صاحب زادہ حضرت مولانا حسن سعید صفوی ازہری سے خصوصی گفتگو
دورِ حاضر کے خانقاہی شہزادگان میں علم وفضل، فکر وتدبر، لطف وعنایت، خدمتِ خلق اور حسنِ عمل کے حوالے سے ہمارے ’’حسن بھیا‘‘ایک بڑا مقام رکھتے ہیں، جس کا اظہار ان کے کردار وعمل سے ہوتا رہتا ہے۔آپ خانقاہِ عالیہ عارفیہ کے زیب سجادہ حضرت داعیِ اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہٗ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ نام ’’حسن‘‘ اور کنیت ’’ابو سعد‘‘ ہے۔ ولادت ۶؍رجب المرجب ۱۴۱۲ھ کو آبائی وطن سید سراواں شریف میں ہوئی ۔ آپ کا سلسلۂ نسب تین واسطوں (۱) پیر ومرشد گرامی عارف باللہ حضرت مخدوم شاہ احسان اللہ محمدی صفوی معروف شیخ ابوسعید حفظہ اللہ تعالیٰ (۲) جد محترم حضرت حکیم آفاق احمد نور اللہ مرقدہٗ (۳) محتسب العارفین بندگی مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہوا سلطان العارفین حضرت خواجہ شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ سے جا کے ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم خانقاہ ہی میں ہوئی۔ جامعہ عارفیہ سےعالمیت کی سند لینے کے بعد۲۰۰۸ء میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا، دہلی تشریف لے گئے اور ۲۰۱۰ء تک حصولِ تعلیم کی خاطر وہاں مقیم رہے۔ ۲۰۱۱ء کے اوائل سے ۲۰۱۵ء کے اواخر تک عالمِ اسلام کی عظٰیم الشان درسگاہ جامعہ ازہر ، قاہرہ مصر میں ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیۃوالعربیۃ‘‘ کے تحت پانچ سالہ تعلیم مکمل کی۔ اس وقت جامعہ عارفیہ کے ایک مؤقر استاذ، سالنامہ ’’الاحسان‘‘ کے مدیر اعلیٰ اور شاہ صفی اکیڈمی کے نگراں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لوح وقلم سے بھی رشتہ استوار رہتا ہے۔ آپ کے مضامین میں ’’آیاتِ جہاد کی صوفیانہ تفسیر‘‘ اور’’حضرت مخدوم شیخ سارنگ: حیات وتعلیمات‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
شاہد رضا نجمی:
تصوف کسے کہتے ہیں اور حقیقۃً صوفی کون ہوتا ہے؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
تصوف کی تعریف کے سلسلے میں بتاتا چلوں کہ اس بارے میں مختلف آرا ہیں، اس کو الگ الگ زاویے سے دیکھ کر مختلف تعبیر وتشریح کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ثمرۂ اسلام جسے حدیثِ نبوی میں ’’الاحسان‘‘ سے روشناس کرایا گیا ہے اسی کی تعبیر تصوف ہے۔ رہ گیا سوال کہ حقیقۃً صوفی کون ہوتا ہے اس کا بھی جواب اسی حدیث میں پوشیدہ ہے کہ جو مقامِ مشاہد ہ پر فائز ہے یابلفظِ دیگر جس پر اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ کی کیفیت طاری ہے وہ محسن ہے اور صوفی ہے اور جو اس کی طلب میں سرگرداں ہے اسے متصوف کہتے ہیں اورجسے ان سب سے کچھ واسطہ نہیں صرف اپنا بازار چمکانا مقصود ہے وہ مستصوف ہے۔
شاہد رضا نجمی:
عام طور سے کہا جاتا ہے کہ خانقاہیں اب صرف عرس ونمائش کا مرکز بنی ہوئی ہیں، مسلمانوں کے عمومی مسائل، ملی ودینی مفادات کی طرف عدمِ توجہی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر اقبال نے بھی کہا تھا: ع---- خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن۔ اس سے آپ کس حد تک متفق ہیں؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
