کتاب: الموسیقی فی الاسلام
مصنف: ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی
تبصرہ: ساجد الرحمن شبر مصباحی
مطبع: شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد
صبح الست (قسط نمبر۱)
۵/جون کی تاریخ تھی،صبح نور سے کائنات کی انجمن منور ہوچکی تھی، مسند مشیخت پر جلوہ افروز جنید وقت اپنے ارادت مندوں کے بیچ درس تصوف میں مشغول تھا،محفل ذکر و فکر عہد الست کی یاد تازہ کرہی تھی،آہستہ قدم کے ساتھ میں بھی اس بزم حال و قال کا ایک فرد بن گیا۔چند لمحے بعد جب نگاہ اٹھی تو شیخ کے ارد گرد مختلف کتابوں پر پڑی، انہیں میں ایک دیدہ زیب،جاذب نظر، سرورق ذہن و دماغ کو خیرہ کرنے لگا کہیں چنگ و رباب کی تصویریں تھیں تو کہیں بربط و طبلہ سماع صوفیا کی یاد تازہ کررہی تھی۔
یہ کتاب در اصل عصر حاضر کے نامور محقق،عظیم دانشور اور مجھ جیسے سینکڑوں طلبہ کے مربی لوح و قلم ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی کی "الموسیقی فی الاسلام" تھی جو شاید اسی دن زیور طباعت سے آراستہ ہوکر نگاہوں کی زینت بنی تھی،اسی کتاب پر چند تبصراتی جملے کے ساتھ شیخ کی مجلس بھی اختتام پذیر ہوگئی۔
خیال گزرا کہ مطالعہ ہو نہ ہو لیکن تبرکا شیخ کی دستخط کردہ کتاب حاصل کرلی جائے اسی نیت سے کتاب کی اصل قیمت سات سو روپے پیش کرنے کے باوجود کتاب نہ مل سکی،شیخ نے اپنے دلربانہ انداز میں فرمایا : بیٹا! ابھی اس کا رسم اجرا نہیں ہوا ہے عرس کے بعد لے لینا۔
اتفاق سے۷/جون کی صبح تک ممبئی پہنچنا ہمارے لئے ناگزیر ہوگیا اور عرس عارفی کی برکتیں نصیب نہ ہو سکیں !!عرس کے اختتام کے بعد شیخ نے مجھ خاکسار کے نام ایک کتا ب محب گرامی مولانا مشرقین سعیدی کے توسط سےممبئی بھیج دیا۔
یہ ہماری ذہنی بے بضاعتی سمجھیں کہ اس طرح کے مضامین ہمارے لئے خاصے دلچسپ نہیں ہیں سماع وموسیقی کا مسئلہ فقہا و صوفیا کے درمیان صدیوں سے موضوع بحث رہا ہے اس تعلق سےنہ فقہا کا تیور بدلا اور نہ صوفیا کی بزم طرب و نشاط میں کوئی کمی آئی وہ تو زمانے کی برق رفتاری کو سلام کہئے کہ گزرتے عہد کے ساتھ متاخرین فقہا کے دلوں میں متقدمین صوفیا کےسماع مزامیر و عدم مزامیر کے حوالے سے بہت حد تک حسن ظن قائم ہوگیا ہے ورنہ انہیں صوفیا کے معاصر فقہا نے مناظرے،مجادلے اور مقابلے کی ساری حدیں پار کردی ہیں، نتیجتا درجنوں کتابیں اس موضوع پر لکھی گئیں۔
بہر کیف! ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب دیکھنے کے بعد ہماری نگاہوں کے سامنےوہی رزمگاہ فقہا و صوفیا کے نقوش ابھر آئے،سوچا اس کا مطالعہ کرکے کیوں پرانی قبر یں کھودوں؟دو دن گزر گئے،اچانک دل کے دروازے پر دستک آئی کہ اب تک مصنف کتاب کی کوئی تحریر سطحی،روایتی اور غیر معیاری ان آنکھوں نے نہیں دیکھا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ۲۰۱۰ءمیں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلےکے بعد سے ہی جام نور کے پلیٹ فارم سے مصنف کی متعدد تحریریں مطالعےکی میز پرسجتی رہیں تقریبا ساری تحریر یں علمی ،تحقیقی ،تنقیدی اور جدت طرازی میں ایک مثال ہوا کرتی تھیں۔
