خانقاہ عالیہ عارفیہ سید سراواں
موجودہ طوفان خیز اورفریب خوردہ حالات میں اخلاق ومروت اور امن وآشتی کا ایک روشن مینار ہے خانقاہ عالیہ عارفیہ
سید سراواں، قدیم وجدید ہندوستان کا ایک مردم خیزعلاقہ اورقدیم ترین قصبہ ہےاور چودھویں صدی عیسوی کے عظیم بزرگ سید محمد حقانی حسینی سبزواری(۱۳۸۹ء) کی طرف نسبت کرتے ہوئے’’سید سراواں‘‘کہلاتا ہے۔چوںکہ سیدمحمد حقانی سبزواری خدائی مشن کے تحت ’’سیدسراواں‘‘ وارد ہوئےاِس لیے آپ نے اِس قصبےکونہ صرف اپنامسکن بنایا بلکہ اِسےبندگانِ خدا کے رشدوہدایت کاایک روحانی سینٹر قراردیا اورکافی عرصے تک اصلاح وتربیت میں مصروف ومشغول رہے۔
پھرایک زمانہ آیاکہ جب سیدمحمدحقانی سبزواری کا روشن کردہ چراغ رشدوہدایت کی لو مدھم ہوئی تواُس لو کو تیز رکھنے کےلیے ۱۹؍ صدی عیسوی میں حضرت سلطان العارفین لاہوتی انداز میںسامنے آئےاور بندگان خداکی اصلاح وتربیت فرمائی ۔ سوانح نگار کے بموجب:۱۶؍ سال کی عمر میں آپ نےتکمیل تعلیم فرمائی۔۲۰؍ سال کی عمر میں اجازت وخلافت سے مشرف ہوئے اور ’’شاہ عارف صفی‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیے گئے۔۲۲؍سال کے ہوئے تو۱۳۰۰ھ/ ۱۸۸۳ء میں خانقاہ کی بنیادڈالی جوآج ’’خانقاہ عارفیہ‘‘ کے نام سے عوام وخواص اور ملک وبیرون ملک مشہورومتعارف ہے۔ کامل ۲۰؍سال تک دعوت وتبلیغ، تزکیہ وتصفیہ اور اِصلاح وتربیت کا فریضہ انجام دیا۔حالاںکہ۴۲؍سال کی عمر میں،آپ کا وصال ہوگیا۔لیکن اِس قلیل مدت میں بھی رشدوہدایت اور اخلاق وتصوف کاایسا باغ لگاگئے کہ جس کی خوشبوسے پوری انسانی برادری آج بھی معطرہورہی ہے ۔
جہاں تک سلسلۂ خانقاہ عالیہ عارفیہ کی بات ہے تو اِس کا سِرامشہوررُوحانی سلسلہ ،چشتیہ صفویہ سے ملتاہے۔ مثلاًسلطان العارفین کو صاحب سرشاہ عبد الغفورمحمدی بارہ بنکوی (۱۹۰۶ء) سےاجازت و خلافت حاصل تھی جو مخدوم شاہ محمد خادم صفی محمدی صفی پوری (۱۸۷۰ء) کے مرید و خلیفہ تھے۔ یہ روحانی سلسلہ، مخدوم عبد الصمد شاہ صفی صفی پوری (۱۵۳۸ء)، شیخ سعد خیرآبادی (۱۵۱۶ء) اور قطب عالم مخدوم شاہ مینا لکھنوی (۱۴۷۹ء) کے توسط سے سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیامحبوب الٰہی (۱۳۲۵ء) تک پہنچتا ہے۔
حضرت سلطان العارفین کے وصال کے بعد آپ کی سجادگی کا تاج آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ نیاز احمد عرف شاہ صفی اللہ قدس سرہٗ کےسرسجا۔اِنھوں نےمحض عارفی مشن کو مستحکم نہیںکیا بلکہ ’’خانقاہ عارفیہ‘‘ کی باضابطہ تعمیر بھی کرائی۔جس میں مزارشریف، مسجدمع حجرہ،سماع خانہ مع بارہ دری اورایک لان/صفہ کی تعمیر شامل ہے۔یوںتو اِن تعمیراتی عمل میں بالعموم اکثر مریدین ومتوسلین نے حسب حیثیت حصہ لیا لیکن بالخصوص جن حضرات نے حصہ لیااُن میں حضرت علیم اللہ شاہ اور حافظ نعیم اللہ شاہ قابل ذکر ہیں۔خلف اکبرکے اوراق حیات سے احساس ہوتا ہے کہ یہ بیک وقت دعوت وارشادکا فریضہ ادا کررہے تھے،جائداد سے متعلق مسائل سلجھا رہے تھے، خانقاہی تعمیری آزمائشوں کا سامنا کررہے تھےاوربکثرت اَوراد و وظائف کوبھی اِنتہائی استقامت کے ساتھ اپنا وظیفہ بنائے ہوئےتھے۔اس کے علاوہ اہل وعیال کی کفالت، خدمت خلق اوربحالت فاقہ بھی شکرگزاری کے ساتھ اِنفاق فی سبیل اللہ کے عادی تھے اوراپنے متوسلین ومعتقدین کو بھی اس کا عادی دیکھنا چاہتے تھے۔
