Donate Now
مجدّد سلسلۂ صفویہ مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ

مجدّد سلسلۂ صفویہ مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ

سلسلۂ صفویہ کے تمام مشائخ اپنے آپ میں ایک عالم سمیٹے ہوئے تھے مگران میں سے بعض نے ایساتاریخ ساز کارنامہ انجام دیاہے جن کے ذکرکے بغیر تاریخ صفویت نامکمل رہے گی۔ ان میں سے چندکاتذکرہ گزرچکا۔اب اس عظیم شخصیت کا ذکر کیاجارہاہے جو سلسلۂ صفویہ کے مجدد ہیں، جن کے بارے میں اس سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شاہ قدرت اللہ غوث الدہر قدس سرہٗ نے فرمایاتھاکہ میرے بعد صفی پورمیں ایک چراغ روشن ہوگا، جس پرایک زمانہ شیفتہ اورپروانہ وارنثارہوگا، اس شمع ہدایت سے بہت سے طالبان مولیٰ مستفیض ہوں گے۔ وہ اپنا اور اپنے پیران طریقت کانام روشن کرنے والاہوگا۔


ولادت

اس پیشین گوئی کے مصداق حضرت قطب العالم مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ ہوئے۔ آپ ۱۲؍ رجب ۱۲۲۹ھ (۳۰؍ جون ۱۸۱۴ء) کو دوشنبہ کی رات صفی پور میں پیدا ہوئے۔


نسب

آپ کے والد کانام حضرت شاہ عطاے صفی تھا۔ آپ حضرت بندگی شیخ مبارک کی اولاد میں ہیں۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

حضرت شاہ خادم صفی بن شاہ عطاے صفی بن شاہ محمدمعصوم (جن کا تذکرہ چند صفحات قبل گزرا۔) رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالَی۔

آپ کی والدہ ماجدہ بھی بہت پارسا اور خدا رسیدہ تھیں۔ والدہ صاحبہ کی طرف سے بھی آپ فاروقی تھے۔آپ کے نانا شیخ فیض اللہ بن حضرت شاہ غلام پیر رحمہما اللہ تعالیٰ تھے۔ والد و والدہ ہر دو کا سلسلۂ نسب شیخ دانیال بن شیخ عبد الرزاق (نبیرۂ بندگی شیخ مبارک) پر ایک ہو جاتا ہے۔

ابتدائی احوال، تعلیم و تربیت

آپ مادرزاد ولی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت لہو ولعب کی طرف مائل نہیں تھی۔ بچپن سے پرندے پالنے کا شوق تھا جو ہمیشہ رہا۔ بچپن میں حضرت شاہ غلام زکریا قدس سرہٗ نے آپ کی ایک خدمت گزاری پرخوش ہوکر فرمایا تھا کہ ہم نے تمہاری ایک امانت برادرم حفیظ اللہ شاہ کو سپردکردی ہے، جب سن شعور کو پہنچوگے تمہیں مل جائے گی۔

آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہٗ کے شاگرد مولانا شیخ چراغ علی علیہ الرحمہ([1]) سے حاصل کی اور مثنوی مولوی معنوی، سبع سنابل اور تصوف وسلوک کی چند کتابیں مولانا حکیم ہدایت اللہ صفی پوری ([2]) پڑھیں۔ ہرعلم وفن میں کسی نہ کسی کواپنااستاد بنایا۔ علم برائے عمل حاصل کیا۔ ہمیشہ اس کو واسطہ خیال کیا اور اصل مقصد کوپیش نظررکھا۔

 ابتداے عمر سے ہی احکام شرعیہ کے پابندتھے، ہمیشہ ہر سنت و مستحب پر نظر رکھتے تھے۔ مسائل شرعیہ کی نہایت تحقیق فرماتے تھے اور باوجود علم و آگہی علماسے ضرور استفسار فرماتے تھے ۔ابتدا سے ہی دل طلب مولیٰ کے جذبے سے سرشار تھا۔


