کے تانے بانے بنے۔ تو کان میں ہاتف غیبی نے کہا: ’’با علی شاہ اولیا پیوست‘‘ (۹۴۵ھ) شاہِ اولیا حضرت علی کرَّم الله وجهه سے آپ جا ملے۔

سلاسل طریقت

سلسلۂ عالیہ چشتیہ

حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اللہ سرہٗ(۱۹؍محرم ۹۴۵ھ)

حضرت مخدو م شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہٗ(۱۶؍ربیع الاول ۹۲۲ھ) 

حضرت شیخ محمدمعروف بہ مخدوم شاہ میناقدس اللہ سرہٗ(۲۳؍صفر۸۸۴ھ)

حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہٗ(۱۷؍شوال ۸۵۵ھ)

حضرت مخدوم صدر الدین محمد راجو قتال قدس اللہ سرہٗ(۱۶؍جمادیٰ الثانی ۸۲۷ھ)

حضرت مخدوم جہانیاں سیدجلال الدین بخاری قدس اللہ سرہٗ (۱۰؍ذی الحجہ ۷۸۵ھ)

حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی قدس اللہ سرہٗ(۱۸؍رمضان۷۵۷ھ)

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی قدس اللہ سرہٗ(۱۸؍ربیع الثانی ۷۲۵ھ)

حضرت باباخواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر قدس اللہ سرہٗ(۵؍محرم۶۶۴ھ)

حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی اوشی قدس اللہ سرہٗ(۱۴؍ربیع الاول ۶۳۳ھ)

حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری قدس اللہ سرہٗ (۶؍رجب۶۳۲ھ) تا آخر

سلسلۂ عالیہ قادریہ

حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اﷲسرہٗ

حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اﷲسرہٗ

حضرت شیخ محمدبن قطب معروف بہ مخدوم شاہ میناقدس اللہ سرہٗ

 حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم سیدابوالفضل محمدراجوقتال قدس اللہ سرہٗ 

حضرت مخدوم جہانیاںسیدجلال الحق بخاری قدس اللہ  سرہٗ

حضرت شیخ محمدبن عبید غیثی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ شمس الدین عبید بن فاضل غیثی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابو المکارم فاضل بن عبیدغیثی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوالغیث بن جمیل قد س اللہ سرہٗ

حضرت شیخ شمس الدین علی بن افلح حداد قد س اللہ سرہٗ

حضرت شیخ علی حداد قدس اللہ سرہٗ

حضرت محی الدین شیخ عبدالقادرجیلانی قدس اللہ سرہٗ(۱۷؍ربیع الآخر ۵۶۱ھ) تا آخر

سلسلۂ عالیہ سہروردیہ 

حضرت مخدوم شاہ صفی قد س اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ محمدبن قطب معروف بہ مخدوم شاہ مینا قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم سیدابوالفضل محمد راجوقتال قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم جہانیاںسیدجلال الحق بخاری قدس اللہ  سرہٗ

حضرت خواجہ کبیرالحق والدین احمد بخاری قدس اللہ سرہٗ(۷۵۹ھ)

حضرت جلال الدین میرسرخ بخاری قدس اللہ سرہٗ(۱۹؍ جمادی الاولیٰ ۶۹۰ھ)

حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی قدس اللہ سرہٗ(۷؍صفر۶۶۶ھ)

حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین عمرسہروردی قدس اللہ سرہٗ(یکم محرم ۶۳۲ھ)  تا آخر

شجرۂ تلقین ذکر

حضرت مخدوم شاہ صفی قد س اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ محمدبن قطب معروف بہ مخدوم شاہ مینا قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم شیخ یوسف ایرچی قدس اللہ سرہٗ

حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ  امام الدین محمد گازرونی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ امین الدین گازرونی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ اوحد الدین عبد اللہ بن مسعود بلیانی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ اصیل الدین شیرازی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ رکن الدین ابو الغنائم بن فضل بن ابو القاسم قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ قطب الدین بن ابو رشید احمد بن محمدابہری قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ضیاء الدین ابو النجیب عبد القاہر سہروردی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ احمد غزالی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوبکر نساج قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوالقاسم گرگانی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوعثمان مغربی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوعلی کاتب قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ ابوعلی رودباری قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ جنید بغدادی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ سری سقطی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ معروف کرخی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ داؤد طائی قدس اللہ سرہٗ

حضرت شیخ حبیب عجمی قدس اللہ سرہٗ

حضرت خواجہ حسن بصری قدس اللہ سرہٗ

حضرت امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ

سید الاوّلین والآخرین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

باکمال خلفا

میر سید طٰہ بن سید قطب الدین بلگرامی

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی فرماتے ہیں: 

’’بادشاہ بابر [۱۴۸۳ - ۱۵۳۰ء] کے عہد میں چند مغل پیر دستگیر مخدوم شاہ صفی - قَدَّسَ اللہُ سِرَّہٗ- سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے- دوران ملاقات سیادت کی صحت پر گفتگو ہونے لگی۔ مغلوں نے ہندوستان میں صحیح النسب سادات کے وجود کا انکار کیا اور کہا کہ یہاں کوئی سید نہیں ہے۔

 مخدوم صاحب نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔ کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں صحیح الاصل متقی و متدیّن زاہد و عابد سادات ہیں، جن کی سیادت کی علامت یہ ہے کہ ان کے بال آگ میں نہیں جلتے ۔

 مخدوم صاحب نے فرمایا: ہندوستان میں بھی ایسے سادات موجود ہیں۔

مغلوں کو مزید تعجب ہوا اور انہیں لگا کہ شیخ بڑا بول بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی ایک کو پیش کیجیے۔

