Donate Now
مرد اور عورت کے درمیان اختلاط و ملاقات کا حکم

مرد اور عورت کے درمیان اختلاط و ملاقات کا حکم

سوال:
کسی آفس، کالج یا عام جگہوں میں مرد وعورت  کا ایک ساتھ کام کرنا یا تعلیم حاصل کرنا کیسا ہے؟ اجنبی عورت سے تنہائی میں ملنا کیسا ہے؟ محرم یا شوہر کی موجودگی میں کسی ا جنبی عورت سے ملنا کیسا ہے؟ کسی اجنبی عورت سے ہاتھ ملانا یا اس کے جسم کے کسی حصے کو چھونا کیسا ہے؟
مستفتی ۔ مولانا صابر رضا۔دہلی 


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

جواب: 

اللہ تعالیٰ کی یہ کمالِ رحمت ہے کہ مردوں کے لئے انہیں کے  جنس سے عورتوں کا جوڑا  بنایا ۔اور اس کے بعد  نکاح کے پاکیزہ رشتہ کے ذریعہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور رحمت رکھی ۔ نکاح مرد وعورت کے درمیان ایسا پاکیزہ رشتہ ہے جس سے انسان حیوانات وبہائم سے ممتاز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف زنا کو حرام قرار دیا بلکہ ہر وہ علل واسباب جو زنا کا باعث ہو سب کو حرام قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے  انسانی  جوڑے کو اپنی نشانی قرار دیا   ارشاد فرمایا :

ومِنْ اٰیٰتِهٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وجَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً ورَحْمَةً، اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ (الروم :21)

اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک ا س میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔

ہر ذی عقل وشعور پر یہ بات واضح ہے کہ معاشرہ اور سماج کی تشکیل وتنظیم میں مرد وعورت دونوں باہم شریک ہیں ایک دوسرے کو الگ کر کے معاشرے اور سماج کا تصور ممکن ہی نہیں ہے ، لہذا مرد وعورت دونوں جنسوں کے مابین اختلاط،ملاقات اور باہم ایک دوسرے کا تعاون ایک فطری امر ہے۔ دین فطرت نے اس سے مطلقاً منع نہیں کیا ہے۔

مرد وعورت دونوں باہم ایک دوسرے کے معاون  ومددگار ہیں  جیسا کہ  ارشاد ہے  : 

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(التوبہ:71)

مسلمان مرد وعورت ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔

البتہ اجنبی مرد و عورت کے مابین اختلاط و ملاقات کے کچھ آداب اور حدود و قوانین بتائے ہیں ، تاکہ ایک عورت کی عزت و عصمت اور شرافت محفوظ رہے ۔ اگران شرعی قوانین کی پابندی کے ساتھ اختلاط و ملاقات ہو تو جائز ہے ورنہ ممنوع و حرام ہے۔ کتاب وسنت میں مرد وعورت دونوں کے لیے معاشرہ میں رہنے سہنے ، چلنے پھرنے کا ایک ضابطہ اور قانون دیا ہے جس کی رعایت کرنا دونوں پر لازم ضروری ہے : 

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِكَ اَزْكـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ (النور:30)

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک جو وہ کرتے ہیں اللہ اس کو جانتا ہے ۔

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ وَتُوْبُوْا إِلَى اللّهِ جَمِيْعاً أَيَّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور :31)

اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنھیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد  ہے: 

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّهُ غَفُوراً رَّحِيماً (الاحزاب:59)

اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (گھر سے باہر نکلتے وقت) اپنے چہروں پر چادریں ڈال لیں، تاکہ پردہ آزاد عورتوں کی پہچان ہوجائے، جس کی وجہ سے وہ (باندیوں کی طرح) ستائی نہ جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

مذکورہ آیات میں قرآن نے مرد وعورت کو ملاقات سے منع نہیں کیا ہے۔ لیکن انھیں اپنے آپ کو اور اپنی نگاہوں کو پاکیزہ رکھنےکا حکم دیا ہے، اس کے لیے بطور خاص عورتوں کو ایسے لباس پہنے کا حکم دیا ہے جس سے ان کی زینت ظاہر نہ ہوں۔ چہرہ بھی بالکل عریاں نہ ہو بلکہ مہذب لباس با پردہ ہو۔

