Donate Now
صاحبِ سر قل ہو اللہ حضرت شاہ عبدا لغفور محمدی قدس سرہ

صاحبِ سر قل ہو اللہ حضرت شاہ عبدا لغفور محمدی قدس سرہ

مجدد سلسلۂ صفویہ، قطب العالم مخدو م شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ کے عظیم الشان خلفا میں حضرت شاہ قل ہوا للہ محمدی معروف بہ قاضی عبدالغفور صفوی محبوب یزدانی قدس سرہٗ کا اسم گرامی بھی بہت ممتاز نظرآتا ہے ۔

آپ کے جد اعلیٰ قاضی عبد اللطیف کاکوروی رحمہ اللہ بادشاہ اکبر کے فرمان سے قصبہ کاکوری کی سکونت ترک کر کے قصبہ منڈیاؤں (لکھنؤ) کے عہدۂ قضا پر فائز ہوئے۔ قضا کا عہدہ نسلاً بعد نسلٍ آپ کے خاندان میں رہا ۔

یہ خانوادہ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہے۔آپ کے والد ماجد قاضی غلام حضرت بن قاضی غلام غوث رحمہما اللہ فقرا نواز ،ذی علم اور گوشہ نشین بزرگ تھے۔ لکھنؤ کے ایک بزرگ حضرت شاہ نعیم زماں قدس سرہٗ سے سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں بیعت تھے۔

ولادت با سعادت

حضرت واقفِ سرِّ قل ہو اللہ شاہ کی ولادت سے پہلے آپ کے والدین کی کئی اولاد بچپن ہی میں فوت ہوئیں۔ایک روز ایک مجذوب بزرگ منڈیاؤں میں وارد ہوئے اور آپ کے والد بزرگوار کے دولت کدے پر قیام پذیر ہوئے۔انھوںنے دورانِ قیام آپ کے والد ماجد سے فرمایا کہ اب تک جس قدر اولاد فوت ہوئیں ان کا غم نہ کریں۔اب اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی اولاد عطا فرمانے والاہے جو نہ صرف آپ کے خاندان بلکہ ایک عالم کو روشن کرے گا۔چنانچہ اس پیشین گوئی کے تھوڑے عرصے بعد ۱۲۳۵ھ/ ۱۸۱۹-۲۰ء میں آپ اس خاکدان گیتی پر تشریف لائے ۔ ولادت کے وقت ہی سے انوار سعادت نمایاں تھے اور پیشانی نورِ ولایت سے منور تھی۔عہدِ طفولیت میں ہی مردانِ خدا آپ کے روشن مستقبل اور اعلیٰ مقام ومرتبےپر فائز ہونے کی  بشارت دیتے۔

 ابتدائی حالات وتعلیم  

شرفا کی رسم کے مطابق ا بتدائی تعلیم گھر میں شروع ہوئی اور پھر مولوی اعظم علی کرسوی رحمہ اللہ (کرسی ضلع بارہ بنکی)جو منڈیاؤں میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے، کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ بچپن سے ہی والدین کی اطاعت و فرماںبرداری کے پابند اور کھیل کود اور لغو یات سے مکمل احتراز کرتے۔ لایعنی کاموں میں اپنے اوقات ہر گز ضائع نہ کرتے۔ 

اعلیٰ تعلیم کے لیے احباب کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لے گئے اور وہاں علومِ ظاہری کے حصول میں مشغول ہو گئے۔ 

لکھنؤ میں اس وقت حضرت شاہ نیاز بے نیاز بریلوی قدس سرہٗ کے مرید و خلیفہ حضرت شاہ شمس الحق قدس سرہٗ قیام پذیر تھے۔ ان کا طریقہ تھا کہ بالا خانے پر رہتے اور ہفتہ میں صرف جمعرات کو عام لوگوں سے ملاقات کرتے اور انہیں فیض یاب فرماتے۔لیکن حضرت اقدس بلاقیدِ یوم ووقت جب بھی تشریف لے جاتے فوراً سیڑھی لگوا کر بالا خانہ پر طلب فرما لیتے۔ 

لکھنؤ میں حصولِ تعلیم کے دوران ہی آپ کے والد ماجد کی وفات ہو گئی۔ چوں کہ آپ گھر میں سب سےبڑے تھے اس لیے والدماجد کے بعد امور خانہ داری کی ساری ذمہ داری آپ پر آپڑی ،لہٰذا سلسلۂ تعلیم منقطع ہو گیا۔ دورانِ تعلیم لکھنؤ میں ہی آپ نے درس دینا بھی شروع فرمادیا تھا ۔