عام طور سے جو کہا جاتا ہے اس سے موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تو مکمل طور سےانکار نہیں کیا جاسکتا البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ع---- ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ علامہ اقبال نے خانقاہوں اور مدارس دونوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ ـ’’خانقاہوں میں مجاور رہ گئےیا گور کن‘‘ یا ’’گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا‘‘۔ ان کو ہمیں مثبت انداز میں لینا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں واقعی دینی مراکز خانقاہیں ہوں یا مدارس تعطل کا شکار تو نہیں۔ بحمدہٖ تعالیٰ آج بہت سی خانقاہیں اور بہت سے مدارس دینی شعور رکھنے والے افراد کو جنم دے رہے ہیں، جو دینی اور ملی مفاد کی بہتری میں سرگرم ہیں۔ علامہ مرحوم کے اشعار میں ہمیں استہزا کا پہلو نہ تلاش کرنا چاہیے بلکہ انھوں نے ہمیں ایک افسوس ناک صورتِ حال کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خانقاہوں میں رسم پرست اور مجاور اور مدارس میں تکفیری ذہن رکھنے والے آج بھی موجود ہیں جن پر آج بھی ویسے ہی ان اشعار کا انطباق ہورہا ہے جیسے پہلے ہورہا تھا۔
شاہد رضا نجمی:
جامعہ ازہر کی روانگی کن حالات میں ہوئی اور کس شعبے کے تحت آپ نے وہاں تعلیم حاصل کی؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
از ہر شریف جانے کی دیرینہ خواہش تھی۔ والدین مد ظلہما کی دعائوں کی برکت سےوہاں کےخوانِ علم ومعرفت سے بقدرِ ظرف خوشہ چینی نصیب ہوئی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ والعربیۃ ‘‘سے وابستہ ہوا اور سچ یہ ہے کہ اپنی محنت وکاوش سے کچھ بھی نہ حاصل ہوا، جو شد بد حاصل ہوئی وہ صرف اورصرف پیر ومرشدِ گرامی مدظلہٗ اور اساتذہ کرام کی دعائوں کا ثمرہ ہے۔
شاہد رضا نجمی:
ہمارے یہاں ایک عمومی تصور یہ ہے کہ وہاں کے علما واساتذہ مسائلِ اسلامیہ میں آزاد روی اور جدت پسندی کے قائل ہیں۔ وہاں زیر تعلیم طلبہ بھی اس کے حامل ہوجاتے ہیں۔ پھر ہر اسلامی مسئلے میں آزادی اور متقدمین علما پر تنقید ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ تصور کہاں تک درست ہے؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
ہمارے یہاں کا یہ تصور کہ علمائے عرب آزاد روی کے شکار ہیں بالکل غلط ہے۔ وہ حضرات اُس اعتدال ومیانہ روی کے علم بردار ہیں، دینِ حنیف نے جس کی دعوت دی ہے۔ تشدد، تعصب اور مسلکی منافرت سے بہت گریز کرتے ہیں۔ اپنے موقف پر دلائل کی روشنی میں قائم رہتے ہیں لیکن دوسروں کے مواقف کوہدفِ طعن وتشنیع نہیں بناتے۔ باشعور طلبہ بھی اسی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔
شاہد رضا نجمی:
خانقاہِ عارفیہ اور جامعہ عارفیہ کو آپ کس سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے حوالے سے مستقبل کے کیا عزائم ہیں؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
خانقاہِ عالیہ عارفیہ اور جامعہ عارفیہ کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہوں جس پر پہنچانے کا پیر ومرشد گرامی حفظہ اللہ تعالیٰ کا خواب ہے۔ حق تبارک وتعالیٰ آپ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر فرمائے اور اس گنہ گار کو ہر طرح کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ مستقبل کے عزائم کیا کیا بتائیں ؎
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
بس دعا کیجیے مالکِ کریم خلوص وللہیت کے ساتھ سارے منصوبوں اور عزائم کو کامیاب وبامراد فرمائے۔
شاہد رضا نجمی:
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
طلبۂ مدارس کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ تحصیلِ علم میں ایسے لگیں جیسا کہ ہم سے دینِ متین نے مطالبہ کیا ہے۔ وَجَاھِدُوْا فِیْ اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ (الحج،۷۸) کا مفہوم نظروں کے سامنے رہے۔ ہمارے اپنے کردار وعمل سے دین داری کا اظہار ہو، نہ کہ صرف لفظوں اور کتابوں میں محدود کرکے دین کو دیکھا اور سمجھا جائے۔
Leave your comment