یہ مقالہ آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ سے ۱۸؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کو صبح ۳۰: ۹ ؍ بجے نشر کیا گیا۔
اس عنوان کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے ہم حسب ذیل سوالات کی وضاحت کریں؟
۱-تصوف کیا ہے؟
۲-گنگا جمنی تہذیب کیا ہے؟
۳-اس کے فروغ میں تصوف اور صوفیہ کا رول کیا ہے؟
۴-موجودہ عہد میں اس تہذیب کی اہمیت کیا ہے؟
۱-تصوف کیا ہے؟
تصوف اسلام کے باطنی، اخلاقی اور روحانی نظام کا نام ہے۔تصوف کی بنیاد حدیث جبریل ہے جس میں اس کے لیے لفظ ’’الاحسان‘‘کا استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دین میں احسان یہ ہے کہ جب تم اپنے رب کی عبادت کرو تو یہ تصور رہے کہ گویا تم اپنے رب کو دیکھ رہے ہو یا یہ کہ رب تمہیں دیکھ رہا ہے۔یہی حقیقت تصوف ہے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ بعد کے ادوار میں تصوف کا ایک فلسفیانہ پہلونظریۂ وحدت الوجود بھی سامنے آیا۔ اس کے مطابق کائنات خدا کی صفات جمال وجلال کا مظہرہے۔اس نظریے کے زیر اثر صوفیہ کا خلق خدا سے تعلق اور گہر اہوگیا۔ انہوں نے اس کے لیے یہ حدیث بھی سامنے رکھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے: الخَلْقُ کُلُّھُمْ عِیَالُ اللہِ فَأَحَبُّھُمْ إِلَیْہِ أَنْفَعُھُمْ لِعِیَالِ اللہِ ۔پوری مخلوق اللہ کاکنبہ ہےاوراللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اللہ کے کنبے کوسب سے زیادہ نفع پہنچانے والاہو۔(بیہقی/ شعب الايمان:۹/۵۲۱،ح:۷۰۴۶)
اسی تناظر میں ہم دیکھتےہیں کہ تقریباً تمام صوفیہ کا اس بات پر زور ہے کہ عبادت حق کے بعد خدمت خلق عظیم ترین چیز ہے۔ شیخ سعدی نے بجا طور سے صوفیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے:
تصوف بہ جز خدمت خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست
یعنی تصوف صرف مالا جپنے اور گدڑی پہننے کا نام نہیں ، بلکہ انسانوں کی خدمت اور سیوا کرنے کا نام ہے۔
ہندوستان میں تصوف کے علم برداروں میں شیخ علی ہجویری ( ۱۰۷۳ء)، خواجہ معین الدین چشتی (۱۲۳۵ء)، بابا فریدگنج شکر (۱۲۶۵ء)،خواجہ بہاء الدین زکریا ملتانی ( ۱۲۷۶ء)، حضرت صابر پاک کلیری(۱۲۹۱ء)،خواجہ نظام الدین اولیا(۱۳۲۵ء)، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری (۱۳۵۵ء)، مخدوم اشرف کچھوچھوی(۱۴۰۵ء)،حضرت بدیع الدین شاہ مدار (۸۴۰ھ/ ۱۴۳۶ء) ،شاہ مینا لکھنوی (۱۴۷۹ء) اور شیخ احمد سرہندی (۱۶۲۴ء) کے نام بہت نمایاں ہیں۔
۲-گنگا جمنی تہذیب کیا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ یہ گنگا جمنی تہذیب کیا ہے؟ گنگا جمنی تہذیب دراصل ایک مشترکہ تہذیب(Composite Culture) ہے جسے گنگا اور جمنا کے کناروں پر آباد شمالی ہندوستان کے صوفیوں اور سنتوں نے تشکیل دیا،جس میں اپنی مذہبی روایت کی مکمل پاس داری کے ساتھ دیگر اہل مذاہب کا احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک، محبت ورواداری ، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ’’فوائدالفواد‘‘ کے مطالعے سے اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ صوفیہ نے ہندوستا ن کی مذہبی تکثیریت(Religious Pluralism) کو قبول کرتے ہوئے کس طرح یہاں گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل کی -چوں کہ صوفیہ نےرسموں اور روایتوں کی جگہ انسانیت کو فروغ دیا اور اس طرح سے ہندؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کیا۔ ذات پات کی نفرت انگیزیوں کو کم کیا۔ مادیت کی جگہ روحانیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور ایک نئی تہذیبی روایت کی تخلیق کی۔
