Donate Now
جیلیٹن کی حقیقت اور شرعی حکم

جیلیٹن کی حقیقت اور شرعی حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کے دور میں حرام جانوروں سے حاصل شدہ جیلیٹن کا استعمال دواؤں اور کھانے پینے کی چیزوں میں اکثر کیا جاتا ہے ، ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ان کا استعمال شرعا جائز  ہوگا یا نہیں؟ 

سائل: عبد الرحمٰن

کھوڑا کالونی، غازی آباد، یوپی

2/ جنوری 2021ء


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب : - جانوروں کے جیلیٹن سے بنائی جانے والی کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق بارہا عالمِ اسلام کے  دار الافتا ، ذمہ دار علما اور فقہاے معاصر سے سوال  کیا  جاتا ہے   کہ آیا ان چیزوں کا استعمال  شرعا جائز وحلال ہے یا حرام؟  یہ مسئلہ اس وقت زیادہ حساس ہو جاتا ہے جب اسے سوشل میڈیا پر اٹھایا جاتا ہے اور اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں مصنوعات  میں سور کا جلیٹن شامل کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے خود بخود عام مسلمانوں  کے ذہن میں سب سے پہلے  جو چیز  آتی ہے وہ  لفظ ''خنزیر(سور)'' ہے۔  اور  اسی لفظ کی وجہ سے کسی  بھی  ہندستانی عالم کے لیے  اس کا صحیح جواب دے پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پچیسوں سال پہلے اس پر کیمیائی ماہرین (Bio-Chemical Experts)، میڈیکل سائنس داں اور فقہا نے اپنی تحقیق پیش کردی ہے۔ یہاں ان حضرات کی تحقیقات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

جیلیٹن کیا ہے؟ 

جیلیٹن ایک ایسا مادہ (Substance)ہے جو جانور کی  ہڈیوں اور کھالوں میں پھیلے ہوئے ایک خاص  مادے سے نکالا جاتا ہے ،یہ مادہ اس کے  پورے جسم میں الگ سے کہیں  ایک جگہ نہیں پایا جاتا  ہے ۔ اس مادہ کو کلوجین(Collagen)  کہا جاتا ہے۔ کلوجین کو کیمیائی  (Chemical) اور فيزيائي  ( physical)تحلیل و تجزیہ اور تبدیلی سے گزارا جاتا ہے، جس میں بسا اوقات ہفتوں لگ جاتے ہیں ۔ اس طرح تحلیل و تجزیہ سے گزرنے کے بعد کلوجین  جیلیٹن میں بدل جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین  رہے کہ علمائے کیمیا کے نزدیک ماہیت و خاصیت  (Chemical Properties)کے اعتبار سے کلو جین اور جیلیٹن  دونوں بالکل  الگ  اور مختلف  مادے (Different Substances)ہیں۔ 

ماہیت و خاصیت  کے اعتبار سے ایک شے کا مکمل طور پر دوسری شے  میں تبدیل ہو جانا فقہا کے نزدیک استحالہ (Istihaalah: process of transformation – a substance changes into another substance with different characteristics) کہلاتا ہے جیسے؛ انگور کا رس کیمیائی عمل(Chemical Process) سے گزر کر شراب بن جاتا ہے   ، جس کی ماہیت و خاصیت ، انگور کے رس کی  ماہیت و خاصیت سے بالکل جدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح شراب  کو کیمیائی عمل سے گزار کر سرکہ بنایا جاتا ہے، جس کی ماہیت و خاصیت  بھی شراب کی ماہیت و خاصیت  سے مختلف ہوتی ہے ۔ اس لیے  اب ہم کوکشش کرتے ہیں کہ  کلوجین  کا تعارف پیش کیا جائے پھر اس کے بعد یہ جانا جائےکہ جیلیٹن  کیسے تیار ہوتا ہے؟  اس کی خاصیت اور امتیازات کیا ہیں اور اس کا استعمال   کہاں کہاں ہوتا ہے؟

کلوجین(Collagen): یہ طبعی طور سے اس پروٹین کا 25 فی صد حصہ ہوتا ہے،جوپٹھوں،جلدوں،ہڈیوں،کُرکُری ہَڈیوں، انسجہ(Tissue)  اور  رباط  (Ligament)  میں پایا جاتا ہے۔اسے ہائیڈرولائزڈ (Hydrolysis)  کرکے جیلیٹن بنایا جاتا ہے جسے دواؤں ، کریم اور اشیائے خوردنی  میں استعمال کیا جاتا ہے۔ 

