ہندوستان کے خطۂ اودھ بالخصوص لکھنؤ کو جن مشائخ صوفیہ کی برکتوں سے حصہ ملا ان میں ایک بڑا نام کاشف حقائق طریقت، واقف دقائق حقیقت قطب العالم مخدوم محمد شاہ مینا قدس سرہ (وفات: ۲۳/ صفر ۸۸۴ھ) کا بھی ہے۔ مخدوم شاہ مینا تقریباً بارہ سال ہی کے تھے کہ شاہ بدیع الدین مدار قدس سرہ نے اپنے مرید قاضی شہاب الدین چتلائی کے ذریعہ آپ کی قطبیت کا اعلان کروایا اور لوگوں کو آپ کی جانب رجوع کرنے کی تلقین فرمائی۔ مخدوم شاہ مینا نے کمال روحانیت کی راہ میں دو عظیم ہستیوں سے خوب استفادہ کیا۔ ایک مخدوم شاہ قوام الدین عباسی جو خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کے مرید اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری قدس سرہما کے خلیفہ تھے اور جنھیں صاحب رسالہ مکیہ علامہ قطب الدین دمشقی قدس سرہ سے تلقین ذکر بھی حاصل تھا۔ اور دوسرے مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہ جو شیخ قوام الدین لکھنوی کے مرید اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے بھائی مخدوم ابو الفضل سید صدر الدین راجو قتال قدس سرہ کے خلیفہ تھے ۔ مخدوم شاہ مینا نے مجرد زندگی گزاری ۔ لیکن اپنے برادر زادے شیخ قطب الدین لکھنوی ابن شیخ احمد لکھنوی کی اعلی دینی و روحانی تربیت فرمائی اور بیعت و خلافت سے بھی سرفراز کیا۔ جو آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین ہوئے۔ مخدوم نے ان کے علاوہ ایک اور ہیرا تراشا جنھیں دنیا وارث الانبیا و المرسلین مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہ صاحب مجمع السلوک کے نام سے جانتی ہے۔ آپ صاحب سبع سنابل میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمہ اللہ کے داداپیر ہیں۔
یوں تو مخدوم شاہ مینا نے صرف دو لوگوں کو خلافت دی ۔ لیکن آپ کے جو ارشادات و ملفوظات مجمع السلوک میں محفوظ ہیں وہ اس قدر اہم ہیں کہ اگر کوئی طالب صادق کمال خلوص کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو جائے تو اللہ اپنے فضل و کرم سے کسی صادق کامل کی صحبت بخش کر اسے اپنے مقربین میں شامل فرما لےگا۔
1-’اگر کسی کو دیکھو کہ وہ پانی پر چلتا ہے ، ہوا میں اڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ حدود شریعت کا خیال نہیں رکھتا ہے اور ان میں کوتاہی کرتا ہے تو جان لو کہ وہ جادوگر، جھوٹا، گم راہ اور گم راہ گر ہے۔ دیکھیں ! مخدوم نے کتنا صاف نسخہ دیا ہے کہ یہی ایک جملہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کے لیے کافی ہے۔ آج حال کیا ہے؟ ہر طرف جھوٹ اور شعبدہ بازی کا ماحول ہے۔ ظاہر شریعت فرائض و واجبات کے تارکین خود کو اعلی مقام پر فائز بتاتے نہیں تھکتے ہیں۔ اور لوگوں کا بھی یہی حال ہو گیا ہے کہ کشف و کرامت ہی کو اصل مان لیا ہے۔ مردان خدا یقیناً کشف و کرامت کی نعمت سے مالامال ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ کشف و کرامت سے نہیں ، شرع مطہر کی پابندی اور اپنے اعلی اخلاق و کردار سے لوگوں کا دل جیتتے ہیں۔ وہ شریعت کے پابند اور سنت مصطفویہ پر عامل ہوتے ہیں۔ لیکن آج تو حال یہ ہے کہ شریعت کی پابندی ثانوی اور کشف و کرامت نے اولیت کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ مخدوم شاہ مینا قدس سرہ فرماتے ہیں آدمی خواہ جیسی بھی کرامت دکھائے اگر وہ شریعت کا پابند نہیں ہے تو وہ مرد حق آگاہ، شیخ و مقتدا نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں سے خود کو دور ہی رکھنا چاہیے، ناگاہ وہ خود تو گم راہ ہیں ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گم راہ کر کے چھوڑیں گے۔