ایک دن قیلولہ کے بعد یہ کتاب ہاتھ لگ گئی اور اس کےبیک پیج پر نظر پڑ ی تو دل میں مطالعے کا ایک گونہ اشتیاق پیدا ہوا لیکن جب اس کتاب کے مشمولات کے ساتھ اس کا الہامی مقدمہ ’’ مضراب الست‘‘ پڑھا تو پھر دل و دماغ کو مہمیز لگا کہ اس کا مطالعہ ضرور ہونا چاہیے۔
۵/ذوالحج ۱۴۴۴ھ - 24/جون 23ء
صبح الست (قسط نمبر۲)
۵۵۱/صفحات پر مشتمل یہ کتاب محبوب الہی کے خلیفہ اجل علامہ فخر الدین زرادی کے ذوق تحقیق سماع اور محبوب محبوب الہی حضرت امیر خسرو کے ذوق نغمہ وموسیقی کے نام منسوب ہے ۔کتاب کا پس منظر’’فغان چنگ و رباب ‘‘ کے عنوان سےنہایت دلچسپ ہے،مصنف کااشہب قلم کہانیوں کی رنگین فضا سے آغاز سفر کرتا ہے اور ۱۶/سال کی طویل ترین مسافت طے کرنے کے بعد جب منزل رسا ہوتا ہے تو مسافران راہ نت نئے عجائب وغرائب کےمشاہدے سے انگشت بدنداں رہ جاتےہیں۔ مصنف کا یہ سفر امام بخاری کے سفر صحیح بخاری سے ایک گونہ مطابقت رکھتا ہے، امام بخاری نے بھی ۱۶/سال کی جگرکاویوں کے بعد سفر صحیح بخاری کی تکمیل فرمائی جس کے اثرات سے ہر خاص و عام کے دلوں میں آج بھی بخاری کی اہمیت و افادیت کا چراغ روشن ہے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب سات ابواب پرمشتمل ہے:
(۱) جمالیات سماع(۲) مبادیات سماع(۳) تراث سماع(۴) تاریخ سماع (۵) فقہ نغمات(۶) فقہ آلات(۷) سماع عارفاں،
پھر ان ابواب کےتحت متعدد ذیلی عناوین ہیں۔
جمالیات سماع کےتحت مصنف نےاسلام کاتصور جمالیات،اسلام اورانسانی جمالیات میں نغمہ وموسیقی کامقام اور صوفیانہ و فقیہانہ مزاج ومنہج کےدرمیان زبردست فرق کو اجاگرکیاہےجس کےمطالعے سے احساس ہوتاہےکہ یہ سب مصنف کی کشفی اور الہامی واردات ہیں یا پھر کسی شبلی زماں کی صحبتوں کااثر ہے۔
اس باب کے اخیر میں مصنف نےشیخ سرہندی کےاس جملےپرکہ ’’حلت وحرمت میں صوفیاکا عمل حجت نہیں ہے ‘‘ نہایت فکرانگیز گفتگو کی ہےجس میں یہ باور کرانےکی کوشش کی ہےکہ جس طرح امام طحاوی،امام بزدوی اورامام سرخسی کا قول وعمل ایک حنفی مقلد کےحق میں حجت ہے اسی طرح جنید بغدادی،شیخ عبدالقادرجیلانی اورخواجہ معین الدین چشتی کا قول وعمل بھی ایک جنیدی ایک قادری اورایک چشتی کے حق میں ضرور معتبر ہے ۔اپنی بات کی تقویت کےلئے مصنف نے چند فقہائےصوفیاکاتذکرہ کرنےکے بعد فقیہان حرم کی عدالت میں یہ سوال رکھاہےکہ ’’ان کاقول عمل حجت کیوں نہ ہوگا؟کیایہ فقیہ نہیں ہیں ،تو پھر فقیہ کون ہے؟ وہ جو فروعیات میں کوئی ایک کتاب لکھ دے خواہ اس کےعلم وتقوی کامعیار کچھ بھی ہو‘‘۔ص:۴۵)
صبح الست (قسط نمبر۳)
مبادیات سماع اس کتاب کا دوسرا باب ہے جس کے تحت مصنف نےحقیقت صوت و صدا،مفہوم غنا اورآلات موسیقی کے خدوخال کو اجاگر کیاہے جس سےفن موسیقی کی تاریخ،مقاصد اوراس فن کی بنیادی معلومات سے قاری لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔کیا ہی بہتر ہوتاکہ مصنف آلات موسیقی کی تعریف کےساتھ تصاویر بھی پیش کردیتے توہم جیسے غیر موسیقار کواصل نہ سہی عکس ہی کے ذریعے ان آلات کی صنعت وبناوٹ اورہیئت وساخت کا ایک اندازہ مل جاتا جب کہ ہمیں اس بات کااعتراف ہےکہ یہ فن موسیقی کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں ہے۔
