Donate Now
نماز میں کپڑا موڑنے اور لٹکانے کا حکم

نماز میں کپڑا موڑنے اور لٹکانے کا حکم

خلاصہ :

اسبال: ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کپڑے کوخواہ تہبند ہو یا پائجامہ یا پینٹ یا اور دوسرے کپڑے اگر تکبر کی نیت سے ٹخنے سے نیچے کیاتو نماز کی حالت میں ہو یا غیر نماز کی حالت میں، ہر صورت میں مکروہ تحریمی ہے ۔اور اگر تکبر کی نیت سے نہ ہو، تو اس حدیث کی وجہ سے جو اس سلسلے میں وارد ہے ،مکروہ تنزیہی ہے۔

سدل :یعنی بغیر باندھےکپڑے کو سر یا کاندھے پر ڈال کر دونوں کنارے کو نیچے کی طرف لٹکادینا، یہ علماےاحناف کے نزدیک ستر کھلنے کی وجہ سے یا اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سےمکروہ بتایا گیا ہے ۔

مگرآج کے دور میں ستر کھلنے کی کوئی صورت نہیں رہی کیوں کہ لوگ چادر کے نیچے عام طور سے کپڑے پہنتے ہیں۔ رہ گئی مشابہت، تو آج یہ بھی نہیں ہےکیوں کہ اس طرح چادر اوڑھنا اہل کتاب کا خاصہ نہیں رہا۔لہذا ،مکروہ کی جو وجہ تھی وہ اب موجود نہیں رہی ،تو اب مکروہ بھی نہیں ہوناچاہیے ۔

تشمیر: یعنی کپڑے فولڈ کرنا۔نماز کے اندر کپڑے کو فولڈ کرنا یہ مکروہ تحریمی ہے ،لیکن بوقت نماز پائینچے کو اوپر چڑھا لیناتاکہ نماز کے وقت کم ازکم گناہ سے بچے اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے جو اس سلسلے میں وارد ہے ،اوراس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے، تو یہ فعل مستحسن ہوگا مکروہ نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بوقت نماز پائنچے کو اوپر چڑھاکر نماز پڑھنے کو مکروہِ تحریمی کہنا نہ تو نقلاً صحیح اور نہ عقلاً۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ آستین آدھی کلائی سے زیادہ سمیٹ کر نماز پڑھنا یہ وضع کے خلاف ہے کیوں کہ فل آستین سمیٹنے کے لیے نہیں بنایا جاتا ۔ چوں کہ آستین موڑنا یہ عرف اور وضع دونوں کے خلاف ہے اس وجہ سے یہ آدابِ نماز کے بھی خلاف ہے۔ اور اگر پہلے ہی سے آستین ہاف ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ یہ عرف اور وضع کے خلاف نہیں ہے ۔

بٹن کھول کر نماز پڑھنے کا حکم ۔کپڑے پہننے کے سلسلے میں دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔

پہلی بات یہ کہ کپڑے عرف وعادت کے خلاف نہ ہوں، اگر عرف بٹن بند کرنے کا ہوجیسے قمیص میں ،تو بٹن بند کرکے نماز ادا کریں ، اور اگر عرف بٹن بند رکھنے اور کھولنے دونوں طرح کا ہو جیسے صدری وغیرہ میں، تو دونوں صورت میں، خواہ بٹن بند ہو یا کھلا ہو، بنا کسی حرج کے نماز ہو جائےگی۔

دوسری بات وضع یعنی بناوٹ کے خلاف نہ ہو جیسے کپڑے کو الٹا کرکے پہناد، یہ کپڑے کے وضع کے خلاف ہے اور یہ مکروہ ہے ۔

تفصیلی فتویٰ:


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب ۔بندہ مومن کے لیے اصل یہ ہے کہ وہ ہروقت تواضع وانکساری کے ساتھ رہے، خاص طور پر جب وہ اپنے معبود حقیقی کے سامنے کھڑا ہوتو اور زیادہ تواضع وانکساری اختیار کرے ،کیوں کہ یہی صفت اللہ تعالی کو پسند ہے ،غرور وگھمنڈ اور تکبر اسے ناپسند ہے ،اسی لیے اسلام غرور و تکبر اور اس کی علامات سے منع کرتا ہے اور آدمی میں تواضع و انکساری پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :من تواضع لله رفعه الله فهو فی نفسه صغير و فی اعين الناس عظيم و من تکبر وضعه الله فهو فی اعين الناس صغير و فی نفسه کبير حتی فهو اهون عليهم من کلب او خنزير. (بقیا ) جو اللہ کے لیےجھکتا ہے اللہ اس کو بلند کردیتا ہے۔ وہ اپنے خیال میں چھوٹا اور لوگوں کی نظر میں بڑا ہوتا ہے ،اور جو غرور کرتا ہےاللہ اسے نیچا کر دیتا ہے۔ وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا اور اپنےخیال میں بڑاہوتاہےیہاں تک کہ یہ لوگوں کی نگاہ میں کتے اور خنزیر سے بھی ذلیل ہوتا ہے۔

کپڑے کےلٹکانے یا موڑنے کے لیے عام طورسے تین طرح کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں : اسبال ،سدل اور تشمیر ۔

اسبال : کپڑے ٹخنے سے نیچے لٹکانا خواہ ازار ہو کہ پائجامہ

سدل : کپڑے کو بغیر باندھے یا سلے سر یا مونڈے پر ڈال کر یوں ہی چھوڑدینا یعنی دونوں طرف لٹکانا ۔

کبھی کبھی فقہا اسبال کے ہم معنی یعنی ٹخنے سے نیچے لٹکانے پر بھی سدل کا استعمال کرتے ہیں۔

تشمیر:کپڑا موڑنے کو کہتے ہیں۔

اسبال یا سدل یعنی ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کے تعلق سے احادیث و مذاہب ائمہ

نبی آخر الزماں ﷺکے زمانے میں عام طور سے آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک ہی کپڑا پہنا جاتا تھا اور ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانےکوتکبرکی ایک علامت قرار دی جاتی تھی، اسی لیے حدیث میں اس طرح کپڑا پہننے پر بہت شدید وعید آئی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :

ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ( صحیح مسلم:106)

تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نظرفرمائے گا اورنہ انہیں ستھرا کرے گا، ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔۱ ۔کپڑا لٹکانے والا ۔۲۔ احسان جتلانے والا ۔۳۔جھوٹی قسم کے ذریعے اپنا سامان فروخت کرنے والا ۔

حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إِنّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لا يَنْظُرُ إِلَى مُسْبِلِ الْإِزَارِ (سنن نسائی، كتاب الزينۃ ، باب اسبال الازار، ح: 5332) اللہ تعالی ازار لٹکانے والے کی طرف نظر نہیں فرماتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار (صحیح بخاری،ح: 5787) ٹخنے سے نیچے لٹکی ہوئی ازارآگ میں ہے ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إياك وإسبال الإزار فإنهـا من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة (سنن ترمذی:2722) ازار لٹکانے سے بچو کیوں کہ یہ تکبر میں سے ہے اور بے شک اللہ تعالی تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا ۔

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ لا جُنَاحَ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ ، وَمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ هُوَ فِي النَّارِ يَقُولُهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ح:۲۴۸۲۱) مومن کی ازار آدھی پنڈلی تک ہے ، پنڈلی اور ٹخنے کے درمیان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ، لیکن جو ٹخنے کے نیچے ہو وہ آگ میں ہے، یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا ۔

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اس حال میں گزراکہ میری ازار لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا :اے عبد اللہ ! اپنی ازار اوپر کرلو ،تو میں نے اوپر کر لیا ، پھر آپ نے فرمایا : اور زیادہ کرو ، تو میں نے تھوڑا اور اوپر کر لیا ۔ اب میں برابر وہاں تک اٹھاتا ہوں ۔ کسی نے کہا: کہاں تک؟ تو آپ نے فرمایا : دونوں پنڈلیوں کے نصف تک ۔ (رواه مسلم،ح: 2086)