قرآن حکیم میں دل ونگاہ کی پاکیزگی اور تزکیہ کے ساتھ لباس میں شائستگی کی دعوت دی گئی ہے۔ حدیث میں عورتوں کو اوباشوں سے محفوظ رکھنے اور مرد و زن میں اختلاط سے بچانے کے لیے مزید احکامات دیے گئے ہیں، ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

عورتیں راستوں کے کناروں پر چلیں  

حضرت ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو اس وقت فرماتے ہوئے سنا جب آپ مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور لوگ راستے میں عورتوں میں مل جل گئے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: 

 اسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِيقَ عَلَيْكُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِيقِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوقِهَا بِهِ (سنن ابی داؤد: 5272) البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔ 

تم پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لیے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں، تمہارے لیے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے پھر تو ایسا ہو گیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے (دوپٹے وغیرہ) دیوار میں پھنس جاتے تھے۔

بغیر محرم کے اجنبیہ عورت سےتنہائی میں ملنے کے تعلق سے حدیث 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 

«لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ مَعَ ذِى مَحْرَمٍ». فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ امْرَأَتِى خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا. قَالَ «ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ». (صحيح بخاری رقم :5233)

 محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی حج کرنے گئی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو واپس جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں میرے والد عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نےفرمایا: 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الكَذِبُ حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلاَ يُسْتَحْلَفُ، وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلاَ يُسْتَشْهَدُ، أَلاَ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الاِثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الجَنَّةِ فَلْيَلْزَمُ الجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ. (سنن ترمذی:2165)

لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح خطبہ دینے کے لیےکھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور تنہا رہنےسے بچو، کیوں کہ شیطان ایک کے مقابلے میں  دو کے ساتھ زیادہ دور رہتا ہے، جو شخص جنت میں اعلی مقام حاصل کرنا  چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے۔

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، حَدَّثَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ دَخَلُوا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وَهِيَ تَحْتَهُ يَوْمَئِذٍ، فَرَآهُمْ، فَكَرِهَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: لَمْ أَرَ إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ قَدْ بَرَّأَهَا مِنْ ذَلِكَ» ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «لَا يَدْخُلَنَّ رَجُلٌ، بَعْدَ يَوْمِي هَذَا، عَلَى مُغِيبَةٍ، إِلَّا وَمَعَهُ رَجُلٌ أَوِ اثْنَانِ (صحيح مسلم:2173) 

حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، بنی ہاشم کے چند لوگ سیدہ اسماء بنت عمیس کے پاس گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آئے اس وقت اسماء بنت عمیس ان کے نکاح میں تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کا اس طرح آنا ناگوار ہوا، آپ نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا اور کہا: میں نے تو کوئی بری بات نہیں دیکھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسماء کو اللہ نے پاک کیا ہے برے فعل سے۔ پھر رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: آج سے کوئی شخص اس عورت کے گھر میں نہ جائے جس کا خاوند غائب ہو (یعنی گھر میں نہ ہو) مگر ایک یا دو آدمی ساتھ لے کر۔

شارح مسلم امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ دو یا تین مرد ہو تو اجنبیہ عورت کے ساتھ ملنا جائز ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں کسی طرح کی برائی یا فتنہ کا خوف نہیں رہتا ہے ۔ لیکن اس حالت میں بھی ہمارے اصحاب کا مشہور قول یہی ہے کہ ملنا ممنوع ہے ۔ یہ حدیث صلاح وتقوی والی جماعت کے بارے میں ہےکہ اگر ایسے لوگ اجتماعی شکل میں کسی سے ملیں تو ان سے فحاشی میں وقوع کی امید کم ہے ۔

