Donate Now
محراب اور اس میں نماز پڑھنے کا حکم

محراب اور اس میں نماز پڑھنے کا حکم

خلاصۂ فتوی :(الف):زمانۂ نبوی میں محراب نہ ہونے کے باوجود مصلحت عامہ ( شناخت قبلہ و تعیین وسط ) کی وجہ سے مسجدوں میں محراب بنانے کا چلن عہد صحابہ و تابعین  علی الخصوص خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور سے بلا نکیر جاری ہے، جسے جملہ مسلمانان عالم اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے محراب بنانا درست و جائز ہےاور یہ محراب داخل مسجد ہی کہلائےگی نیز  اس کی حیثیت بھی مسجد میں شمار کی جانے والی باقی جگہوں کی طرح ہی ہوگی،جائے محراب اور مسجد کے بقیہ حصوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہوگا۔ 

(ب) : عام فقہا  نے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے کو جن بنیادوں پر مکروہ بتایا ہے، آج کے دور میں وہ ساری بنیادیں ختم ہو چکی ہیں ، اس لیے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے میں سرے سے کوئی کراہت ہی باقی نہ رہی، ہاں اگر کہیں  محراب اتنی  زیادہ گہری  ہوکہ امام و مقتدی کے درمیان دو چند صفوں کا فاصلہ ہوجائے تب کراہت ہے، ورنہ دوسری کسی بھی صورت میں کراہت نہیں ہے۔اور اگر امام کے ساتھ ایک صف  محراب میں کھڑی ہو جائے تو یہ کراہت بھی جاتی رہے گی ، لہذا، اگر کوئی شخص محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرائے تو یہ  بلا کراہت جائز و درست ہے۔


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام کا محراب مسجد کے اندر کھڑے ہو کر نماز  پڑ ھنا پڑھانا کیسا ہے؟ 

سائل:

عارف اقبال مصباحی، مدھوبنی، بہار۔

۲۳؍ دسمبر ۲۰۲۰ء


بسم اللہ الرحمن الرحیم

 تفصیلی فتوی ٰ۔

سوال پڑھنے کے بعد میں نے سوچا   کہ یہ سوال تو بہت آسان ہے، فتاوی کی کتابوں میں عام طور سے اس کا جواب مل ہی جاتا ہے لیکن سائل خود ایک عالمِ ربانی ہیں ،اس لیے سوال کا جواب تحریر کرنے سے پہلے گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ ضروری ہے۔جب مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ متاخرین کتبِ فقہ و فتاوی  میں جہاں بہت سارے مسائل تقاضاےاحوال و نصوص  کے  بر خلاف صرف نقل در نقل کی وجہ سے درج  ہوگئے ہیں، انھیں مسائل میں یہ بھی ہے۔ آپ کے عارفانہ سوال نے ہمیں طلب و تحقیق پر آمادہ  کیا، اللہ رب العزت آپ کو صحت  و سلامتی سے رکھے، امت مسلمہ کے لیے آپ کو نفع بخش بنائے، آمین 

یہ مسئلہ جس طرح مشہور ہے، صد فی صد اس طرح نہیں ہے ، اس لیے ہم ذیل میں تفصیل کے ساتھ اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ عوام و خواص سب کے لیے یکساں سود مند ہوسکے۔

مسئلے کی نوعیت اور اس کا حکم اس کے لفظی و اصطلاحی معنی کے فہم پر موقوف  ہے اس لیے  پہلے ہم محراب کے معنی  بیان  کرتے ہیں:

محراب یہ محاریب کی واحدہے جس کا ذکر قرآن مجید میں لفظ واحد کے ساتھ چار جگہ آیا ہے:

 (۱)كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا‌(آل عمران: ۳۷)زکریا (علیہ السلام) جب کبھی محراب (بالا خانہ )  میں مریم (علیہا السلام) کے پاس  ملنے جاتے ،تو اس کے پاس کھانا پاتے۔