بیعت و خلافت

باشعور ہونے کے بعدمرشدکامل کی تلاش ہوئی۔اس وقت صفی پور میں حضرت مخدوم محمدحفیظ اللہ شاہ قدس سرہ کا فیض جاری تھا، جو آپ کے حقیقی ماموں تھے۔ بیس سال کی عمرمیں آپ نے ان کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ بیعت کے بعد حالت مزیدبدل گئی، صرف یادالٰہی سے کام رہا۔ اسی زمانے میں چچازاد بہن سے آپ کا عقد مسنون بھی ہوگیا۔ ازدواجی زندگی میں مصروف ہونے کے باوجود طلب مولیٰ کے جذبےمیں کوئی کمی نہ آئی۔ مجاہدات و ریاضات کے پہلے ہی سے عادی تھے، مرشدکے حکم کے مطابق اس راہ میں مختلف قسم کی شدتیں برداشت کرنی پڑیں اور ایک دن ان تمام مجاہدات شاقہ کی تپش سے کندن ہو گئے ۔ بالآخر ماہ ذی قعدہ ۱۲۵۵ھ / جنوری ۱۸۴۰ء میں جمعہ کے روز مرشدگرامی نے تمام روحانی نعمتوں سے نوازا اور اجازت وخلافت سے سرفراز فرما کر مسند ارشاد پر فائز کیا ۔


اخلاق

آپ خُلق نبوی کے آئینہ دار تھے۔ اسی حسنِ خُلق کی وجہ سے غیروں نے بھی آپ کو تسلیم کیا اور اکثر راہِ راست پر آئے۔ آپ کی بارگاہ میںطالبین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ موجود رہتی جن کی تعلیم و تلقین کو آپ اپنادینی و منصبی فریضہ خیال کرتے ہوئے ان کی ہر طرح کی کفالت بھی فرماتے۔

حاضر یا غائب کسی کی برائی نہیں کرتے تھے۔

۱۲۵۵ھ / ۱۸۴۰ء میںجب حضرت مخدوم حفیظ اللہ شاہ نے اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا تو آپ نے اپنی تمام جائداد یہاں تک کہ ذاتی گھربھی مرشد کو نذر کردیا اور خود مرشد کے عنایت فرمودہ گھرمیں رہنے لگے۔

آپ نے عمرکی صرف ۵۸ بہاروں کو دیکھا۔ زندگی کے اکثر حصے عبادت و ریاضت اورتنگی میں گزارے۔ آپ ۱۲۷۷ھ کے بعد مسلسل بیمار رہے اور درمیان میں والدہ کے اصرارپرعلاج ومعالجہ کی غرض سے لکھنؤ اور کان پورجانے کا اتفاق ہوا۔

ایام علالت میں پیرو مرشد کی عیادت بھی حاصل رہی،مرشدکی دعاکی برکت سے مکمل صحت یاب بھی ہوئے۔ اس کے شکرانے میں مرشدکے وصال (۱۲۸۱ھ) کے بعد مزار مبارک پر چادرپیش کی  اور اپنے مرشد زادے حضرت امیر اللہ شاہ کوعمامہ، پیرہن اور نقد نذر کیا۔ مرشدِ برحق کے مرقد منوّر کی چادر پر یہ شعر نقش کرایا:

در بشر رو پوش گشتہ آفتاب

فہم کن واللہ أعلم بالصواب

(بشر کے پردے میں آفتاب روپوش ہوگیا ہے، اس بات کو سمجھو، اللہ درستی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔)


سفر

آپ ساری عمر صفی پور میں رہے اور صرف ضرورت کے تحت آس پاس کے چند ایک مقامات پرچھ سات بار جانا ہوا۔ علاج کے لیے کان پور کے سفر کے دوران جاجمؤمیں حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی قدس سرہٗ (جو آپ کے اجدادمیں آتے ہیں) کی درگاہ میں حاضر ہوئے۔

حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی کی درگاہ پرجب آپ پہلی بار حاضر ہوئے تو خلاف عادت بہت ساری قبروں کا لحاظ نہ کیا اور ان پرپاؤں رکھتے ہوئے داخل ہو گئے۔ معمول کے خلاف یہ عمل دیکھ کرلوگوںکوحیرت ہوئی۔تھوڑی دیربعدآپ نے فرمایا کہ ان قبروںمیں کوئی مدفون نہیں ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پرانے زمانے میں امراء و وزراء، بزرگوں کی قبروں کے قریب دفن ہونے کی خواہش کرتے تھے، ان کودور رکھنے کے لیے لوگوں نے بہت سی مصنوعی قبریں بنادی تھیں۔ ([3])