ثُمَّ إِنَّ ظَاهِر هَذَا الْحَدِيث جَوَاز خَلْوَة الرَّجُلَيْنِ أَوْ الثَّلَاثَة بِالْأَجْنَبِيَّةِ، وَالْمَشْهُور عِنْد أَصْحَابنَا تَحْرِيمه، فَيَتَأَوَّل الْحَدِيث عَلَى جَمَاعَة يَبْعُد وُقُوع الْمُوَاطَأَة مِنْهُمْ عَلَى الْفَاحِشَة لِصَلَاحِهِمْ، أَوْ مُرُوءَتِهمْ، أَوْ غَيْر ذَلِكَ. (شرح النووی على مسلم، 7 / 309)

حدیث اور اس کی شرح سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ جو عورت کسی محرم یا شوہر کے ساتھ نہ ہو اس سے تنہائی میں نہ ملے اگر حاجت شدید ہو تو چند افراد کے ساتھ مل کر اس کی یا اپنی ضرورت پوری کرے، شریعت مطہرہ اور نیت کی پاکیزگی کا مکمل خیال رکھے۔ لیکن اگر تنہائی اور خلوت کے بغیر کھلی جگہوں اور مجمع عام میں ملاقات کرے تو جائز ہے۔ 

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ؟ قَالَ: الحَمْوُ المَوْتُ (صحيح بخاری:5232۔ بَابُ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ ذُو مَحْرَمٍ، وَالدُّخُولُ عَلَى الْمُغِيبَةِ)

حضرت عقبہ بن عامر نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ عورتوں کے پاس (تنہائی میں) جانے سے بچو۔ ایک انصاری صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیور (مرد کا رشتہ دار، بھائی) کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیور کا تنہائی میں اپنی بھابھی سے ملنا تو اور  بھی ہلاکت خیز ہے۔

عورت کا اجنبی مردوں سے    ملاقات کرنے کے تعلق سے حدیث 

عَنْ سَهْلٍ قَالَ: لَمَّا عَرَّسَ أَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ، فَمَا صَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا وَلاَ قَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ إِلَّا امْرَأَتُهُ أُمُّ أُسَيْدٍ، بَلَّتْ تَمَرَاتٍ فِي تَوْرٍ مِنْ حِجَارَةٍ مِنَ اللَّيْلِ «فَلَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّعَامِ أَمَاثَتْهُ لَهُ فَسَقَتْهُ، تُتْحِفُهُ بِذَلِكَ (صحيح بخاری:5182)

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انھوں نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دعوت دی، اس موقع پر کھانا ان کی دلہن ام اسید ہی نے تیار کیا تھا اور انھوں نے ہی مردوں کے سامنے کھانا رکھا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھی اور جب نبی کریم ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے ہی اس کا شربت بنایا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے تحفہ کے طور پر پینے کے لیے پیش کیا۔

عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلاَ بِهَا، فَقَالَ: «وَاللَّهِ إِنَّكُنَّ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ» (صحيح بخاری: 5234 ۔باب مَا يجوز ان يخلو الرجل بالمرأة عند الناسِ) 

 حضرت ہشام سے روایت ہے انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو نبی کریم ﷺ نے لوگوں سے ایک طرف ہو کر اس سے تنہائی میں گفتگو کی، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ (یعنی انصار) مجھے سب لوگوں سے زیادہ عزیز ہو۔

اس حدیث کی شرح میں شارح بخاری ومسلم علامہ ابن ملقن سراج الدین شافعی (804ھ) لکھتے ہیں: 

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالم اور نیک صالح مرد کے لیے جائز ہے کہ لوگوں سے الگ ایک کنارے میں عورت سے ملے تاکہ وہ اپنا دینی مسائل حل کرائے اور باطنی امور میں سوالات کرے ۔۔ نبی کریم ﷺ کا اس انصاری عورت سے ملنا اپنی امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ وہ کس طرح عورت سے ملاقات کرے اور عورت کی عصمت کی بھی حفاظت ہو ۔(توضیح لشرح الجامع الصحيح: 25/ 136)

شارح بخاری علامہ ابو العباس شہاب الدین قسطلانی (923ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: 

وفيه فضيلة عظيمة لهم وأن مفاوضة الأجنبية سرًّا لا تقدح في الدين عند أمن الفتنة وسعة حلمه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وتواضعه ۔ 