(۲)فَنَادَتهُ الْمَلٰئِكَةُوَهُوَقَآئِمٌ يُّصَلِّىْ فِىْ الْمِحْرَابِ(آل عمران: ۳9)وہ ابھی محراب میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے کہ فرشتوں نے آواز دی۔

(۳)فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا(مریم: 11)پھر وہ محراب (حجرے)سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام اللہ کی پاکی بیان  کرتے رہو۔

(۴)وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ(ص: 21)بھلا تمہارے پاس ان جھگڑنے والوں کی بھی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب(عبادت خانے)میں داخل ہوئے۔ 

اور لفظ جمع کے ساتھ صرف ایک مقام پر آیا ہے:

يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ(سبا: 13)وہ اس کے لیے محرابیں (محلات)، مجسمے اور بڑے بڑے حوض جیسے :لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں ، جو وہ چاہتا تھا، بناتے تھے۔ 

محراب کا لغوی معنی 

لغات میں محراب کے کئی معنی بیان کیے گئے ہیں جیسےطاق، کمانچہ ، کمرہ، محل،بالاخانہ، گھر کا ابتدائی حصہ جہاں معزز لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے، مسجد یا مکان کی بلند جگہ، کسی مجلس یا محفل کی وہ نمایاں جگہ جہاں صدر محفل کو جگہ دی جاتی ہے۔  

المِحْرَابُ:الغُرفةکمرہ۔ المِحْرَابُ :القَصْر؛محل ۔ المِحْرَابُ: صدر البيت وأَكرمُ موضعٍ فيه؛گھر کا ابتدائی کمرہ  جہاں معززین کو بٹھاتے ہیں  ۔ا لمِحْرَاب :مقام الإمام من المسْجد؛مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ المِحْرَابُ :ارفع  مکان  فی  الدار؛بالا خانہ  ۔ المِحْرَابُ: الموضع العالی؛  بلند جگہ/ مقام۔  (المعجم الوسیط، مفردات القرآن، القاموس، الرائد ،  اللغۃ العربيۃ المعاصر)

المحراب : الغُرفة وصَدر البيت وأكرَم مواضِعِه ومقامُ الإمام من المسجد، والموضع ينفرد به الملك ( القاموس المحيط)محراب کےمتعدد  معانی  آتے ہیں مثلا: کمرہ، گھر کا ابتدائی حصہ، مسجد میں امام کے کھڑے ہونے کی جگہ اور وہ الگ جگہ جہاں بادشاہ تنہا بیٹھتا ہے ۔ 

اصطلاحی معنی.

المحراب : ھو نتوء فی منتصف الجدار المواجہ للقبلۃ یدل علی اتجاھھا۔ یکون المحراب عادۃ علی شکل طاقۃ نصف دائریۃ او مضلعۃ مجوفۃ تسع ان یقف فیھا رجل۔ 

محراب: قبلہ کی جانب دیوار کےوسط میں ایک ایسی جگہ  ہے جو سمت قبلہ کی نشان دہی کرتی ہے۔ محراب عموما نصف دائرہ نما طاق یا  کثیر الجہات کھوکھلی جگہ کی شکل میں ہوتی ہے جہاں ایک آدمی کھڑا ہوسکے۔ 

یہ اصطلاحی تعریف اہل اسلام کے اعتبار سے ہے، ورنہ محراب کا اصلا معنی حجرہ اور بلند و نمایاں مکان کے ہی آتا ہے۔ یہود و نصاری اہل کتاب کے یہاں یہ اسی معنی میں مستعمل رہا ہے اور وہاں عبادت خانے میں بنے حجرے ہی کو محراب کہا جاتا رہا ہے اور آج بھی ان کے یہاں محراب ویسی ہی بنائی جاتی ہے۔ 

سب سے پہلے مسجد میں محراب کس نے بنوائی؟ 

نبی کریم ﷺ کے زمانے میں مسجد میں محراب نہیں تھی۔ مسجدوں میں محراب کی ابتدا سے متعلق چند اقوال  پائے جاتے ہیں:

