معروف قلم کار مولانا ذیشان احمد مصباحی سے خصوصی گفتگو
اکیسوں صدی میں جن افراد نے مذہبی صحافت کو زندہ اورتابندہ کیا، مذہبی ادب کے خشک جزیروں کی سیاحی کرتے ہوئے انھیں اپنی وسعتِ نظر، عمیق فکر، اعلیٰ تحقیقی وتنقیدی شعور اور بے باک قلم کے ذریعے دوبارہ آباد کیا ان میں ایک نمایاں نام مولانا ذیشان احمد مصباحی دام ظلہ العالی کا ہے۔ آپ کی پیدائش۵ ۲؍مئی ؍۱۹۸۴ء کو مغربی چمپارن، بہار کے ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۹۹ء میں جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کا رخ کیا اور ۲۰۰۴ء میں وہاں سے فضیلت کی تعلیم مکمل کی۔ فراغت کے بعد ماہنامہ جامِ نور، دہلی سے وابستہ رہے اور ۲۰۱۲ء تک اس کے منصبِ ادارت پر فائز رہے۔۲۰۱۲ء سے تاحال جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں رہ کر اس کی علمی اور فکری فضا کو مزید ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ساتھ ہی جامعہ ملیہ، دہلی سے ’’شیخ سعد الدین خیرآبادی اور فقہ و تصوف میں ان کی خدمات‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں جو ابھی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔شعر وشاعری سے بھی شغف ہے۔ ۲۰۱۱ء میں داعیِ اسلام شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کی مثنوی ’’نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ پر ’’رموزِ نغمات‘‘ کے نام سے آپ نے ایک وقیع حاشیہ لکھا جس سے آپ کے دقیق فہم تصوف کا اندازہ ہوتا ہے۔ مقالات ومضامین کی تعداد ڈیڑھ سو سے متجاوز ہے۔ جن میں تحقیق وطوالت کے اعتبار سے ’’دعوت وتبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟، مسئلۂ اجتہاد وتقلید امام عبدالوہاب شعرانی کی نظر میں، عقیدۂ شفاعت کا اسلامی مفہوم، عقیدۂ علمِ غیب کا اسلامی مفہوم، جدید ذرائعِ ابلاغ سے رویتِ ہلال کا ثبوت، تکفیر کے اصول واحکام: فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے‘‘ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔چند ملی مسائل پر موصوف سے لیے گئے انٹرویو کے خاص اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔
شاہد رضا نجمی:
حالیہ دو قسطوں میں آپ کا لکھا گیا مقالہ ’’تکفیر کے اصول واحکام: فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے‘‘ علمی حلقوں میں کافی سراہا گیا۔ آخر کون سی چیز اس مقالے کی محرک بنی؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
اس مضمون کا بڑا محرک یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہٗ پر ان کے مخالفین کی طرف سے ’’تعجیل فی التکفیر‘‘ کا ایک بڑا الزام ہے، لیکن خود اعلیٰ حضرت کے ماننے والوں کاموجودہ رویہ ان کے مخالفین کے الزام کو ثابت کرتا ہے۔ بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اہلِ سنت سے خارج کرنے اور دین سے باہر کرنے کی جو روش بڑھی ہوئی ہے اس کا سدِّباب ضروری ہے۔ اس کا سدِّ باب محبان اعلیٰ حضرت کے حلقےمیں کیسے ہوگا؟یہ ایک سوال تھا، تو چوں کہ اس حلقے میں اعلیٰ حضرت ہی کا حوالہ معتبر مانا جاتا ہے، کوئی دوسرا حوالہ سنا نہیں جاتا۔ ایسے میں جہاں پر جیسی طبیعت ہو اسی کے مطابق علاج ہونا چاہیے، اسی لیے ہم نے سوچا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے اصول تکفیر بیان کردیے جائیں تاکہ ’’تعجیل فی التکفیر‘‘ کی جو روش ہمارے یہاں بڑھ گئی ہے اس پر بندباندھا جاسکے یا کم از کم جو نئی نسل ہے اس کو معلوم ہوجائے کہ تکفیر کے حوالے سے اعلیٰ حضرت کے اصول کس قدر محکم ہیں۔ سب سے محتاط موقف متکلمین کا ہے اور اعلیٰ حضرت نے جب بھی اصولی طور پر بات کی ہے تو انھی کے رویے پرکی ہے اور وہ یہ ہے کہ حتی الامکان تاویل کی جائے، اگر تاویل کا ضعیف پہلو بھی نکل جائے اور تکفیر سے عدمِ تکفیر کی طرف یا سکوت کی طرف کوئی پہلو نکلے تو اسی پہلو کو اختیار کیا جائے۔ بس اسی مقصد کے لیے میں نے یہ مضمون لکھا تھا تاکہ موجودہ زمانے میں جو تکفیری رویے سامنے آئے ہیں ان کا ازالہ ہوسکے۔
شاہد رضا نجمی:
ظاہر سی بات ہے کہ آپ نے اس مضمون کے لیے فتاویٰ رضویہ اور اعلیٰ حضرت کی دوسری کتابوں کا بڑی عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی پر غیروں کی جانب سے جو تعجیل فی التکفیر کا الزام ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتابوں سے کیا عیاں ہوا؟ اس الزام کی تصحیح یا تردید؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
میں نے جو مطالعہ کیا تھا وہ اصول کا تھا۔ دو باتیں ہیں: ایک اصول کی بات ہے اور دوسری انطباقات کی۔ فاضلِ بریلوی نے جو تکفیرات کی ہیں ان میں وہ عجلت پر ہیں یا نہیں، یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ ہم نے فتاویٰ رضویہ میں موجود اصولِ تکفیر پر بات کی ہے۔ دوسرے موضوع کا اب تک مطالعہ نہیں کیا ہے۔ یہ موضوع باقی ہے اور اس پر بہت تفصیلی مطالعے کی ضرورت ہے جس پر اب تک لوگوں نے لکھا تو ہے مگر کم لکھا ہے۔ مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔
شاہد رضا نجمی:
صحابۂ کرام، تابعینِ عظام اور ائمۂ دین کے مابین کافی علمی اختلافات پائے گئے مگر کبھی بھی ان کے آپسی رویوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ یہ سب پڑھنے پڑھانے کے باوجود آج مسائل میں اختلاف گردن زدنی جرم کیوں تصور کیا جاتا ہے؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
اس کاایک نفسیاتی پس منظرہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت اپنے زمانے کے ایک عبقری فقیہ، متکلم شخص ہیں۔ مختلف لوگوں کے ساتھ ان کے اختلافات اور معارک بھی رہے۔ اس کے بعد ایک طبقہ ایسا ہوا جو اعلیٰ حضرت کے مخالف ہوا، ایک طبقہ ایسا ہوا جو ان کے شاگردوںاور شاگردوں کے شاگردوں سے آگے بڑھا۔یہ معتقدین کا طبقہ تھا۔ ایک تیسراطبقہ ہے جو نیوٹرل ہے۔نہ اسے اعلیٰ حضرت سے مخاصمت ہے اور نہ اس کے اندر وہ گہری عقیدت ہے جو دوسرے طبقے میں ہے۔ تیسرا فریق تو خیر ابھی پردے میں ہے۔ دو فریق نمایاں ہیں۔ ان کے مخالفین اور محبین۔ ان کے محبین کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت کی عظمت ان کے دل ودماغ میں ایسی بیٹھی کہ انھوں نے کسی بھی مسئلے پر یا کہیں بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنی عقل کو مقفل کرلیا۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اعلیٰ حضرت سے جو سلسلہ نیچے کی طرف چلا ہے اس میں علمی زوال انتہا پر ہے۔ چوں کہ علم کا تعلق عقل سے ہے، جب آپ نے عقل کو بند کرلیا تو پھر علمی ارتقا کا کوئی تصور پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ حدیث، سیرت، تاریخ یہ سارے موضوعات ہمارے یہاں ممنوعات میں سے ہیں۔ کل ملاکر جو کام ہوا وہ فقہ پر ہوا، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ فتاویٰ رضویہ کے بعد شاید ہی کوئی فقہ کی کتاب لکھی گئی، جتنے بھی فتاویٰ لکھے گئے وہ سب فتاویٰ رضویہ کی نقل ، توضیح یا تسہیل ہیں، از سرِ نو لوگوں نے خودتحقیق و تفکیرکی کوشش نہیں کی۔ یہاں ایک بات کی تاکیدی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایسا بھی نہیں کہ سارے علما خوابِ غفلت ، بے علمی اور بے فکری کے شکار رہے۔ مختلف مراحل میں بعض صاحبانِ علم ایسے آئے جنھوں نے نئے مسائل پر تحقیق وتفتیش کی یا پرانے مسائل میں از سرِ نو غور کرنے کی کوشش کی، لیکن اگر ان کی کوئی رائے کسی بھی طرح، دور سے بھی اعلیٰ حضرت یا مفتیِ اعظمِ ہند کے قول سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی تو ان لوگوں کو پوری شدت سےمطعون کیا گیا۔ اس علمی اختلاف کو اعلیٰ حضرت کی مخالفت کا عنوان دے دیا گیا اور پھر یہ فلسفہ وجود میں لایا گیا کہ اعلیٰ حضرت کی مخالفت سنیت کی مخالفت ہے اور پھر صغریٰ کبریٰ فٹ کرکے اسے اسلام کی مخالفت پر محمول کردیا گیا۔ کسی نے بھی کوئی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی تو انتہائی حد تک اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ ساری تفصیلات موجود ہیں کہ لوگوں کو باضابطہ گالیاں دی گئیں، تھپڑ لگائے گئے، اس طرح کرکے علم کا گلا گھونٹا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹھیک ہے آپ اعلیٰ حضرت پر غیر مشروط اعتماد رکھتے ہیں تو چلیے یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے کم از کم اعلیٰ حضرت کوتو پڑھیے۔عجیب حیرت ہوتی ہے کہ جو جتنا گلا پھاڑ کر مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگاتا ہے، بالعموم وہ اسی قدر فتاویٰ رضویہ کے مطالعے سے محروم ہے۔پوری جماعت اسٹیجوں پر آگئی۔علم وتحقیق کی راہ پر جو رہے ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ تصنیفی اور تالیفی کام ثانوی یا ثالثی درجے کے لحاظ سے جو کچھ ہوبھی رہا ہے وہ پورا کا پورا نقل در نقل ہے، تحقیق نہیں ہے۔ اسٹیج کےجاہل مولوی اس جماعت کے نمائندے بن گئے۔ انھوں نے ہی اس جماعت کا بیڑا اٹھالیا۔اس حلقے کا معمولی خطیب جماعت کے قد آور علما سے ان کے ایمان اور سنیت کا سرٹیفکٹ مانگتا نظر آتا ہے۔اس سے بھی آگے بڑھ کراسلام و سنیت اور فقہی اختلافات کے فیصلےجلسے کے عوام کرنے لگےاور یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ کسی بھی جماعت کا بیڑا اگر جاہل اٹھالیں تو اس پوری جماعت کو غرق ہونا ہی ہے۔ ایسی جماعت میں علمی تحقیق اور صالح فقہی اختلاف کا خواب خود فریبی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔یہی وہ نفسیاتی اور سماجی پس منظر ہے جس کے سبب ہمارے یہاں علمی تحقیق کے حوالے سے جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو اس کو تفسیق وتضلیل وتکفیر تک پہنچانے میں ذرّہ برابر لوگ دریغ نہیں کرتے اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ تفسیق وتضلیل وتکفیر کے اصول وشرائط کیا ہیں۔
شاہد رضا نجمی:
اہلِ سنت وجماعت جس انتشار وافتراق کی شکار ہے، عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
