سیرت رسول ﷺ اسلامی تاریخ کا وہ اہم باب ہے جو نہ صرف دینی ہدایت بلکہ اخلاقی اور معاشرتی اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی اور اُسوہ ٔحسنہ ہرمسلمان کے لیے مشعل راہ ہے اور اُسی کو اپناکر اُمت ایک زمانے تک بساط عالم پر اپنا پرچم لہراتی رہی ہے اور تقریباً ہزار سال اقتدار میں رہنے کے بعدپھر اُمت مسلمہ زوال کا شکار ہوئی تو یہ زوال مختلف شعبوں میں آیا، خصوصاً باب سیرت میں غیر معمولی زوال آیاکہ اُمت مسلمہ جہاں قلبی اور عملی طورپر سیرت سے دور ہوئی تووہیں فہم سیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی، جس کے واضح اثرات گزشتہ دو-تین صدیوںسےبخوبی نمایاں ہیں، ایسا آخر کیوں ہوا ؟اِس مضمون میں اِن شاءاللہ ہم اِنھیں وجوہات پر غور و فکر کریں گےاور سیرت سے دوری کے باعث ممکنہ غلط اثرات پربھی غور کریں گے:
سیرت رسول سے دوری کی وجوہات
۱۔دینی غفلت: جس طرح سے ایک مسلمان اپنی دنیوی زندگی کو لےکر سنجیدہ ہے اپنی اُخروی زندگی کے حوالے سے اتنا ہی غافل ہے،ایک طرف اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پوراکرنے کےلیے گھنٹوں اپنا پسینہ بہاتا ہے تودوسری طرف جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے بچنے کے لیے پنج وقتہ نماز بھی ادا نہیں کر پاتا۔آخر کیوں؟ لہٰذا کچھ دیر کے لیےہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں شریعت ِاسلامیہ یا سیرت طیبہ کا علم نہیں لیکن آج کے برقی آلات اور ذرائع ابلاغ ہی ہمارے اِس قول کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ آج تو علم حاصل کرنا بہت ہی آسان ہوگیا ہے اِس لیے یہ عذر نہ تو دنیا میں سودمند ہے اور نہ ہی آخرت میں اِس کے مقبول ہونے کی گنجائش ہے۔
دراصل ہم اپنی ترجیحات بدل چکے ہیں، آج مذہب ہماری اولین ترجیحات میں شامل نہیں، ہم دنیا کی رنگینیوں اور چکاچوند میں گم ہوکر اِتنے عجلت پسند ہو گئے کہ ہمیں اپنےرب کا وعدہ بھی لمبا لگنے لگا ہے، ہم صرف محسوس دنیا اور جلد ملنے والی نعمتوں پریقین رکھے ہوئے ہیں اوراِس دنیا کی نعمتوں نے ہمیں اِس قدر دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ ہمارا ہرفیصلہ اِسی دنیوی زندگی تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے،کچھ لوگ تو اِتنے جری ہوگئے ہیں کہ اُن کے تصورات، فہم اسلام یا روح اسلام سےیکسرمتصادم نظر آتی ہیں، جیسے یہ کہنا کہ جو ہوگا مرنے کے بعد دیکھا جائےگا۔
۲۔سیرت کی ناقص تفہیم:سیرت کی افہام وتفہیم اورتعلیم وتدوین مختلف علوم و فنون کے ضمن میں ہوئی لیکن باضابطہ سیرت کے عنوان سے اِس پر ایک زمانےتک کام نہیں ہوا اور اُس کے اصول و ضوابط تو اَبھی بھی نامکمل ہیں، سیرت کے عنوان سے جو بھی کام ہوا وہ واقعات اور غزوات تک ہی محدود ہو کر رہ گیا، اُس میں بھی تدقیق و تحقیق کی قلت دامن گیر رہی، اِس لیے سیرت کا علاحدہ جامع محقق فہم لوگوں تک نہیں پہنچ پایا، جب بھی پہنچاتو کسی نہ کسی دوسرےعلم و فن کے ضمن میں اضافی طورپر پہنچااور اِس فن کی جزئیات میں اہل علم وفن نے اتنی غوطہ زنی کی کہ اس سے مختلف مکاتب فکر وجود میں آگئےاور ہرمکتب فکر نے اپنے اپنے موقف کے ثبوت میں سیرت طیبہ سے اِستدلال کا جوطریقہ اپنایا اُس سے خود سیرت طیبہ، تضادات کی زد میںآگئی۔ بس یہیں سے سیرت طیبہ کا عملی وفکری گراف لوگوں کے مابین کمزور ہوتاچلا گیا جسے مزید ہوا اَہل مغرب کے بے جا اِعتراضات نے دی، اور جس کے ردّ عمل میں مسلم سیرت نگاروں نے جو سیرت نگاری کی وہ صرف فکریات و عملیات سے متعلق تھی جس کے نتیجے میں خود مسلمانوں میں دو طرح کے ذہن پیدا ہو گئے:
● ایک مغربیت زدہ سیکولر ذہن
● دوسرا مادیت زدہ مذہبی ذہن
مغربیت زدہ سیکولر ذہن اپنے نظریاتی اور فکری اختلاف کی وجہ سے خود کو روشن خیال تصور کرنے لگا اور مستشرقین کے زہریلے پروپیگنڈے میں آکر نہ صرف عشق رسول بلکہ ایمان اوراسلام کی حقانیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ دوسری طرف مادّیت زدہ لوگوں نے تو خود کو کسی طرح مستشرقین کے شبہات سے بچالیا لیکن عشق رسول اور سیرت کے روحانی پہلو کو فرسودہ اور شخصیت پرستی تصور کرنے لگے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ سیرت سے قلبی اور روحانی لگاؤ ختم سا ہوگیا، صرف خشک عقیدہ و عمل باقی رہ گیا اور خیال رہے کہ جو عمل اور عقیدہ اپنی روحانی حیثیت کھو دے وہ زیادہ دن تک زندہ نہیں رہ پاتا اِس لیے دھیرے دھیرے مسلمانوں سے بقیہ عمل بھی دور ہو گیااور نتیجہ سیرت طیبہ سے لا تعلقی تک جا پہنچا اور یوں ہمارا معاشرہ، سیرت کے حسن وجمال سے خالی ہونے لگا ۔
۳۔رول ماڈل کی کمی:رول ماڈل کی موجودگی نوجوانوں کے لیے ایک سمت فراہم کرتی ہے اورزندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اُن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ایسے رول ماڈل جو سیرت کے اعلیٰ معیار پر پورا اُتریں وہ معاشرتی مسائل کے افہام وتفہیم اور اِنسانی اقدار کے تحفظ میں بخوبی رہنمائی کرتے ہیں۔ اُن کا کردار یقین دلاتا ہے کہ کامیابی کا حقیقی معیار صرف مادّی دنیاہی نہیں بلکہ سیرت رسول میں بھی پوشیدہ ہے۔
آج سیرت پر لمبی لمبی تقریریں کرنے والے تو مل جاتے ہیں لیکن اُسی سیر ت کو اَپنانے والے مشکل سے مل پاتے ہیں، انسانی فطرت ہے کہ وہ مثالی چیزوں کو جلدی قبول کر لیتی ہے، صرف نظریات پر اَپنی عمارت کھڑی کرنا خاص لوگوں کا طریق ہےعام لوگوں کو محسوس نمونہ (ماڈل )چاہیے جسےدیکھ کر وہ اپنی زندگی کا قبلہ شب و روز درست کرتےرہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی نسل انسانی کی اِسی فطری مطالبہ کو پورا کرتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی کامیابی کا راز بھی یہی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی دعوت پر دلیل خود اپنی زندگی کو بنا دیا تھا ــــــ: لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمْرًا مِنْ قَبْلِہٖ۱۶(یونس)یعنی میں دعویٔ نبوت سے پہلے بھی تمہارے بیچ زندگی کا ایک عرصہ گزار چکا ہوں، جو میری صداقت پر دلیل ہے۔
آپ کہیں گے کہ علما اور مشائخ تو سیرت کے رول ماڈل ہیں تو پھر کس کی تلاش ہے ؟ بالکل علما و مشائخ سیرت کے حوالے سے رول ماڈل ہیں، اُنھیں تو یہ حق خود رَسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ہےکہ اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ،مگر اَیسے علما اور مشائخ ہیں کہاں جو اِس منصب کا حق ادا کرتےہیں، آج اُن کے ظاہر و باطن میں خود ہی بڑاتضاد نظرآتاہے۔ان حضرات کی زندگی اور سیرت کےبیچ بعد المشرقین ہے، پھر علما اور مشائخ کےہاں اِس قدر جزوی اختلاف ہیں اور اُن اختلافات پر اِس قدر شدت کے ساتھ عمل ہےکہ اُمت کے بیشتر افراد اُن کے اُنھیں جزوی اختلافات کی نذر ہوچکے ہیں۔ عام لوگ جب سیرت طیبہ پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو علما اور مشائخ کے پاس جاتے ہیں اور یہ حضرات اُنھیں اپنے معمولات کے اِس قدر پابند بنادیتےہیں کہ عوام،سیرت طیبہ کی اصل روح سے ہی محروم ہوجاتی ہے، کیوں کہ ہر شخص فقط اپنے مشائخ کے معمولات کو فروغ دینے کی کوشش کرنے میں لگارہتاہے تاکہ اُن کے ماننے والوں کی تعدادبڑھ جائے اور معاشرے میں وہ معزز کہلائیں۔