اسی باب کے ذیلی عناوین کےتحت مصنف نےمعازف ومزامیر کی تحقیق کی ہے اوران کےدرمیان فرق کوبہت نمایاں کیا ہے،ساتھ ہی لہو ولعب کی لغوی واصطلاحی وضاحت کرتے ہوئے دونوں کےمابین تساوی وترادف اورعام خاص من وجہ کی نسبتوں کاقول کیاہے ان سب کے بعد مصنف اپنا ریمارک یوں پیش کرتے ہیں:
لہو پر حکم لگانےسے پہلے یہ غور کرناہوگاکہ سامان لہو کیاہے ، سامان لہوجیسا ہوگالہو کاحکم بھی اسی کےتابع ہوگا اگر لہو امر مستحب سے ہوتو لہو بھی مستحب ہوگا اوراگر لہو کسی امرمباح،امرمکروہ،امر حرام سے ہےتوبالترتیب لہو کاحکم بھی وہی ہوگا۔ص:۷۰)
مفہوم سماع کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نےاس کے دس لغوی معانی بیان کئے ہیں اورعلامہ فخر الدین زرادی کارسالہ اصول السماع کے حوالےسے سماع کی تعریف یوں کی ہے: سماع اس نغمہ کو کہتے ہیں جو اچھی آواز اورموزون کلام سےمل کربناہواوراسے ایک خاص اندازمیں پڑھا گیاہو۔
پھر سماع و غنا کے مابین تمیز کرتے ہوئےمصنف نے سماع کی اباحت کاقول کیاہے۔
صبح الست (قسط نمبر۴)
اس کتاب کاتیسرا باب تراث سماع ہے جس میں مصنف نے پانچویں صدی ہجری سےلےکر پندرہویں صدی ہجری تک سماع بالمزامیر پر لکھی گئی ۲۰/ سےزائد اہم ترین کتا بوں کاتجزیاتی مطالعہ پیش کیاہے جن میں بعض کتابیں جواز سماع سےبحث کرتی ہیں توبعض عدم جواز سےمتعلق ہیں،کچھ کتابیں سماع بالمزامیر سے احتیاط واجتناب پر دلالت کرتی ہیں تو کچھ تشدد و تفریط کی راہ پر ہیں۔
اس کا اندازہ آپ اس بات سےلگاسکتے ہیں کہ دسویں صدی ہجری کےبزرگ شیخ الاسلام احمد بن حجر ہیتمی شافعی نے سماع کی حرمت پرایک رسالہ ’’ کف الرعاع عن محرمات اللہو والسماع‘‘
(لہو اورسماع کےارتکاب حرام سےعوام کی ممانعت) کے نام سے لکھا ،جب کہ پانچویں صدی کےبزرگ،برادر غزالی ،امام احمد بن محمد غزالی نےاپنے رسالہ ’’ بوارق الالماع فی تکفیر من یحرم السماع ‘‘ میں حرمت سماع کے قائلین کی تکفیر کی ہے۔
مسئلہ سماع سےمتعلق ان اہم ترین تراث کو پیش کرنےکےبعد مصنف نے فن تصوف کے دس سےزائد مراجع کتب کامختصر تعارف وتجزیہ بھی پیش کیاہے جن میں سماع مزامیر و عدم مزامیر کامسئلہ زیر بحث آیا ہے۔مصنف کی تحقیق یہ ہےکہ صوفیا کے یہاں سماع مزامیر پر فنی واصولی بحث چوتھی/دسویں صدی سےشروع ہوتی ہے جن میں اولیت شیخ ابونصر سراج(۳۷۸ھ/۹۸۸ء) کی کتاب’’ کتاب اللمع‘‘ کو حاصل ہے۔
میر عبد الواحد بلگرامی کی کتاب ’’سبع سنابل‘‘ جو بعض مشایخ سمیت اعلی حضرت فاضل بریلوی کے یہاں بھی مقبول بارگاہ رسالت ہے؛ اس پر تبصرہ و تجزیہ کے درمیان مصنف نےبانی سلسلہ سہروردیہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ اورخواجہ قطب الدین بختیار کاکی کےہم نشین وہم جلیس قاضی حمید الدین ناگوری سے متعلق ایک دلچسپ بات نقل کی ہےمصنف لکھتے ہیں کہ: قاضی حمید الدین ناگوری سماع بالمزامیر کےزبردست عاشق و شیدا تھے اور اس کے جواز کےلیے آپ نے دہلی اوربغداد میں مناظرے بھی کیے،دہلی میں سماع بالمزامیر کی تجدید کے بعد قاضی صاحب نے بغداد کا رخ کیا وہاں کے علماوفقہاجب احتساب کےلیے آئے تو خود ہی رقص کناں ہوگئے۔(ملتقط،:ص141
