امت مسلمہ کی جانب سے فرض کفایہ اور 'جہادی فکر' کی گتھیوں کو سلجھانے والا بیش قیمت مجموعہ، تفہیم جہاد ، کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی اس فکر ساز کتاب کی تصنیف اور خسرو فاؤنڈیشن نئی دہلی اس کی اشاعت پر ہماری طرف سے بے پناہ مبارک بادیوں کے مستحق ہیں۔انہوں نے فکر و نظر کے سطحی ماحول کے باوجود "تفہیم جہاد" کی شکل میں ، قلوب و اذہان کی آسودگی کا سامان مہیا کیا ہے ، اللّٰہ پاک آپ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اس پیغام کو عالمی سطح پر شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین!
"تفہیم جہاد" کتاب کا نام ہی ان بہت ساری شرارتوں کا سد باب ہے جو جہاد کے مفہوم کو مشکوک بنانے میں نت نئی کوششوں میں مصروف رہی تھیں ، رہی ہیں اور رہیں گی۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ کسی بھی عنوان اور موضوع پر بحث ومباحثہ میں انسان اس وقت تک مقصود کو نہیں پا سکتا جب تک کہ اس موضوع کا مفہوم ، اس پر واضح طور پر روشن نہ ہو۔ جہاد کے سلسلے میں بھی سب سے مشکل مرحلہ مفہوم جہاد ہی کا ہے، جسے الحمد للہ! ڈاکٹر صاحب نے کامیابی سے طے کرنے اور کرانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔
کتاب ہذا میں ہمیں سب سے زیادہ پسند آنے والی کاوش ، ڈاکٹر صاحب کا جہاد کے معنی و مفہوم کو آسان اور سلیس انداز میں قاری کے سامنے پیش کرنا ہے ۔مفہوم جہاد کی تمہیدی گفتگو سے ہی شکوک وشبہات کے پردے ہٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب -اطال اللہ عمرہ -لکھتے ہیں:
’’اسلام ایک جامع نظام حیات ہے ، جو بیک وقت جسم ، عقل اور روح کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے ۔ حیات انسانی کے ان تینوں پہلوؤں کی تکمیل و تسکین کے لیے اس نے جہاد ، اجتہاد اور مجاہدہ کو اپنا آلہ کار بنایا ہے۔ یہ تینوں امور "جہد" کے مادہ سے مشتق ہیں ، جہد یعنی خیر کی کوشش ان تینوں میں قدر مشترک ہے ۔ حیات انسانی کو صحت مند ، پر امن اور پر سکون رخ پر رواں دواں رکھنے کے لیے مذکورہ بالا تینوں امور نہایت ضروری ہیں۔
جہاد کا تعلق جسم انسانی یعنی انسان کے مادی سکون و قرار سے ہے ۔ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام اور ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے یہ فوجی اور قانونی طریقہ اپناتا ہے۔ حیات انسانی کی پر امن اور بے ضرر بقا کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے ، بشرطیکہ اپنی درست بنیادوں پر قائم ہو۔
اجتہاد کا تعلق عقل انسانی یعنی علمی تحقیق و تفکیر سے ہے ، جو بدلتے حالات میں انسانی معاشرے کی صالح ، مفید اور اخلاقی قدروں کے تعین اور ترقی پذیر معاشرے کو فساد سے بچانے اور اصلاح سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ یہ نہ ہو تو انسانی معاشرہ یا تو ترقی سے رک جائے ، یا پھر ترقی کی اس سر حد پر پہنچ جائے جہاں انسانیت کے سوا سب کچھ ہوتا ہے ۔
مجاہدہ کا تعلق روح انسانی یعنی تزکیہ نفس اور احسان (تصوف) سے ہے ۔ اس سے انسان روحانی سکون پاتا ہے اور اس کی اخلاقی و روحانی قدروں کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اس کے ذریعے خلق اور حق کا عرفان ہوتا ہے ۔ یہ نہ ہوتو انسان محض ایک عام جانور بن جائے۔‘‘(ص:14)
