Donate Now
الموسیقی فی الاسلام علمی تحقیقی شرعی مطالعہ

الموسیقی فی الاسلام علمی تحقیقی شرعی مطالعہ

مضرابِ اَلست!
گوش کن اسرار عشق و نوش کن جام شہود 
اندریں جامت نماید روئے جاناں السماع

حضرت خواجہ قیام الدین اصدق قدس سرہ کا یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ صوفیہ صافیہ قُدِّست اَسرارُھُم کے سماع میں اسرار عشق باہوش کانوں سے سنے جاتے ہیں جس سے سالک کا دل جام شہود پینے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے اور پھر بہت جلد وہ وقت بھی آتا ہے جب عالم لاہوت کے پردے اٹھتے ہیں اور اسے جام شہود سے سرفراز اور روے جاناں کے دیدار سے مشرف کیا جاتا ہے۔
 سماع، صوفیہ اور ان پر وارد ہونے والی مستی و خوشی، یا کیف و اضطراب در اصل حسب حال و مقام عالم ارواح میں ہونے والی اس محفل سماع کا مظہر ہے جس میں محبوب حقیقی نے اپنے تخلیقی شاہکار اولاد آدم کو اپنے صوت سرمدی سے لذت آشنا کیا، ان کے  دلوں کو نغمۂ توحید سے سرمست کیا اور پھر نداے ربانی آئی: 
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں پیدا کیا ہے۔( التِّينِ:۴)، اس کی روح بھی حسین  ہےاور اس کا جسم بھی۔ روح جس کا تعلق عالم امر سے ہے، اس کا حسن یہی تو ہے کہ اسے روز ازل میں ہی شراب توحید پلادی گئی، اس کے بعد جسم جو عالم خلق کا مظہر اتم ہے، اس کے قالب میں ڈالا گیا اور اس طرح انسان، حق تعالیٰ کا خوب صورت ترین مظہر بن کر سامنے آیا۔
حق تعالیٰ کا مطلوب یہ ہے کہ انسانوں کے دل اس عالم خلق میں آنے کے بعد بھی اسی نغمۂ ازلی سے سرشار رہے، لیکن گردو پیش نے اثر ڈالا، ماحول نے اپنا رنگ دکھایا اور  حجابات کے دبیز پردوں میں انسان الستُ بِرَبِّکُم کے جواب میں کیا گیا وعدۂ توحید فراموش کر گیا، وہیں توفیق الٰہی جن کے ہم رکاب رہی، ان کو اس دنیا میں آنے کے بعد بھی اس لاہوتی نغمے کی طلب رہی،انہیں ہر آواز میں، ہر کلام میں، ہر سر اور تال میں اور ہر آلہ و مزمار میں اسی صوت سرمدی کی جستجو اور اسی محبوب کے رسیلے نغمے کی تلاش رہی۔ ایسے میں سماع ان عاشقوں کے لیے دواے دل، مرہم قلب، سامان زیست اور غذاے روح ثابت ہوا۔
صوفیہ صاحبان دل، عارفان سر، واصلان مقام خفی و اخفی ہوتے ہیں، ان کا سونا، جاگنا، نشست و برخاست، گویائی و خاموشی، رنج وغم، فرحت و انبساط، سب مولیٰ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ سب سے منقطع ہوکر حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں، اس لیے سماع صوفیہ میں لہو کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ صوفیہ کی مجالس سماع میں سننے والے ۶؍ طرح کے لوگ ہی ہوسکتے ہیں، ساتویں نہیں ہو سکتے: 