اول: محراب کی ابتدا خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کی ۔ 

دوم: اموی خلیفہ مروان بن حکم نے سب سے پہلے محراب بنوائی۔ 

سوم: ولید ابن عبد الملک کے دور میں عمر بن عبد العزیز نے بنوائی۔ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر کی مساجد میں بلا نکیر محراب بنائی جا رہی ہیں ، جسے امت مسلمہ مسجد کے لازمی حصے کے طور پر دیکھتی ہے۔ 

رحلۃ ابن بطوطہ ( سفر نامہ ابن بطوطہ) میں ہے: 

وصنع له محرابا وقيل إن مروان هو أول من بنى المحراب ، وقيل : عمر بن عبد العزيز في خلافة الوليد۔ ۔۔۔۔ وجعل عمر للمسجد محرابا ويقال : هو أوّل من أحدث المحراب ۔ (رحلۃ ابن بطوطۃ، ج: ۱، ص: ۳۵۳/۳۵۴)

اوراس ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ )نے اس ( مسجد نبوی)کے لیے محراب بنایا،یہ بھی کہا گیا ہے کہ مروان  بن حکم نے سب سے پہلے محراب بنوایا ، نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ ولید ابن عبد الملک کے دور خلافت میں عمر بن عبد العزیز نے محراب بنوایا۔ اسی میں آگے ہے: 

حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسجد میں محراب بنایا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے محراب بنوایا۔ 

محراب مسجد کے حکم میں داخل ہے 

محراب مسجد ہی کے حکم میں ہے، کیوں کہ حدود مسجد کے اندر  یا باہر نماز کے لیے جو بھی جگہ زائد کی جائےگی ،وہ مسجد ہی کے حکم میں داخل ہوگی۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

لو مد هذا المسجد إلى صنعاء اليمن كان مسجدي- اگر میں اس مسجد کو صنعا یمن تک پھیلاتا تو یہ میری مسجد ہوتی۔ 

محراب بنانے کی حکمت 

مسجدوں میں محراب بنانے کی چند حکمتیں ہیں: 

۱۔ محراب بنانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جب کوئی اجنبی مسجد میں اس وقت داخل ہو جب سمت قبلہ بتانے والا کوئی موجود نہ ہو ، تو محراب ہی سے سمت قبلہ کا تعین ہو جائے۔  

۲۔ نماز کے وقت امام کے کھڑے ہونے کی تحدید ہوتی ہے کہ امام صف کے درمیان  سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ 

علامہ ابن حاج مالکی(متوفى:۷۳۷ھ) لکھتے ہیں: 

وَلَمْ يَكُنْ لِلسَّلَفِ - رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ - مِحْرَابٌ وَهُوَ مِنْ الْبِدَعِ الَّتِي أُحْدِثَتْ لَكِنَّهَا بِدْعَةٌ مُسْتَحَبَّةٌ لِأَنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ إذَا دَخَلُوا الْمَسْجِدَ لَا يَعْرِفُونَ الْقِبْلَةَ إلَّا بِالْمِحْرَابِ فَصَارَتْ مُتَعَيِّنَةً.(مدخل ابن حاج ، 2/272)

سلف صالحین کے عہد میں محراب نہیں تھی، یہ ایک بدعت ہے جو کہ اچھی بدعت ہے کیوں کہ اکثر لوگ جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو محراب ہی کی وجہ سے قبلہ کی شناخت کر پاتے ہیں، اسی وجہ سے یہ رواج پکڑ گئی۔ 

صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں: 

وَجِهَةُ الْكَعْبَةِ تُعْرَفُ بِالدَّلِيلِ وَالدَّلِيلُ فِي الْأَمْصَارِ وَالْقُرَى الْمَحَارِيبُ الَّتِي نَصَبَهَا الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ - فَعَلَيْنَا اتِّبَاعُهُمْ فِي اسْتِقْبَالِ الْمَحَارِيبِ الْمَنْصُوبَةِ۔ ( بحر الرائق شرح کنز الدقائق، 1/300)

اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس ہم پر محرابوں کی پیروی لازم ہے۔

محراب میں نماز سے متعلق مذاہب  اربعہ کا موقف. 