جیلیٹن (Gelatin): یہ نیم ٹھوس ، کسی بھی طرح کی ذائقہ  اوربو سے خالی  اور بے رنگ  شفاف (Colorless, flavorless & translucent) جیل ( Gell) ہے، کبھی کبھی یہ زرد بھی ہوتا ہے،  جیلیٹن ایک نامکمل پروٹین ہے، جوسبزیوں اورجانوروں بالخصوص  خنزیر   کی کلوجین  سے حاصل کیا جاتا ہے۔ 

جیلیٹن کیسے بنتا ہے؟ 

جیلیٹن تین مرحلوں سے گزر کر تیار ہوتا ہے۔ 

اول: سب سے پہلے جانوروں کی ہڈیوں، کھالوں اور پٹھوں وغیرہ سے کلو جین (Collagen)  کشید کرتے ہیں۔ 

دوم: حاصل شدہ کلوجین کو ہائیڈرولائز  (Hydrolyze)   کرتے ہیں ، یعنی  اسے تیزاب ، ہائڈروجن ایٹمس اور خوب گرم بھاپ کے ساتھ ایک خاص قسم کی  کیمیائی تحلیل سے گزارتے ہیں ، جس میں کافی وقت  لگتا ہے۔ 

 ہائیڈرولائزکرنے    کے علاوہ کلوجین کو جیلیٹن بنانے کا ایک دوسرا طریقہ الکلائن پروسیجر (Alkaline Procedure) بھی ہے، یہ کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ (Calcium Hydroxide)کے ذریعہ  کی گئی کیمیائی تحلیل و تجزیہ کا نام ہے۔  

سوم: کلوجین کو ہائیڈرولائزڈ کرنے کے بعد جو مادہ حاصل ہوتا ہے اسے خشک کر کے ایک نئی شکل دی جاتی ہے۔

جیلینٹن کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟ 

کسی بھی  شے  میں جیلینٹن کا استعمال اس لیے کرتے ہیں تاکہ    اس کے  رنگ، بو اور مزہ کو فاسد ہونے سے  بچایا جائے اور لمبے وقتوں تک  کے لیے اسے قابل استعمال بنایا جائے۔  

جیلیٹن کن کن اشیا میں استعمال کیا جاتا ہے؟ 

جیلیٹن کا استعمال بہت سی  سیال ، نیم سیال  اور بعض ٹھوس اشیا میں کیا جاتا ہے جیسے: آئس کریم، پیسٹ، ٹوتھ پییسٹ، کریم،  دوائیں( کیپسول، ٹیبلیٹ) ، بعض بسکٹ، میٹھائی، کیک، چاکلیٹ وغیرہ ۔ 

قدیم فقہا کے نزدیک استحالہ کا  حکم 

 تمام فقہا کا اس بات پر  اتفاق ہے کہ شراب خود سے سرکہ بن جائے تو وہ پاک اور حلال ہے۔ لیکن دوسری اشیا کے حوالے سے فقہا کے یہاں دو نظریے پائے جاتے ہیں:

پہلا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کسی شے پر حکم اس شے کی ماہیت و صورت کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے، اور جب  اس کی صورت و ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔  جیسے:  شریعت نے مشک اور عنبر وغیرہ کو پاک و حلال قرار دیا ہے، حالانکہ یہ ناپاک اشیا کی بدلی ہوئی صورتیں  ہیں۔گویا   کسی چیز کے پاک و ناپاک ہونے کا حکم تحلیل و تجزیہ  کے بعد والی صورت  کے حساب سےلگایاجاتا ہے  ، کبھی بھی  بعد والی صورت کا حکم اصل  اور پہلے والے مادہ کے اعتبار سے نہیں   لگایا جاتا ہے۔یہ نظریہ فقہ حنفی کے اکثر متون و شروح میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اصلاً  تو یہ قول امام محمد کا ہے ، لیکن بعض مشائخ حنفیہ نے اسے امام ابو حنیفہ کا قول بھی قرار دیا ہے ،اور فقہائے احناف کے نزدیک یہی قول مفتی بہ بھی ہے۔ مالکیہ اور اصحاب ظواہر کی بھی یہی رائے ہے۔  (البحر الرائق، ۱/۲۳۹۔ رد المحتار، ۱/۲۹۱۔فتح القدير، ١/ 201) اور بعض حنابلہ جیسے شیخ  ابن تیمیہ اورشیخ  ابن قیم  بھی اسی نظریہ کے حامی ہیں ۔ (مجمع الفتاوی ، 21/482۔اعلام الموقعین،1/296)

دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ شئی  نجس کی حقیقت بدل جانے سے بھی اس کا حکم نہیں بدلتا ہے، وہ اب بھی حرام و نجس ہی رہے گی۔ یہ امام احمد بن حنبل کا مشہور قول ہے۔(المغنی، از قدامہ حنبلی، ۱/۵۹)  اورحنفیہ میں سے امام ابویوسف کا بھی یہی نظریہ ہے۔(فتح القدير، ١/ 201)

مذکورہ دونوں نقطہائے نظر سے ہٹ کر شوافع نجس لعینہ اور نجس لغیرہ کے حکم میں فرق کرتے ہیں۔ نجس لعینہ میں وہ حنابلہ کے مشہور قول پر  ہیں ، یعنی نجس لعینہ کی حقیقت بدل جانے سے بھی اس کے حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ جب کہ نجس لغیرہ میں وہ حنفیہ کے مفتی بہ قول کی تائید کرتے ہیں، یعنی  شے کی حقیقت بدلنے سے اس کا حکم بھی بدل جائے گا ۔(مہذب، از شرازی، ۱/۴۸)

کیا جیلیٹن   استحالہ کے حکم میں ہے ؟ معاصر فقہاکی آرا

جیلیٹن استحالہ کے حکم میں ہے یا نہیں؟ معاصر فقہا کی اس بارے میں دو آرا ہیں،  بعض کے نزدیک جیلیٹن جزوی استحالہ ہے، جب کہ اکثریت اسے مکمل استحالہ مانتی ہے۔ 

جزوی استحالہ

جزوی استحالہ کے قائلین نے اپنی آرا کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ  کلو جین سے جیلیٹن بننے میں مادہ کی جو تبدیلی ہو رہی ہے، وہ ماہیت و خاصیت  کے اعتبار سے صرف ظاہری طور پر ہی ہو رہی ہے، نہ کہ حقیقت مادہ   کے طور پر ۔ یہی وجہ ہے کہ مکمل طور پر بھی ہیئت اور ماہیت و خاصیت کے تبدیل ہو جانے کے بعد بھی اس کی اصل یعنی DNA مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا ہے ؛کیوں کہ  اگر جیلیٹن کو مکمل استحالہ مانا جائے ، جو عین شے کا کیمیائی تحلیل و تجزیہ کے ذریعہ  دوسری شے سے بدل جانے کا نام ہے ، تو کسی بھی ذریعہ سے اس کی اصل کا پتا لگا پانا ممکن نہ ہوتا، حالاں کہ  اسپیکٹرو اسکوپی (Spectroscopy)کے ذریعہ اس کی اصل (DNA) کا پتا لگانا ممکن ہے۔ 

چنانچہ عبد الفتاح ادریس شیخ  شرقاوی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

ان جلود الخنازیر و عظامھا لا تستحیل استحالۃ کاملۃ، و انما تستحیل  استحالۃ جزئیۃ  و یمکن بطریق التحلیل الطیفی(Spectroscopy)التعرف علی اصل الجیلاتین المستخلص من جلود الخنازیر  وعظامھا بعد العملیات الکیمیائیۃ المختلفۃ التی یتم بھا استخلاصہ، لوجود الخصائص فی ھذا الجیلاتین یمکن التعرف علی اصلہ الذی استخلص منہ۔ (الاجتھاد الفقھی فی مجالات الصناعات الغذائیۃ و الدوائیۃ المعاصرۃ( مجلۃ المسلم المعاصر، 172) 

ترجمہ: خنزیر کی کھالوں اور ہڈیوں کا مکمل طور پر اسحالہ نہیں ہو پاتا ہے، اس کا جو استحالہ ہوتا ہے وہ جزوی ہوتا ہے۔ کیوں کہ کیمیائی تحلیل و تجزیہ کے بعد جو جیلیٹن ہمیں حاصل ہوا ہے ، اس کی اصل خنزیر ہی کی کھال اور ہڈی ہے  اسپیکٹرا اسکوپی   (Spectroscopy) کے ذریعہ اس کا پتا لگا پانا ممکن ہے۔ 