۱۔ صاحبان وصال جو دوسروں کو بھی وصال سے ہم کنار کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
۲۔ارباب کمال جو ابھی مقام ارشاد پر فائز نہیں ہوئے۔
۳۔اہل مجاہدہ جو حق تعالیٰ کی طلب میں ہر لمحہ اپنے وجود کی کثافتوں کو دور کرنے کے لیے ایک مرشد کی روحانی ونورانی سر پرستی میں تیز گام ہیں۔
۴۔اہل محبت جو اپنے لیے کسی صلاح و تقویٰ کے مدعی تونہیں لیکن صالحین کی نسبت اور ان کی محبت کو اپنے لیے گنج گراں مایہ سمجھتے ہیں۔
۵۔اہل خدمت جو نیکوں کی خدمت کو ہی اپنا سب سےبیش قیمت سرمایہ گردانتے ہیں۔
۶۔عوام یا اہل انکار جو ممکن ہے کہ خود صوفیہ کے ہی منکر ہوں یا علی الاقل سماع صوفیہ کے منکر ہوں۔
ایسی مجالس میں اکثریت بہر حال مذکورہ بالا پانچ قسم کے لوگوں کی ہوتی ہے، اب ایسی صورت میں اس طرح کی مجالس میں کیسے اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ان کا سماع لہو کے ساتھ ہوگا؟ رہی بات چھٹی قسم کے لوگوں کی تو وہ اس طرح کی مجالس میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں، مزید یہ کہ صوفیۂ کرام کی یہ مجالس هُمُ القَومُ لا يَشقٰى بِهِم جَلِيسُهُم کا مظہر ہوتی ہیں تو عین ممکن ہے کہ رحمت الٰہی کی چھینٹیں عوام اور منکرین پر بھی پڑجائیں اور وہ بھی صاحب ذکر اور حقائق و اسرارِ سماع سے آشنا ہو جائیں۔جہاں تک ان مجالس سماع کی بات ہے جس میں شرکا ابتداءاً مذکورہ پانچ قسم کے لوگوں سے خالی ہوں اور ان کا مقصود ناقۂ شوق کو شاہراہ مطلوب پر گامزن کرنا نہ ہو یا محض تفریح طبع مقصود ہو تو وہ صوفیہ کی بحث سے ہی خارج ہیں۔
صوفیہ کرام کے ساتھ ہمیشہ سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ ایک طرف وہ صاحبان باطن ہیں اور پھر ان کے حقائق و معارف کی اساس بھی عموماً اشارات پر ہے، اہل ظاہر کے اشارات خود دقیق ہوتے ہیں، ایسے میں اہل باطن کے اشارات تک کہاں عام لوگوں کی رسائی ہوپائے گی، چنانچہ بعض فقہا اور دیگر اہل ظاہر نے جب ان کو غنا میں مشغول اور آلات مزامیر میں مصروف دیکھا تو اپنے آپ پر قیاس کیا کہ المرءُ یَقیسُ علی نفسِہ   اور جب انہوں نے غنا اور مزامیر میں خیر کا پہلو نہیں پایا تو صوفیہ کے سماع پر بھی سخت حکم نافذ کردیا۔ ارباب حق صوفیہ نے جب ان کا یہ رویہ دیکھا تو زبان حال سے گنگنا لگے:

شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین ہایل
کجا دانند حالِ ما سبکبارانِ ساحلہا
(حافظ شیرازی)


یا مولانا جامی کی زبان میں:
منع سماع نغمہ نی می کند فقیہ
بیچارہ پی نبرد بہ سرِّ نفختُ فیہ


جب کہ اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے تھا کہ ایسے لوگ صوفیہ کی صحبتوں میں جاکر حقائق سماع کی معرفت حاصل کرتے، عملی تجربات کے مرحلے سے گزرتے اور حضرت مولاے روم کی اس نصیحت پر عمل کرتے کہ؎


کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شیر 
(مثنوی معنوی)


چوں کہ وہ سماع صوفیہ کے قلزم معارف میں موجود لعل و گہر سے آشنا نہیں تھے، اس لیے انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ وہ ابھی جس سماع کی حلت و حرمت پر بحث کر رہے ہیں اس سماع میں تو عاشقوں کے دل جل کر کباب ہوتے ہیں اور اس میں تو ایسے جاں نثار لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو اپنے اندر نہ صرف کل مال ومتاع کو محبوب پر قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے بہتوں نے تو اپنی جانوں کا نذرانہ محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پیش بھی کردیا۔
دوسری طرف صوفیہ کرام کے نام پر شکم پروری کرنے والے دنیا دار مکار لوگوں نے صوفیہ کے سماع کی وہ تصویر پیش کی جسے کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ہر زمانے میںاس پر گرما گرم بحثیں چلتی رہیں،طرفین سے کتابوں کا تبادلہ ہوتا رہا، محبین صوفیہ دفاع کرتے رہے اور سماع کے اسرار و رموز کھولنے کی کوشش کرتے رہے، جب کہ فقہا اپنے علم وفہم کے مطابق حفاظت دین کی سعی کرتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے ہر عہد میں سماع کے حامی محققین کی کتابوں سے زیادہ شعلۂ عشق سے بھڑکتی محافل سماع نے اپنا دفاع خود کیا اور کتنے ہی منکرین کو آتش عشق میں فنا کرکے اپنا دیوانہ بنایا اور آج بھی اگر لوگ سماع کے دلدادہ ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ مشائخ کاملین کی خانقاہوں میں ہونے والی جان سوز محافل ہی ہیں، جہاں شرکت کے بعد انہیں محسوس ہوتا ہے کہ در اصل ایسی محافل میں قلب کے جو احوال ہوتے ہیں وہی ایمانی احوال ہیں اور وہاں سے اٹھنے کے بعد عام حالت میں تو ایمان منافقانہ معلوم ہوتا ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ محققین کی کتابیں بھی صاحبان علم وعقل کی رہنمائی کا سبب بنیں اور بہتوں کو ان کاوشوں کی برکت سے اہل اللہ کے فعل سماع پر اعتراض سے رہائی ملی۔
 ماضی کے حامیان و منکرین سماع مصنفین میں عموماً افراط وتفریط رہا، معروضیت کی کمی رہی، عموماً منکرین کے یہاں صوفیہ کی صحبت کا فقدان رہا اور حامیان کے یہاں سماع کے حوالے سے جذباتیت غالب رہی لیکن ہر دور میں اپنے زمانے میں موجود اسباب و وسائل کے لحاظ سے محققین نے تحقیق کا حق ادا کیا،حرمت کی تحقیق پر مشتمل تحقیقی کوششیں منصہ شہود پر آئیں اور جواز و استحباب سماع کی تحقیقات پر مشتمل کتابیں بھی سامنے آئیں، جن کا اندازہ زیر مطالعہ کتاب کے ایک باب’’تراث سماع‘‘ سے بخوبی ہو جائے گا۔
 اسی تحقیقی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی برادر مکرم ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی بھی ہیں، آپ صالح و مصلح، مرشد گرامی حضور داعی اسلام کے تربیت یافتہ، خلیفہ ومجاز، مقامات تصوف سے آشنا، مشارب صوفیہ کے عارف، احوال صوفیہ سے آراستہ، معارف صوفیہ سے واقف، بِہ سے بہتر کے طالب، عالم باعمل، فقیہ و اصولی، متکلم و دانش ور ، صاحب قلم اور زینت مسند تدریس ہیں۔
