سوال ۔ وقت عصر کی ابتدا مثل پر ہوتی ہے یا مثلین پر ؟ علما کے درمیان جو اختلاف ہے اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا ضرورت کے وقت مثل اول پر ادا کی ہوئی نماز ہوجائے گی ؟ رہنمائی فرمائیں ۔شاہد ممبرا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان پر ہر نماز کو اس کے وقت مقررہ پر فرض کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا (نساء:103) بے شک نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس سے امامت جبرئیل والی روایت میں اوقات نماز کی پوری تفصیل ہے :
أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أمني جبريل عند البيت مرتين فصلى الظهر في الأولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله، ثم صلى المغرب حين وجبت الشمس وأفطر الصائم، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين برق الفجر، وحرم الطعام على الصائم، وصلى المرة الثانية الظهر حين كان ظل كل شيء مثله لوقت العصر بالأمس، ثم صلى العصر حين كان ظل كل شيء مثليه، ثم صلى المغرب لوقته الأول، ثم صلى العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل، ثم صلى الصبح حين أسفرت الأرض، ثم التفت إلي جبريل، فقال: يا محمد، هذا وقت الأنبياء من قبلك، والوقت فيما بين هذين الوقتين وفي الباب عن أبي هريرة، وبريدة، وأبي موسى، وأبي مسعود، وأبي سعيد، وجابر، وعمرو بن حزم، والبراء، وأنس (سنن الترمذی :1/ 279)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی، پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت ادا کرائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا، پھر عصر اس وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا، پھر مغرب اس وقت ادا کرائی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کر لیا، پھر عشاء اس وقت ادا کرائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر نماز فجر اس وقت ادا کرائی جب فجر روشن ہو گئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو گیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، پھر مغرب اس کے اول وقت ہی میں ادا کرائی جیسے پہلی بار میں ادا کرائی تھی، پھر عشاء اس وقت ادا کرائی جب ایک تہائی رات گزر گئی، پھر فجر اس وقت ادا کرائی جب اجالا ہو گیا۔پھر جبرئیل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اے محمد! ﷺیہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقات نماز تھے، آپ کی نمازوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں :امام ترمذی کہتے ہیں:اس باب میں ابوہریرہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابومسعود انصاری، ابوسعید، جابر، عمرو بن حزم، براء اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
فقہاے کرام کے درمیان فجر ، ظہر ، اورمغرب کے اول وقت میں اتفاق ہے کہ جب فجر ِصادق طلوع ہوجائے تو فجر کا وقت ، سورج ڈھل جائے تو ظہر کا وقت ، سورج غروب ہوجائے تو مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔لیکن عصرا ور عشاء کے اول وقت میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور حضرات صاحبین (امام ابو یوسف ،امام محمد ) اور بروایت حسن ابن زیاد امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی مثل ِ اول پر عصر کی نماز کا وقت شروع ہوجاتاہے ۔ اسی طرح ائمہ ثلاثہ اور حضرات صاحبین (امام ابو یوسف ،امام محمد ) کے نزدیک شفق احمر کے طلوع ہوتے ہی عشاء کی نماز کا اول ِوقت شروع ہوجاتا ہے اور ظاہرِ روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ کے نزدیک مثلین پر عصر کی نماز کا اول ِوقت اور شفق ابیض کے طلوع کے وقت عشاء کی نماز کااول ِ وقت شروع ہوتا ہے۔
وقت ِعصر و عشاء میں فقہا کے مذاہب
مذہبِ حنفی ۔ظاہر روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ کے نزدیک مثلین پر عصر کا اول ِوقت شروع ہوتا ہے ، جیسا کہ مذہب حنفی کی مستند متن الاختیارلتعلیل المختار میں فقیہ مجد الدين ابو الفضل عبد الله بن محمود بن مودودموصلی حنفی (683ھ) لکھتے ہیں :