اس حدیث میں انصار مدینہ کے لیے عظیم فضیلت کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی بیان ہے کہ جب فتنہ کا خوف نہ ہو تو اجنبیہ عورت سے ملاقات میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(ارشاد الساری  لشرح صحيح البخاری : 8/ 116)

 علامہ بدرالدین عینی (855ھ) نے بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے حدیث کا خلاصہ لکھتے ہیں: 

متقی صالح مرد کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے الگ اجنبیہ عورت سے ملاقات کرے تاکہ وہ اپنی پوشیدہ اور دینی مسائل کی معلومات حاصل کر سکے ۔..... اس میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ جب فتنہ کا خوف نہ ہو تو اجنبیہ عورت سے ملاقات میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اس میں نبی کریم ﷺ کی وسعتِ قلبی، حلم وبردباری اور تواضع کا بھی ذکر ہے، نبی کریم ﷺ ہر چھوٹے بڑے کی ضرورتوں کو کیسے حل کرتے تھے۔ اس میں انصار کے لیے عظیم فضیلت کا بھی بیان ہے۔ اس حدیث میں امت کو تعلیم دی گئی ہے کہ اجنبی عورت سے تنہائی میں کب اور کیسے ملے؟۔ (عمدة القاری شرح صحيح البخاری، 20/ 214)

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ امْرَأَةً كَانَ فِي عَقْلِهَا شَيْءٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً فَقَالَ: يَا أُمَّ فُلَانٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ حَتَّى أَقْضِيَ لَكِ حَاجَتَكِ فَخَلَا مَعَهَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ، حَتَّى فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا(صحيح مسلم:2326)

حضرت  انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک عورت کی عقل میں فتور تھا، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے کام ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں کی ماں (یعنی اس کا نام لیا) اچھا کوئی گلی دیکھ لے میں تیرا کام کر دوں گا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ میں ان سے تنہائی کی یہاں تک کہ وہ اپنے کام سے فارغ ہو گئی۔

حضرت ملا علی قاری ( 1014ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : 

وَفِيهِ تَنْبِيهٌ عَلَى أَنَّ الْخَلْوَةَ مَعَ الْمَرْأَةِ فِي زُقَاقٍ لَيْسَ مِنْ بَابِ الْخَلْوَةِ مَعَهَا فِي بَيْتٍ ( مرقاة المفاتيح : 9/ 3714)

اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ  گلی یا عام راستے میں عورت سے  ملنا   گھر میں  خلوت  کی طرح نہیں ہے ۔

اجتماعی امور  میں عورتوں کی شرکت کے تعلق سے احادیث 

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُزَانِ القِرَبَ ۔(بخاری شریف رقم:2880)

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے جدا ہو گئے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  نے آگے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہما (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) کو دیکھا کہ یہ اپنے ازار سمیٹے ہوئے تھیں اور (تیز چلنے کی وجہ سے) پانی کے مشکیزے چھلکاتی ہوئی لیے جا رہی تھیں اور حال یہ کہ ان کے پاؤں کی پازیبیں ظاہر ہو رہی تھیں ۔

عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ:كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْقِي وَنُدَاوِي الجَرْحَى، وَنَرُدُّ القَتْلَى إِلَى المَدِينَةِ۔(صحیح بخاری رقم:2882)

حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ میں) شریک ہوتے تھے، مسلمان فوجیوں کو پانی پلاتی تھیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور جو لوگ شہید ہو جاتے انہیں مدینہ اٹھا کر لاتی تھیں۔

عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ،قَالَتْ:غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِي الْجَرْحَى، وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى(صحيح مسلم رقم:1812)

حضرت  ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں رہی، میں مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی اور زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اپنے زمانے خلافت میں حضرت شفاء بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگراں بنایا تھا ۔

کَانَ عُمَرُ یُقَدِّ مُھَا فِیْ الرَّأیِ وَیَرْعَاھَا وَیُفَضِّلُھَا وَرُبَّمَا وَلَّاھَا شَیْئًا مِنْ اَمْرِ السُّوْقِ۔ (الاصابۃ  فی تمییز الصحابۃ: 8/ 202)

