عظیم محقق مولانا غلام مصطفیٰ ازہری سے خصوصی گفتگو
حدیث کے نام پر غیر مقلدین کی شدت و بربریت دیکھنے کے بعد جب ہم اپنی جماعت کی طرف نظریں اٹھاکر دیکھتے ہیں تو وہاں پیدا شدہ علمی وفکری قحط رجالی سےبڑے اضطراب و کلفت کا شکار ہوتے ہیں کہ ہماری جماعت میں فقہ وفتاوی سے شغف رکھنے والے تو کثیر ہیں، لیکن حدیث وعلوم حدیث کے آشنا بہت کم ہیں، ایسے ماحول میں ان کی شر انگیزیوں اور ہرزہ سرائیوں کا جواب کون دے گا، لیکن دوسرے ہی لمحے جب مولانا غلام مصطفیٰ ازہری جیسی علمی شخصیات پر نظر پڑتی ہے تو اطمینان ویقین کی ایک سحر نمودار ہونے لگتی ہے اور بے ساختہ کہنا پڑتا ہے: ع---ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ جی ہاں!’’ابنِ اعجاز القادری، انعام القادری، انعام صفی‘‘ جیسے پردے میں رہنے والے مولانا غلام مصطفیٰ ازہری ان نایاب لوگوں میں سے ہیں جو فقہ و فتاوی سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ علم ِ حدیث پر بھی خاص گرفت رکھتے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۳؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو آبائی وطن چھپرہ، بہار میں ہوئی۔ اصل نام ’’غلام مصطفیٰ‘‘ اور عرفی نام ’’انعام‘‘ ہے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اشرفیہ، مبارک پور تشریف لے گئے اور وہاں جماعتِ سابعہ تک تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعۃ الازہر، قاہرہ کا رخ کیا اور چار سالوں تک وہاں کلیۃ اصول الدین، قسم الحدیث کے تحت علمِ حدیث میں تخصص کا کورس کیا۔ آپ کا اہم کارنامہ علامہ فضل رسول بدایونی کی ’’المعتقد المنتقد‘‘، امام احمدرضا فاضل بریلوی کی ’’المعتمد المستند‘‘، علامہ شیخ قطب الدین دمشقی کی ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ اور علامہ شیخ سعدا لدین خیرآبادی کی شرحِ رسالۂ مکیہ ’’مجمع السلوک‘‘ کی تخریج وتحقیق ہے۔ فی الحال آپ جامعہ عارفیہ کے ایک اہم استاذ ہیں۔تحقیقی مقالات ومضامین کی ایک طویل قطار ہے، البتہ چند اہم مضامین میں ’’عالمِ اسلام پر یہودیوں کا کستا ہوا شکنجہ، نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ: ایک تحقیقی مطالعہ، کیا حضور اکرم ﷺ کا سایہ تھا؟، احادیث موضوعہ: ایک تفصیلی تجزیاتی مطالعہ، قبولِ حدیث میں صوفیہ کا منہج‘‘ خاص طور سے ذکر کیے جاسکتے ہیں۔ آپ سے کی گئی گفتگو کے چند اہم اقتباسات حاضر ہیں
شاہد رضا نجمی:
چیچینیاکانفرنس میں اہلِ سنت وجماعت کی تعریف کی گئی اوراہلِ سنت وجماعت کو اشاعرہ، ماتریدیہ، فقہا، محدثین اور صوفیہ میں منحصر کردیا گیا۔ اس پر ہمارے مذہبی حلقوںمیں یہ سوال کافی گردش کرتا رہا کہ اہلِ سنت کی مذکورہ تعریف کافی ووافی ہے یا پھر اس میں کسی حذف واضافہ کی ضرورت ہے؟ مختلف لوگوں نے مختلف جوابات دیے، لیکن اگر یہی سوال مَیں آپ سے کروں تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
چیچینیا میں اہلِ سنت وجماعت کی جو تعریف کی گئی تھی اور جس پر کانفرنس میں موجود لوگوں کا اتفاق ہوا تھا وہ موجودہ شیخ ازہر کی جانب سے پیش کردہ تعریف تھی۔ تعریف کافی حد تک درست ہے۔ لیکن ابھی بھی اس میں جامعیت کے اعتبار سے بہت سی گنجائشیں موجود ہیں، جن میں سے بعض کی طرف مولانا ذیشان مصباحی نےجام نور کے اپنےحالیہ مقالے [اہلِ سنت کی تفہیم جدید] میں اشارہ کیا ہے۔
شاہد رضا نجمی:
لیکن یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو گروہ اہلِ سنت کے نام سے جانے جاتے ہیں یا جن جماعتوں کو اہل سنت میں شامل کیا گیا ہے، صرف وہی فرقہ ناجی ہےیا اس کے علاوہ دوسرے فرقے بھی ناجی ہیں؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
معذرت کے ساتھ!یہ سوال خود کئی سوالوں کا مجموعہ ہے۔اس لیے اس کا جواب تھوڑا تفصیل طلب ہے ۔ اس سوال کا جواب اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب ہم پر یہ واضح ہوجائے کہ’’ فرقۂ ناجیہ‘‘ میں لفظ نجات سے کیا مراد ہے ؟ اس کا جواب شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی کی زبان میںسماعت کریں،لیجئے یہ آپ کے سامنے مرج البحرین ہے اس کے دیباچہ میں خطبے کے بعد شیخ محقق نے حدیث افتراق امت بیان کیا ہے ، پھر اپنی زبان میں شیخ نے خودہی اس حدیث کی ترجمانی فرمائی ہے، یہ متن فارسی ہے آپ فارسی جانتے ہیں اس لیے ہم اس کی تلاوت کردیتے ہیں ۔ ( قارئین کی آسانی کے لیےمیں یہاںاس فارسی کاترجمہ اردومیں پیش کر رہا ہوں۔ نجمی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سید الانبیا ، سند الاصفیا حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری امت میں وہ لوگ جومجھ پر ایمان لائے ، دین اسلام میں داخل ہوئے،جو نماز میں اپنا رخ قبلہ کی طرف کرتے ہیں (یعنی امت اجابت) تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائیں گے، ہر فرقہ کا عقیدہ الگ اور راستہ جداگانہ ہوگا ، ان میں بہتر (۷۲) فرقے گمرہی ، عقیدہ کی خرابی اور بدعت کی نحوست کے سبب دوزخ میں جائیں گے۔جب تک قادر مطلق چاہے گاعذاب نار میں گرفتار رہیں گے اور جب وہ چاہے گا ان کو ان آلائشوں اور کثافتوں سے پاک کرکے جنت میں داخل کردے گا ۔ ان تہتر فرقوں میں ایک فرقہ وہ ہوگا جو دوزخ میں داخل ہی نہیں ہوگا اور درست عقیدہ و اعمال کی وجہ سے عذاب کا مستحق نہیں ہوگا ۔ صحابۂ کرام نے دریافت کیا : یا رسول اللہ اس فرقے میں جو مکمل ہدایت پر قائم رہنے کی وجہ سے دوزخ میں نہیں جائے گا کون لوگ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے اصحاب کے مذہب و اعتقاد پر رہیں گے۔ (فارسی متن کی تلاوت کے بعد ازہری صاحب فرماتے ہیں) شیخ محقق کی اتنی ہی عبارت سے آپ کے سوال کا جواب ہو گیا لیکن وضاحت کے لیے چند باتیں اور عرض کردیتے ہیں : شیخ محقق کی اس عبارت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مکمل ہدایت یافتہ وہی ہے جو مکمل طور سے عمل و اعتقاد دونوں میں نبی کریم اور ان کے اصحاب کے نقش قدم پر ہو ، صحیح معنوں میں وہی شخص اہل سنت وجماعت سے ہوگا جس کا ظاہر و باطن عیوب سے خالی اور محاسن سے مزین ہو۔اسی لیے حاجی وارث علی شاہ سے ایک موقع پر دریافت کیا گیا کہ نجات پانے والے کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا : جو حسد سے پاک ہو۔ علم اعداد کے اعتبار سے حسد کا نمبر بھی ۷۲ ہی ہوتا ہے، یعنی ظاہر کے ساتھ ساتھ جس کاباطن رزائل سے پاک و صاف نہیں ہے وہ بہتر (۷۲) میں شامل ہے، اسی لیے میرے پیر و مرشد داعی اسلام شیخ ابو سعید اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں:
جو حسد سے پاک ہو وہ آدمی
جنّتی ہے جنّتی ہے جنّتی
اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہندوستان کی دیوبندی جماعت کا ہے۔ یہ لوگ اپنے دعوے کے مطابق تصوف میں چشتیہ صابریہ سلسلے سے اپنے آپ کو منسلک کرتے ہیں اور عملی طور پر خود کو حنفی کہتےہیں۔ ان ہی دو اصلوں کی بنیاد پر عرب کے علمائے اہل سنت ان کو اہل سنت سے خارج نہیں مانتے ۔رہی بعض عبارتیں جو ان کے بعض علما سے صادر ہوئی ہیں،تو ان کے تعلق سے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیااس جماعت کے ہر فرد کاوہی عقیدہ ہے؟ ان عبارتوں کے جو معانی اور مفاہیم بیان کیے گئے ہیں پوری جماعت ان ہی معانی کفریہ کی قائل ہے؟ اس کا فیصلہ ہندوستان کے علمائے اہل سنت کے لیے بھی بہت ہی مشکل رہا ہے، اس لیے اجمالی طور پر یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ یہ جماعت گستاخ رسول ہے، کافرہے، مگر ان چار کے علاوہ کسی اور کی تکفیر کا انفرادی طور پر کسی بھی محتاط عالم دین نے فتویٰ نہیں دیا۔ فتویٰ یہ دیا جاتا ہے کہ ان عبارتوں سے جو معانی ومفاہیم نکلتے ہیں اگروہ ان کو مانیں گے تب کافر ہوں گے ورنہ نہیں۔جب کہ عوام اہل سنت کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ یہ جماعت گستاخ ہے، لیکن آج تک کسی مستندعالم نے دیوبندی مکتبہ فکر کے ہرہر فرد کو کافر نہیں کہا۔ ایسے میں اس جماعت سے متعلق صحیح فیصلہ کیاجانا چاہیے، جس سے ملکی اور عالمی سطح پر ان کی حیثیت واقعی کا تعین کیا جاسکے۔اسی طرح ہم جسے جماعت اہل سنت کا ایک فرد شمار کرتے ہیں، اگر ان کے عقائد و معمولات سلف صالحین کے عقائد ومعمولات کے مطابق نہیں ہیں، کیا وہ صرف عرس و قوالی اور میلاد وفاتحہ کرکے عذاب دوزخ سے خود کو کلی طور پر بچالیں گے، یہ سوال بھی زیر غور آناچاہیے۔
شاہد رضا نجمی:
پھر ’’من شک فی کفرہٖ وعذابہٖ فقد کفر‘‘ کا کیا مطلب ہوگا؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
مفتی مطیع الرحمٰن صاحب سے میں نے بھی اس کا مطلب دریافت کیا تھا، ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جن مفاہیم ومعانی کے اعتبار سے ان کی تکفیر کی گئی ہے، اگر کوئی شخص انھی مفاہیم ومعانی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تکفیر نہ کرے یا تکفیر میں شک کرے تو کافر ہے۔ اگر ان عبارتوں کے وہ معانی جن کی بنیاد پر تکفیر کی گئی ہے اس کے سامنے واضح نہ ہوں یا اس کے پاس ان کی کوئی تاویل موجود ہو ،جس کی وجہ سے وہ کافر نہ کہتا ہو تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔
شاہد رضا نجمی:
آپ نے ایک طویل عرصے تک جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا یہ بتانا پسند کریں گےکہ وہاںاور ہمارے ہندوستانی مدارس کے نظامِ تعلیم اور تعلیمی نصاب میں مساوات ہے یا پھر کچھ کمی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ دس بارہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی تشنہ رہتے ہیں اور اسی تشنگی کو ختم کرنے کے لیے جامعہ ازہر کا رخ کرتے ہیں؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ ازہر کا نظام بہت اچھا نظام نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کی ان بڑی یونیورسٹیوں میں ازہر کا نام نہیں ہےجوعالمی سطح پر نظامِ تعلیم کے حوالے سے اچھی(International Ranked) مانی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی بھی کوئی یونیورسٹی دنیا کی ۲۰۰ بڑی یونی ورسٹیوں میں شامل نہیں ہے۔