27/جون 2023
صبح الست (قسط ۵)
اس کتاب کا چوتھا باب تاریخ سماع سے بحث کرتا ہے جو گزشتہ تما م ابواب میں سب سے زیادہ دلچسپ،محقق اور معلوماتی ہے۔
سماع مزامیر کی تاریخ کےضمن میں مصنف نے مختلف آلات موسیقی کے موجد وبانیان کی صراحت کے بعد اس حقیقت سے نقاب کشائی کی ہےکہ سماع بالمزامیر کی روایت عہدرسالت سےوابسطہ ہے جو عباسی عہد تک آتے آتے مسلم ثقافت کا حصہ بن گئی۔
مصنف نے مدار ج النبوہ کے حوالے سے متعدد صحابہ،تابعین اور محدثین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سارےحضرات سماع بالمزامیر سناکرتے تھے۔
ایک جلیل القدر محدث ابراہیم بن سعد زہری کے حوالے سے مصنف نے نہایت دلچسپ بات نقل کی ہے کہ:
" آپ اس وقت تک حدیث کادرس نہیں دیتےتھے جب تک کہ سماع مزامیر سےخود کو سرشار نہ کرلیتے تھے یہاں تک ہارون رشید کےدربار میں بھی آپ نے یہ شرط رکھی جسے اس نے پوراکیا"۔(ص:۱۷۴،بحوالہ،مدارج النبوہ)
اس باب کاایک ذیلی عنوان ’’ مشائخ چشت اورسماع بالمزامیر‘‘ہے اس کےتحت آپ نے بہت سے چشتی مشائخ کاذکر کیاہے جوسماع بالمزامیر کےقائل وعامل تھے ان میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خلیفہ محبوب الہی خواجہ برہان الدین غریب،حضرت امیر خسرو،مخدوم اشرف کچھوچھوی،شیخ سعد خیرابادی،شیخ عبدالقدوس گنگوہی،مخدوم شاہ صفی، علامہ فضل حق خیرآبادی،مولانا محمد حسین الہ آبادی،اعلی حضرت اشرفی میاں اورپیر مہر علی شاہ گولڑوی وغیرہ کےاسما سرفہرست ہیں۔
اس عنوان کا آغاز فاضل بریلوی کےایک اہم فتوی سے ہوتاہےجوسماع بالمزامیر سے متعلق ہے،اسی فتوی پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نےایک اہم راز سے پردہ اٹھایا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ:
" فوائد الفواد سے اعلی حضرت فاضل بریلوی نےکم از کم ۶/ مقامات پر خواجہ نظام الدین اولیا سےمنسوب کرکے یہ جملہ نقل کیاہے:’’مزامیر حرام است‘‘ لیکن فتاوی رضویہ کےتخریج کاروں نےکسی مقام پر بھی اس کی مکمل تخریج نہیں کی ہے،باب اورصفحہ کی قید کے بغیر صرف فوائد الفواد لکھاہے۔حقیقت یہ ہےکہ یہ جملہ سرے سےسلطان المشائخ کاہے ہی نہیں نہ فوائد الفواد میں کہیں اس کاوجود ہے‘‘۔(ص:۲۰۳)
مصنف کی یہ بات ان تمام مدعیان کےلیے کسی چیلنج سے کم نہیں جن کی زبان اس دعوے کے ساتھ کبھی خشک نہیں ہوتی کہ "اللہ رب العزت نےاعلی حضرت کےقلم کوخطا ونسیان سےپاک کردیاتھا"۔
ایک مقام پر مصنف نےاسی مسئلے سے متعلق اپنے رنج کا اظہار کرتے ہوئے مزید حیرت میں ڈال دیاہے،لکھتے ہیں کہ:
"علامہ زرادی نے سلطان المشائخ کےحکم سے رسالہ ’’اصو ل السماع‘‘حلت مزامیر کے ثبوت کےلیے لکھا ہےلیکن بعض اہل علم اس کتاب کے صرف ایک جملے:
’’اما سماع مشائخنا رضی اللہ تعالی عنھم فبرئ عن ہذہ التہمۃ فہو مجرد صوت القوال مع الاشعارالمشعرہ من کمال صنعۃ اللہ تعالی‘‘
کو باربار نقل کرکے اس سے حرمت مزامیر کامعنی پیدا کرنےکی سعی پیہم کرتے رہے ہیں‘‘۔(ملتقط،ص:۱۹۳)
اس باب کا آخری عنوان ہے"غیر چشتی علما ومشائخ اورسماع بالمزامیر‘‘
بہت سےاہل علم کےدرمیان یہ بات رائج ومشہورہےکہ سماع بالمزامیر کی روایت صرف چشتی مشائخ کےیہاں مروج ومنقول ہے قادری مشائخ ہمیشہ اس سے احتراز واجتناب کرتے رہے ہیں،یا سماع بالمزامیر چشتیوں کےیہاں تو جائز ودرست ہے لیکن قادریوں کےنزدیک ناجائز وممنوع ہے۔مصنف اس فہم وخیال کو غیر معقول قراردیتے ہوئے یکسر باطل گردانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر معقول بات ہے کہ کوئی مسئلہ چشتیوں کےنزدیک جائز ہواورقادریوں اور سہروردیوں کے نزدیک ناجائز وحرام ہو اس لئے کہ جواز وعدم جواز یا حلت وحرمت کا تعلق فقہا سے ہوتاہےنہ کہ صوفیاسے۔(ملخص،ص:۲۵۴)
اس کے بعد مصنف نے دو درجن سے زائد غیر چشتی مشائخ وصوفیا کا ذکر کیاہے جوسماع کےمجوزین وقائلین میں سے تھے ان میں بعض ایسے مشائخ کابھی ذکر ہے جوسماع مزامیر کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پرعامل بھی تھے۔ اس تحریر کے مطالعے سے مذکورہ خیال کی مکمل تردید ہوجاتی ہے۔
شبر مصباحی
۹/ذوالحجۃ ۱۴۴۴ھ
صبح الست (قسط ۶)
اس کتاب کا پانچواں باب"فقہی نغمات" ہےجو علمی اور تحقیقی ہونے کے ساتھ شرعی اصولوں سے بھی بحث کرتا ہے۔
اس باب میں مصنف نے سماع نغمہ کو قرآن و سنت اور مذاہب فقہا کی روشنی میں مدلل و مبرہن کیا ہے اور جواز نغمہ کو انسانی فطرت سے مربوط کرتے ہوئے نہایت معقول انداز میں پیش کیا ہے،جس سے سماع نغمہ کا حسن و جمال بے نقاب ہو کر سامنے آجاتا ہے اور یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نغمہ اپنی اصل کے لحاظ سے تو جائز و درست ہے لیکن بسااوقات کسی عرض عارض کی وجہ سے کراہت یا حرمت کا متقاضی ہوجاتا ہے۔
مصنف نے سماع نغمہ کے جواز و عدم جواز پر فریقین کی قرآنی و حدیثی دلیلیں پیش کرنے کے بعد ان تمام دلائل کا نہایت محققانہ تجزیہ کیا ہے۔
لکھتے ہیں:
قرآن میں نغمہ کے جواز یا عدم جواز پر کوئی صریح آیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی آیت ہے جس سے اشارتا ہی سہی مطلقا سماع نغمہ کی حرمت ثابت ہوتی ہو،ایسے میں "الاصل فی الاشیاء اباحۃ" کے تحت سماع نغمہ جائز ہوگا اور اگر یہ سماع نغمہ سامع کو خدا و رسول،آخرت اور شعار دین سے قریب کر دے تو حدیث رسول "من سن فی الاسلام سنة حسنة " کے تحت یہ عمل بدعت ہونے کے بجائے سنت ہوگا۔(ملخص،ص:301/302
اسی طرح احادیث و آثار میں جہاں کہیں نغمے کی ممانعت کا ذکر ہے اس سے مراد وہ جاہلی نغمہ ہے جو ایمان و کفر،محرم و غیر محرم، نکاح و زنا، شرم و حیا جیسی تمام بندشوں سے آزاد محض نفس پرستی،شہوت رانی اور فسق و معصیت کے لیے ہو ایسا نغمہ کل بھی حرام تھا اور آج بھی حرام ہے ۔(ص:327