آپ نے امام ابن عبد البر کے فرمان: المتأخرون أوسعُ عِلماً وأقلُّ عذراً (التمہيد: ۱۲/۴۷۱) کے مطابق اس بات کا عہد کیا ہے کہ آج اسباب علم کی کثرت اور وسائل تحقیق کی وسعت ہے، لہٰذا پرانی باتیں جو درست بنیادوں پر استوار نہیں ہیں ان پر تقلیداً یا تعصبا قائم رہنے کا کوئی معنی نہیں۔ اس لیے مختلف دینی و علمی موضوعات کا از سر نو تجزیہ کیا جائے اور حقائق کو اہل علم کے مابین پیش کیا جائے، اس غرض سے انہوں نے اس سے پہلے مسئلۂ تکفیر پر ما لہ وما علیہ کے ساتھ بحث و تحقیق کی اور اپنے نتائج سے مسئلہ تکفیر و متکلمین کی صورت میں اہل علم کوآگاہ کیا، یہ کتاب پورے برصغیر ہندو پاک میں مقبول ہوئی۔ اہل علم نے اسے بہت سراہا اور تکفیر جیسے نازک اور اہم موضوع پر اسے اس صدی کی بہترین تصنیف قرار دیا ۔
اس بار انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ کیوں نہ مسئلہ سماع پر تیشۂ تحقیق چلایا جائے اور جو نتیجہ سامنے آئے اسے لوگوں کے سامنے علمی انداز میں رکھ دیا جائے تاکہ صوفیۂ کرام کی طرف جو ایک امر حرام کے ارتکاب کی نسبت کی جاتی رہی ہے، اس کی حقیقت بھی کھلے اور مسئلے کے تمام پہلو اہل علم و ذوق کے سامنے آجائیں۔’’الموسیقی فی الاسلام: علمی، تحقیقی، شرعی مطالعہ‘‘(۲۰۲۳ء) موصوف کے آہوے قلم سے نکلا ہوا وہی نافہ مشک ہےجو اس وقت آپ کے پیش نظر ہے۔
موصوف کی دیگر تحریروں کی طرح اس کتاب کی بھی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسئلے کے تمام متعلقہ پہلوؤں کا معروضیت کے ساتھ مطالعہ کیا گیا ہے اور اس علمی سفر میں جتنی بات دلائل و شواہد کی روشنی میں ثابت ہوسکی ہے اتنی ہی بات کو ثابت کیا گیا ہےاور مصادرۂ مطلوب سے بالکلیہ گریز کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعے کے دوران آپ کو کہیں دلائل سماع پر حیران کن مسرت ہوگی تو کہیں تعجب ہوگا کہ مسئلہ سماع کے چند عمومی پہلو بعض محققین سے کیسے اوجھل رہ گئے، کہیں نغمہ و مزمار کی حقیقت منکشف ہوگی تو کہیں عقلی اصولوں کی روشنی میں ان پر تحقیق ملے گی، کہیں قرآن و احادیث کی روشنی میں مسئلہ سماع کے مختلف گوشوں پر منکرین و مؤیدین کے حوالے سے اعلی علمی بحث ملے گی تو کہیں سماع سے متعلق فقہا کے اقوال و جزئیات پر بحث وتجزیہ ملے گا۔ یوں ہی اس بات پر بھی گفتگو ملے گی کہ سماع بالمزامیر کے حوالے سے یہ کہنا کہ اس کی نسبت، مشائخ چشت کی جانب ’’مدعیان خامکار‘‘ نے کر رکھی ہے، یہ کوئی علمی بات نہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت کا انکار اور علمی دنیا میں ایک طرح کی جسارت ہے۔ پڑھتے ہوئے آپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ یاروں نے یہ بات محض جھوٹ ہی اڑائی ہے کہ چشتی حضرات سماع سنتے ہیں اور دیگر سلاسل کے صوفیہ نہیں سنتے۔ اسی طرح صوفیہ کے وجد و رقص پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور اس دوران مرشد گرامی حضور داعی اسلام مد ظلہ العالی کے افادات کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ علم وتحقیق کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔
حاصل یہ کہ یہ کتاب کیا ہے، علم و تحقیق کا ایک لالہ زارہے جس میں ایک بار داخل ہوجائیے اور مشام جاں کو معطر کرتے جائیے، کہیں علمی بحث کی وجہ سے آپ کو نہ اکتاہٹ محسوس ہوگی اور نہ اس بات کا اندازہ کہ گفتگو طویل ہوگئی ہے بلکہ بالعموم زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ جگہ جگہ روحانی حلاوت سے شادکامی ہوگی اور یقیناً یہ میری طرح آپ بھی محسوس کریں گے کہ یہ مسئلہ سماع پر لکھی گئی اب تک کی جامع ترین علمی وشرعی، اصولی وفنی  اور تاریخی وتجزیاتی کتاب ہے۔
ظاہر ہے کہ مصنف کی اپنی محنتیں، شبانہ روز مساعی کے ساتھ ساتھ توحق تعالیٰ کی توفیقات، رسول گرامی وقارصلی اللہ علیہ وسلم کی الطاف و عنایات اور مرشد گرامی کی توجہات نہ ہوتیں تو اتنا بڑا کام نہ ہو پاتا۔ مولیٰ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے، اسے نافع خلائق بنائے اور ہمیں بھی مرشد گرامی کے فیضان سے مالا مال فرمائے۔آمین!

Ad Image