2-’مرید ( جسے اللہ کی رضا مطلوب ہو) کو چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو اپنی نظر میں نہ لائے اور مخلوق اس کی تعریف کرتی ہے یا برائی- اس سے بے فکر ہو کر جو بھی عمل کرے اچھی نیت اور صدق و اخلاص کے ساتھ کرے۔ لوگوں کی باتوں سے اپنا دل گندہ نہ کرے اور ان کے نیک و بد کہنے کی پروا نہ کرے؛ کیوں کہ لوگوں کی زبان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے‘۔ کیسی عظیم بات ہے۔ مخلوق کے اچھا برا کہنے کی پروا کیے بغیر حسن نیت اور صدق اخلاص کے ساتھ صرف اللہ پر نظر رکھتے ہوئے عمل کیے جانے کی تلقین ۔ یہاں حال یہ ہے کہ ہمہ دم مخلوق پر نظر ۔ کوئی اچھی بات کہہ دی یا کوئی اچھا کام کر دیا تو تحسین طلب نگاہوں سے ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ داد وصول کرنے کی تمنا انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ جب تک چاروں طرف سے داد نہیں مل جاتی سکون قلب متأثر رہتا ہے۔ اور اگر کسی کام پر کسی نے تنقید کر دی، برا بھلا کہہ دیا تو فوراً لوگوں کی خوشامد میں لگ گئے ، بیک فُٹ پر آ گئے، معافی تلافی اور توبہ تِلا سب ہونے لگا۔ گویا کچھ کیا بھی تو کسی کی خوشامد اور چاپلوسی میں اور توبہ تلا، معافی تلافی بھی کی تو وہ بھی مخلوق ہی کے خوف و ڈر سے اور ان کی خوشامد میں۔ جب کہ مخدوم شاہ مینا قدس سرہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگوں کی خوشامد یا خوف سے کوئی کام کروگے تو بھی لوگوں کی زبان سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ آپ خواہ جتنا اچھا کام کر لیں ، جتنی اچھی بات کہہ دیں لوگ تو بات بنائیں گے ہی۔ برا کریں گے تو بھی بات بنائیں گے ، اچھا کریں گے تو بھی بات بنائیں گے۔طرح طرح سے پریشان کریں گے۔ ایسے میں اگر آپ کی توجہ لوگوں کی کہا سنی پر گئی تو آپ منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ ایسے میں آپ کو مخلوق کے اچھا برا کہنے کی پروا کیے بغیر خالصۃً اللہ پر ، اللہ کی خوشنودی پر نظر رکھتے ہوئے حسن نیت اور صدق اخلاص کے ساتھ کام کرتے ہوئے ، بات کہتے ہوئے آگے بڑھتے جانا چاہیے۔ یہی منزل تک پہنچنے کی راہ ہے۔ مگر، سماجی صورت حال یہ ہے کہ ایک عام اور غریب آدمی کی تو بات ہی کیا، اچھے خاصے بڑے لوگ بھی مخلوق کا منہ تکتے ہوتے ہیں اور ان کے اشاروں پر اپنے کام یا بات کا ڈھنگ طے کرتے ہیں۔
3- ’درویش کو سبزی فروش کی طرح ہونا چاہیے ۔ سبزی فروش کی عادت ہوتی ہے کہ وہ پورے دن سودا بیچنے میں مشغول رہتا ہے اور رات کو محاسبہ کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ا ٓج کچھ نفع ہوا یا نہیں؟ اگر نفع ہوتا ہے تو وہ خوش و خرم سو جاتا ہے ، ورنہ رنجیدہ اور نادم ہوتا ہے، بلکہ وہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ معمول سے کم کھانا کھائے۔ اسی طرح درویش کو بھی محاسبۂ نفس کرنا چاہیے کہ آج وظائف میں کچھ اضافہ ہو ا یا نہیں۔ اگر اضافہ ہوا تو اللہ کا شکر بجا لائے ، لیکن شرط یہ ہے کہ مغرور نہ ہو۔ اور اگر اس میں کمی ہوئی تو رات میں اس کی تلافی کی کوشش کرے، بلکہ اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے۔