بیعت 

 جیسا کہ ذکر ہواکہ آپ کے والد ماجد درویش صفت بزرگ تھے ۔آپ نے اپنے صاحبزادے کو یہ نصیحت فرمائی تھی: 

’’ جس فقیر کی صحبت میں ما سویٰ اللہ کا خیال سوخت ہو اور دل خود بخود اللہ اللہ کرنے لگے، وہ اللہ والا ہے، انھیں کو ولی اللہ کہا جاتاہے،انھیں کی صحبت، اطاعت اور محبت سے اللہ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

والد بزرگوار کی یہ نصیحت آپ کے قلب پر ایسی نقش ہوئی کہ ہمہ وقت یہی دھیان رہنے لگا اور خدا طلبی کا جذبہ دن بدن بڑھتا رہا ۔جس فقیر کو دیکھتے اس کی خدمت میں مؤدب حاضرہوتے اور خیال فرماتے کہ والد ماجد کی بتائی بات پیدا ہوئی کہ نہیں۔

۱۲۶۰ھ میں آپ کسی ضرورت سے قصبہ رسول آباد (بارہ بنکی) تشریف لے گئے۔ وہاںایک بزرگ حضرت شاہ نیاز حسین بانگرموی قدس سرہٗ(مرید وخلیفۂ حضرت مخدوم شاہ خادم صفی محمدی) کا ذکر سنا تو اُن کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ان کی خدمت میں خدا طلبی کا جذبہ اور بڑھ گیا ،چنانچہ اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہو نے لگے ۔ایک روز انھوں نےفرمایا کہ قاضی صاحب میں صفی پورشریف اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں حاضری کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہر ماہ گیا رہویں شب کو آپ فاتحہ و محفل کا انعقاد فرماتے ہیں جس میں برادرانِ طریقت حاضر ہوتے اور فیوض وبرکات حاصل کرتے ہیں۔

قدوۃ الکاملین مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہ کا اسم گرامی سن کر آپ کو بھی ملنے کا اشتیاق ہوااور شاہ صاحب موصوف کے ہمراہ چلنے کا قصد ظاہر فرمایا۔شاہ صاحب موصوف نے برضاو رغبت قبول فرمالیا۔

چنانچہ حسب وعدہ آپ ان کے ساتھ صفی پور شریف کے لیے سواری ہونے کے باوجود پاپیادہ روانہ ہوئے اور ان سے فرمایاکہ اولیاء اللہ کی خدمت میںسر کے بل جانا چاہیے ۔وہاں پہنچ کر حضرت قدوۃ العارفین مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ کے جمال جہاں آرا سے دیدہ ودل کو شاد کام کیا اور پہلی مجلس ہی میں بیعت کی درخواست کر دی جو شرف قبولیت سے مشرف ہوئی۔ دو روز قیام فرما کر ضرور ی تعلیمات حاصل کیں، پھر مرشدکی اجازت سے وطن واپس تشریف لے گئے اور ہمیشہ کے لیے پیرو مرشد کی تعلیم و تلقین کے مطابق مشغولیت اختیار کی۔

نکاح

ہر ماہ گیارہویں میں پیا دہ پا پیر ومرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور اکتساب فیض فرماتے۔ایک حاضری کے موقع پر پیرو مرشد نے آپ سے ارشاد فرمایا :

 ’’قاضی صاحب! اب آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور سنت ادا کرنی چاہیے ۔خاندان میں جو بزرگ ہوں ان سے کہیے کہ آپ کو نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘

چنانچہ آپ کی ہمشیرہ صاحبہ کی وساطت سے جناب خلیل الرحمن رحمہ اللہ رئیس کسمنڈی ، لکھنوکی دختر نیک اختر سے ۱۲۷۱ھ میں آپ کا عقد مسنون ہو گیا ۔

اجازت وخلافت

کچھ عرصےبعد پیر و مرشد نےآپ کو اپنی خدمت میں رکھ کر خاص تعلیمات ارشاد فرمائیں اور حقائق و معارف کی عقدہ کشائی فرمائی۔بزرگوں کی تصنیفات خاص طور سے حضرت مولاناشاہ نیاز احمد بریلوی قدس سرہٗ کے دیوان کا درس دیا۔

