Donate Now
نماز کے مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہونے کا حکم

نماز کے مکروہ تحریمی اور واجب الاعادہ ہونے کا حکم

سوال:علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کیا فرماتے ہیں ؟
در مختار کی عبارت: 
كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا(در مختار: ۱/ ۴۵۷)کا درست مصداق کیا ہے؟
کیا ہر طرح کی مکروہات سے نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے؟ واجباتِ صلات کے ترک سے، کثرت عمل سےیا خارجی اسباب کی وجہ سےجونماز میں کراہت آتی ہے ان کے حکم میں کوئی فرق ہے یا سب کی وجہ سے یکساں طور سے نماز کا اعادہ واجب ہے؟
تفصیل کے ساتھ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ 
مستفتی:امان اللہ محمدی مصباحی ، لکھنؤ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب:

خلاصہ فتویٰ:

در مختار کی عبارت "كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا "کا درست مصداق واطلاق واجبات اصلیہ کا ترک ہے یعنی ضابطۂ مذکورہ میں کراہتِ تحریم عام نہیں، بلکہ خاص ہے، اور مراد یہ ہے کہ نماز  کے واجبات  میں سے  کسی  واجب  کے ترک سے کراہتِ تحریم پیدا ہوئی ہو تو اعادہ واجب ہے، اور اگر کراہتِ تحریم کا سبب کوئی خارجی عمل ہو تو اعادہ واجب نہیں۔

جیسے چار رکعت والی نماز میں دو رکعت کے بعد تشہد   چھوٹ جائے اور  نماز مکمل ہونے سے پہلے یاد آجائے تو سجدہ سہو واجب ہے ورنہ نماز واجب  الاعادہ ہے۔ لیکن اگر سورت کی ترتیب پلٹ دی تو یہ عمل مکروہ تو ہے لیکن  اس کی وجہ سے نماز میں نہ سجدہ سہو واجب ہے اور نہ بعد میں نماز کااعادہ؛ کیوں کہ قرآن کو تربیب کے ساتھ پڑھنا واجباتِ تلاوت سے ہے نہ کہ واجباتِ نماز سے۔اسی طرح  ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا، کپڑا موڑنا یا بٹن بند کرنا زیادہ سے زیادہ آدابِ نماز سے ہے، ان اسباب کی وجہ سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نہ ان کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہے نہ نماز کااعادہ۔

نماز میں اصلاح یا عذر کے سبب جو کام کیے جائیں اگرچہ بظاہر عملِ کثیر سے وہ معلوم ہوتے ہوں لیکن اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔البتہ بلاضرورت یابلا عذر ایسا عمل کرنا کہ دیکھنے والا محسوس کرے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے  تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔اس کا اعادہ وقت رہتے ہوئے اور وقت گزرجانے کے بعد بھی ضروری ہے۔

تفصیلی جواب:

 نماز کی اصل" ان تعبداللہ کانک تراہ"ہے، اپنے رب کی عبادت اس طرح کرو گویاکہ تم اللہ کودیکھ رہےہو۔نماز کی حالت میں بندہ مؤمن کے لیے لازم ہے کہ خشوع وخضوع کواکمل طریقےپر اختیار کرےاور اس طرح عبادت میں مشغول ہوکہ ہر آن بارگاہ رب العزت میں حاضر رہنےکا تصور رہے، اوراسی کے ذکروفکرمیں ہمہ تن مشغول و مصروف ہو جائے یہی مقصودعبادت اور روحِ عبادت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اِنَّنِىٓ اَنَا اللّهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا،فَاعْبُدْنِىْۙ ، وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِـذِكْرِىْ۔ ( طہ: ۱۴)میں ہی اللہ ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود نہیں،تومیری ہی عبادت کرو اورمیرے ذکراور یاد کے لیےنماز قائم کرو۔

سنن ابو داؤد میں ہے: 

عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيزٌ كَأزِيزِ الرَّحَى مِنَ الْبُكَاءِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (سنن ابوداؤد:۱/ ۲۳۸)

حضرت مطرّف اپنے والد حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کونماز اداکرتے ہوئے دیکھا،( آپ کی حالت یہ تھی کہ)آپ کے سینے سے چَکّی کی مانند رونے کی آواز آتی تھی۔ 