اس سلسلے میں ائمہ مذاہب کا اختلاف ہے ۔

مذہب شافعیہ ۔امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ سدل اگر تکبر کی نیت سے ہو تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر تکبر کی نیت نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے ۔

امام نووی شافعی شارح مسلم لکھتے ہیں : قال الإمام الشافعي رحمه الله لا يجوز السدل في الصلاة ولا في غيرها للخيلاء ، فأما السدل لغير الخيلاء في الصلاة فهو خفيف ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر رضى الله عنه وقال له : إن إزاري يسقط من أحد شقي . فقال له لست منهم (مجموع شرح مهذب ۳/ ۱۷۷)

حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ دَلِيلٌ عَلَى خِفَّةِ الْأَمْرِ فِيهِ إذَا كَانَ لِغَيْرِ الْخُيَلَاءِ قَالَ الْخَطَّابِيُّ رَخَّصَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ فِي السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عَطَاءٍ وَمَكْحُولٍ وَالزُّهْرِيِّ وَالْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ وَمَالِكٍ ۔(مجموع شرح مهذب ۳/ ۱۷۷)

حضرت ابوبکر کی حدیث دلیل ہے کہ کپڑے لٹکانے کے حکم میں چھوٹ ہے ،جبکہ تکبر کے لیے نہ ہو۔علامہ خطابی نے کہا کہ بعض علما نے نماز کے اندر کپڑے لٹکانے کی رخصت دی ہے جیسے عطاء ،مکحول ،امام زہری ،حسن بصری ،ابن سیرین ،امام مالک رحمہم اللہ ۔

مذہب مالکیہ ۔اصحاب مالکیہ سے اس سلسلے میں متعدداقوال وارد ہیں۔بعض نے حرام ہونے کا قول کیا اور بعض نے کراہت کا قول کیا ہے ، مگر ظاہر یہ ہے کہ کراہت شدید ہے ۔ الْحَاصِلُ أَنَّ النُّصُوصَ مُتَعَارِضَةٌ فِيمَا إذَا نَزَلَ عَنْ الْكَعْبَيْنِ بِدُونِ قَصْدِ الْكِبْرِ فَمُفَادُ الْحَطَّابِ من علماء المالكية - أَنَّهُ لَا حُرْمَةَ بَلْ يُكْرَهُ ، ومُفَادُ الذَّخِيرَةِ كتاب للإمام القرافي الْحُرْمَةُ .وَالظَّاهِرُ أَنَّ الَّذِي يَتَعَيَّنُ الْمَصِيرُ إلَيْهِ الْكَرَاهَةُ الشَّدِيدَةُ ۔حاصل یہ ہے کہ تکبر کی نیت کے بغیر کپڑے لٹکانے کے سلسلے میں اصحاب مالکیہ کے اقوال متردد ہیں۔علمائے مالکیہ میں سے علامہ حطّاب کے قول کا مفاد یہ ہے کہ حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے ،اور امام قرافی کی کتاب ذخیرہ کا مفاد یہ ہے کہ وہ حرام ہے ،مگر سب کاظاہر کراہت شدید ہے ۔

اسی میں ہے ۔ لا يجوز لرجل أن يجاوز بثوبه كعبه ويقول : لا أتكبر فيه ؛ لأن النهي تناوله لفظاً ، وتناول علته ، فإنه مخالفة للشريعة ، ودعوى لا تسلم له ، بل مِن تكبره يطيل ثوبه وإزاره فكذبه معلوم في ذلك قطعًا ملخصا۔(تمهيد۳/۲۴۴)کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کپڑے کو ٹخنے سےنیچے لٹکائے اورکہے کہ میں تکبر نہیں کرتا ،کیوں کہ منع اس کو لفظا شامل ہے اور اس کی علت بھی موجود ہےاس لیے کہ یہ شریعت کے مخالف ہے، لہذا اس کا دعوی تسلیم نہیں ،بلکہ اس کا اپنےکپڑے اور ازارکا لٹکانا تکبر کی وجہ سے ہے تو اس میں اس کا جھوٹا ہونا قطعا معلوم ۔