مذاہب فقہا کے ضمن میں مصنف نے سماع نغمہ کی دو تقسیم کی ہے(1) سماع نغمہ منصوص علیہ جیسے شادی، عید، نکاح وغیرہ (2)سماع نغمہ غیر منصوص علیہ جیسے محض تفریح طبع کے لئے نغمہ سننا۔ مصنف کے بقول یہی آخری صورت مختلف فیہ ہے جس بارے میں ایک طبقہ علماء نے اباحت کا قول کیا ہے جب کہ دوسرے نے کراہت اور تیسرے نے حرمت کی تائید کی ہے۔
شوافع،مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک یہ عمل مکروہ ہے،عمل لہو،خلاف مروت اور ناپسند ہونے کی وجہ سے جب کہ احناف کے نزدیک یہی عمل حرام کے قبیل سے ہے۔
مصنف نے اس حرمت کا نہایت محققانہ تجزیہ کیاہے جس میں وہ اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ حنفیہ کےحوالے سے حرمت غنا کی صراحت کہیں نہیں ملتی!! بلکہ ان کے اقوال و اعمال سے غنا کی اباحت ہی ثابت ہوتی ہے یا زیادہ سے زیادہ کراہیت،لیکن ان کے بعد اکابر علمائے حنفیہ اور شارحین مذہب حنفی نے اس کراہت کو کراہت شدید اور پھر حرمت تک پہنچا دیا۔
گویا مصنف کی یہ تحقیق موجودہ فقیہان حرم کو ازسرنو اس مسئلے کی طرف التفات کی دعوت دے رہی ہے۔
شبر مصباحی-13/ذوالحج 1444ھ
صبح الست قسط (۷)
اس کتاب کا چھٹا باب "فقہ آلات" ہے جو آلات نغمہ کی قرآنی وحدیثی تفہیم پر مشتمل ہونے کے ساتھ اس مسئلے کی فطری،عقلی اور شرعی نوعیت سے بھی بحث کرتا ہے۔
آلات نغمہ کی حلت و حرمت سے متعلق فریقین کی پیش کردہ قرآنی آیات کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ یہ سب نارسا استدلال اور دور از کار تاویلات پر مبنی ہیں،مصنف نےاپنے دعوے پر ثبوت بھی پیش کیا ہےاور کہا ہےکہ قرآن میں کسی بھی مقام پر آلات موسیقی کی حلت و حرمت کی بابت کوئی آیت صراحتاً نہیں ملتی۔
اس باب کے حدیثی دلائل کے تحت مصنف نے کانٹے دار بحث کی ہے اور طرفین کی مستدل بہ احادیث کے بیچ تطبیق،ترجیح اور تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے۔
حرمت آلات کے قائلین اور ان کے استدلال پر ہونے والے تعاقبات کا مطالعہ کرتے ہوئے کبھی چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے تو کبھی حسن تطبیق ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے،کہیں اثری صاحب کے
" بہرحال" کی کھلیاں اڑائی جاتی ہیں تو کہیں "لا تصحبها الملائكة" سے ملائکہ فتح و ظفر مراد لے کر مخاطب کو اپنے دامن میں جھانکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، کہیں مفتی شفیع صاحب کی تطبیق احادیث کو اقلیدس کا خیالی نقطہ اور معشوق کی موہوم کمر سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کہیں البانی صاحب کی توجیہات پر لفظ پرستی کی جھلک واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بعض مقامات پر مصنف کا قلم حد اعتدال سے قدرے تجاوز کرتا نظر آتا ہے۔
مذاہب اربعہ بیان کرتے ہوئے مصنف نے یہ صراحت کی ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک بھی آلات موسیقی مطلقا حرام نہیں ہے۔