کان پورمیں قیام کے درمیان حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے  ملاقات ہوئی۔ دونوں بزرگوں کے مابین پر لطف صحبت رہی۔ آخری ملاقات کے روز آپ نے حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے فرمایاکہ آج آپ کا گھر بے رونق نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا : گھر چونکہ پرانا ہو چکا ہے، مزدور اس کی مرمت میں لگے ہیں، شکست و ریخت درست کر رہے ہیں، اسی لیے ایسا نظر آرہا ہے۔ جب حضرت اقدس اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے تو فرمایا: شاہ صاحب کی وفات کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ اس کے دوسرے یا تیسرے روز حضرت شاہ غلام رسول قدس سرہ کا وصال ہوا۔ ([4])

عادات و اطوار

آپ روپئے پیسے کو ہاتھ سے نہ چھوتے مگر محفل سماع میں جب کوئی نذر دیتا تو کبھی اس کے ہاتھ کو پکڑ کر قوال کے سامنے کر دیتے اور کبھی خود دست مبارک سے اٹھا کر دے دیتے، یا پیر ومرشد کو اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے کو جب نذر دیتے تب ہاتھ لگاتے۔ نہ دنیاداروں کی محفل میں جاتے اور نہ کسی کے گھر کا کھانا تناول فرماتے۔

آپ توبہ کرانے اور بیعت لینے میں تاخیر نہ فرماتے، لیکن آخر ایام میں بہت کم بیعت لیتے تھے۔ مرید کرنے کی خواہش کو بہت مذموم جانتے تھے۔ فرماتے تھے:

درویشی کی پہلی شرط یہ ہے کہ مرید کرنے کا حریص نہ ہو۔

چودھری حشمت علی سنڈیلوی نامی گرامی تعلقہ دار اور بڑے رئیس تھے۔ انہوں نے آپ کو بذریعۂ خط بیعت کی غرض سے دعوت دی۔ آپ نے بہ مصداق ’’ اگر جنبد زمیں جُنبَد، قطب از جا نمی جُنبَد ‘‘ (زمین جنبش کر سکتی ہے لیکن قطب اپنی جگہ پر مستحکم رہتا ہے-) اُسی خط پر یہ دو شعر لکھ کر روانہ فرما دیے اور خود تشریف نہیں لے گئے:

کرا دماغ کہ از کوئے یار برخیزد

نشستہ ایم کہ از ما غبار برخیزد

(کس میں یہ حوصلہ کہ یار کے کوچے سے اٹھ سکے! ہم تو ایسا بیٹھے ہیں کہ ہمارا غبار ہی اٹھے گا۔ )

نہ نالے کے قابل نہ فریاد کے

پھنسے دام میں ایسے صیاد کے ([5])

آپ کی غذا بہت قلیل تھی اور چونکہ دعاے سیفی (حرزِ یمانی ) آپ کے ورد میں تھی، اس لیے مچھلی اور بڑے گوشت سے پرہیز فرماتے تھے۔

آپ کی نظروں میں بڑی تاثیر اور جاذبیت تھی۔ سید ارادت حسین اثناعشری محفل سماع میں ہنسے، آپ نے پلٹ کر دیکھا وہ فورا تڑپنے لگے۔ محفل کے بعد تائب ہو کر مرید ہو گئے۔ ان کے اعزّہ انہیں مجتہد تک لےگئے لیکن کچھ نہ ہوا،آخر مجتہد نے کہا کہ ان پر پڑھا ہوا جن سوار ہے ۔([6])

اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے ۔


ارشادات

آپ قولاً و فعلاً ہر وقت خلقِ خدا کی خیر خواہی اور فائدہ رسانی پر آمادہ رہتے۔ باطنی ہمت، دعا تعویذ، مالی امداد اور زبانی ارشاد سے ہمہ وقت لوگوں کی دلجوئی اور ہدایت کا سامان فراہم کرنا، آپ کی حیاتِ مبارکہ کا روشن ترین باب ہے۔