ہاں!ازہر کے نصابِ تعلیم کی عمدگی ہے، علما کی ذہانت اور ان کی پُر خلوص محنتیں ہیں جو تشنگان علم کواپنی طرف مائل کرلیتی ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں تقریباً ہر اسلامی فن میں تخصص کا نظام قائم ہے۔ہمارے یہاں تخصص کا نظام نہ کے برابر ہےاور ہے بھی تو عصبیت کا دبیز پردہ اس پر پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے طلبہ ایک گھٹن سی محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ طلبہ کو مکمل طور پر پڑھنے کی آزادی ہو ، پڑھانے والا اس طرح پڑھائے کہ ہر ہر گوشے پر تفصیلی گفتگو کرے، اپنی تحقیق پیش کرے اور طلبہ کو اپنی رائے قائم کرنے کا موقع دے، جس کے نتیجے میں طلبہ کے اندر ایک زبر دست قوت ارادی اور تحقیق کا عنصر پیدا ہوگا۔ دوسری چیز یہ کہ عام طور سے ہمارے طلبہ اردو خواں ہوتے ہیں اور عربی ٹیکس پڑھنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اردو ترجمہ و شرح سے کام چلا لیا جائے، جس کا نقصان یہ ہے کہ اصل ماخد یعنی قرآن وحدیث تک ان کی رسائی نہیں ہوپاتی ۔ ساتھ ہی ساتھ بحث وتحقیق کےباب میں مفلوج ہو جاتے ہیں۔ جب طلبہ از ہر جاتے ہیں تو وہاں عربی ماحول میں عربی تعلیم میں پختگی حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے اصل ماٰخذاور دوسری بڑی کتابوں کا خود مطالعہ کرتے ہیں۔ اصل چیز مطالعہ ہےجو علمی پختگی عطا کرتا ہے۔ رہی بات بنیادی تعلیم کی تو وہ ہمارے یہاں بھی موجود ہے، اگر طلبہ محنت کریں،مطالعے کا ذوق رکھیں اور فراغت کے بعد بھی مطالعہ کرتے رہیں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ صرف نصاب کی مقدار پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔
ازہرمیں اصل تعلیم’’ ایم اے‘‘ کی ہے۔ اس میں مطالعے کی ترغیب زیادہ دی جاتی ہے اور ایک ایک موضوع پر کثرت سے مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ مطالعہ ہی اصل ہے، خواہ خود سے ہو یا کسی استاذ کی نگرانی میں ۔ استاذ کی حیثیت صرف ایک رہ نما کی ہوتی ہے، اصل خود کی محنت ہوتی ہے۔ وہاں زیادہ سابقہ عربی سے ہوتا ہے اور ہرفن کی کتابیں کثرت سے دست یاب ہوتی ہیں۔ جن طلبہ کے اندرمطالعے کا ذوق پیدا ہوجاتا ہے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، ورنہ ازہر میں بھی تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی طلبہ میں سے پچاس فیصد سے زائدکوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کرپاتے۔
شاہد رضا نجمی:
دورِ حاضر میں علمِ حدیث کی ضرورت واہمیت کیا ہےا ور ہمارے یہاں اس کے لیے کس قدر خدمتیں انجام دی گئی ہیں اور دی جارہی ہیں؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
اہلِ سنت وجماعت کے نام پر جنھیں ہم جانتے ہیں ماضی قریب میں علم حدیث کے اندر ان کی خدمات بہت زیادہ نہیں رہی ہیں، ورنہ دوسری جماعت مثلا دیوبندی مکتبہ فکر کے علما نے اس حوالے سے بڑی خدمتیں کیں ہیں۔ انفرادی طور پر ہند و پاک کے بعض علما ئے اہل سنت کی خدمات کو ضرور یاد کیا جا ناچاہےانھیں فراموش کرنا صحیح نہیں ہے، لیکن ہندوستان کی فکر پہ جوچھایا رہا وہ فقہ و فتاوی تھا؛ کیوں کہ فقہ کا تعلق عمل سے ہے، بات سیدھی سی مل جاتی ہے۔ علم حدیث حاصل کرنے کا فائدہ لوگوں کونظر نہیں آتاتھا۔ عوام صرف مسئلہ پوچھتی ہے ، اس لیے طالبان علوم اسلامیہ فقہ و فتاوی ہی میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور حدیث کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے۔ لیکن آج کے دور میں قرآن وحدیث کا مطالعہ بہت ہی ضروری ہے، نئی نسل کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ فقہا کی بے شمار وہ باتیں جو ان کی ظن و تخمین پر مبنی تھیں، ایسی ہیں جو سائنسی دلائل سےبدیہی طور پر اب باطل ہوچکی ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زمانے کے نوپید مسائل کو شرعی اصولوں کے مطابق حل کریں۔ ہم اصالۃً قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں اور فقہا کی تحقیقات کا بھی مطالعہ کریں تا کہ کتاب و سنت کی رہ نمائی بھی ہمارے ساتھ رہے اور فقہاے اسلام کے تجربات وتحقیقات سے بھی ہم استفادہ کریں، نیز عرف کی معرفت اور زمانے کی بصیرت بھی ہم رکاب رہے۔اس کے ساتھ پیش کش میں معاصر عقلی اور سائنسی استدلال سے خود کو محروم رکھنا بھی قرین مصلحت نہیں ہے۔معاصر فقہی مسائل کی تحقیق میں نہ صرف مطالعہ حدیث سے کام چلے گا اور نہ صرف قدیم فقہا کی تحقیقات ہی کافی ہوں گی۔
قرآن وحدیث کے مطالعے اور فقہائے کرام کے تفقہ سے استفادہ کرکے ہمیں آج کے مسائل حل کرنےہیں۔ جیسے چاند کا مسئلہ اور دوسرے جدید مسائل۔ آپ کو فقہا کے نظریات کے ساتھ ساتھ مطالعہ حدیث کرنا ہےاور یہ بھی دیکھنا ہے کہ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی ہے اس کے کیا احوال تھے، کیا نتیجہ نکلا تھا، پس منظر وپیش منظر کیا تھا؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک ہزار سال سے یہ فقہ چل رہی ہے تو اسے بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹکنالوجی اور کمیونیکشن کے وسیع تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زمانہ رسول سے ۱۲ویں صدی ہجری تک کے حالات لگ بھگ ایک سےتھے،سفر کے لیے لوگ گھوڑے، خچر اور بیل گاڑی ہی کا سہارا لیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔لوگ ٹرین کے ذریعے چلنے لگے، پھر جہاز کے ذریعے ، پھر اور ترقی ہوئی تو اور دوسرے ذرائع کا سہارا لینے لگے۔ زندگی بدل رہی ہے، احوال بدل رہے ہیں ، ایک آدمی سفر کررہا ہے، ایک ایک ہفتہ اس کے لیے سورج غروب ہی نہیں ہورہا ہے۔ وہ نماز کس طرح ادا کرے گا،روزہ کیسے رکھے گا، اس کے لیے کیا صورتِ حال ہوگی؟ آج ان سب پر غور کرنے کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔
شاہد رضا نجمی:
علم حدیث کے حوالے سے ہماری نئی نسل میں بیداری آرہی ہے یا وہ بھی وہی پرانی روش کا شکار ہیں؟ مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:- علم حدیث اورعربی زبان میں نئی نسل کے اندر کافی بیداری آئی ہے۔ نئے طلبہ اور نئے علما میں جمودٹوٹ رہا ہے۔ اس کا رزلٹ فورا تونہیں مل سکتا، لیکن مستقبل قریب میں اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
شاہد رضا نجمی:
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:
طلبۂ مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ توکل اختیار کریں اور کفایت کے ساتھ عمل پیہم کریں۔ اور تحصیلِ علم میں اپنا وقت زیادہ سے زیادہ صرف کریں۔ کیوں کہ کم ہمتی اور مختصر سے وقت میں حسرت و یاس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ثالثہ اور رابعہ تک درسِ نظامی کے طلبہ زبان پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کے بعد عالمیت تک اصولِ حدیث واصولِ فقہ پر خصوصی محنت کریں۔ پھر متونِ حدیث وفقہ اور شروحات کا کثرت سے مطالعہ کریں۔ کسی بھی فن کی چند مکمل کتاب ضرور پڑھیں۔ صرف درس گاہی نصاب پر اکتفا نہ کریں۔
Leave your comment