اس کے ساتھ ہی صوفیہ نے تکثیری معاشرے میں اسلامی دعوت کا ایسا نظام وضع کیا کہ مدعو قوم کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں رہا، بلکہ طرفہ یہ کہ غیر مسلم ہمیشہ صوفیہ کے اوپر محبتوں کے پھول نچھاور کرتے رہے اور صوفیہ کی آستانہ بوسی کو اپنے لیے سعادت مندی تصور کرتے رہے-
۳-گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں تصوف اور صوفیہ کا رول کیا ہے؟
اسی نئی مشترکہ تہذیب کی بنا شیخ علی ہجویری ( ۱۰۷۳ء) اور خواجہ غریب نواز(۱۲۳۵ء) نے رکھی، قطب صاحب (۱۲۳۶ء) اور بابا فرید (۱۲۶۵ء) نے اس کو پروان چڑھایا اور خواجہ نظام الدین اولیا (۱۳۲۵ء) نے خسرو (۱۳۲۵ء) کی شکل میں اس تہذیب کی شہکار تصویر پیش کردی- دیگر مشائخ صوفیہ نے اسی تہذیب کوآگے بڑھایا، اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کے معمار اکابر چشت ہیں-غالباً اسی تناظر میں یہ کہاجاتا ہے کہ ’’ہندوستان چشتیوں کی ولایت ہے۔‘‘
خواجہ معین الدین چشتی تیرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان تشریف لے آئے۔آپ نے سرزمین اجمیر سے انسانی اخوت، ہمدردی، مساوات اور غربا پروری کا سبق دیا- انھوں نے سکھایا کہ انسان کی کرا مت اس کا انسان ہونا ہے، اس کے لیے کسی مخصوص مذہب یا روایات کی قید اضافی ہے، اس لیے تمام انسانوں کے ساتھ سب کو یکساں سلوک کرنا چاہیے- حضرت خواجہ کا یہ پیغام طبقاتی نظام میں جکڑے ہوئے معاشرے کے لیےجرعۂ آب حیات ثابت ہوا اور ملک کے اندر ایک نیا سماج تشکیل پانا شروع ہوا، جس کی بنیاد محض انسان دوستی اور کرامت انسانی کا اعتراف تھا-
بابا فرید الدین گنج شکر کی میٹھی بانی نے پنجاب کو اتنا متاثر کیا کہ ان کاکلام سکھ مذہب کے بانی گرونانک اور دوسرے گروئوں کے برابر سمجھا گیا۔بابا صاحب کی شاعری نے خواجہ صاحب کے پیغام امن وآشتی کو کھیتوں اور کھلیانوں تک پہنچادیا۔بابا فرید کے ایک خلیفۂ اجل سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا نے اس مشترکہ تہذیبی روایت کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا- آپ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان یکساں مقبول تھے، ان کی خانقاہ میں صوفیوں کی طرح جوگیوں کی بھی آمد ہوتی رہتی۔لوگ ان سے دعائیں لینے کے لیے ان کے دربار میں حاضری دیتے - انھوں نے ایک طرف تو انسان دوستی کا سبق سکھایا، دوسری طرف اپنی خانقاہ کے نظام کے ذریعے اس کا موقع دیا کہ ہر مذہب و ملت کا آدمی ان کے درپر حاضری دے سکے-حضرت کے دربار میں کسی سے بھی اس کا مذہب نہیں پوچھا جاتا تھا بلکہ اس کی ضرورت پوچھی جاتی تھی-
بات گنگا جمنی تہذیب کی ہو اور جناب خسرو کا نام نہ آئے، یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر خسرو کو گنگاجمنی تہذیب کا پیکر مجسم کہا جائے تویہ حقیقت کی ترجمانی ہوگی۔بقول پروفیسر اختر الواسع:
’’زبان گجری کی پرکیف روانی ہو یا جمنا کے کنارے اشنان کا منظر، ہندو بچے کی سادگی آمیز بھکتی ہو یا روم و ایران کی رزم آرائیاں، محل سرائوں کی بزم گاہ ہو یا دختر دہقاں کا پرکیف سائونی گیت، امیر خسرو اس تہذیب کے ہر بُن مو میں موجود ہیں- وہ ہندوستان کے تمدن کی علامت اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے بانی ہیں- عربی، فارسی، ترکی کے شاعر ہیں، موسیقی کے ایسے دقیق ماہر ہیں کہ آج چھ سو سال میں ایسا ماہر فن پیدا نہیں ہوسکا- غرض امیر خسرو کی جامع صفات شخصیت نے حضرت محبوب الٰہی کی زیرنگرانی ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی عمارت کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، جس عمارت کی بنیاد حضرت داتاگنج بخش اور حضرت خواجہ اجمیری نے رکھی تھی ،وہ حضرت امیر خسرو کے ساتھ مکمل ہوگئی- آج ہم جس ہندوستان میں جیتے ہیں وہ دراصل وہی ہندوستا ن ہے جس کی تعمیر حضرات صوفیہ اور بالخصوص حضرات چشتیہ نے کی تھی-‘‘
(اکیسویں صدی میں تصوف،مضمون: ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کے معمار: صوفیائے کرام)
خواجہ سلیمان تونسوی نے مسلک صوفیہ کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے:
’’در طریق ما ہست کہ با مسلمان و ہندو صلح باید داشت -‘‘
ہمارے سلسلے کا یہ اصول ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں میں باہم مصالحت رہنی چاہیے-
(نافع السالکین ، ملفوظات خواجہ محمد سلیمان تونسوی، مرتب مولانا امام الدین، لاہور ، ۱۲۸۵ء، ص: ۱۷۶)
اپنی مذہبی روایت سے وابستگی کے ساتھ دوسروں کے لیے صبروتحمل کے تناظر میں نظیراکبرآبادی نے صوفیہ کی تشکیل کردہ اس تہذیبی روایت کی ترجمانی اپنے ان الفاظ میں کی ہے:
جھگڑانہ کرے مذہب وملت کاکوئی یاں
جس راہ میں جوآن پڑے خوش رہے ہرآں
زنّار گلے میں کہ بغل بیچ ہو قرآں
عاشق تو قلندرہے نہ ہندو نہ مسلماں
کافرنہ کوئی صاحب اسلام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
۴-موجودہ عہد میں گنگا جمنی تہذیب کے احیا کی ضرورت
یہ سب اس عہد کی باتیں ہیں جب ہندوستان پر مسلمانوں کی یا انگریزوں کی حکومت تھی، لیکن آج ہندوستان پر ایک سیکولر جمہوری نظام حاکم ہے، جسے ’’ہندوستان پر ہندوستانیوں کی حکومت ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس نظام کی مضبوطی کے لیے اور زیادہ ضروری ہے کہ گنگا جمنی تہذیب مزید مستحکم ہو، اقوام ہند بطور خاص ہندو اور مسلمان باہم شیر وشکر بن کر اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں۔جس ملک کے باشندوں کے بیچ اعتماد واحترام کا رشتہ نہ ہو ، وہ ملک ہرگز ترقی نہیں کر سکتا۔آج یہ بات زیر بحث ہے کہ ہندوستان کو’’ وشو گرو ‘‘ بننا ہے اور ظاہر ہے کہ وشو گرو وہی ہوسکتا ہے کہ جس کے دل ودماغ میں لڑائی کے بجائے رواداری اور نفرت کے بجائے محبت ہو۔ آج ضرورت ہے کہ گنگا جمنی تہذیب کا احیا ہواور آج ضرورت ہے کہ خانقاہوں اور درگاہوں کے مسند نشیں اپنے اسلاف صوفیہ کا کردار ادا کرنے کے لیے پھر سے کمر بستہ ہوں۔حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کے لفظوں میں کہیں تو:
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقشِ دُوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اِک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
Leave your comment