Donate Now
حضرت میر عبد الواحد بلگرامی قدس اللہ سرہ

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی قدس اللہ سرہ

حضرت میرعبدالواحد بن میر ابراہیم بن سید قطب الدین بن سید ماہرو بن سید بڈھ بلگرامی قدس سرہ، سادات واسطی زیدی کے فردِ فرید ہیں۔ آپ کے جد اعلیٰ حضرت سید محمد صغریٰ بلگرامی، قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے مرید اور ظاہری و باطنی خوبیوں کے جامع تھے۔

حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی قدس اﷲسرہٗ کے والد (میر ابراہیم) اور چچا (سید طٰہ بلگرامی) حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اﷲسرہٗ کے مرید و خلیفہ تھے۔ آپ بھی بچپن میں ہی حضرت مخدوم کے دست مبارک پربیعت ہوئے۔ پیرومرشد کے وصال کے وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔({ FR 8275 }) اس کے بعد مخدوم صاحب کے خلیفہ حضرت مخدوم شیخ حسین سکندرآبادی نے میر صاحب کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ادا کی اور خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔ میر عبدالواحدقدس سرہ تحریرکرتے ہیں:

’’این فقیرمرید مخدوم شیخ صفی است وخلافت ازمخدوم شیخ حسین دارد۔ ومخدوم شیخ حسین یکے از خلفاے مخدوم شیخ صفی بودند‘‘۔({ FR 8276 }) 

ترجمہ :یہ فقیر مخدوم شیخ صفی کا مرید ہےاور اسے مخدوم شیخ حسین سے خلافت حاصل ہے۔مخدوم شیخ حسین، مخدوم شیخ صفی کے خلیفہ ہیں۔

 ’’مخدوم شیخ حسین را با پدرایں فقیر اُلفتے ومحبتے تمام بود ومیان یک دیگر اخلاص و اختصاص کلی داشتند۔ و پدر ایں فقیر نیز خلیفۂ مخدوم شیخ صفی بود۔ بدیں سبب ایں فقیر رجوع بہ مخدوم شیخ حسین کرد، و مخدوم شیخ حسین نیز عنایتہا و نوازش ہاے فراواںارزانی داشتند کہ یار زادۂ ماست و جامۂ خلافت نیز پوشانیدند، اگرچہ فقیر را لیاقت ایں جامہ نبود، اما شکرانۂ درگاہ باری تعالیٰ می گذاریم کہ پیوندِ بیعت بہ ایشاں درست داریم 

عہد مابالب شیریں دہناں بست خدا

ما ہمہ بندہ و ایں قوم خداوندانند

ترجمہ :مخدوم شیخ حسین کو فقیرکے والد بزرگوار [میر ابراہیم] سے بڑی الفت و محبت تھی۔ اور ان دونوں کے درمیان بڑی قربت و یگانگت تھی۔ فقیر کے والد بھی مخدوم شیخ صفی کے خلیفہ تھے۔ اسی وجہ سے میں نے مخدوم شیخ حسین سے رجوع کیا۔ حضرت مخدوم نے بھی بڑے الطاف و عنایات کا معاملہ فرمایا؛کیوں کہ میں ان کا رفیق زادہ تھا۔ خرقۂ خلافت سے بھی سرفراز فرمایا، اگرچہ فقیر اس کا اہل نہیں تھا۔ میں بارگاہ الٰہی میں شکر گذار ہوں کہ مخدوم سے میری نسبت غلامی درست ہے؎

عہدِ مابالبِ شیریں دہناں بست خدا

ما ہمہ بندہ و ایں قوم خداوندانند

(خدانے ہمارا عہدوپیمان خوش گفتار محبوبوں کے ساتھ باندھا،ہم سب غلام ہیں اور یہ ہمارے آقاہیں۔)({ FR 8277 })

تصانیف

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علوم ظاہری و باطنی میں یکتائے عصر تھے۔متعدد تصانیف آپ سے یادگار ہیں، مثلاً: حقائق ہندی، شرح نزہۃ الارواح، شرح کافیہ (در تصوف)، شرح قصۂ چہار برادر، شرح مصطلحات دیوان خواجہ حافظ شیرازی، رسالہ حل شبہات اور سبع سنابل وغیرہ۔ 

آپ کی تصنیف ’’سبع سنابل‘‘ عوام وخواص کے مابین مشہور و مقبول ہے۔ یہ کتاب عقائد و تصوف کے مضامین پر مشتمل، سات ابواب میں منقسم ہے۔اس کتاب سے جہاں مشائخ کی پاکیزہ زندگی کے احوال اور کارنامے معلوم ہوتے ہیں وہیں سالکین وطالبین کے لیے علم ظاہر و باطن کے اسرار و رموز کی عقدہ کشائی کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے۔

اس کتاب کی عظیم خصوصیت بیان کرتے ہوئے حسان الہند میر غلام علی آزاد بلگرامی (م ۱۲۰۰ھ / ۱۷۸۶ء)  فرماتےہیں: 