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے  کہ کسی ایک شے کے  کیمیائی تحلیل و تجزیہ کے بعد دوسری شے سے  بدل جانے کے باوجود بھی اس میں  DNA موجود ہوتا ہے ، کیوں کہ کسی بھی چیز کا DNA کبھی ختم ہوتا ہی نہیں ہے ، خواہ اسے استحالہ یا استہلاک  کی منزل سے گزارا جائے۔  اس لیے اگر صرف اس کی( یعنی DNA کا پتا لگا لینے کی)   بنیاد پر کسی شے کا  اس کے نام ،  خاصیت و ماہیت کے اعتبار سے بالکل بدل جانے کو جزوی استحالہ مان کر تبدیل شدہ شے پر اصل شے کا حکم لگا دیا جائے ، تو اولا ایسا کرنا سرے سے  ہی غلط ہوگا ،کیوں کہ DNA نہ کبھی بدلتا ہے اور نہ ختم ہوتا ہے۔  ثانیا اس سے  نہ صرف ہمارے دور کے پیدا شدہ جیلیٹن کو ناجائز و حرام قرار دینا  لازم آئےگا   ، بلکہ چودہ صدیوں  پر محیط فقاہت اور اس سے صادر شدہ احکام کو بھی  کالعدم قرار دینا  لازم آئےگا  ، جو ایک بڑی جسارت اور امت کو مشقت میں ڈالنا ہے  ۔  مثلا: شراب کے سرکہ بننے پر اس کے جواز کا حکم، گوبر کا جل  کر راکھ بن جانے پر اس کی طہارت کا حکم اور انگور کے رس کا شراب بن جانے پر اس کی حرمت کا حکم ، یہ سب بے معنی ہو کر رہ جائےگا  ؛ کیوں کہ  سرکہ ، شراب ، راکھ وغیرہ میں ان کی اصل یعنی  DNA باقی رہتا ہے۔ نیز ،یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ شریعت اسلامیہ یسر اور آسانی کو پسند کرتی ہے،وہ انسانوں کو حرج اور مشقت میں نہیں ڈالتی۔ اسی لیے کسی چیز پر حلت و حرمت کا شرعی حکم اس کی  ماہیت و خاصیت(Physical Characteristics)   کی بنیاد پر لگایا جاتا  ہے، اصل اور مادہ کے بنیاد پر نہیں ، جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔مثلا: ایک بالٹی ماء مطلق لے لیں اور اس میں اتنا زعفران ملا دیں کہ اس کا رنگ، بو ، مزہ سب بدل جائے، تو اب اسے ماء مطلق نہیں کہیں گے  بلکہ ماء مقید کہیں گے اور اس پر جوحکم جاری ہوگا وہ ماء مقید کاحکم جاری ہوگا  ،حالاں کہ اس میں ابھی بھی ماء مطلق کی اصل باقی ہے۔ اسی طرح  ایک جگ پاک پانی میں چند قطرے شراب یا پیشاب کے ڈال دیے جائیں تو اس  ناپاکی کے ملنے کی وجہ سے اب اسے پاک پانی کی بجائے ناپاک پانی کہا جائےگا اور اس پر ناپاک پانی کا ہی حکم لگایاجائےگا، حالاں کہ اس میں ابھی بھی پاک پانی کی اصل  موجود ہے۔اسی طرح نمک کی کان میں جب کوئی حلال یا حرام جانور گر کر نمک بن جائے تو اس پر نمک کا حکم لگایا جاتا ہے نہ کہ حلال و حرام جانور کا، حالاں کہ اس کی اصل کا پتا لگانا ،ممکن ہے۔ اور اگر کسی چیزپر حکم اس کی اصل اور DNA کے اعتبار سے لگایا جانے لگے تو اولا انسان ہی، جسے سب پاک مانتےہیں، ناپاک قرار پائے کیوں کہ انسان کی پیدائش  ایک ناپاک نطفہ سے ہوئی  ہے،  حالاں کہ انسان کو ناپاک کوئی نہیں مانتا، نہ اس پر ناپاکی کا حکم جاری ہوتا ہے۔   اسی لیے  از ابتدا تا امروز تمام علما و فقہا نے تبدیل شدہ اشیا میں DNA کو تسلیم کرنے کے باوجود عموم بلوی اور امت مسلمہ کی امور دینی و دنیوی میں آسانی کے پیش نظر جائز و حلال ہونے کا حکم صادر کیا ہے۔  

کلی استحالہ 

 ڈاکٹر وہبہ ذحیلی نے اپنی کتاب" الفقہ الاسلامی والادلۃ ، 7/5265"  میں آج سے 25/ سال قبل 1995ء میں منعقد ہونے والے  کویت کی  اسلامی تنظیم برائے طبی سائنس کے آٹھویں سمپوزیم کی سفارشات کو نقل کیا ہے ۔ اس  سمپوزیم کا عنوان : «رؤية إسلامية لبعض المشاكل الصحية» ( صحت سے متعلق بعض مسائل کے بارے میں اسلامی نظریہ) تھا ۔ جس میں  ازہر شریف ،  اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ ،  ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اسکندریہ  اور وزارت صحت کویت ، کے علما و نمائندگان اور ماہرین طب شریک ہوئے تھے۔ اور سب نے متفقہ طور پر  استحالہ کلی مانتے ہوئے جیلیٹن کے استعمال کو جائز و حلال تسلیم کیا ۔  

