خانقاہ عارفیہ میں منعقد عرس خواجہ غریب نواز میں علما نے چشتی مشرب کی وضاحت کی اور اس کی عصری معنویت کو اجاگر کیا۔
آج مورخہ ۶ رجب المرجب ۱۴۴۵ھ کو خانقاہ عارفیہ و جامعہ عارفیہ میں عرس غریب نواز بنام ’’جشن خواجہ مہاراجہ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں جامعہ کے تمام اساتذہ و طلبہ شریک رہے۔ قاری سرفراز صاحب کی تلاوت سے محفل کا آغاز ہوا ۔اس کے بعد جامعہ کے متعدد طلبہ نے بارگاہ غریب نواز میں منقبت کی شکل میں خراج عقیدت پیش کیا۔ نعت ومنقبت کے بعد جامعہ کے نے اساتذہ نے سیرت غریب نواز اور تعلیمات غریب نواز پرعلمی اور فکر انگیز خطاب فرمایا ۔
ناظم مجلس ڈاکٹر مفتی مجیب الرحمن علیمی صاحب نے سب سے پہلے مولانا محمد ذکی ازہری کو خطاب کی دعوت دی ۔حضرت نے بڑا اچھا خطاب فرمایا ۔دوران گفتگو مولانا نے کہا کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ کی خدمت میں بیس سال رہے اور اپنے شیخ سے سلوک وطریقت کے فیوض وبرکات حاصل کیے۔ شیخ کے اس پہلو سے یہ درس ملتا ہے کہ انسان کامل اسی وقت ہوتا ہے جب وہ کسی شیخ کامل کی تربیت میں اپنے شب وروز گزارے۔
مولانا ذکی صاحب کے خطاب کے بعد ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی صاحب نے ایک جامع خطاب فرمایا۔حضرت نے دوران گفتگو فرمایا کہ حضرت خواجہ غریب نواز کی تعلیم کا مرکز عقیدۂ توحید ہے۔ آپ نے وحدت الٰہ اور وحدت آدم کے تصور پر زور دیا۔ ساتھ ہی مظلوموں کی فریاد، ضرورت مندوں کی مدد اور بھوکوں کے کھانا کھلانے کو عظیم نیکی قرار دیا۔ڈاکٹر مصباحی نے کہا کہ غریب نواز نےدعوت وتبلیغ کا مرکز اجمیر کو اس لیے بنایا کہ اس وقت اجمیر کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ ایسی حیثیت ہندوستان کے کسی شہر کی نہیں تھی ۔ اس سے یہ درس ملتا ہے کہ ایک مبلغ کو چاہیے کہ وہ دعوت وتبلیغ کا آغاز ایسے مقام سے کرے جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور اگر جاہل و بد اخلاق لوگ دعوت میں رکاوٹ کا سبب بنیں تو ان سے ایسے ہی اعراض کرے جیسے غریب نواز نے ان لوگوں سے اعراض کیا جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اونٹوں کو بیٹھا نے کے لیے اٹھایا ۔
حضرت کے خطاب کے بعد مولانا ضیاء الرحمن علیمی صاحب نے بہت عمدہ خطاب فرمایا۔ حضرت نے اپنی گفتگو کے دوران فرمایا کہ وہی انسان عظیم مرتبے پر فائز ہوتا ہے جو زیادہ مشکلات کا سامنا کرتا ہے ۔حضرت خواجہ غریب نواز اس عظیم مرتبہ پر اس لیے فائز ہوئے کہ آپ نے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ۔ اپنے والدین و عزیز واقارب کو الوداع کہا اور مدینہ شریف کا سفر کرتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ آپ نے اپنی تبلیغ میں مکی اور مدنی دونوں ادوار کی رعایت کی۔ صرف ایک دور کی رعایت نہیں کی بلکہ جب جس کی ضرورت محسوس کی اس کو استعمال کیا۔ ایک مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں ادوار کی رعایت کرے تاکہ سیرت غریب نواز کے مطابق وہ دعوت و تبلیغ کر سکے ۔
صلات و سلام کےبعد فاتحہ خوانی ہوئی اور شہزادہ داعی اسلام حضرت مولانا حسین سعید صفوی صاحب کی دعا پر محفل کا اختتام ہوا ۔
Leave your comment