حضرت عمررضی اللہ عنہ ان کو رائے میں مقدم رکھتے، ان کی فضیلت کی رعایت کرتے اور ان کو بازار کا اہتمام سپرد کرتے تھے۔

عَنْ أَبِي بَلْجٍ يَحْيَى بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ قَالَ: رَأَيْتُ سَمْرَاءَ بِنْتَ نَهِيكٍ - رضي الله عنها - وَكَانَتْ قَدْ أَدْرَكَتِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم - عَلَيْهَا دِرْعٌ  غَلِيظٌ، وَخِمَارٌ غَلِيظٌ، بِيَدِهَا سَوْطٌ تُؤَدِّبُ النَّاسَ، وَتَأمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ (معظم کبیر  للطبرانی :24/ 311)البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ 

حضرت ابوبلج یحیٰ بن ا بو سلیم   بیان کرتے ہیں کہ میں نے سمراء بنت نہیک  کو دیکھا کہ جو نبی  کریم ﷺ کی صحبت پا چکی تھیں کہ  ان کے جسم پرایک  موٹا  زرع اور دوپٹہ تھا اور ان کے ہاتھوں میں  ایک کوڑا تھا  لوگوں کو ادب سکھا رہی تھیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر رہی تھیں ۔ 

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے ظاہر ہے کہ   جہاں  خلوت نہ ہو وہاں  عورتوں کا اجنبی مردو ں کے ساتھ  دینی یا دنیاوی امور میں شریک ہو نا درست ہے ۔ ساتھ ہی  وقت ضرورت مردوں کو مس کرنا  چھونا بھی جائز ہے   جیسے کہ زخموں پر پٹی باندھنا یا دوا علاج کے لیے  دوسرے کام کو انجام دینا وغیرہ  ۔ 

اختیاری طور پر عورتوں کے جسم کو مس نہ کرنے پر حدیث 

حضرتِ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں کچھ عورتوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت ہونے آئی تو آپ ﷺنے ہم سے فرمایا: فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ، إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ (ابن ماجہ: 2341) 

(امیرکی بات سنو اور مانو) جہاں تک تمہارے اندر طاقت وقوت ہو، میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأسِ رَجُلٍ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ. (طبرانی/المعجم الکبیر:16881)

اگر تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی چبھوئی جائےتو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: 

الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ  (صحیح البخاری:52۔ صحیح مسلم:1599) 

حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ہیں (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہات سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی دوسرے کے چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ۔سن لو ہر ملک وبادشاہ کی الگ پناہ گاہ وچراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی زمین پر اس کی چراگاہ حرام چیزیں ہیں۔ (پس ان سے بچو ۔)  سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے گا تو سارا بدن درست رہے گا اور جہاں وہ بگڑا سارا بدن بگڑ جائے گا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

ان تمام احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کو دیکھنا، ان سے ملنا اور مس  کرنا شہوت، خلوت اور فتنہ کی صورت میں ناجائز وحرام ہے، اور جن جن حالات میں فتنہ منعدم ہوجائے، خوف شہوت نہ ہو اور کسی بھی طرح کی ضرورت واقع ہوجائے تو دیکھنا، ملاقات کرنا بلکہ عورت ومرد کا ایک دوسرے کے بدن کو مس کرنا بھی جائز ہوجائے گا، لیکن حاجت شدیدہ کے بغیر ایسا نہیں کرنا چاہیے اگرچہ شہوت کا شبہ بھی نہ ہو۔

عورتوں سےملاقات  کے تعلق سے فقہا ے مذاہب  کے اقوال  و احکام  

جمہور فقہا ے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی مرد کا اجنبیہ  عورت کے ساتھ  خلوت و تنہائی میں ملاقات کرنا  جہاں اس عورت کا شوہر یا  محرم نہ ہو  حرام وناجائز ہے  خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو ۔ 