’’اشہر تصانیف اوکتاب سنابل است در سلوک وعقائد، و قتے در شہر رمضان المبارک سنۃ خمس وثلثین ومائۃ و الف (۱۱۳۵ھ) مؤلف اوراق در دارالخلافہ شاہجہان آباد خدمت شاہ کلیم اللہ چشتی قدس سرہ را زیارت کرد۔ ذکر میر عبدالواحد قدس سرہ درمیان آمد، شیخ مناقب ومآثر میر تادیر بیان کرد۔ فرمود: شبے در مدینہ منورہ پہلو بربستر خواب گزا شتم، درواقعہ می بینم کہ  من وسید صبغۃ اللہ بروجی معاً در مجلس اقدس رسالت پناہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم باریاب شدیم ۔جمعے از صحابہ کرام واولیاے امت حاضر اند ،درینہا شخصے است کہ حضرت بہ او لب تبسم شیرین کردہ حرفہا می زنند والتفات تمام دار ند۔ چوں مجلس آخر شد ازسید صبغۃ اللہ استفسار کر دم کہ این شخص کیست کہ حضرت با او التفات بایں مرتبہ دار ند؟گفت: میر عبد الواحد بلگرامی ،وباعث مزید احترام او این است کہ سنابل تصنیف او درجناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبول افتاد۔‘‘ ({ FR 8278 }) 

ترجمہـ: سلوک وعقائد میں آپ کی مشہور تصنیف کتاب (سبع) سنابل ہے۔ ماہ رمضان المبارک ۱۱۳۵ھ میں مؤلف اوراق (میر غلام علی آزاد) نے دار الخلافہ شاہجہان آباد میں حضرت شاہ کلیم اللہ چشتی قدس سرہٗ[۱۰۶۰ - ۱۱۴۲ھ] ({ FR 8279 }) کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر آپ کی زیارت کی۔ درمیان گفتگو میر عبدالواحد قدس سرہ کا ذکر آگیا۔ حضرت شیخ نے کافی دیر تک میر صاحب کے فضائل ومناقب بیان کیے اور فرمایا کہ ایک رات میں مدینہ منورہ میں اپنے بستر پر لیٹا تھا، عالمِ واقعہ میں دیکھا کہ میں اور سید صبغت اللہ بھروچی [م ۱۰۱۵ھ / ۱۶۰۶ء] ({ FR 8280 }) سیدنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اقدس میں حاضر ہیں، صحابہ کرام اور اولیاے امت کی ایک جماعت بھی حاضر ہے، آپ کی مجلس اقدس میں ایک شخص موجود ہے اور آپ ﷺ ان سے مسکراتے ہوئے گفتگو فرمارہے ہیں اور ان کی طرف مکمل التفات ہے۔ جب مجلس شریف ختم ہوئی تو میں نے سید صبغت اللہ سے پوچھا: یہ کون شخص ہیں جن کی طرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر توجہ فرما تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ میر عبدالواحد بلگرامی ہیں، ان کے اس قدر احترام کی وجہ یہ ہے کہ  ان کی تصنیف’’سبع سنابل‘‘ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں مقبول ہوئی ہے۔ 

آپ کی بارگاہ میں حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمہ اللہ (۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ء) نے یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے :

’’سید سادات بلگرام، حضرت مرجع الفریقین ، مجمع الطریقین، حِبرشریعت، بحر طریقت، بقیۃ السلف، حجۃ الخلف سیدنا ومولانا میر عبدالواحد حسینی زیدی واسطی بلگرامی قدس اللہ تعالیٰ سرہ السامی نے کتاب مستطاب سبع سنابل شریف تصنیف فرمائی۔‘‘({ FR 8281 }) 

اولاد

حضرت میرعبدالواحد قدس سرہٗ کی اولاد میں میرعبدالجلیل، میر فیروز، میریحییٰ اور میر طیب رحمہم اللہ آتے ہیں۔ آپ کے بڑے صاحب زادے میر عبدالجلیل (م:۱۰۵۷ھ) نے مارہرہ کو قرارگاہ بناکر اس قصبہ کو رشدو ہدایت کامرکزبنایا۔ حضرت میر صاحب خانوادۂ برکاتیہ (مارہرہ) کے نسبی و روحانی اجداد میں آتے ہیں۔ 

حضرت سید شاہ حمزہ عینی مارہروی (۱۱۹۸ھ / ۱۷۸۳ء) کاشف الاستارمیں فرماتے ہیں:

’’باید دانست کہ درخاندانِ ماحضرت سند المحققین سیدعبدالواحد بلگرامی بسیار صاحب کمال برخاستہ اند۔قطب فلک ہدایت ومرکز دائرۂ ولایت بود، درعلوم صوری ومعنوی فائق،وازمشارب اہل تحقیق ذائق،صاحب تصنیف وتالیف است۔ ونسب ایں فقیر بہ چہار واسطہ بہ ذات مبارکش می پیوندد۔‘‘ ({ FR 8282 })

(جاننا چاہیے کہ ہمارے خاندان میں حضرت سندالمحققین سید عبدالواحد بلگرامی بڑے صاحب کمال ہوئے ہیں۔آپ فلک ہدایت کے قطب، دائرۂ ولایت کے مرکز تھے۔علوم ظاہروباطن میں فائق ،محققین کے مشرب شناس، اورصاحب تصنیف وتالیف ہیں۔اس فقیر کانسب چارواسطوں سے آپ کی ذات مبارک سے جاملتاہے۔)

میر سید عبدالجلیل بن میر عبد الواحد بلگرامی کے ذریعہ جوروحانی سلسلہ مارہرہ پہنچا، وہ ان کے پوتے صاحب البرکات حضرت سید شاہ برکت اللہ مارہروی بن سید اویس بلگرامی (۱۰۷۰ - ۱۱۴۲ھ) کے توسط سے آج بھی اپنی آب وتاب کے ساتھ باقی ہے۔ 

میر صاحب کا وصال ۳؍ رمضان المبارک ۱۰۱۷ھ / ۱۱؍ دسمبر ۱۶۰۸ء شب جمعہ کو ہوا۔ ({ FR 8283 })مزار مبارک بلگرام میں زیارت گاہ ہے۔ 

Ad Image