خلف اکبر کے بعد۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۵ء میںخلف اصغر حضرت شاہ ریاض احمد قدس سرہٗ کے سرسجادگی کا سہرا بندھا۔واضح رہےکہ خلف اصغر مرید تو اپنے والد بزرگوار سلطان العارفین سے تھے لیکن اجازت وخلافت برادر اکبر سے حاصل تھی۔ اِس طرح اپنے والد بزرگوار اور برادر اکبر کے نقوش قدم کو اَپنےلیے مشعل راہ بنایا اورخدمت خلق کے پردے میں بندگان خدا تک بخوبی خیر ونفع پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔واضح لفظوں میں کہاجائے توخلف اصغراُس حدیث پاک کی عملی تفسیر تھے جس میں فرمایا گیا ہے کہ’’ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اُن میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اُس کے کنبے کو نفع پہنچائے ،فائدہ پہنچائے۔‘‘ پھرچوں کہ خلف اصغر کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اُن کے بعد خانقاہِ عارفیہ کے نصیبے میںایک یگانۂ روزگار ہستی کا آناطے ہےکہ جس کے ذریعے دعوت و تبلیغ، علم و تحقیق اور تعلیم وتعمیر کے تاریخی کارنامے انجام پانے ہیں، لہٰذاخلف اصغر نے اپنی نیابت وخلافت کے لیے اپنے ہی خانوادے کے ایک ایسے فرد کا انتخاب فرمایا جواُس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں بی.اے. کا طالب علم تھا
اورجسے آج ہم شاہدالآفاق ابوسعید المعروف شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کے نام سے جانتے اور پہچانتےہیں۔اِس طرح خلف اصغرنے اِجازت وخلافت کے بعد خانقاہ عارفیہ صفویہ مینائیہ نظامیہ چشتیہ کی سجادگی کی عظیم ذمہ داری اپنے نبیرہ حضرت شیخ ابوسعید دام ظلہ کے سپردکردی، اور پھر اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ اپنی کیمیا نظر سے اپنے خلیفہ ومجاز کو ظاہری وباطنی ہراِعتبارسے دین وسنیت اورتصوف وروحانیت کے اعلی مقام پر فائز فرمایا۔یہ اُنھیں کی نگاہِ کیمیا اثر کا کمال ہے کہ آج کے طوفان خیزاور فریب خوردہ عہد میں بھی ’’خانقاہ عالیہ عارفیہ‘‘کے ذریعے دین وسنیت اور تصوف وروحانیت کا تاریخی کارنامہ انجام دیاجارہا ہے جسے دیکھ کر اَپنے سجدۂ شکر میں گرے ہوئے ہیںاور بیگانے حیران وششدر ہیں۔
’’خانقاہ عالیہ عارفیہ‘‘ کے اولین حالات پرنظرڈالیے تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں پہلے پہل صرف تصوف وتزکیہ، دعوت وارشاد اور اِصلاح وتربیت جیسے خدمات انجام دیے جاتے تھے۔لیکن ۱۹۹۳ء سے یہ تصوف وتزکیہ اور اصلاح وتربیت کے ساتھ مختلف جدیدوقدیم علوم وفنون اور تعلیم وتعلّم کا ایک خوشنما سنگم بن چکی ہے۔جہاںتشنگان علوم وفنون ، اصلاح وتربیت کے طالب اور سلوک ومعرفت کے متلاشی آتے ہیں اور اپنی اپنی مرادوں کی جھولیاں بھرلے جاتے ہیں۔
’’خانقاہ عالیہ عارفیہ‘‘ کی ایک بڑی اور اہم خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کا دروازہ ہر مسلک ومذہب کے لیے کھلا رہتا ہے ۔جیساکہ ہم سبھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہرزمانے میںعالمی سطح پرہمارے ملک کی قومی یکجہتی، محبت ویگانگت اورگنگاجمنی تہذیب لاجواب رہی ہے، چناںچہ اِس کی بہترین مثال خانقاہ عالیہ عارفیہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔بلکہ اِس سلسلے میں ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ’’پریاگ راج سنگم اَسنان‘‘ کے موقع پر سادھو-سنت یہاں آتےہیں ،یہاں کی نورانی واِنسانی فضا سے لطف اندوز ہوتے ہیںاورپھریادوں کے کچھ ایسے نقوش لیے خانقاہ سےواپس ہوتے ہیں جو مٹائے نہیں مٹتے۔گویا اِس طرح کے مناظر میں اَخلاق محمدی کا عکس جمیل نظرآتاہے جیساکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد میں آنے والے غیرمسلم وفود کے ساتھ کیا کرتے تھے۔لیکن افسوس کہ کچھ کورونا کے سبب اور کچھ فریب خوردہ حالات کے سبب اِس طرح کے مناظر کمیاب ہوگئے ہیں۔
ادارہ جاتی تناظر میں دیکھاجائے تو خانقاہ عالیہ عارفیہ کی سرپرستی میں چلنے والےمختلف ادارے ہیں، مثلاً:
۱۔شاہ صفی میموریل ٹرسٹ:اِس کے تحت یہ خانقاہ چل رہی اور خدمت خلق کے ساتھ فروغ محبت کے مختلف کام میں مشغول ہے، مثلاً روزانہ لنگر کا اہتمام، ماہانہ جشن مولائے کائنات اورمحفل سماع کا انعقاد، مختلف مواقع پر غریبوں میں غلّہ اور دیگر ضروری سامان کی تقسیم، میڈیکل کیمپ کا انعقاد وغیرہ۔
۲۔جامعہ عارفیہ :جامعہ عارفیہ ایک اصلاح شدہ جدید نصاب اور اخلاقی تربیت کے ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت میں مصروف ہے، جہاں انگریزی، ہندی،حساب ، کمپیوٹر،سائنس اور جسمانی ورزش کے ساتھ دینی واسلامی علوم کی تعلیم دی جارہی ہے۔
۳۔شاہ صفی اکیڈمی:یہ تصوف اور اِنسانیت کے فروغ کے حوالے سے مختلف قدیم ترین وجدید کتابوں کی تصنیف، تحقیق اور تدوین کے کام میں مشغول ہے۔تصوف کے ایک پانچ سو سالہ جامع کتاب مجمع السلوک ، روحانی تربیت کا منشور نغمات الاسرار، تصوف پر سالانہ علمی جرنل الاحسان، اصلاحی ودعوتی رسالہ ماہنامہ خضرراہ،تکفیریت اور تشدد کے خلاف مسئلۂ تکفیر ومتکلمین، مسئلہ سماع کی درست تفہیم کے لیے الموسیقی فی الاسلام ،تکمیل الایمان، مرج البحرین اس کی اہم اور خاص اشاعتیں ہیں۔ مسئلۂ جہاد کی صحیح تعبیر وتشریح کےلیے تفہیم جہاد اور فتاویٰ صوفیہ (آٹھ سو سالہ قدیم )سمیت بھی بہت سی کتابیں ابھی زیر تصنیف وتحقیق ہیں۔
۴۔ سینٹ سارنگ کانوینٹ اسکول:سینٹ سارنگ کانوینٹ اسکول خانقاہ کے احاطے میں قائم اعلیٰ معیار کی عصری واخلاقی تعلیم وتربیت کا ایک جدید ادارہ ہےجہاں انگریزی ،ہندی اور اخلاقیات کے ساتھ اردو، عربی اور سنسکرت بھی اختیاری مضمون کے طور پر شامل ہیں اور اَلحمد للہ یہاں ہر مذہب کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
۵۔الاحسان میڈیا:موجودہ جدید ٹکنالوجی کے دور میں ٹکنالوجی کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے ایک سوشل چینل کو متعارف کرایا گیا ہے ، جہاں سے عموماً انسانیت، روحانیت اور دین کی اصلی روح کی اشاعت ہوتی ہے جو فروغِ تعلیمات، ملک وملت کی سالمیت اور اِنسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں ۔
۷۔شاہی پروڈکٹس:شاہی پروڈکٹس کی شکل میں ایک ایسی صحت مند طرز تجارت کو فروغ دینے کی کوشش جاری ہے جس سے خانقاہ اور صاحب خانقاہ کی معاشی ضرورتیں پوری ہوں ۔الحمد للہ! شیخ کریم دام ظلہ اپنے اہل و عیال کی کفالت کے لیے مریدین اور متوسلین کی جیب پر منحصر نہیں ہیں بلکہ اپنی خاندانی زمینداری کے علاوہ شاہی پروڈکٹس کے ذریعے اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال ، محبین و متوسلین اور مریدین کی کفالت کی بھی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی اس ادارے سے ائمہ مساجد اور عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے طور پر بھی وابستہ ہے ۔یہ یونانی دواساز کمپنی جس کے تقریباً پچاس پروڈکٹس سامنے آچکے ہیں،کھادی گرام ادیوگ کے تعاون سے چل رہی ہے۔
اس کمپنی کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اپنے متوسلین ومعتقدین کے ساتھ ہرفرد بشر کو اِعتدال وتوازن اورحلال وحرام کے درمیان فرق وتمیز کی راست رہنمائی بھی کرتی ہے اور سخت سے سخت حالات میں اُنھیںاُسوۂ حسنہ اوراچھے ڈھنگ سے معاملات ومسائل سلجھانے کی تعلیم وتلقین بھی کرتی ہے۔
غرض کہ جس مشن کی تکمیل وتائید کے لیےشیخ کریم حضور داعی اسلام شیخ ابوسعید کے مشائخ نے آپ کاانتخاب فرمایا تھایقیناًوہ آج صدفیصد سچ ثابت ہورہا ہے کہ آپ انتہائی استقامت کے ساتھ اسلام وروحانیت کے کارواں کوچشتی، نظامی، مینائی، صفوی اورعارفی لبادے میںکوعروج بخش رہے ہیں۔
ڈاکٹر جہاں گیر حسن
Leave your comment