مذہب ِ حنفی .۔فقہائے احناف کے یہاں مرد وعورت  کا ایک ساتھ ایسی خلوت وتنہائی میں ملاقات کرنا  جو ان کے لیے فتنہ اور دوسروں کے لیے اتہام کا سبب بنے جائز نہیں ہے ۔ لیکن  جب  خلوت نہ ہو  فتنہ کا خوف نہ ہو تو  عورتوں سے دینی یا دنیاوی  ضرورت  کے لیے ملاقات کرنا  جائز ہے ۔

امام شمس الائمہ محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی (483ھ) کی مبسوط میں ہے : 

رُوِيَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - كَانَ فِي خِلَافَتِهِ يَخْرُجُ إلَى بَعْضِ الْقَبَائِلِ الَّتِي كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِيهَا فَكَانَ يُصَافِحُ الْعَجَائِزَ وَلَمَّا مَرِضَ الزُّبَيْرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِمَكَّةَ اسْتَأْجَرَ عَجُوزًا لِتُمَرِّضَهُ فَكَانَتْ تَغْمِزُ رِجْلَيْهِ وَتُفَلِّي رَأْسَهُ وَلِأَنَّ الْحُرْمَةَ لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ فَإِذَا كَانَتْ مِمَّنْ لَا تُشْتَهَى فَخَوْفُ الْفِتْنَةِ مَعْدُومٌ وَكَذَلِكَ إنْ كَانَ هُوَ شَيْخًا يَأْمَنُ عَلَى نَفْسِهِ وَعَلَيْهَا فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُصَافِحَهَا وَإِنْ كَانَ لَا يَأْمَنُ عَلَيْهَا أَنْ تَشْتَهِيَ لَمْ يَحِلَّ لَهُ أَنْ يُصَافِحَهَا فَيُعَرِّضَهَا لِلْفِتْنَةِ كَمَا لَا يَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ إذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ (مبسوط :10/ 154)

روایت ہے کہ حضرت  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بعض ایسے قبائل میں جایا کرتے تھے جہاں آپ نے دودھ پیا تھا، وہاں آپ عمر رسیدہ عورتوں سے مصافحہ بھی کرتے تھے، اور جب مکہ میں زبیر رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ان کی تیمارداری کیلئے ایک بوڑھی عورت کو اجرت پہ رکھا گیا ، جو پاؤں دباتی اور سر سے جوئیں بھی نکالتی تھی ۔ اس لیے  کہ عورت سے  ملنے کی حرمت  کا سبب  فتنہ کا خوف ہے اگر  عورت  ان میں سے ہے جن کی طرف رغبت ہی نہ ہو  تو فتنہ کا خوف ہی معدوم ہو جاتا ہے ، اسی طرح اگر ملاقات کرنے والا ضعیف ہے جو اپنے آپ سے اور اس عورت سے جس سے مصافحہ کر رہا ہے (وقوع فتنہ سے)  مطمئن ہے تو ایسی صورت میں مصافحہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے،  اور اگر عورت کی طرف سے اطمینان نہ ہو کہ اس کی خواہشات بیدار  ہو جائے گی تو ایسی صورت میں اس سے مصافحہ جائز نہ ہوگا بلکہ فتنہ کی وجہ سے اس سے پر ہیز کیا جائے گا، اسی طرح اس مرد کا بھی عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں ہے جو خود اپنی جانب سے مطمئن نہ ہو۔

علامہ ابن عابدین شامی  (1252ھ)لکھتے ہیں :

أَنَّ الْخَلْوَةَ الْمُحَرَّمَةَ تَنْتَفِي بِالْحَائِلِ، وَبِوُجُودِ مَحْرَمٍ أَوْ امْرَأَةٍ ثِقَةٍ قَادِرَةٍ . ( در المختار  و رد المحتار :6/ 368)

حائل  یعنی  پردہ اورمحرم یا کسی ثقہ ذی قدرت عورت کی موجودگی سے خلوت کی حرمت ختم ہو ۔

مذہب مالکی ۔مذہب ِمالکی  میں  اجنبیہ  عورت سے خلوت میں ملنا مطلقاً کسی قید کے  حرام ہے  البتہ  بعض علماے مالکیہ   نےفتنے  کا خوف نہ ہو  تو   ملاقات کو حرام قرار تو نہیں دیا ہے  مگر  پر ہیز ہی کو اولیٰ قرار دیا ہے ۔