 بالآخر ۲۰؍محرم الحرام ۱۲۷۸ھ / ۱۸۶۱ء کو خلافت و اجازت سے نوازا اور تاج مبارک ،مصلیٰ اور تسبیح عطا فرماکر مقام ارشاد پر فائز فرمایا ۔

رشد و ہدایت

خلافت کے بعد آپ نے مکمل ترک دنیا کر دیا۔لکھنؤ کا قیام ترک فرماکر اپنے وطن منڈیاؤں (ضلع لکھنؤ) کی ایک قدیمی مسجد میں متوکل ہو کر قیام کیا ۔خاندانی جائداد بھائیوں میں تقسیم فرما دی اور خود متوکلانہ گوشہ نشین ہوکر شب وروز یادِالٰہی میں لگ گئے۔  

کچھ عرصے بعد پیر ومرشد نے رشد وہدایت کی خاطر بارہ بنکی میں آپ کا قیام مقرر فرمایا۔ بارہ بنکی کے محلہ رسول پور میں ایک غیرآباد مسجد میں آپ نے قیام فرمایا، جو بعد میں ’’مسجد قل ہوا للہ شاہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ آپ نے اس غیر معروف جگہ سے رشدو ہدایت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو سنہرے حروف میں ذکر کرنے کے قابل ہے ۔ گھر کے تمام افراد آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ برادران، صاحبزادگان اوردیگر عزیزو اقارب سب کامل و مکمل ہوئے ۔ 

ارشادات

ذیل میں چند ارشادات  بغرض استفادہ نقل کیے جاتے ہیں ۔ تفصیل کے لیے ’’تذکرۃ الاصفیا‘‘ (حصہ دوم) مؤلفہ محترم درویش نجف علیمی رحمہ اللہ( ۱۳۴۹- ۱۴۳۱ھ/ ۱۹۳۰-۲۰۱۰ء) کی طرف رجوع کریں۔

ے ذمائم (بری عادتوں ) کو ترک کرو اور حمائد(اچھی عادتوں) کو اختیار کرو۔

ے اپنے اوقات کو فضولیات میں ضائع نہ کرنا چاہیے ۔ ہر وہ فکر و عمل فضول ہے جس کا آخرت میں کوئی فائدہ متصور نہ ہو۔ وقت ایک انمول سرمایہ ہے اسے خرچ کر کے آخرت کی زادِ راہ جمع کرنی چاہیے ۔

ے اللہ تعالیٰ اپنی معرفت و عبادت کے سوا کچھ نہ پوچھےگا۔پھر ایسے کام سے غافل رہنا جس کی جواب دہی کرنی ہے کہاں کی عقل مندی ہے ؟

ے پیرو مرشد کو جو کچھ کرتے دیکھے اس کو اختیار نہ کرے بلکہ جو حکم ہواُس پر عمل کرے۔

ےجولوگ محفل سماع میں اہل وجد کے اٹھنے بیٹھنے پراُن کی موافقت کرتے ہیں وہ صالحین میں شمار ہوتے ہیں۔

ےباطنی مشغولی کو سب پر مقدم رکھناچاہیے، اس میں ایسی محویت ہو کہ سب کچھ فراموش ہوجائے۔

ےجن لوگوں کو نصیحت تلخ (کڑوی) معلوم ہوتی ہے ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور غم واندوہ سے نجات نہیں ملتی۔

خلفا

آپ نے ۴۰؍سے زائد نفوس قدسیہ کی تعلیم و تربیت فرماکر انہیںخلافت واجازت کی نعمت عطا فرمائی۔ چند مشہور حضرات کے اسما یہاں درج ہیں:

(۱) حضرت مخدوم شاہ مشہود صفی محمدی عرف شاہ عبد الصمد (خلف اکبر و جانشین اول) (۱۳؍ ذی الحجہ ...)

(۲) حضرت مخدوم شاہ محراب صفی محمدی عرف شاہ عبدالشکور (خلف اوسط وجانشین دوم) (۱۲۸۶ھ / ۱۸۶۹ء -  ۶؍ ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ / ۶؍ اگست ۱۹۵۴ء)

(۳) حضرت مخدوم شاہ شمشاد صفی محمدی عرف شاہ غلام صفی (خلف اصغر) (م ۲۰؍ رمضان ۱۳۶۳ھ / ۱۰؍ ستمبر ۱۹۴۴ء )