مالکیہ کا موقف: 

علامہ ابن حاج مالکی اس بات کی صراحت فرماتے ہیں کہ تنگیٔ مسجد کے بغیر امام محراب کے اندر کھڑا نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں :

يَكُونُ الْمِحْرَابُ عَلَى قَدْرِ الْحَاجَةِ وَهُمْ قَدْ زَادُوا فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً، وَالْغَالِبُ مِنْ بَعْضِ الْأَئِمَّةِ أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ دَاخِلَ الْمِحْرَابِ حَتَّى يَصِيرُوا بِسَبَبِ ذَلِكَ عَلَى بُعْدٍ مِنْ الْمَأْمُومِينَ وَذَلِكَ خِلَافُ السُّنَّةِ. (مدخل ابن حاج ، 2/272)

محراب ضرورت کے حساب سے ہی ہوتی تھی، پھر لوگوں نے اسے خوب بڑھا دیا  اور بعض ائمہ نے یہاں تک غلو کیا کہ وہ محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز قائم کرانے  لگے، جس کی وجہ سے وہ  مقتدیوں سے کافی دور ہو گئے جب کہ  یہ خلاف سنت ہے۔

حنابلہ کا موقف:

مغنی میں علامہ ابن قدامہ حنبلی (۶۲۰ھ) لکھتے ہیں: 

ویکرہ ان یدخل فی طاق القبلۃ  الا ان یکون المسجد ضیقا۔ ( مغنی ،ج:۲، ص: ۴۶۱، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت) 

تنگیٔ مسجد کے بغیر محراب کے اندر کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ 

احناف کا موقف:

يُكْرَهُ قِيَامُ الْإِمَامِ فِي الطَّاقِ وَهُوَ الْمِحْرَابُ وَلَا يُكْرَهُ سُجُودُهُ فِيهِ إذَا كَانَ قَائِمًا خَارِجَ الْمِحْرَابِ۔ (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، ۱/۱۶۵) 

امام کا محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانا مکرو ہ ہے۔ ہاں! اگر امام محراب سے باہر کھڑا ہو تو محراب کے اندر سجدہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

 شوافع کا موقف:

علامہ شهاب الدين رملی (متوفى:۱۰۰۴ھ) لکھتے ہیں: 

إذْ الْمِحْرَابُ الْمُجَوَّفُ عَلَى الْهَيْئَةِ الْمَعْرُوفَةِ حَدَثَ بَعْدَهُ، وَمِنْ ثَمَّ قَالَ الْأَذْرَعِيُّ: يُكْرَهُ الدُّخُولُ فِي طَاقَةِ الْمِحْرَابِ، وَرَأَيْت بِهَامِشِ نُسْخَةٍ قَدِيمَةٍ: وَلَا يُكْرَهُ الدُّخُولُ فِي الطَّاقَةِ خِلَافًا لِلسُّيُوطِيِّ۔ (نهایۃ محتاج شرح منهاج، ۱/۴۴۰)

جب کہ  معروف طریقے کے مطابق کھلی ہوئی محراب زمانۂ نبوی ﷺ کے بعد بنائی گئی ہے، اسی وجہ سے امام اذرعی نے فرمایا کہ محراب کے اندر داخل ( ہو کر نماز ادا کرنا/ کرانا) مکروہ ہے۔ حالاں کہ میں قدیم نسخے کے حاشیہ پر ( یہ لکھا ہوا) دیکھا کہ محراب کے اندر داخل ہو کر ( نماز ادا کرنا/ کرانا ) مکروہ نہیں ہے ، حالاں کہ یہ بات امام سیوطی کے خلاف ہے،( کیوں کہ وہ کراہت کے قائل ہیں)۔ 