مذہب حنابلہ۔حنابلہ کا مذہب بھی اس سلسلے میں کراہت کا ہے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ قمیص ،ازار ،اور پائجامہ کو لٹکانا مکروہ ہے اور اگر تکبر کی نیت سے ہو تو حرام ہے ۔ وأما الحنابلة فقد نصوا على عدم التحريم( الإقناع 1/139)۔ ويكره أن يكون ثوب الرجل تحت كعبه بلا حاجة۔ ويكره إسبال القميص والإزار والسراويل ؛ فإن فعل ذلك على وجه الخيلاء حَرُم (المغني2/298)

مذہب حنفیہ۔احناف کا مذہب اس سلسلے میں یہ ہے کہ تکبر کے لیے ہو تو مکروہ تحریمی ہے، ورنہ تنزیہی۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے: وَإِسْبَالُ الْإِزَارِ وَالْقَمِيصِ بِدْعَةٌ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْإِزَارُ فَوْقَ الْكَعْبَيْنِ إلَى نِصْفِ السَّاقِ وَهَذَا في حَقِّ الرِّجَالِ وَأَمَّا النِّسَاءُ فَيُرْخِينَ إزَارَهُنَّ أَسْفَلَ من إزَارِ الرِّجَالِ لِيَسْتُرَ ظَهْرَ قَدَمِهِنَّ إسْبَالُ الرَّجُلِ إزَارَهُ أَسْفَلَ من الْكَعْبَيْنِ إنْ لم يَكُنْ لِلْخُيَلَاءِ فَفِيهِ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ كَذَا في الْغَرَائِبِ (الفتاوى الهنديۃ، 5/ 333)

سدل یعنی کندھے یا موڈھے سے کپڑا لٹکانے کے تعلق سے احادیث و مذاہب ائمہ

عن أبي هريرة رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ.

(سنن ابو داود ،باب السَّدْل فی الصلاة، ح:643)

 

السَّدْلُ يُكْرَهُ سَوَاءٌ كَانَ عَلَيْهِ قَمِيصٌ أَوْ لَمْ يَكُنْ وَرَوَى الْمُعَلَّى عَنْ أَبِي يُوسُفَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يُكْرَهُ السَّدْلُ عَلَى الْقَمِيصِ وَعَلَى الْإِزَارِ وَقَالَ: لِأَنَّهُ صُنْعُ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَإِنْ كَانَ السَّدْلُ بِدُونِ السَّرَاوِيلِ فَكَرَاهَتُهُ لِاحْتِمَالِ كَشْفِ الْعَوْرَةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَإِنْ كَانَ مَعَ الْإِزَارِ فَكَرَاهَتُهُ لِأَجْلِ التَّشَبُّهِ بِأَهْلِ الْكِتَابِ ( بدائع صنائع فی ترتيب الشرائع 1/ 219) (درمختار وحاشيہ رد محتار۱/۶۳۹)

سدل مکروہ ہے چاہے اس کے اوپر قمیص ہو یا نہ ہو ،اور معلی امام ابو یوسف کے واسطے امام اعظم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک سدل مکروہ ہے قمیص پر اور ازار پر، اور فرمایا کہ یہ اس لیے کہ یہ اہل کتاب کا عمل ہے ۔پس اگر بغیر سروال کے ہو تواس کا مکروہ ہونا رکوع اور سجود میں ستر عورت کے کھلنے کے احتمال کے سبب ہے ،اور اگر ازار کے ساتھ ہو توکراہت اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے ہے۔