(۴) حضرت مخدوم شاہ موجود صفی محمدی(۱۳۲۶ھ / ۱۹۰۸ء) کرسی ، بارہ بنکی

(۵) حضرت مخدوم شاہ محمد صفی عرف پیر سید عبید اللہ قادری بغدادی (۲۳؍ صفر ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) از اولاد غوث اعظم قدس سرہٗ۔ (کلکتہ)

(۶) حضرت مخدوم شاہ ذوالفقار صفی (چاٹگام ، بنگلہ دیش)

(۷) حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی (۱۳۲۰ھ / ۱۹۰۳ء)سید سراواں ،الٰہ آباد

وفات

عمر شریف قریب ۹۰؍سال کی ہوگئی، کبر سنی کے سبب صحت خراب رہنے لگی، مریدین اور متوسلین کے اصرار پر بغرض علاج لکھنؤتشریف لے گئے لیکن افاقہ نہ ہوا، بالآخر اپنے مقام پرواپس تشریف لائے اور ۲۲؍جمادی الاولیٰ ۱۳۲۴ھ/ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو رفیق اعلیٰ سے جا ملے ۔ بارہ بنکی شریف کے محلہ رسول پورمیں آپ کی مسجد سے متصل خانقاہ میں آخری آرام گاہ بنی۔

جانشینی

حضرت مخدوم قل ہو اللہ شاہ قدس سرہٗ کے وصال کے قریب آپ کے ایک خلیفہ نے جرأت کرکے عرض کیا کہ حضور! صاحبزادگان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یہ سوال حضور والا کو پسندیدۂ خاطر نہ ہوا، ناگواری کے ساتھ فرمایا: اتنے روز فقیر کے ساتھ کیا گھاس کھودتے رہے؟ ان خلیفہ صاحب کے دریافت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صاحبزادگان میں کس کے لیے سجادگی کا خیال ہے؟ مگر آپ کے نزدیک ان رسمی معاملات کی کوئی اہمیت نہ تھی ، اصل شےجو خلوص و للہیت ہے، ہرسہ صاحبزادگان میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ چنانچہ آپ کسی کو اپنا جانشین مقرر کیے بغیر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔آپ کے وصال کے بعد حضرت مخدوم شاہ مشہود صفی محمدی عرف شیخ عبد الصمد قدس سرہٗ (خلیفہ و خلفِ اکبر ) کو تمام اہل سلسلہ نے جانشین منتخب کیا۔ 

حضرت شاہ مشہود صفی قدس سرہٗ کے صاحبزادے حضرت شاہ سلطان صفی قدس سرہٗ (کسمنڈی لکھنؤ) اپنے جد امجد کے محبوب اور منظور نظر پوتے اور مرید و خلیفہ تھے۔ ان کا وصال اپنے والد بزرگوار کی حیات مبارکہ میں ہی ہو گیا۔

مخدومنا حضرت شاہ مشہود صفی قدس سرہٗ نے اپنے وصال سے قبل اپنے برادر عزیز مخدومنا حضرت شاہ محراب صفی عرف شیخ عبد الشکور قدس سرہٗ(۱۳۷۳ھ / ۱۹۵۴ء) کو منڈیاؤں سے بلا کر جانشین مقرر فرمایا اور برادر اصغر مخدومنا حضرت شاہ شمشاد صفی عرف غلام صفی قدس سرہٗ کو منڈیاؤں بھیج دیا۔ 

حضرت شاہ محراب صفی قدس سرہٗ کی حیات میں ہی آپ کے برادرِ خرد حضرت مخدوم شاہ شمشاد صفی قدس سرہٗ(۱۳۶۳ھ / ۱۹۴۴ء) کا منڈیاؤں شریف میں وصال ہو گیا۔ چونکہ تینوں حضرات کی اولاد ذکور باقی نہیں رہیں لہٰذا حضرت شاہ محراب صفی قدس سرہٗ نے اپنے برادرِ گرامی حضرت شاہ مشہود صفی قدس سرہٗ کے نواسے اور اپنے مرید وخلیفہ حضرت نعیم اللہ شاہ عرف پیارے میاں رحمہٗ اللہ (م ۱۹۸۸ء) کو جانشین بنایااور اپنے نواسے حضرت نثار احمد قدوائی عرف شاہا میاں کو تولیت عطا فرمائی۔ بعد میں حضرت شاہا میاں صاحب پاکستان ہجرت کر گئے اور پھر وہیں سے امریکہ منتقل ہوگئے۔ 

اب حضرت پیارے میاں صاحب کے بڑے صاحبزادے جناب منیر الدین چشتی صفوی صاحب جانشین ہیں۔

Ad Image