مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی
اردو، عربی، فارسی، انگلش، ہندی جیسی زبانوں پر بیک وقت دسترس رکھنے والےصوفیانہ نظریات کے حامل معروف ادیب وقلم کار مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی کی ولادت ۱۹۸۲ء دربھنگہ، بہار کے ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔ قریب کے مکتب میں ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کے بعد درسِ نظامی کی تعلیم کے لیے ممبئی عظمیٰ کی مشہور درس گاہ ’’دارالعلوم محمدیہ‘‘ میں داخلہ لیا۔ دوسال کے بعد ’’دارالعلوم علیمیہ، جمدا شاہی‘‘ تشریف لے گئے اور وہیں سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں سے عربی ادب میں ایم اے کیا۔ ۲۰۰۹ء میں جواہر لال یونیورسٹی، دہلی سے حضرت امیر خسرو کی عربی شاعری پر ’’دراسۃ تحلیلیۃ لشعر امیر خسرو العربی‘‘ کےعنوان سے ایم فل کے بعد وہیں حضرت مخدوم فقیہ مہائمی کی حیات وخدمات پر پی-ایچ-ڈی کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ۲۰۱۳ء میں خانقاہِ عارفیہ، الہ آباد حاضر ہوئے۔ اس وقت سے آج تک جامعہ عارفیہ کے طلبہ کا مستقبل سنوارنے اورتقریر وتحریر کی صورت میں اسلام وسنیت کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ لوح وقلم سے رشتہ زمانۂ طالبِ علمی سے ہی استوار ہے۔ آپ کا ایک عظیم کارنامہ علامہ شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ کی شرحِ رسالۂ مکیہ ’’مجمع السلوک‘‘ اور شیخ ابونجیب سہروردی قدس سرہٗ کی ’’آداب المریدین‘‘ کا سلیس وبامحاورہ اردو ترجمہ ہے۔ تقریبا تین سالوں سے ماہنامہ خضرِ راہ میںعقائد ومعمولاتِ اہلِ سنت پر مستقل تحریریں بھی لکھ رہے ہیں، جو عن قریب ’’نورِ اعتقاد‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی ہیں۔ دیگر تحقیقی مقالات ومضامین کی ایک طویل قطار ہے۔ جن میں سے ’’شیخ ابنِ تیمیہ کا نقدِ تصوف، ابن جوزی: ناقدِ تصوف یا محدث صوفی؟، حافظ ابنِ قیم جوزی اور ان کا ذوقِ تصوف، تصوف اور صوفیہ: قاضی شوکانی کی نظر میں، مطالعۂ تصوف کے چند رہنما اصول، حضرت نجم الدین کبریٰ: افکار ونظریات، رسالۂ مکیہ: ایک تعارف، شدت پسند تنظیموں کی فکری بنیادیں ‘‘ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