آپ کے ملفوظات معرفتِ الٰہیہ کا مخزن ہیں، تفصیل کا یہ مقام نہیں ، اس لیے ذیل میں بالاختصار آپ کے چند ارشاداتمخزن الولایت والجمال‘ (مؤلّفہ حضرت شاہ عزیز اللہ صفی پوری) سے نقل کیے جاتے ہیں۔

     کوئی شخص اگر آسمان میں اُڑے اور ذرہ برابر شریعت کی خلاف ورزی کرے تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ۔ اس کے کشف و کرامت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔

     اگر مرید پایۂ طریقت سے گرا تو شریعت اس کا مقام ہے، اگر شریعت سے بھی گرا تو اُس کا ٹھکانا کہاں!

     آخری زمانہ ہے، اب اگلوں سا وقت کہاں! برتن میں تلچھٹ باقی ہے اسے ہی چاٹ لینا چاہیے۔([7])

     زمانہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے خالی نہیں ہے، اس وقت بھی ایسے بہت سے بندے ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ البتہ بہت نازک دور ہے، اب دن مثلِ رات تاریک ہیں ، اگر کسی سے خرق عادت کا ظہور ہوا تو لوگ اسے جاں بہ لب کر دیں گے اور فرصت ہی نہ دیں گے -

     طالبِ صادق جب تک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی ایک کا تابع نہیں ہوگا، منزل مقصود تک نہیں پہنچے گا۔

     رسمی مرید تو بہت ہوتے ہیں لیکن حقیقی مرید بہت کم ہوتے ہیں - حقیقی مرید وہی ہے جو بالکلیہ پیر کے نقش قدم پر ہو۔

     مرید جو کچھ پیر کو کرتا دیکھے اس پر عمل نہ کرے بلکہ جو پیر کہے اس پر عمل کرے۔ [یعنی مرید کو عزیمت پر عمل کرنا چاہیے، رخصت پر عمل شیخ کے حکم سے کرے ]

     مرید اگر ظاہری شکل و صورت بھی اپنے پیر کی طرح نہ کر سکا تو اس سے آگے اور کیا ہو سکتا ہے!

     مرید وہی ہے جس میں مرشد کی بو آتی ہو- شاخ میں جب تک قلم نہیں لگتی اس میں لذیذ پھل نہیں آتا۔

     محض اسلامِ تقلیدی (یعنی نام کا اسلام) کام نہیں آتا ہے، جب تک کہ حقیقی ایمان حاصل نہ ہو جائے۔

     طالب کو کشفِ صدر اور کشفِ قبر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے ، جتنا ہو سکے طلب خدا میں جد و جہد کرے کیونکہ مَن لَه المَولٰی فَلَه الکُلُّ(جس کا رب ، اُس کا سب۔)

       بعض لا (مقام نفی) میں رہ گئے اور بعض الا اللہ (اثبات) میں ، کوئی کوئی ہی حقیقت محمدی تک پہنچ سکا، جس کی رسائی یہاں تک ہوئی وہی کامل ہے ورنہ وہ کمال سے بے بہرہ ہے-

     لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم شیخ زادے اور پیرزادے ہیں! در اصل یہی چیز راستے کی رکاوٹ ہوتی ہے۔

       لوگ جو ہمارے پاس آتے ہیں نرمی اور مدارات کی وجہ سے آتے ہیں، اگر ایک دن بھی ان کی طرف نظرِ التفات نہ کروں تو کوئی نہ آئے۔

     جن یا خبیث جو بھی ہو مقابلہ (سامنا) کرتا ہے، لہٰذا جس جگہ ڈر محسوس ہو وہاں پلٹ کر نہ دیکھے۔

آثار

آپ ہندی میں اکثر چیزیں ارشاد فرماتے، فارسی اور اردو میں نسبۃً کم کہتے۔ آپ کا عرفانی کلام آپ کے دیوان موسوم بہاسرارِ حقیقتمیں جمع ہے۔ 

آپ کے ملفوظ کے دو مجموعے ہیں:

(۱) نغمۂ طریقت (تاریخی نام: نغمۂ صوفیہ ۱۲۸۶ھ) آ پ کے مرید وخلیفہ مخدومی حضرت شاہ محمد شفیع قیس صفی پوری (م ۱۳۳۶ھ/ ۱۹۱۸ء) نے فارسی زبان میں مرتب فرمایا۔ ۱۳۲۴ھ / ۱۹۰۶ء میں قیصر ہند پریس الٰہ آباد سے شائع ہوا۔

(۲)مخزن الولایت والجمال (۱۲۸۶ھ) جسے آپ کے عزیز خلیفہ، مخدومی شاہ محمد عزیز اللہ عرف منشی ولایت علی صفی پور ی (م ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۸ء) نے جمع کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد ولاجواب ملفوظ ہے۔ اس میں آپ کی سوانح کے ساتھ آپ کے خلفاکے بھی مختصر حالات درج ہیں۔ ۱۳۰۰ھ میں مطبع انوار محمدی، لکھنؤ سے طبع ہوا ۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ اردو ترجمہ پاکستان سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوچکا ہے۔


اولاد

آپ کے ایک صاحبزادے حضرت نیاز صفی تھے، جو تین سال کی عمر میں ہی وفات پا گئےاور ایک صاحبزادی مُنیا بی بی رحمہا اللہ تھیں جو حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ کو منسوب تھیں۔ منیا بی بی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ۱۳۰۷ھ/ ۱۸۸۹ء میں ان کی وفات ہوئی۔


خلفاء

سلسلۂ صفویہ جس طرح سے آپ کی ذات سے شائع ہوا، بندگی شیخ مبارک قدس سرہ کے بعد کسی کی ذات سے اس کی ایسی اشاعت نہیں ہوئی۔ ۴۲؍نفوس قدسیہ کی تکمیل فرما کر ان کو اجازت وخلافت سے سرفرازفرمایا، جن میںسے سب کے سب اپنے وقت کے کامل مرشداور رہنماکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے دست حق پرست پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعدادمیں لوگ تائب ہوئے اور ان کے ذریعے طالبین مولیٰ نے اپنے مقصد حیات تک رسائی حاصل کی ؎

کعبۃ العشاق باشد این مقام

ہر کہ ناقص آمد این جا شد تمام

(یہ بارگاہ عشاق کا مرکز ہے، اس کے گرد جو بھی ناقص آیا اس کی تکمیل ہوئی۔ )

(۱) حضرت خلیفۃاللہ شاہ عرف شاہ امیراحمد(جانشین)

(۲) حضرت ذوالفقاراللہ شاہ عرف الطاف محمدصفی پوری

(۳)حضرت کریم اللہ شاہ عرف کریم بخش (صفی پور)

(۴)حضرت عظمت اللہ شاہ (فرخ آبادی)

(۵)حضرت حبیب اللہ شاہ عرف رمضان خان بانگرموی (سیتل گنج)

(۶)حضرت یقین اللہ شاہ عرف سیدقمرعلی پنجابی ثم لکھنوی

(۷)حضرت عطاء اللہ شاہ عرف عطا حسین صفی پوری

(۸)حضرت عنایت اللہ شاہ صفی پوری

(۹)حضرت مولاناحافظ شاہ عبدالرحمن ترہوانی

(۱۰)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سیدمظہرحسین لکھنوی

(۱۱)حضرت اہل اللہ شاہ عرف مشرف علی دہلوی ثم میرٹھی

(۱۲)حضرت مبارک اللہ شاہ عرف مبارک حسین

(۱۳)حضرت ظہوراللہ شاہ عرف اجپل شاہ ملتانی

(۱۴)حضرت مولاناحافظ شوکت علی سندیلوی

(۱۵)حضرت سعادت علی شاہ رام پوری

(۱۶)حضرت امیراللہ شاہ اناوی

(۱۷)حضرت شرافت اللہ شاہ (آسیون،انائو)

(۱۸)حضرت نوراللہ شاہ عرف نور محمدخان (گھاٹم پور، کانپور)

(۱۹)حضرت اسداللہ شاہ عرف چودھری محمدخصلت حسین (رئیس سنڈیلہ)