مگرآج کے دور میں ستر کھلنے کی کوئی صورت نہیں کیوں کہ لوگ چادر کے نیچے عام طور سے کپڑے پہنتے ہیں، رہ گئی مشابہت تو آج یہ بھی نہیں کیوں کہ اس طرح چادر اوڑھنا اہل کتاب کا خاصہ نہیں ، لہذا مکروہ کی جو وجہ فقہا نے بیان کی تھی وہ اب موجود نہیں ،لہذا چادر وغیرہ کا کسی بھی طرح اوڑھنا مکروہ نہیں ہے ۔البتہ سدل کے مکروہ ہونے کی ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چادر یا کوئی کپڑا اس طرح بدن پر رکھے کہ وہ رکوع یا سجود کی حالت میں بار بار گر جاتا ہوجس کے سمیٹنے کی وجہ سے عمل کثیر ہوجائے تو مکروہ ہے، یا کم از کم اس کی وجہ سے خشوع و خضوع جاتا رہتا ہو تو کراہیت تنزیہی ہے ۔ ورنہ عام طور سے نماز میں چادر ، مفلر وغیرہ کے لٹکے رہنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

تشمیر یعنی کپڑاسمٹنے یا موڑنے ،فولڈ کرنےکے تعلق سے احادیث و مذاہب ائمہ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ، لاَ أَكُفُّ شَعَرًا وَلاَ ثَوْبًا [صحیح مسلم: 490]

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاپر سجدہ کروں ، بال اور کپڑے کو نہ موڑوں۔

علامہ بدر الدین عینی اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

اتّفق الْعلمَاء على النَّهْي عَن الصَّلَاة وثوبه مشمر أَو كمه ... وَهُوَ كَرَاهَة تَنْزِيه فَلَو صلى كَذَلِك فقد أَسَاءَ وَصحت صلَاته وَاحْتج الطَّبَرِيّ فِي ذَلِك بِالْإِجْمَاع وَقَالَ ابْن التِّين هَذَا مَبْنِيّ على الِاسْتِحْبَاب فَأَما إِذا فعله فَحَضَرت الصَّلَاة فَلَا بَأْس أَن يُصَلِّي كَذَلِك (عمدة القاری شرح صحيح البخاری،6/ 91)

تمام علما کا اتفاق ہے کہ کپڑا یا آستین موڑ کر نماز ادا کرنا مکروہ تنزیہی ہے، اور موڑ کر پڑھ لیا تو غلط کیا ، مگر اس کی نماز درست ہوگی۔ طبری نے اس پر اجماع سے استدلال کیا ہے،ابن تین نے کہا کہ کپڑا نہ موڑنا مستحب ہے، لیکن اگر کوئی شخص کپڑا پہلے سے موڑے ہوئے تھا اور نماز کا وقت ہوگیا تو اسی طرح نماز ادا کر لینے نے میں کوئی حرج نہیں۔

اس سے واضح ہوا کہ یہ امر یعنی کپڑا کا موڑنا تواضع و انکساری کے خلاف ہے۔اس لیے اگرکسی نے غلطی سے موڑ ہی لیا تو نماز میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر کسی کام کی وجہ سے پہلے ہی سے موڑے ہوئے تھا ، یا اس کا کپڑا ہی ہاف آستین کا تھا تو یہ کسی بھی طرح مکروہ نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ آداب بندگی کے خلاف ہے۔اور اگر اس امر سے تواضع مقصود ہو جیسے کوئی شخص اہنے لمبے پہنٹ یا پاجامہ کو نماز کے لیے فولڈ کرے تو یہ امر مستحسن ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں:

التشمير فِي الصَّلَاة مُبَاح وَعند المهنة وَالْحَاجة إِلَيْهِ، وَهُوَ من التَّوَاضُع، وَنفي التكبر وَالْخُيَلَاء. (عمدة القاری، 21 / 296)

پاجامہ کو نماز میں یا کسی کام یا ضرورت کے وقت سمیٹنا مباح ہے کیوں کہ یہ تواضع ہے اور عجب وتکبر سے بچنا ہے۔( یہ مسئلہ ماہنامہ خضرراہ، جولائی اور اکتوبر 2020 میں بھی آپ پڑھ سکتے ہیں۔)

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

۲۸/ربیع الاول ۱۴۴۱ ھ

۲۶ نومبر ۲۰۱۹ ٍء

Ad Image