دنیا میں کچھ ہستیاں ایسی ہیں جن کا ذکر خیر ہمارے لیے دین و دنیا دونوں میں سعادت مندی اور نیک بختی کاسامان ہوتا ہے۔ ایسی ہی ہستیوں اور میں ایک منفرد نام امام غزالی قدس سرہٗ کاہے جو دین و دنیا دونوں اعتبار سے ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ امام غزالی علوم متداولہ کے نہ صرف عالم تھے بلکہ علوم متداولہ رکھنے والے علما کے لیے قابل رشک بھی تھے۔ وہ علوم متداولہ کے ساتھ علوم تصوف اور تزکیہ و احسان سے مزین اور اُن کے عملی پیکر بھی تھے۔
یہاں پر امام غزالی کی زندگی کا یہ پہلو ہم سبھی کے لیے قابل عبرت ہے کہ اُنھوں نے جس طرح علوم متداولہ کے حصول کے لیے سخت محنت و جاں فشانی سے کام لیا اسی طرع علوم تصوف اور دین کی روحانیت پانے کے لیے تمام عیش و عشرت اور جاہ و منصب کو قربان کردیا، پھر اس کے بعد عوام و خواص کی صلاح و فلاح کی طرف مائل ہوئے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ امام غزالی کا عہد ہمارے اِس عہد سے ہزارہا گنا بہتر اورخیر و برکت والا تھا۔ اس کے باوجود اُن کے عہد میں بھی اعتقادی بےاعتدالی، فقہی تاناشاہی، اصولی بے راہ روی اور تصوف و دعوت کے نام پر فریب خوردگی جیسے معاملات عام تھے، جن معاملات کی وجہ سے آپسی کشمکش اور بحث و مباحثے اور تفرقہ بازی کی فضا بنی رہتی تھی۔ ایک طرف معتزلہ اور دیگر باطل فرقے فکری معرکہ آرائیوں میں مبتلا تھے تو دوسری طرف فلاسفہ اور باطنیہ تھے، اوریہ تمام فرقے اپنی عقلی اور باطنی تاویلات کے دُلدُل پر سوار ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد و مسلمات کو بڑی بےدردی سے پامال کر رہے تھے۔ علم فقہ کے میدان میں بھی فکری خشکی اور انتشار کاماحول قائم تھا۔ علما و فقہا اور صوفیہ کی ایک بڑی جماعت دنیا پرست اور خواہشات نفسانی کی غلام بن چکی تھی، اور مختلف اخلاقی بیماریوں، مثلاً بغض و حسد، تکبر و کینہ، منصب و جاہ پسندی، درباری چاپلوسی، خود ستائی و خود پسندی کا شکار ہوچکی تھی، یہاں تک کہ قضا اور اِفتا کو بھی حصول دنیا کا ذریعہ بنا لیا گیا تھا۔ ایسے ماحول میں امام غزالی نے اعتقادی و فکری اصلاح کا جاں بخش صور پھونکا، صالح اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ اخلاقی بیماریوں اور خواہشات سے بچنےکا نسخہ کیمیا تجویز کیا، اور شرعی مقاصد کے صحیح خد و خال واضح کیے، نیز آپسی نا اتفاقی، تکفیری ماحول اور مذہبی کشمکش کو ختم کرنے کے لیےکفر و ایمان کے بنیادی اصول و حدود متعین فرمائے۔ وہ لکھتے ہیں:
(۱)حق و باطل میں تمیز کرنے والوں کے لیے مناسب ہے کہ جہاں تک ہو تکفیر سے بچیں، اس لیے کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے والوں اور کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں کے جان و مال کو مباح اور جائز قرار دینا خطا ہے اور ایک ہزار کفار کو زندہ چھوڑنے کی غلطی کرنا اس کی بہ نسبت یہ آسان ہے کہ کسی مسلمان کے خون بہانے میں غلطی کی جائے۔ (الاقتصاد فی الاعتقاداز امام غزالی )
(۲) تکفیر میں بہر حال خطرہ ہے جب کہ اس میں خاموشی کا رویہ اختیار کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ (فیصل التفرقہ از امام غزالی)