وَقْتُ الظُّهْرِ مِنْ زَوَالِ الشَّمْسِ إِلَى أَنْ يَبْلُغَ الظِّلُّ مِثْلَيْهِ سِوَى فَيْءِ الزَّوَالِ) وَلَا خِلَافَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ، وَاخْتَلَفُوا فِي آخِرِهِ، فَالْمَذْكُورُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ. وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ: إِذَا صَارَ الظِّلُّ مِثْلَهُ، وَهُوَ رِوَايَةُ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ. وَذَكَرَ فِي الْمُنْتَقَى رِوَايَةَ أَسَدٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ إِذَا صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ خَرَجَ وَقْتُ الظُّهْرِ، وَلَا يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ حَتَّى يَصِيرَ مِثْلَيْهِ فَيَكُونُ بَيْنَهُمَا وَقْتٌ مُهْمَلٌ. (الاختيار لتعليل المختار (1/ 38)
سورج کے ڈھلنے سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ہو جائے ، فرماتے ہیں ظہر کے اول وقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، اختلاف اس کے آخری وقت میں ہے متن میں دو مثل کا مذکورہ بالا قول امام ابو حنیفہ کا ہے اور امام ابو یوسف اور ا مام محمد نے کہا کہ جب سایہ ایک مثل ہوجائے ، امام ابو حنیفہ سے حسن کی بھی روایت یہی ہے اور منتقی میں امام ابو حنیفہ سے اسد کی روایت یہ ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے، لیکن مثلین سے قبل عصر کا وقت داخل نہیں ہوتا ہے، گویا ظہر وعصر کے درمیان ایک مہمل وقت رہتا ہے ۔
صاحب در مختار علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی حنفی لکھتے ہیں :
وَقْتُ الظُّهْرِ مِنْ زَوَالِهِ) ۔۔ (إلَى بُلُوغِ الظِّلِّ مِثْلَيْهِ) وَعَنْهُ مِثْلَهُ، وَهُوَ قَوْلُهُمَا وَزُفَرَ وَالْأَئِمَّةِ الثَّلَاثَةِ. قَالَ الْإِمَامُ الطَّحَاوِيُّ: وَبِهِ نَأْخُذُ. وَفِي غُرَرِ الْأَذْكَارِ: وَهُوَ الْمَأْخُوذُ بِهِ. وَفِي الْبُرْهَانِ: وَهُوَ الْأَظْهَرُ. لِبَيَانِ جِبْرِيلَ. وَهُوَ نَصٌّ فِي الْبَابِ. وَفِي الْفَيْضِ: وَعَلَيْهِ عَمَلُ النَّاسِ الْيَوْمَ وَبِهِ يُفْتَى سِوَى فَيْءٍ(در مختار : 1/ 359)
سورج کے ڈھلنے سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ہو جائےاور امام ہی سے ایک روایت ایک مثل کی بھی ہے اور یہی(ایک مثل کا قول ) امام زفر ، ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا بھی ہے ۔ امام طحاوی نے کہا : وَبِهِ نَأْخُذُ( ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ) اور غرر الاذکار میں ہے وَهُوَ الْمَأْخُوذُ بِهِ( اسی قول کو لیا گیا ہے ) اور برہان میں ہے: وَهُوَ الْأَظْهَرُ.( یہی ظاہر ہے) حضرت جبرئیل کے بیان کی وجہ سے جو کہ اس باب میں نص ہے اور فیض میں ہے : وبہ یفتی ٰ (اور اسی پر فتوی ہے )نیز آج لوگوں کا عمل اسی ایک مثل پر ہے ۔
مذہب ِمالکی ۔امام مالک کے نزدیک جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
فقیہ ابو عبد الله محمد بن يوسف بن ابی القاسم غرناطی مالكی (897ھ) مختصر خلیل کی شرح میں لکھتے ہیں :
وَآخِرُ وَقْتِهَا أَنْ يَصِيرَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ بَعْدَ طَرْحِ ظِلِّ الزَّوَالِ، وَهُوَ بِعَيْنِهِ أَوَّلُ وَقْتِ الْعَصْرِ يَكُونُ وَقْتًا لَهُمَا مُمْتَزِجًا بَيْنَهُمَا، فَإِذَا زَادَ عَلَى الْمِثْلِ زِيَادَةً خَرَجَ وَقْتُ الظُّهْرِ وَانْفَرَدَ الْوَقْتُ بِالْعَصْرِ. ابْنُ نَاجِي: فَيَقَعُ الِاشْتِرَاكُ بَيْنَ الْوَقْتَيْنِ مَا دَامَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ، (التاج والإكليل لمختصر خليل (2/ 19)
ظہر کا آخری وقت یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہو جائے ، نیز یہی بعینہ عصر کا اول وقت بھی ہے، گویا دونوں کے وقت میں تداخل ہے ۔ لیکن سایہ جب ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور تنہا عصر کا وقت بچتا ہے لہذا جب تک سایہ ایک مثل پر باقی رہتا ہے اس وقت تک ظہر وعصر دونوں کا وقت مشترک رہتا ہے۔
مذہب ِشافعی ۔ امام شافعی کے نزدیک جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائےتو ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے جیسا کہ ’’ کتاب الام ‘‘ میں ہے :
فَإِذَا جَاوَزَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ بِشَيْءٍ مَا كَانَ فَقَدْ خَرَجَ وَقْتُهَا وَدَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ لَا فَصْلَ بَيْنَهُمَا ( الام از شافعی : 1/ 90)
جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائےتو ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے ، لیکن دونوں نمازوں کے درمیان کوئی فصل نہیں رہتا ۔
علامہ ابو الحسن ماوردى(450ھ) فقہ الشافعی میں لکھتے ہیں :
إِذَا تَجَاوَزَ ظَلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ سِوَى ظِلِّ الزَّوَالِ دَخَلَ أَوَّلُ وَقْتِ الْعَصْرِ ، وَخَرَجَ وَقْتُ الظُّهْرِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا فَصْلٌ (الحاوی فی فقہ الشافعی : 2/ 16)
جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائےتوعصر کا اول ِوقت داخل ہوجاتا ہے، ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان کوئی فصل نہیں رہتا ۔
مذہب ِحنبلی ۔ امام احمد بن حنبل کا عصر کے تعلق سے بعینہ وہی مذہب ہے جو امام شافعی کا مذہب ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائےتوعصر کا اول ِوقت داخل ہوجاتا ہے اور ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
علامہ ابو الفرج شمس الدین عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن قدا مہ مقدسی حنبلی ( 682ھ)شرح کبیر میں لکھتے ہیں :
أول وقت العصر من خروج وقت الظهر وهو إذا صار ظل كل شئ مثله بعد القدر الذي زالت عليه الشمس فبخروج وقت الظهر يدخل وقت العصر ليس بينهما فصل وهو قول الشافعي. (الشرح الكبيراز ابن قدامہ :1/ 435)
جب ہر چیز کا سایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل سے کچھ بھی زائد ہو جائےتوعصر کا اول ِوقت داخل ہوجاتا ہے ، ظہر کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور دونوں کے درمیان کوئی فصل نہیں رہتا ۔اور یہی امام شافعی کا بھی قول ہے۔
اختلاف کا سبب
فقہاے کرام کے درمیان اوقات ِنماز میں جو اختلاف ہے اس کی وجہ بظاہر احادیث میں تعارض ہونا ہے۔ اس لیے کہ عصر کی نماز کے تعلق سے دونوں طرح کی روایتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ علامہ ابن رشد مالکی فقہا کے درمیان اختلاف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَسَبَبُ الْخِلَافِ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافُ الْأَحَادِيثِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ وَرَدَ فِي إِمَامَةِ جِبْرِيلَ «أَنَّهُ صَلَّى بِالنَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - الظُّهْرَ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، وَفِي الْيَوْمِ الثَّانِي حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: " الْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ» وَرُوِيَ عَنْهُ قَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ، ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ فَعَمِلُوا إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِينَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ فَأُعْطِينَا قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَيْ رَبَّنَا أَعْطَيْتَ هَؤُلَاءِ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ وَأَعْطَيْتَنَا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا؟ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ( صحيح البخاری :9/ 156)فَذَهَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ إِلَى حَدِيثِ إِمَامَةِ جِبْرِيلَ، وَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ إِلَى مَفْهُومِ ظَاهِرِ هَذَا( بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد : 1/ 100)
فقہا کے درمیان اختلاف کا سبب احادیث کا مختلف ہونا ہے۔ وہ یہ کہ امامت جبرئیل والی حدیث میں وارد ہے کہ انہوں نے پہلے دن سورج ڈھلنے کے وقت نبی کریم ﷺ کو ظہر کی نماز ادا کرائی اور دوسرے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا اور کہا کہ انہی دونوں کے درمیان ظہر کا وقت ہے اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا اور وہ عاجز ہو گئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط (قیراط عربی زبان کے ایک وزن کا نام ہے جو پانچ جو کے برابرہوتا ہے۔ایک قیراط یا کیرٹ 200 ملی گرامکا ہوتا ہے )دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو گیا، تمہیں دو دو قیراط دیے گئے، اس پر اہل کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔
امام مالک اور امام شافعی امامت جبرئیل والی حدیث کے ظاہر کی طرف گئے اور امام ابوحنیفہ اس مذکورہ بالا حدیث کے مفہوم کی طرف گئے ۔
احناف کے دلائل
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ( صحيح البخاری :538)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرو، کیوںکہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ الغِفَارِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ المُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَبْرِدْ» ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: (تَتَفَيَّأُ) تَتَمَيَّلُ ( صحيح البخاری :538)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھےمؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو ۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا (تب اذان دی گئی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں ادا کیا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : (تَتَفَيَّأُ) تَتَمَيَّلُ کے معنی میں (جھکنا، مائل ہونا) ہے ۔
ان دونوں حدیثوں میں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک مثل سے قبل تھوڑی بہت بھی تپش کم نہیں ہوتی ہے اور ایک مثل سے دوسرے مثل کے داخل ہونے تک موسم میں ابراد ہونا شروع ہو جاتا ہے یعنی گرمی کی تپش کم ہونے لگتی ہے خاص طور سے حجاز میں، کیوں کہ وہاں کی شدتِ حرارت دوسری جگہوں کی بنسبت زیادہ ہوتی ہے ۔
دوسری روایت میں ٹیلوں سے سایہ کے ڈھلنے کی بات کہی گئی ہے اور ٹیلہ عام طور سے مثلث ہوتا ہے اور نصف النہار کے وقت مثلث کا سایہ نہیں ہوتا ہے حتیٰ کہ ایک مثل سے پہلے سایہ دکھائی دینے کا امکان بھی نہیں ہوتا ہے جب کہ دو مثل تک با آسانی سایہ دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ظہر کی نماز حضور ﷺ نے مثل ِ اول کے بعد مثل ِ ثانی کے درمیان ادا کی ہوگی کیوں کہ صحابہ نے ٹیلے کے سایہ کا مشاہدہ کیا جو انہیں وقت میں ممکن ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَنْ سَلَفَ مِنَ الأُمَمِ، كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ العَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ،أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الإِنْجِيلِ الإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صُلِّيَتِ العَصْرُ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيتُمُ القُرْآنَ، فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الكِتَابِ: هَؤُلاَءِ أَقَلُّ مِنَّا عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا، قَالَ اللَّهُ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ (صحيح البخار ی :9/ 156)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا اور وہ عاجز ہو گئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو گیا، تمہیں دو دو قیراط دیے گئے، اس پر اہل کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ وقت فجر اور ظہر کے درمیان کا ہوتا ہے جس میں یہود عمل کریں گے اور ایک قیراط ثواب پائیں گے اور ظہر اور عصر کے درمیان اس سے کم وقت رہے گا جس میں نصاریٰ عمل کریں گے اور وہ بھی ایک قیراط ثواب پائیں گے اور عصرا ورمغرب کے درمیان اس سے کم وقت رہے گا جس میں امت محمدیہ عمل کرے گی اور سب سے زیادہ دو قیراط ثواب پائے گی ، لہذا اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت ظہر اور عصر کے درمیان کے وقت سے کم رہے گا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عصر کی ابتدا مثلین سے مانا جائے اور اگر مثل ِاول سے عصر کا وقت مانا جائے تو عصر اور مغرب کے درمیان کا فاصلہ ظہر اور عصر کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ رہے گا جو اس حدیث کے تقاضہ کے خلاف ہے ۔
قیاس :امام ابو حنیفہ کا عبادات کے تعلق سے ایک خاص منہج رہا ہے کہ وہ جب دلائل میں تعارض دیکھتے ہیں یا عام و خاص یا مطلق ومقید پاتے ہیں تو احتیاط اور متیقن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے : ایام قربانی کے سلسلے میں اصل باب کی حدیث چار دن کا تقاضہ کرتی ہے، لیکن اس کے متعارض روایت تین دن چاہتی ہے تو آپ نے متیقن پر عمل کیا اسی طرح سے بہت سارے مسائل ہیں ۔