علامہ محمد بن  احمد دسوقی مالكی  (1230ھ) شرح کبیر میں لکھتے ہیں : 

وَأَمَّا الْخَلْوَةُ بِالْأَجْنَبِيَّةِ فَمَمْنُوعَةٌ مُطْلَقًا؛ لِأَنَّ النَّفْسَ مَجْبُولَةٌ عَلَى الْمَيْلِ إلَيْهَا (الشرح الکبير ،شيخ الدردير وحاشيۃ دسوقی 3/ 435)

کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت و تنہائی مطلقا منع ہے اس لیے کہ اس کی طرف نفس کا مائل ہونا فطری امر ہے۔

مذہب شافعی۔مذہب ِ شافعی میں  بھی حرمت  کی وجہ  خوف ِ فتنہ  ہے  یعنی  مرد  وعورت کا اس طرح جمع ہونا کہ  فتنہ کا اندیشہ  ہو   یا تہمت کا  خوف ہو  ، اور اگر  فتنہ یا تہمت کا اندیشہ نہ ہو تو  اجنبی عورت سے ملنے میں  حرج نہیں ہے ۔ 

امام ابو زکریا محی الدین یحی  ابن شرف نووی (676ھ)لکھتے ہیں : 

والمشهور جَوَازُ خَلْوَةِ رَجُلٍ بِنِسْوَةٍ لَا مَحْرَمَ لَهُ فيهن لعدم المفسدة غالبا لان النساء يستحين مِنْ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا فِي ذَلِكَ (مجموع شرح مهذب :7/ 87)

مذہب ِ شافعی  میں مشہورقول  یہ ہے کہ کسی   مرد کا چند ایسی عورتوں کے  ساتھ جن کے ساتھ محرم  نہ  ہو  تنہائی میں  اکٹھا ہونا جائز ہے کیوں کہ ایسی صورت میں عام طور سے فتنہ نہیں ہوتا ۔  اس لیے بھی  کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے سے حیا کرتی ہیں۔

فقیہ شمس الدين محمد بن ابی العباس احمد بن حمزة شهاب الدين رملی (1004ھ) خلوت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

أَنَّ الْمَدَارَ فِي الْخَلْوَةِ عَلَى اجْتِمَاعٍ لَا تُؤْمِنُ مَعَهُ الرِّيبَةُ عَادَةً بِخِلَافِ مَا لَوْ قُطِعَ بِانْتِفَائِهَا فِي الْعَادَةِ فَلَا يُعَدُّ خَلْوَةً ا هـ (تحفۃ المحتاج  شرح منہاج :  35/ 182)

وہ خلوت  جو حرام ہے  اس کا  دار ومدار اس بات پر ہے کہ اجنبی   مرد وعورت اس طرح  تنہائی میں  جمع ہوں جس میں  عموماً فتنے سے اطمینان نہ ہو ۔اور  اگر کسی   وجہ سے   فتنے کا خوف ختم ہوجائے اور اطمینان  ہو تو   وہ خلوت  نہیں ہے ۔ 

مذہبِ حنبلی۔مذہبِ حنبلی میں بھی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام ہےغلبہ فتنہ کی وجہ سے اور اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو حرام نہیں ہے ۔ 

علامہ ابو الحسن  علی بن سلیمان مرداوی (885ھ) لکھتے ہیں :

كما هو ظَاهِرُ الْمُغْنِي فَإِنْ كانت شَوْهَاءَ أو كَبِيرَةً فَلَا بَأْسَ لِأَنَّهَا لَا يُشْتَهَى مِثْلُهَا (الانصاف للمرداوی :9/ 314)

علامہ ابو الحسن  مرداوی  مغنی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ  اگر عورت  بدصورت یا  عمر دراز ہو تو  اس کے ساتھ خلوت  میں کوئی حرج نہیں ہے  کیوں  کہ ایسی عورت سے شہوت کا خوف نہیں ہوتا ہے ۔ 

اسی میں ہے : 