(۳) وہ تمام بحث و مباحثے اور علمی مناظرے جن سے فریق مخالف پر غلبہ، اس کی شکست و ریخت، خوش بیانی، فصاحت و بلاغت کا اظہار، طلب جاہ و منصب مقصود ہو یہ بُرائیوں کی جڑ ہیں جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور شیطان کے نزدیک پسندیدہ ہیں، اور اِن باتوں کی وجہ سےدلوں میں بہت ساری بُرائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر بغض و حسد، تکبر و کینہ، غیبت و چغلی، عیب جوئی، ایذا رسانی، نفاق و ریاکاری وغیرہ۔ (احیاء العلوم ،باب:۴،ص:۹۳)
(۴)قیامت کے دن دوسرے لوگوں کے مقابلے سخت ترین عذاب ان نام نہاد علما کو ہوگا جو علم کے ذریعے دنیا کی عیش و عشرت اور جاہ و منزلت چاہتے ہیں۔ (ایضا،باب:۶،ص:۱۹۳)
امام غزالی یہ دیکھ چکے تھے کہ ان کے عہد میں قضا و اِفتاکے علوم بھی زیادہ تر لوگ اس لیے حاصل کر رہے تھے کہ یہ علوم سرکاری عہدوں کے حصول کے لیے اس وقت ضروری تھے، اس لیے اُنھوں نے اس کی طرح جوبھی باتیں کہیں وہ تجربے کی بنیاد پر کہیں۔
اس تناظر میں اگر آج کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمارا وجود اللہ و رسول کے بنائے ہوئے اصول و نظام پر کہیں فٹ نہیں بیٹھتا۔ آج ہمارے اندر کہیں زیادہ فکر ی بے راہ روی اور اعتقادی بے اعتدالی آگئی ہے، پورے ہوش و حواس کے ساتھ ہم فقہی تانا شاہی کے غلام ہوچکے ہیں، اس کے ساتھ ہی تصوف کے نام پر آج ہمارے اندر خود فریبی اور جعلسازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ آج علما و فقہا کے نزدیک چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر تکفیر و تفسیق کا حکم دینا اور دلوانا ایک محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ مزےکی بات یہ بھی ہےکہ آپس میں ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لیے اور ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ساری اخلاقی حدیں بھی پارکی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا چلن اس قدر عام ہو رہا ہے کہ بڑے بڑے علما و فقہا آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق کو خدمت دین سمجھے ہوئے ہیں اور فروعی مباحث میں الجھنے کو سرمایہ آخرت تصور کیے ہوئے ہیں۔ زبانی تصوف کا اس قدر بول بالا ہے کہ اس کے سامنے عملی اور حقیقی تصوف تقریباً گم سا ہوگیا ہے۔ خانقاہیں تو ہیں مگر خانقاہوں سے خانقاہی نظام غائب ہے، خاندانی نسبتیں تو ہیں مگر ایمانی احوال، تقویٰ و طہارت اور تواضع و انکساری کا کوئی وجود نہیں ہے، اور سلاسل تو ہیں مگر اُن کی روحانی تعلیمات سے کوئی رشتہ نہیں۔ یہاں تک کہ خانقاہی قائدین بھی تصوف کے نام پر محض ظاہرداری، اور عملی چور بازاری کے اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ دین اسلام کی فکر تو چھوڑیے اُنھیں اپنے آبا و اجداد کی عظمتوں کا بھی کچھ لحاظ نہیں رہا۔ غرض کہ آج فقہ و افتا اور تصوف کے نام پر دنیاداری، منصب و جاہ اور سیادت و امارت کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
چناں چہ امام غزالی نے اسلامی فکر و عمل، اعتقادی اعتدال پسندی اور تصوف و اخلاق کی جو صالح فضائیں ہموار کی تھیں، اُن کی اہمیت و معنویت آج کے عہد میں مزید بڑھ جاتی ہے، بلکہ ایمانداری کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ آج ایک بار پھر سے افکار غزالی کو زندہ کیا جائے، تبھی ہمارے اندر اخلاص کا مرجھایا ہوا پودا تناور درخت کی صورت اختیار کرےگا، ورنہ نہیں۔
سدفاد
ماشاء اللہ بہت خوب
Leave your comment