(۲۰)حضرت قل ہواللہ شاہ عرف قاضی عبدالغفور (بارہ بنکی)

(۲۱)حضرت مراد اللہ شاہ عرف مداربخش ( لکھیم پور کھیری)

(۲۲)حضرت کلیم اللہ شاہ عرف فرزندحسن (نیوتنی،اناؤ)

(۲۳)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سرفراز علی (سانڈی، ہردوئی )

(۲۴)حضرت وجہ اللہ شاہ عرف مولوی فیض محی الدین (ہردوئی)

(۲۵)حضرت کرامت اللہ شاہ بانگرمؤی

(۲۶)حضرت رحیم اللہ شاہ عرف سالار بخش کانپوری

(۲۷)حضرت احسان اللہ شاہ صفی پوری

(۲۸)حضرت خوب اللہ شاہ اناوی

(۲۹)حضرت سیدشاہ یعقوب علی ترکواسی (گڑگاؤں،ہریانہ )

(۳۰)حضرت شاہ محمدشفیع صفی پوری

(۳۱)حضرت برحق اللہ شاہ حقانی اناوی

(۳۲)حضرت شاہ نیازحسین بانگرموی

(۳۳)حضرت انواراللہ شاہ عرف نورمحمدمحمودنگری لکھنوی

(۳۴)حضرت کفایت اللہ شاہ (بلہور،کانپور)

(۳۵)حضرت سیدیعقوب علی موہانی (موہان، اناؤ)

(۳۶) حضرت اظہاراللہ شاہ عرف نیازمحمدصفی پوری

(۳۷) حضرت خلیل اللہ شاہ عرف حکیم خلیل الدین خان طبیب لکھنوی (الٰہ آباد)

(۳۸) حضرت روح اللہ شاہ عرف مولوی حسین علی صفی پوری ثم سندیلوی

(۳۹) حضرت احمداللہ شاہ عرف مولوی احمدعلی موہانی (صفی پور)

(۴۰) حضرت بشارت اللہ شاہ صفی پوری

(۴۱) حضرت عین اللہ شاہ عرف خلیل احمدصفی پوری

(۴۲)حضرت عزیزاللہ شاہ عرف منشی محمدولایت علی خان صفی پوری رَحِمَهُمُ اللهُ

 ان ۴۲؍حضرات کے علاوہ ۲۹؍ مردوں اور ۷؍عورتوں کو پیالہ نوش فقیربنایا۔


فقیر داس

شیو چرن موضع تکیہ (لکھنؤ)کے رہنے والے ایک صاحبِ کمال برہمن تھے۔ حضرت اقدس کو خواب میں دیکھ کر حاضرہوئے، بعینہٖ وہی صورت پائی جو نظر آئی تھی، آپ کے سچے بھکت ہوئے اور مرید ہوگئے۔ حضرت صاحب قبلہ نے فقیر داس نام رکھا اور خلفا کی طرح تعلیم فرماکر صاحب اجازت کیا ،ان کے بہت سے چیلے ہوئے۔ ([8])

جانشینی و تولّیت

حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ آپ کے جانشین ہوئے۔ حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ آپ کے داماد اور بھتیجے تھے۔ پیر و مرشد نے آپ کے حق میں فرمایا تھا کہ میرے فرزند، لخت جگر اور جان و مال کے مالک ہیں۔ ([9]) آپ اپنے مرشد گرامی کے آخری خلیفہ تھے۔ پیرو مرشد نے وصال سے صرف ۳؍ دن پہلے آپ کو اجازت و خلافت عطا کی اور جانشین مقرر فرمایا۔

حضرت شاہ امیر احمد صفوی نے زوجۂ اولیٰ (بنت حضرت صاحب) کی وفات کے بعد دوسراعقد انیسٌ بی بی سے کیا، وہ بھی لا ولد رہیں۔

حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شاہ امیر احمدؒ کا وصال ۷؍ ذو الحجہ ۱۳۱۴ھ / ۱۸۹۷ء کو ہوا۔ حضرت شاہ عزیز صفی پوری نے درج ذیل تاریخ کہی([10]):

