Donate Now
دبستان لکھنؤ کے عظیم صوفی شاعر تھے منشی عزیز صفی پوری

دبستان لکھنؤ کے عظیم صوفی شاعر تھے منشی عزیز صفی پوری

خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواں میں منعقد یک روزہ قومی سیمینار سے مقررین کا اظہارِ خیال

24 فروری 2022 کو خانقاہِ عالیہ عارفیہ، سیدسراواں میں دبستان لکھنو کے ایک عظیم صوفی شاعر منشی عزیز صفی پوری پر یک روزہ قومی سیمینار کاانعقاد ہوا جس میں محترم نوشاد عالم چشتی، ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر اور دیگر اہل علم نے مقالے پیش کیے۔

منشی ولایت علی عرف عزیز اللہ شاہ عزیز صفی پوری دبستان کے قادر الکلام صوفی شاعر و ادیب تھے۔ آپ مجدد سلسلہ صفویہ شاہ خادم صفی صفی پوری کے مرید و خلیفہ تھے۔ عربی، فارسی اور اُردو تینوں زبانوں میں فی البدیہ شعر کہتے تھے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کی تصانیف آپ کی نثرنگاری کے اعلی نمونے ہیں۔ غالب ، امیرمنائی اور شبلی جیسے ماہرین منشی عزیز صفی پوری کی شاعری اور ادبیت کے معترف رہے ہیں۔

شروع میں منشی عزیزاللہ صفی پوری کی ایک غزل کو طالب حسن نے اپنی آواز دی اور غزل سرائی کا حق ادا کیا۔ بعدہٗ سیمینار میں بطور مقالہ نگار شریک ہونے والے اسکالرز نے اپنے مقالہ جات پیش کیے۔

یہ سیمینار دو سیشن پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن میں مولانا رفعت رضا نوری نے ’’ منشی عزیزاللہ صفی پوری: حیات اور شاعری ‘‘کے عنوان سےاپنا مقالہ پیش کیا اور ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی نے ’’منشی عزیز صفی پوری کی شاعری کی ادبی قدروقیمت‘’ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ مولانا صادق رضا مصباحی اور مولانا سید قمر الاسلام کے مقالے ان کی عدم موجودگی میں مولانا رضی احمد مصباحی اور مفتی آفتاب رشک مصباحی نے پیش کیے۔

دوسرے سیشن کا آعاز مولانارفعت رضا نوری کی غزل سرائی سے ہوا۔ انھوں نے کلام عزیز سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس سیشن میں مولانا افتخار احمد علیمی نے اپنا مقالہ بعنوان: منشی عزیز اللہ کی قصیدہ نگاری‘‘ اور مفتی ساجد الرحمن شبر مصباحی نے اپنامقالہ بعنوان:’’ منشی عزیز کی شاعری میں عشقیہ پہلو‘‘ پیش کیا، جب کہ ڈاکٹر ظفر انصاری نے منشی عزیز اور محسن کاکوری کے قصیدے پر تقابلی روشنی ڈالی۔

ڈاکٹر افضل مصباحی نے منشی عزیز صفی پوری کی اردو شاعری کا اجمالی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ منشی عزیز صفی پوری کے ساتھ اردو والوں نے بڑی ناانصافی کی ہےکہ اتنے بڑے شاعر کو نظر انداز کردیا۔چناںچہ ان کی شاعری پر معروضی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

آخری مقالہ نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی صاحب تھے۔ اُنھوں نے اپنے مقالے میں منشی عزیز اللہ صفی پوری کے نظریہ وحدت الوجود پر سیر حاصل گفتگو کی اور ان کے اشعار کی روشنی میں ان کی وحدت الوجودی فکر کو واضح کیا۔

مولانا ابو سعد حسن صفوی کے صدارتی کلمات اور سرپرست اعلی، داعی اسلام شاہ ابوسعید مدظلہ کے دعائیہ کلمات پر سیمینار کا اختتام ہوا۔

واضح رہے کہ یہ یک روزہ سیمینار خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواں کے سمینار ہال میں ’’شاہ صفی میموریل ٹرسٹ ‘‘کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے تعاون سے بعنوان’’منشی عزیز اللہ صفی پوری: حیات وشاعری ‘‘ منعقد ہوا تھا، جس میں دہلی ،علی گڑھ ،ممبئی اور الٰہ آباد سمیت جامعہ عارفیہ کے اسکالرز نے شرکت فرمائی۔ سیمینار کا آغاز قاری دلشاد صاحب، استاذ جامعہ عارفیہ کی تلاوت سے ہوا، راقم ذیشان احمد مصباحی نے تعارفی خطبہ پیش کیا اور نظامت کے فرائض انجام دیے، جب کہ سارا انتظام وانصرام سیمینار کے کنوینر جامعہ عارفیہ کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ساجد سعیدی نے ادا کیے۔

Ad Image