وجہ کراہت: محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے/ کرانے کے تعلق سے ائمہ اربعہ کا موقف اوپر نقل ہوا ، جن میں احناف، مالکیہ ، حنابلہ  اور بعض شوافع کے یہاں مکروہ ہے، جب کہ بعض شوافع کے یہاں مکروہ نہیں ہے۔جن وجوہات کی بنیاد پر فقہاے مذاہب  نے محراب کے اندر کھڑے ہونے کو مکروہ قرار دیا ہے ، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

(۱) یہ اہل کتاب سے مشابہت ہے، جس کی بنیاد پر ایسا  کرنا مکروہ و ممنوع ہے۔

(۲)امام اگر محراب کے اندر کھڑا ہوگا تو یہ امام اور مقتدی کے درمیان وجہ بعد بنےگا، جس کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(۳) امام  کی نقل و حرکت مقتدی پر پوشیدہ ہو جانے کی وجہ سے ایسا کرنا مکروہ ہے۔

(4) محراب بہر صورت مسجد کے عمومی حصے سے افضل نہیں ہے، بلکہ وہ خارج لگتی ہے، اگرچہ خارج نہیں ہے۔ 

تجزیہ : کراہت کی جن وجوہات کا اوپر ذکر ہوا ، دور حاضر ہی میں تو نہیں  ہے شاید کہ پہلے کے ادوار میں بھی ان کا تحقق  کم ہی رہا ہوگا۔ ان وجوہات کی تفصیلات کچھ یوں ہے ۔ 

(۱)اہل کتاب کے یہاں جس طرح کی محرابیں  بنائی جاتی ہیں ، مساجد میں اس طرح کی محراب ہی نہیں بنتی ہے ۔ لہذا، اہل کتاب سے مشابہت اصلا ہے ہی نہیں۔ جب کہ وجہ کراہت مشابہت بتائی گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا ہر مشابہت مکروہ  و ممنوع ہوتی ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ صرف وہی مشابہت ممنوع ہوتی ہے ، جس کے ارتکاب سے یہ دھوکا ہو کہ  لوگ اسے انھیں میں سے شمار کر بیٹھیں گے۔ حالاں کہ محراب مسجد کے ساتھ ایسا معاملہ ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص محراب مسجد میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرائے تو لوگ اسے اہل کتاب سے تصور کریں۔  

(۲) محراب میں کھڑے ہونے سے امام و مقتدی کے درمیان جس دوری کو وجہ کراہت بتائی جا رہی ہے، وہ بُعد مانع اقتدا ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ اگر محراب بڑی ہو تو بھی فاصلہ ایک صف سے زائد کا شائد ہی ہوتا ہوگا۔ ہاں اگر محراب عام محراب سے کچھ زیادہ ہی بڑی ہو اور امام جانب قبلہ دیوار سے لگ کر کھڑا ہو تو بہت زیادہ ممکن ہے کہ پہلی صف اورامام کے درمیان دو چند صفوں کا فاصلہ ہوجائے تب ایسی صورت میں کراہت ضرور ہوگی لیکن نماز ہوجائے گی۔ حالاں کہ ایسی محراب والی  مسجدوں کا وجود کم ہی ہوگا۔