مفہوم جہاد کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ بیانیہ سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف جو بھی کوشش ہوگی وہ جہاد کے زُمرے میں شامل ہوگی مگر ظلم و جبر کا پیمانہ خود ساختہ نہیں ہوگا بلکہ انسانیت کے پیمانے پر جو بات ظلما ً، جبراً اور فطرتاً ثابت ہوگی اس کے خلاف کی جانے والی جد و جہد ہی جہاد ہوگی۔ یہ تفصیل ہر انسان، ہر گروہ اور ہر ملک کے لیے عام ہے۔لیکن جو جہاد ، اللہ رب العزت کے قرب کا ذریعہ ہوگا اس کے لیے اسلام نے مزید تخصیص فرمائی ہے ، یہ تخصیص انسان کو اس کے اپنے ہر ذاتی جذبہ سے بلند کرکے خالص کر دیتی ہے اور تمام نفسیاتی انتقامات سے محفوظ فرما کر فلسفۂ جہاد کے حسن کو دوبالا بنا دیتی ہے۔
جہاد کی عقلی تفہیم کرتے ہوئے مصنف کتاب، مرشد عصر شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ صفوی الہ آبادی دام ظلہ العالی کے حوالے سے ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’مرشدِ عصر شیخ ابو سعید محمدی صفوی دام ظلہ کے بقول جہاد ، " سعی خیر" کے ہم معنی ہے اور جس کا آغاز قوا انفسکم سے ہوتا ہے ، ہر شخص پر ہر وقت فرض ہے۔ جہاں تک "جہاد بمعنی قتال" کا سوال ہے تو یہ آخری علاج کے طور پر Operation سے عبارت ہے۔ ڈاکٹر آخری حد تک پرہیز اور دوا کے ذریعے علاج کرتا ہے ، آپریشن اس وقت کرتا ہے جب علاج کی کوئی دوسری صورت نہ بچی ہو۔‘‘ ( ص:17 )
اس کے علاوہ بھی مسئلۂ جہاد کے جتنے بھی متعلقات ہو سکتے تھے، جیسے اقسام جہاد ، جہاد پر غلط فہمی کے اسباب ، اگر اسلام ایک پر امن دعوتی مذہب ہے تو پھر جہاد کیوں ؟ ، جنگ کی اصل وجہ کیا ہے ؟ فساد کا خاتمہ یا فساد فی الارض ؟ ، کیا اسلام کفر کے خلاف جنگ چاہتا ہے ؟ ، کیا اسلام شوکت کفر کے خلاف جنگ چاہتا ہے ؟ ، فتنہ اور ازالہ فتنہ کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا آیت سیف ، آیات امن کے لیے ناسخ ہے ؟ ، اللّٰہ کے لیے کل دین ہونے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا جہاد مشرکین عرب پر آسمانی عذاب تھا ؟ ، گذشتہ اقوام پر خدائی عذاب کیوں نازل ہوا ؟ ، کیا مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے تھے ، اسلام یا تلوار ؟ ، کیا تمام مشرکین کے خلاف جنگ ضروری ہے ؟، کیا لوگوں کو مسلمان بنانے کے لیے جنگ جائز ہے ؟ ، صحابہ نے دیگر اقوام سے جنگ کیوں کی ؟ ، کیا مصالحت صرف بصورت مجبوری ہی جائز ہے ؟ اور جہاد کے شرائط و آداب وغیرہ، ڈاکٹر صاحب نے ان تمام عناوین پر تفصیلی بحث فرماتے ہوئے حتی الامکان جہاد کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
المختصر! مفہوم جہاد کی تفہیم اور جہاد وفساد کے بیچ تفریق کے حوالے سے یہ کتاب ایک عام قاری سے لے کر ایک صحافی ومحقق تک سب کے لیے قابل مطالعہ اور واجب الاستفادہ ہے۔اللّٰہ پاک ہمارے ڈاکٹر صاحب کو اسلاف کی نعمتوں کا وافر حصہ عطا فرمائے اور قارئین کو آپ کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔کتاب کے شروع میں خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صاحب کا ’’پیش لفظ‘‘ کتاب کے علمی وفکری پس منظر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اللہ انہیں بھی جزائے خیر بخشے۔ آمین!
محمد فیضان صفوی قادری | چیئر مین: حافظ ملت میموریل ٹرسٹ، مرادآباد، یوپی
Leave your comment