سچی بات یہی ہے کہ ایک کامیاب طالب صادق کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے کہ وہ ترقی کر رہا ہے یا تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے دنیا جائے تجارت ہے یہاں جتنی اچھی مارکیٹنگ ہم کریں گے کل قیامت میں اتنا اچھا منافع بھی پائیں گے۔ اس لیے ایک تاجر کی طرح ہمیں اپنی زندگی کے ہر ایک لمحے کو بہت غور سے دیکھنا چاہیے کہ کس لمحے ہم آگے کی اور بڑھ رہے ہیں اور کس لمحے پیچھے کی اور اور ان کے اسباب پر نظر رکھتے ہوئے وقت گزارنا چاہیے؛ کیوں کہ کامیاب اور سرخرو وہی ہوں گے جو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ لیکن، عوام تو عوام آج خواص شمار کیے جانے والے بھی بہت سے لوگ سرسری گزر جانے کو عافیت سمجھنے لگے ہیں اور محاسبہ و احتساب سے دور بھاگنے لگے ہیں ۔ مگر یہ بھاگنے کا نہیں، بلکہ قوا انفسکم کا مقام ہے۔
4’(وہ) افعال جو کسی سے غلبۂ حال میں صادر ہوں ان کی پیروی نہیں کی جائےگی‘۔ مخدوم شاہ مینا نے ایک مثال دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ بعض جاہل داڑھی منڈانے کو ایک بزرگ کی پیروی سمجھتے ہیں جنھوں نے غلبۂ حال میں اپنے چہرے سے داڑھی ہٹا دی تھی۔ ان بزرگ کا حال یہ تھا کہ جب خدام میں سے کسی نے کہا کہ حضور! لوگ آپ پر عیب لگاتے ہیں ، داڑھی منڈانے کا الزام دھرتے ہیں تو آپ نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: نہیں تو ، میرے چہرے پر تو داڑھی ہے اور اللہ کی عطا سے فورا ویسی ہی داڑھی ہو گئی جیسی پہلے تھی۔ کچھ دنوں بعد پھر غلبۂ حال میں دوبارہ داڑھی ہٹا دی۔ تو ان کا یہ عمل غلبۂ حال میں تھا۔ مگر، نادان متبعین نے اسی کو اصل سمجھ لیا اور اسی کی پیروی شروع کر دی۔ آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دین و شریعت کے معاملے میں تساہلی کی راہ اپنانے کو فخر سمجھتے ہیں اور اگر کبھی کوئی ایسا بزرگ مل جائے یا کسی کے بارے میں ایسی ہی کوئی روایت سن لے تو فوراً اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب پوری زندگی شرع شریف کی پاس داری میں گزر رہی ہوتی ہے۔ احکام فرائض و واجبات کی پابندی ہوتی ہے تو لوگ اس کی پیروی کرنے کو جلدی تیار نہیں ہوتے۔ لیکن جہاں بظاہر خلاف معمولات ہدیٰ کوئی چیز نظر آئی فورا ًعمل شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے رویوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ فرایض و واجبات میں کسی طرح کی تساہلی دین میں قبول نہیں ہے۔ اس چیز کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔
آج جب کہ دین بیزاری، نیکوں سے دوری عام ہوتی جا رہی ہے ایسے میں مخدوم شاہ مینا کی یہ تعلیمات ہمیں ہمت و حوصلہ دیتی ہے اور نیا جذبہ پیدا کرتی ہے کہ ہم دین پر اس کے درست اصولوں کے مطابق چلیں تاکہ ہم اللہ کے نیک اور مخلص بندوں میں شامل ہو سکیں۔
Leave your comment