(3)امام کی نقل و حرکت کا مقتدیوں پر پوشیدہ رہنا وجہ کراہت ہے ہی نہیں ؛کیوں کہ امام کی نقل و حرکت سے تو اس کے پیچھے کے متصل چند نمازی ہی واقف ہو پاتے ہیں ، باقی پر تو امام کی نقل و حرکت پوشیدہ ہی رہتی ہے۔ اصل مسئلہ امام کی نقل و حرکت  کےمشاہدے کا نہیں ہے، بلکہ امام کی نقل و حرکت سے واقفیت کا ہے ، جو مشاہدے سے بھی ہوتا ہے اور سماع صوت ( یعنی تکبیرات انتقال کے سننے ) سے بھی۔ صرف سامنے کے چند افراد ہی سماعت کے ساتھ مشاہدہ بھی کرپاتے ہیں ، جب کہ باقی تمام مقتدی صرف سماعت پر ہی اقتدا کرتے ہیں۔ اور آج کے دور میں جب کہ اکثر جگہوں پر لاؤڈ اسپیکر پر نمازیں ہو رہی ہیں تو امام خواہ محراب کے باہر کھڑا ہو یا محراب کے اندر ، تکبیرات انتقال کے ذریعہ ہر کوئی امام کی نقل و حرکت سے واقف ہو جاتا ہے ، لہذا امام کے محراب کے اندر کھڑے ہونے سے اس کی نقل و حرکت پوشیدہ نہیں رہتی۔ اور جب وجہ کراہت نظر نہ آنا  ہی باقی نہیں رہی تو امام کا محراب میں کھڑا ہونا بھی مکروہ نہیں رہا۔ 

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں: 

یصح اقتدائہ بہ من غیر مشاھدۃ ، کالاعمی، ولان المشاھدۃ تراد للعلم بحال الامام، و العلم یحصل بسماع التکبیر ، فجری مجری الروئۃ۔ ( مغنی، ج: ۲، ص: ۴۴۷)۔

بغیر مشاہدے کے بھی امام کی اقتدا درست ہے جیسے: اندھے کی اقتدا ۔ کیوں کہ مشاہدے کا مقصود امام کی حالت( انتقال ارکان) کا علم ہونا ہے، اور یہ علم محض سماع تکبیر سے بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ لہذا، سماع مشاہدے کے قائم مقام ٹھہرا۔ 

(4) مسجد دیوار و گارے کا نام نہیں ہے، متولیان  جن حصوں کو اصل مسجد قرار دیں وہ مسجد ہے اور جن کو فنائے مسجدیا خارج مسجد  قرار دے دیں  وہ اسی حکم میں ہے۔اور جب محراب اصل مسجد ہی ہے تو اس میں ادا کی گئی نماز مفضول نہیں ہوسکتی ہے، چہ جائے کہ مکروہ ہو۔

خلاصۂ فتوی :(الف):زمانۂ نبوی میں نہ ہونے کے باوجود مصلحت عامہ ( شناخت قبلہ و تعیین وسط ) کی وجہ سے مسجدوں میں محراب بنانے کا چلن عہد صحابہ و تابعین  علی الخصوص خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور سے بلا نکیر جاری ہے، جسے جملہ مسلمانان عالم اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے محراب بنانا درست و جائز ہےاور یہ محراب داخل مسجد ہی کہلائےگی نیز  اس کی حیثیت بھی مسجد میں شمار کی جانے والی باقی جگہوں کی طرح ہی ہوگی،جائے محراب اور مسجد کے بقیہ حصوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہوگا۔ 

(ب) : عام فقہا  نے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے کو جن بنا پر مکروہ بتایا ہے، آج کے دور میں وہ ساری وجوہات ختم ہو چکی ہیں ، اس لیے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے میں سرے سے کوئی کراہت ہی باقی نہ رہی، ہاں اگر کہیں  محراب اتنی  زیادہ گہری  ہوکہ امام و مقتدی کے درمیان دو چند صفوں کا فاصلہ ہوجائےتب کراہت ہے، ورنہ دوسری کسی بھی صورت میں کراہت نہیں ہے۔اور اگر امام کے ساتھ ایک صف  محراب میں کھڑی ہو جائے تو یہ کراہت بھی جاتی رہے گی ، لہذا، اگر کوئی شخص محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرائے تو یہ  بلا کراہت جائز و درست ہے۔  

کتبہ: 

آفتاب رشک مصباحی 

دار الافتاء العارفیہ، سید سراواں، الہ آباد، یوپی

۲۱/ فروری ۲۰۲۱ء

Ad Image