۴۔ نظام تعلیم کی کمزوری: موجودہ تعلیمی نظام میں سیرت کو درست طریقے سے شامل نہیں کیا جاتا۔ نصاب میں سیرت کو اَہمیت نہ دینا، یا اُسے سطحی انداز میں پیش کرنا ایک بڑی وجہ ہے کہ نوجوان نسل، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوپاتی۔
۵۔مغربی ثقافتوں کا اثر: مغربی ثقافت اور میڈیا کے غلبے نے مسلمانوں کے معاشرتی اور ذہنی دھارے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ یہ اثرات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و سیرت سے دوری کی بڑی وجہیں ہیں،زیادہ تر اَفراد مغربی تہذیب وثقافت کو ترجیح دیتے ہیں،ایسے میں لازم ہے کہ علما روایتی طرزِ بیان کو ترک کرتےہوئے سیرت کی عصری معنویت واہمیت کو جدید طرز پرنمایاں کریں تاکہ مغربی تہذیب وثقافت کے بالمقابل سیرت رسول کا پہلو بہرحال پُرکشش معلوم ہو۔
۶۔ مادّی فوائدکی خواہش: مادّی فوائد اور دُنیوی کامیابی کی خواہش نے بھی بہت سے لوگوں کو رُوحانیت اور سیرت سے دور کررکھا ہے۔ افراد اکثر اپنی روزمرہ زندگی کے مسائل میں اِتنے مگن اورمشغول ہوتے ہیں کہ وہ روحانی و اخلاقی پہلوؤں کی جانب بہت کم توجہ دے پاتے ہیں۔
۷ ۔ دین کی بنیادی فہم کا فقدان: بہت سے لوگ دین کی بنیادی تعلیمات اور سیرت کے حوالے سے کم علمی کے شکار ہیں۔ اِس علمی فقدان کی وجہ سے اُن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی اہمیت کا صحیح ادراک بمشکل ہوپاتا ہے۔
۸۔ آپسی اختلافات: مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان اختلافات اور فرقہ واریت نے بھی سیرت کی بنیادی تعلیمات کو نظراَنداز کرنے میںاہم کردار نبھایاہے۔ اِس کے نتیجے میں عام انسان ایک متحدہ اور جامع اسلامی تعلیمات سے دورونفور ہوتا چلاجاتا ہے۔
سیرت رسول سے دوری کےمنفی نتائج
۱۔ روحانیت کی کمی: سیرت سے دوری کے باعث افراد کی روحانیت متأثر ہوتی ہے اور چوں کہ سیرت سے دوری کے سبب اخلاقی وروحانی تربیت نہیں ہوپاتی۔ یہ چیز سیرت سے دوری کا سب بڑا خسارہ ہے۔
۲۔ معاشرتی مسائل میں اضافہ:سیرت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ عدل، رحم دلی اور برابری جیسے اصول جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعارف کرائےتھے،اُن پر عمل نہ کرنے کی صورت میں معاشرتی بےچینی اور مسائل بڑھتے ہیں۔
۳۔ اخلاقی بحران: سیرت سے دوری اخلاقی بحران کو بھی جنم دیتی ہے۔چوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اخلاقی نمونہ فراہم کرتی ہےاِس لیے اُس سے دوری اخلاقی وروحانی پستی کا سبب بنتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ سیرت، مسلمانوں کی زندگی کا بنیادی حصہ ہے اور اُس سے دوری معاشرتی، اخلاقی اور روحانی مسائل پیداکرتی ہے۔ تعلیمی نظام کی بہتری، غلط ثقافتی اثرات سے تحفظ اور دین کی بنیادی تعلیمات کے ذریعے ہی اِس دوری کو کم کیا جا سکتاہے۔ چناںچہ سیرت کو اپنی زندگی میں شامل کرکے ہم نہ صرف اپنی روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مستحکم کرسکتے ہیںبلکہ ایک مضبوط اور متحرک و فعال معاشرہ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔بقول علامہ اقبال لاہوری:
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰ است
عظت ِمصطفیٰ مسلمانوں کے دلوں میں پیوست ہےاور ہماری عزت وآبرو مصطفیٰ کے نام سےہی قائم ودائم ہے۔
Leave your comment