جانشینِ مرشدِ ما رفت آہ

خوش برآمد جانِ او از کالبد

مصرعِ تاریخ بنوشتم عزیز

 شاہ امیر احمد گلِ فردوس شد

حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ کے بعد درگاہ شریف اور جائداد کی منتظم آپ کی اہلیہ انیسٌ بی بی ہی رہیں۔ انہوں نے اپنے بھتیجے سید خادم علی بن سید فرزند علی اور ان کے چھوٹے بھائی سید ناظم علی کو اپنا وارث نامزد کیا۔

حضرت مواہب اللہ شاہ عرف سید خادم علی رحمہٗ اللہ کو بیعت اور اجازت و خلافت حضرت شاہ شمشاد صفی محمدی قدس سرہ([11])سے تھی اور اُنہی کی منجھلی صاحبزادی سے عقد بھی ہوا، جن سے ایک صاحبزادے حضرت سید ضیاء خادم عرف نوابو میاں یادگار ہوئے۔

حضرت خادم علی میاں کی حیات کے آخری دنوں میں کچھ ناچاقی اور نا اتفاقی کے سبب ان کے چھوٹے بھائی جناب سید ناظم علی میاں نے درگاہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لیا اور متولّی ہوئے۔ حضرت سید خادم علی میاں نے اپنے صاحبزادے سید ضیا خاد م عرف نوا بو میاں کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا۔ حضرت خادم علی صاحب کی وفات ۲۲؍ رجب ۱۳۹۶ھ / ۱۹۷۶ء میں ہوئی اور ان کے صاحبزادے حضرت نوا بو میاں رحمہ اللہ کی وفات ۱۶؍ ذی القعدہ ۱۴۲۳ھ / ۲۰۰۳ء کو ہوئی۔ اب آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سید ضیا عارف عرف ببو میاں آپ کے جانشین ہیں۔

درگاہ شریف کے متولی جناب سید لائق ناظم بن سید ناظم علی صاحب ہیں، جو معاملہ فہم، ذی شعور اور بہتر انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

وصال

قطب العالم حضرت مخدوم شاہ خادم صفی محمدی کا وصال ۱۳؍ رجب ۱۲۸۷ھ مطابق ۹؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء بروز یک شنبہ کو ہوا۔ مزار مقدس صفی پور میں مرجعِ خلائق ہے۔

مادہ ہاے تاریخ

از حضرت شاہ روح اللہ عرف مولانا حسین علی سرشارصفی پوری

جناب حضرت خادم صفی شاہ شفوق

نمود عزم ازین جا بہ خالق مخلوق


سن تولد و عمر و وصال در شعری

نوشت عاشقِ سرشار اندرین منطوق


ظہورِ حُسن تولد، سنینِ او محبوب

سنِ وصال بدانید عاشقش معشوق


از حضرت شاہ عزیز اللہ صفی پوری

شاہ خادم صفی ولیُّ اللہ


قد تلقَّی بجنَّتِ الماویٰ

قلتُ بالفکرِ عامہٗ کعزیز

أَوصَلَ اللہُ شَیْخَنَا بِلِقَا

ولہٗ

آمد از آسمان بلاے عظیم

قطب آفاق رفت وا ویلاہ

گفت تاریخ فی البدیہ عزیز

شاہِ خادم صفی نماندہ آہ

ولہٗ ایضاً

شدہ واصل بخدا مرشدِ ما حضرتِ خادم 

چو صبا گشت سبک خیز و بہ فردوس برین شد

ملک آمد ز فلک گفت چہ تاریخ عزیزا

صبح یکشنبہ ہمہ حق ز رجب سیزدہم شد

ولہٗ در سال عیسوی (۱۸۷۰)

چون اکتوبر آمد نہم روز رفت

ولیِّ خدا سوئے جنت پگاہ

دلم گفت سال مسیحی عزیز

جدا شاہِ خادم صفی گشتہ آہ

ولہٗ در سال سمّت (۱۹۲۷)

کنوار آمد و رفت روز نخستین

بخلدِ برین مرشدِ پاک خوش خوی

عزیز جگر خستہ سمت رقم زد

بشد شاہِ خادم ولیِّ خدا جوی

Ad Image