اخیر میں مصنف نے فاضل بریلوی کے فتوی سماع بالمزامیر کی تنقیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری نظر میں سماع مزامیر کے حوالے سے فاضل بریلوی کا زیادہ تحقیقی،جامع اور بصیرت افروز فتوی وہ ہے جو فتاوی رضویہ (جدید )کی جلد نمبر 24 میں مسئلہ نمبر 2 کے تحت مذکور ہے جس میں آپ نے فرمایاہے کہ:
" مزامیر یعنی آلات لہو لعب بر وجہ لہو لعب بلا شبہ حرام ہے"۔
فتویٰ کا اقتباس نقل کرنے کے بعد مصنف نے مزامیر کے حوالے سے اعلی حضرت کے موقف کی کچھ یوں وضاحت کی ہے:
(1) فاضل بریلوی بلا کسی قید و استثنا کے مطلقا مزامیر کی حرمت کے قائل نہیں ہیں۔
(2) فاضل بریلوی سماع مزامیر کو اصلا گناہ صغیرہ سمجھتے ہیں وہ بھی اس وقت جب اسے بروجہ لہو و لعب سنا جائے،
کیوں کہ اس کی حرمت مختلف فیہ ہونے کے ساتھ اخبار احاد سے ثابت ہے جو ظن کا فائدہ دیتی ہیں اور حرام ظنی یعنی مکروہ تحریمی علمائے محققین کے نزدیک گناہ صغیرہ ہوا کرتا ہے۔
اسی وجہ سے اعلی حضرت کے صاحب زادے مفتی اعظم ہند نے بھی قوالی مع مزامیر کے مرتکبین پر حکم فسق لگانے سے گریز کیا ہے۔
مصنف اخیر میں لکھتے ہیں کہ :
اعلی حضرت کی بعض عبارات سے ان کا کل موقف نہیں سمجھا جا سکتا چوں کہ ان کی عبارتیں فقیہانہ پیچ دار اور سد ذرائع پر مبنی ہوا کرتی ہیں اور ایسا اس لیے کہ زمانہ بالعموم شر و فساد کا ہے اور ان کے مطابق سماع بالمزامیر کے اہل جو عارفین یا محققین ہیں عنقا ہیں یا ان کی فہم و تحقیق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔(ص:468)
شبر مصباحی - 17/ذوالحجۃ 1444ھ
صبحِ الست (آخری قسط)
اس کتاب کا آخری باب "سماع عارفاں" ہےجس میں مصنف نے مضامین سماع، اثرات سماع، آداب سماع اور صوفی سماع پر نہایت نفیس گفتگو کی ہے،جن میں خصوصیت کے ساتھ مضامین سماع اور اثرات سماع کا مطالعہ ہر زاہدان خشک اور فقیہان متقشف کو ضرور کرنا چاہیے۔
مصنف نے سماع کے آداب و شرائط خصوصا زمان و مکان اور اخوان کی جو شرح و تفصیل بیان کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب علمی،تحقیقی اور معروضی منہج پر ترتیب دی گئی ہے جس میں نہ گروہی تعصبات کا کوئی دخل ہے اور نہ سفلی جذبات کا کوئی اثر ۔
مصنف کا یہ 16 سالہ سفر خیال امروز اور فکر فردا کے اس سنگم پر منتہی ہوتا ہےکہ:
" آج خوشی اس بات کی ہے کہ ہم نے اہل خانقاہ کا ایک بڑا قرض اتار دیا لیکن فکر مندی اس بات کی ہے کہ ملت کے سامنے اس سے بھی اہم مسائل درپیش ہیں" ۔
✍پروف کی خامیاں ✍
بعض مقامات پر اعرابی غلطیوں کے ساتھ پروف کی خامیاں بھی در آئی ہیں، اس جذبے کے ساتھ انہیں پیش کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جا سکے۔
(1) سالی" ص: 151 تیسرا پیراگراف"
(3)لفظ "متبول" میں اعراب کی غلطی ہے ص: 304
(4) سمعت" متکلم کے بجائے مؤنث غائب کا صیغہ ٹائپ ہوگیا ہے، ص: 312چھٹی حدیث۔
(5) لفظ "میں" نقطے کا اضافہ ص:323
(6) ادھر " ص: 536 چوتھا پیراگراف
مفتی ساجد الرحمٰن شبرؔ مصباحی
۱۹/ ذوالحجۃ ۱۴۴۴ھ
مطابق 8/ جولائی 2023ء
Leave your comment