 حضرت مخدوم نے اس فقیر کے چچا جن کا نام طاہر تھا اور سید طٰہ کہا جاتا تھا کو طلب فرمایا۔

 چوں کہ وہ سراپا طاہر تھے لہٰذا مخدوم صاحب نے ان کے کاکل کا ایک حصہ کاٹا اور آگ پر رکھ دیا۔ دیر تک آگ پر رکھنے کے بعد جب اٹھایا تو ایک ذرہ بھی اس میں نہیں جلا تھا اور ویسے کا ویسا ہی تھا۔

 مغلوں کو بڑی شرمندگی ہوئی۔کبھی وہ مخدوم صاحب کے پاؤں پڑتے اور کبھی سید طٰہ کے قدموں پر گرتے-‘‘( )

سید طٰہ بلگرامی قدس سرہٗ کا وصال پیر ومرشد کی حیات میں ہی ہو گیا تھا، ان کا مزار مبارک مخدوم صاحب کے روضے کےپائیں جانب واقع ہے۔ 

آپ کے تمام خلفا صاحبان کمال اور ذی علم حضرات تھے۔ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی فرماتے ہیں:

 ’’خلفاے حضرت مخدوم شیخ صفی ہمہ اہل علم بودند، وایشان ہیچ جاہلے را خلافت ندادند۔‘‘( )

حضرت مخدوم شاہ صفی قدس سرہ کے تمام خلفا عالم تھے۔ آپ نے کسی جاہل کو خلافت نہیں دی۔ 

عین الولایت میں مذکور خلفا کے اسما درج ذیل ہیں: 

(۱)حضرت بندگی شیخ مبارک جاجموی قدس اللہ سرہ(خواہرزادہ وسجادہ نشین)

(۲ )حضرت سیدنظام الدین عرف مخدوم الہدیہ خیرآبادی قدس سرہ 

(۳)حضرت شیخ فضل اللہ گجراتی قدس اللہ سرہ

(۴)حضرت شیخ حسین محمدسکندرآبادی قدس اللہ سرہ

(۵)حضرت شیخ مبارک سنڈیلوی قد س سرہٗ 

(۶)حضرت شیخ محمد مانو جگوری قدس سرہٗ 

(۷)حضرت شیخ اﷲدیہ جنولی قدس سرہٗ 

(۸)حضرت سیدحسن محمد اودھی قدس سرہٗ 

(۹)حضرت شیخ حاجی منڈھن آسیونی قدس سرہٗ 

(۱۰)حضرت شیخ جان سانڈھوی قدس سرہٗ 

(۱۱)حضرت میر ابراہیم بلگرامی قدس سرہٗ(والدماجد حضرت میر عبد الواحد بلگرامی)

(۱۲)حضرت میر طاہر عرف سید طٰہٰ بلگرامی قدس سرہٗ

(۱۳)حضرت شیخ پیارہ کنجوی قدس سرہٗ 

 (۱۴)حضرت شیخ ابوالفتح آسیونی قدس سرہٗ 

(۱۵)حضرت شیخ جانوکاکوروی قدس سرہٗ 

(۱۶)حضرت سیدجیو موہانی قدس سرہٗ 

(۱۷)حضرت شیخ عبدالغنی فتح پوری قدس سرہٗ 

(۱۸)حضرت شیخ کمال الدین پھول قدس سرہٗ 

اجراء سلسلۂ صفویہ

مخدوم صاحب کے خلفا میں چار حضرات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ان حضرات کےعلاوہ چند دیگر خلفا کے سلسلۂ ارادت کا بھی تذکرہ ملتا ہے مثلاً مخدوم سید مبارک سنڈیلوی وغیرہ۔ مگر اب تک وہ سلسلہ جاری ہو ، اس کی تفصیلات ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔حضرت شاہ محمدعزیزاﷲصفی پوری تحریرفرماتے ہیں:

’’آپ کے چار خلیفہ سے سلسلہ جاری ہے: 

(۱) بندگی شیخ مبارک سے، جو آپ کے بھانجے اورصاحب سجادہ ہیں۔

(۲) مخدوم الہدیہ خیرآبادی سے اوریہ سلسلہ حضرت شاہ قدرت اﷲقدس اﷲ سرہٗ کے واسطے سے یہاں[صفی پورمیں] موجود ہے۔

(۳) شیخ فضل اﷲگجراتی سے اوریہ سلسلہ بھی حضرت شاہ قطب عالم ( )کے واسطے سےیہاں [صفی پورمیں] موجودہے۔ 

(۴) حضرت شیخ حسین محمد سکندر آبادی سے، [سکندرآباد] جو دہلی کے پاس ہے۔ اوریہ سلسلہ حضرت میرعبدالواحدبلگرامی صاحبِ [سبع] سنابل کی اولاد میں شائع ہے، جو بلگرام اور مارہرہ  میں ہیں۔‘‘( )

 ان حضرات کے مختصر حالات بالترتیب یہاں درج کیے جاتے ہیں : 

(۱) مخدوم سید نظام الدین معروف بہ شیخ الہدیہ خیرآبادی (۹۹۳ھ)

(۲) مخدوم شیخ حسین سکندرآبادی (۹۷۵ھ)

(۳) مخدوم شیخ فضل اللہ گجراتی (۹۵۵ھ)

(۴) بندگی شیخ مبارک جاجموی (۹۵۶ھ) (خواہرزادہ و جانشین، آپ کے حالات سجادگان والے حصے میں مذکور ہیں۔) 

Ad Image