نزیہ حماد لکھتے ہیں: 

و قد قرر علماء الکیمیا ء الحیوتیۃ و الصیدلیۃ ان الجیلاتین المشتق من اصل خنزیری او بقری او غیر ذالک من الحیوانات قد جرت علیہ استحالۃ بالمعنی الشرعی، حیث تغیرت  حقیقۃ الجلد و العظم المحرم و النجس، و انقلبت عینہ الی مادۃ اخری جدیدۃ مباینۃ للاولی فی الاسم و الخصائص و الصفات۔ (المواد المحرمۃ النجسۃ، 66 )

ترجمہ: علمائے کیمیا اور دوا ساز ماہرین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ جو جیلیٹن خنزیر ، گائے یا دوسرے جانوروں سے کشید کیا جاتا ہے ، اس پر فقہی و شرعی اصطلاح استحالہ کا حکم جاری ہوگا؛ کیوں کہ حرام و نجس کھال اور ہڈی کی حقیقت بدل چکی ہے اور اس کی اصل ایک دوسرے نئے مادے میں بدل چکی ہے جو پہلے سے نام ، اور ماہیت و خصوصیت  میں بالکل الگ ہے۔  

 متعدد فقہی اداروں جیسے ہیئۃ کبار العلما  اور مجمع الفقہ الاسلامی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ استحالہ پاک کرنے والا عمل ہے۔ (فتاوى اللجنۃ الدائمۃ  ،المجموعۃ الاولی، 22/299) ۔ یوروپی کونسل برائے فتویٰ و تحقیق،  آئرش جمہوریہ ( القرارات والفتاوى الصادرة عن المجلس، الدور  الاول ،ص: 236،235) اور اس کے علاوہ متعدد علما نے  بھی جیلیٹن کو  کلی استحالہ مانتے ہوئے اسے  حلال و جائز کہا ہے ، جن میںمحمد سید طنطاوی، طہ جابر علوانی، (استهلاك الاعيان النجسة واستحالتها فی التصنيع الغذائی)  ، محمد ہواری(الطعام والشراب الحلال والحرام ،ص: 9)، محمد عبد  السلام ، یوسف  قرضاوی(فتاوى معاصرة، 3/658) ،    محمد تقی عثمانی (بحوث فی  قضايا فقہيۃ  معاصرة، 1/327) وغیرہم  کا نام سر فہرست ہے  ۔

علما کی آرا کاحاصل  یہ کہ جیلیٹن  کی اصل خواہ گائے  کا مادہ ہو یا  خنزیر کا مادہ  ، تحلیل و تجزیہ کے  بعد کلوجین کے جیلیٹن بن جانےسے  (Collagen gets transformed into Gelatin through Chemical Process) جیلیٹن  ایسے ہی پاک ہو جاتا ہے  جیسے دباغت کے بعد چمڑا  ( خواہ مذبوح جانور کا ہو یا غیر مذبوح اور مردار جانور کا ہو، اور امام ابو یوسف اور امام داوؤد ظاہری کے نزدیک  خنزیر کا چمڑا بھی)پاک ہو جاتا ہے ۔نیز یہاں ایک بات یہ بھی پیش نظر رہے کہ فقہائے اسلام نے خنزیر کے بالوں کو ناپاک مانتے ہوئے بنا کسی تبدیلی کے عین بال سے ضرورت کے تحت جوتا سلنے اور اس سے  تسمہ بنانے کو جائز قرار دیا ہے  اور یہاں  جیلیٹن میں اس کا عین مادہ نہیں ،بلکہ مختلف مراحل سے گزر کر اس سے  بالکل مختلف اور تبدیل شدہ چیز کااستعمال کیا جا رہا ہے، اس لحاظ سے اس کا استعمال استحالہ یا استہلاک اورعموم بلوی کی وجہ سے بطور دوا  اور  غذا  ہر دو طرح  سےبلا شبہ  جائز  و حلال ہے۔

کتبہ

آفتاب رشک مصباحی

دار الافتا عارفیہ/ جامعہ عارفیہ

سید سراواں، کوشامبی، الہ آباد

الجواب صحیح

(مفتی ) محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

Ad Image