عالمی سطح کی آپ بات کریں تو عالمی سطح پر ایک طبقہ وہابیہ کا ہے اور ایک اہلِ سنت کا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پیسے وغیرہ کی بدولت وہابیوں کے اثرات زیادہ ہیںگو وہ تعداد میں کم ہیں۔ آپ ہندوستانی تناظر میں بات کریں تو جو عام دانش کدے اور معاشرے ہیں، وہاں پر علمی اور عملی سطح پر وہ لوگ کام کررہے ہیں جو وہابیت سے متأثر ہیں اور جو متأثر نہیں ہیں وہ نیوٹرل ہیں، بریلوی نہیں ہیں، یا وہ روایتی قدیم سنی نہیں ہیں، آزاد فکر ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں اس وقت اعلیٰ حضرت کے متبعین کی شبیہ انتہائی بری ہے، ان کو ایک طرح سے وہ جاہلوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیںجن کے یہاں نہ علم ہے اور نہ عمل ہے اور علمی اختلاف کا معنیٰ جہاں پر لڑنا جھگڑنا ہے۔ یہ لوگ لڑتے جھگڑتے ہی رہتے ہیں، سیاست، سماج، خدمت خلق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ اسی طرح عام علمی حلقے میں بھی یہ جماعت انتہائی بدنام ہے۔ بس ایک نیک فال یہ ہے کہ علامہ ارشد القادی علیہ الرحمہ نے دہلی میںجامعہ حضرت نظام الدین اولیا قائم کیا جس کا ایک دروازہ جامعۃ الازہرکی طرف کھلتا ہے تو دوسرا ہندوستان کے بڑے عصری دانش کدوں کی طرف۔ اس دروازے سے بریلویت سے متعلق جو نئے علما ہیں وہ نئ دنیا میں جارہے ہیں اور ان کو سوچنے، سمجھنے،پڑھنے، لکھنے اور تحقیق وتفکیر کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے ایک اچھی صورتِ حال بنی ہے۔ خود بعض شدت پسند وہابیوں سے یہ سنا گیا ہےکہ علامہ ارشد القادری نے کہاں سے یہ دروازہ کھول دیا اور بریلوی یونیورسٹی میں آگئے، ورنہ اچھا تھا کہ یہ لوگ فاتحہ ، چادر وگاگر اور دوسری جہالتوں میں گم تھے۔
شاہد رضا نجمی:
ہماری نئ نسل میں علمی اور فکری شعور کس قدر پروان چڑھ رہا ہے؟ پہلے کی بہ نسبت کچھ تیزی آئی ہے یا وہی پرانی رفتار ہے؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
ہمارے پاس ٹھیک ٹھاک مدرسے بہت کم ہیں۔ جو ٹھیک مدرسے ہیں ان میں سے بعض کے طلبہ باذوق اور باشعور ہیں اور ان میں مزید شعور پروان چڑھ رہا ہے اور بیداری آرہی ہے۔ خاص طور سے جامعۃ الازہر اور ہندوستانی یونیورسٹی کے جو راستے کھل گئے ہیں اور تیزی سے ہمارے طلبہ وہاں جارہے ہیں، اس سے ان کا ذہن کافی کھل رہا ہےاور علم وتحقیق کے میدان میں وہ اپنے آپ کو کافی وسیع کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آنے والے پندرہ بیس سالوں میں اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
شاہد رضا نجمی:
طلبۂ مدارس کے لیےکوئی خاص پیغام؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:
طلبہ کے لیےہمارا پیغام یا تصوریہی ہے کہ وہ طالبِ علم بنیں ۔ طالبِ علم وہ ہے جس کا وقت طلبِ علم، کتابوں کی تلاش وجستجو اور موضوعات کی تحقیق میں گزرے۔ طلبہ کو دلائل تلاش کرنا چاہیے، اپنا وقت لائبریریوں میں گزارنا چاہیے، بغیر تحقیق ومطالعہ کے صرف گپیں ہانکنا اور اپنا وقت ضائع کرنا طالب علم کے شایانِ شان نہیں۔مطالعہ زیادہ کیجیے اور گفتگو کم کیجیے۔اسی طرح طالب علم کے لیے ادب انتہائی ناگزیر ہے اس بات کو طلبہ ہمیشہ مد نظر رکھیں۔
Leave your comment