وقال ابن عَقِيلٍ لَا يَحْرُمُ النَّظَرُ إلَى وَجْهِ الْأَجْنَبِيَّةِ إذَا أَمِنَ الْفِتْنَةَ انْتَهَى( الإنصاف للمرداوي 8/ 28)

ابن عقیل کہتے ہیں کہ اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو اجنبی عورت کے چہرے کو دیکھنا حرام نہیں ہے۔

 علامہ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم حنبلی (1392ھ)لکھتے ہیں : 

فتحرم الخلوة بالأجنبية، ولو في إقراء القرآن، سدا لذريعة ما يحاذر من الفتنةوغلبات الطباع، (حاشیہ الروض المربع لابن قاسم:11/ 213)

اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام ہے اگر چہ قرآن پڑھانے کیلئے ہو، فتنہ اور غلبۂ شہوت کے راستے کو بند کرنے کیلئے۔

خلاصہ ۔سماجی  ومعاشرتی   زندگی میں  بعض اعمال ایسے ہیں جن میں مرد وعورت دونوں کی   مشارکت  لازمی ہوتی ہے ، مرد وعورت  دونوں کے تعاون ہی سے  ان کاموں کو انجام دیا جا سکتا ہے  ، ایسی صورت میں  اسلامی حدود وآداب  کی پاسداری کے ساتھ عورت کا مردوں کے ساتھ شریک ہونا جائز ودرست ہے ۔ 

کتاب وسنت اور آثار صحابہ سے واضح ہوا کہ  مسلمان عورتیں  جنگوں میں اور دوسرے اعمال میں مردوں کے ساتھ  شریک ہوتی تھیں ۔

احادیث میں  حرمت اسی خلوت کی  وارد ہے   جہاں  اجنبی مرد  وعورت تنہا ہو  عورت  کا شوہر یا کوئی محرم ساتھ نہ  ہو ، فتنہ یا اتہام کا سبب   ہو ۔ 

فقہا ے کرام کے نزدیک بھی  کسی مرد کا اجنبیہ  عورت کے ساتھ  خلوت و تنہائی میں ملاقات کرنا  جہاں اس عورت کا شوہر یا  محرم نہ ہو  حرام وناجائز ہے  ۔

آفس یا دوسری جگہ جہاں ایک سے زائد مرد وعورت  مل کر کام کرتے ہوں  وہ خلوت نہیں ہے ، اسی طرح سفر میں چند مرد وعورت ہوں  تو وہ بھی خلوت نہیں ہے ۔ 

دینی جلسے  یا وعظ ونصیحت کی مجلسیں جہاں پردے کا اہتمام ہو وہاں دینی مسائل سیکھنے کی  غرض عورتوں  کا شر یک ہونا جائز ودرست ہے ۔ 

مسلمان عورتوں کے لیے  احتیاط اسی میں ہے کہ وہ بلاضرورت   ایسی جگہوں میں جانے سے پر ہیز کریں  جہاں اجنبی مردوں سے اختلاط کا خوف ہو ،اسی طرح تہمت کی جگہوں سے بھی پر ہیز کرنا چاہیے  ۔

اجنبی  مرد  کا عورت سے مصافحہ کے تعلق سے  جمہور  فقہا  حضرت عائشہ صدیقہ والی صحیح حدیث  کی بنیاد پر  عدمِ جواز کا قول کرتے ہیں   لیکن فقہاے احناف وحنابلہ بوڑھی  عورت  سے   فتنہ نہ ہونے کی صورت میں حضرت  ابو بکر  وعمر  رضی اللہ عنہما کے فعل سے جواز  کا  قول کرتے ہیں  اگر چہ یہ دونوں روایت ثابت نہیں ہیں   لیکن مس کا جواز قیاس  کے موافق معلوم  ہوتا ہے  کیوں کہ  فتنہ سے  امن ہے ۔ 

احتیاط اسی میں ہے کہ ہم جمہور  کے مسلک پر عمل کریں  ضرورت پڑنے پر فقہاے احناف کے قول پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے ۔واللہ اعلم

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
دار الافتا عارفیہ ۔سید سراواں
۷ /ستمبر ۲۰۲۱ء

Ad Image