اس باب میں بھی اصل حدیث تو حدیثِ جبرئیل ہی ہے جس کا ظاہر ِنص یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ظہر مثل ِ اول پر ختم ہو جائے اور عصر مثل ِ اول سے شروع ہو ۔ لیکن دوسری روایتیں اس کے بعض حصے سے متعارض ہے جو اس پر بعینہ عمل کرنے سے روکتا ہے۔ اس لیے امام ابو حنیفہ نے متیقن پر عمل کرتے ہوئے ایک مثل پر ظہر کے وقت ختم ہونے کا حکم نہیں لگایا ،اسی طرح عصر کی نماز غروب ِ آفتاب تک ادا کرنے کو کراہت کے ساتھ جائز قرار دیا اور یوں ہی مغرب میں شفق ِ احمر کے بعد شفق ِ ابیض آتا ہے اس پر مغرب کے اختتا م کا حکم لگایا کیوں کہ ان تمام مقامات میں دخول متیقن تھا اور خروج میں شک تھا، اس لیے متیقن پر عمل کیا ۔
جمہور کے دلائل ۔ عنابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: أَمَّنِي جِبْرِيلُ مَرَّتَيْنِ عِنْدَ الْبَيْتِ، فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ حِينَ صَارَ ظِلُّ كَلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِيَ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي الظُّهْرَ حِينَ صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ، وَالْعَصْرَ حِينِ صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ وَقْتٌ لَكَ وَلِأُمَّتِكَ (السنن الكبرىاز بیہقی :1/ 535)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی، پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت ادا کرائی جب سورج ڈھل گیا اور عصر اس وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا ۔ دوسری بار ظہر کی نماز اس وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت ادا کرائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا اور کہا : انہی دونوں وقتوں کے درمیان آپ کی اور آپ کی امت لیے نمازوں کے اوقات ہیں ۔
جمہور فقہا کی بھی دلیل یہی حدیث ہے جس میں دوسرے دن حضرت جبرئیل نے ظہر کی نماز ایک مثل پر ادا کرائی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل تک رہتا ہے اور یہی ظاہر و منصوص ہے ۔
خلاصہ۔حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمد ،امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نیز امام زفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک باقی رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تعلق ہے تو ایک روایت کے مطابق ان کا بھی وہی مسلک ہے جو جمہور علماء کا ہے۔ چنانچہ درمختار میں بہت سی کتابوں کے حوالوں سے اسی مسلک کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے۔
علما نے اس سلسلہ میں ایک صاف اور سیدھی راہ نکالی ہے کہ مناسب یہ ہے کہ ظہر کی نماز تو ایک مثل کے اندر اندر اد ا کر لی جائے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعدادا کی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہو جائیں ۔
فتاوی ٰ شامی میں ہے :
ان الاحتیاط ان لا یؤخر الظھر الی المثل،وان لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین،لکون مؤدیا للصلوتین فی وقتھما بالاجماع۔۔۔ الخ (ردالمحتار:کتاب الصلوة:٣٥٩/١)
احتیاط یہ ہے کہ ظہر کی نمازکو ایک مثل سے زیادہ موخر نہ کرے اور عصر کی نماز دو مثل سے پہلے ادا نہ کی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہو جائیں۔
لہذا عزیمت یہی ہے کہ ظہر کی نمازکو ایک مثل سے زیادہ موخر نہ کرے اور عصر کی نماز دو مثل سے پہلے ادا نہ کرے البتہ فقہا کے اختلاف سے امت کو یہ رخصت ضرور مل گئی کہ اگر کوئی شخص عصر کی نماز ایک مثل پر بھی ادا کر تا ہے تو اس کی نماز درست ہو جائے گی کیوں کہ امام ابو حنیفہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حدیث جبرئیل کا ظاہر بھی یہی ہے جو اس باب کی اصل ہے۔ محققین حنفیہ جیسے: امام طحاوی ،علامہ ابن ہمام وغیرہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے ۔
اورمثل ِاول پر عصر کی نماز ضرورت کے وقت جیسے: سفر یا بیماری کی حالت میں بدرجہ اولیٰ ہو جائے گی۔ اسی طرح ضرورت کے وقت دو نمازوں کو جمع کرے تو بھی نماز ہو جائے گی ، ترک ِصلات سے اولیٰ یہی ہے کہ کسی بھی مذہب پر عمل کرتے ہوئے نماز ادا کر لی جائے ۔ واللہ اعلم ۔
محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
۵/محرم الحرام ۱۴۴۳ھ ۔ ۱۴ /اگست ۲۰۲۱ء
Leave your comment