جب بندۂ مومن نماز کے فرائض و واجبات اور سنن و آداب کا لحاظ کرتاہےتو اس کےاندر خشوع و خضوع کی کیفیت پیداہو تی ہے۔اور اگر کبھی کسی وجہ سے مکمل اہتمام نہ ہوسکے ، تو کم از کم واجبات نماز کی رعایت ضرور باقی رہنی چاہیے کہ ان کی رعایت کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی ، بلکہ فاسد اور واجب الاعادہ ہو جاتی ہے۔

 نماز میں فرائض و واجبات بھی ہیں اور سنن و آداب بھی ہیں۔سب کےاحکام جداگانہ ہیں۔ 

1۔نماز کے فرائض میں سےکسی ایک بھی فرض کاترک عمداً ہو یا سہواًدونوں صورتوں میں نمازفاسدہو جاتی ہے جس کا دوبارہ اداکرنا ضروری ہوتاہے،ورنہ وہ نمازذمہ میں باقی رہتی ہے۔

2۔نماز کےواجبات میں سے کسی بھی ایک واجب کاترک عمداً ہو تو نمازفاسدہو جاتی ہے جس کا دوبارہ اداکرنا ضروری ہوتاہے،ورنہ وہ نمازذمہ میں باقی رہتی ہے۔

3۔ نماز کےواجبات میں سے ایک یا ایک سےزائدواجب کاترک سہواً ہو تو نمازفاسدنہیں ہوتی ہے،بلکہ مصلی پر سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے، ایک سجدہ سہو سب کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ اور تکمیلِ نماز تک سجدہ سہو نہ کرسکاتو وقت رہتے ہوئے نماز کا اعادہ واجب ہے، وقت کے بعد مستحب ہے۔

4۔ نمازمیں سنن و آداب کی رعایت کرنی چاہیئے، لیکن سنن وآداب میں سےکسی کےترک سے خواہ عمداً ہو کہ سہواً، نماز فاسد نہیں ہوتی ہےنہ ہی سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، عند الشرع نمازدرست ہوجاتی ہے ۔

کراہت کی دوقسمیں ہیں۔ کراہت تحریم اورکراہت تنزیہ 

کراہت تحریم کا ثبوت اسی دلیل سے ہوتاہےجس سےواجب کا ثبوت ہوتاہےیعنی ظنی الثبوت، قطعی الدلالۃسے اسی طرح نماز کےداخلی واجبات میں سے کسی بھی  واجب کا ترک کراہتِ تحریم کاسبب ہوتا ہے ۔

صدر الشریعہ عبید الله بن مسعود بن تاج الشريعہ (747ھ)اپنی کتاب التوضیح علی التنقیح میں لکھتے ہیں : 

(اَلْمَكْرُوهُ نَوْعَانِ: مَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَنْزِيهٍ , وَهُوَ إلَى الْحِلِّ أَقْرَبُ وَمَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ , وَهُوَ إلَى الْحُرْمَةِ أَقْرَبُ , وَعِنْدَ مُحَمَّدٍ لَا بَلْ هَذَا) الْإِشَارَةُ تَرْجِعُ إلَى الْمَكْرُوهِ كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ (حَرَامٌ لَكِنْ بِغَيْرِ الْقَطْعِيِّ كَالْوَاجِبِ مَعَ الْفَرْضِ) ( التوضيح على التنقيح:2/ 117)

مکروہ کی دو قسمیں ہیں ۔ اول: مکروہ تنزیہی، یہ حلال ہونے سے زیادہ قریب ہے۔ دوم: مکروہ تحریمی ، یہ حرام ہونے سے زیادہ قریب ہے۔ اور امام محمد کے نزدیک یہ مکروہ تحریمی حرام کے قریب نہیں ، بل کہ حرام ہے،لیکن ( حرمت کے)قطعی الثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے  ہی ہے جیسے فرض کے ساتھ واجب ۔ 

قدرے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہی باتامام زين الدين ابن نجیم حنفی ( 970ھ)نےبحر الرائق (2/ 20)میں ،امام حسن بن عمار بن علی شرنبلالی حنفی (1069ھ) نے مراقی الفلاح (ص: 154) میں ، امام احمد بن محمد بن اسماعيل طحطاوی حنفی( 1231ھ)نےاس کے حاشیہ (ص: 52)پر اور علامہ ابن عابدین شامی ( 1252ھ) نےرد المحتار ( 358:1) میں  کہی ہے۔ 

مکروہ تنزیہی کا ترک صرف خلاف اولیٰ ہےنہ کہ ناجائز و حرام اور اس کا ترک نماز کو واجب الاعادہ بھی نہیں بناتا، نماز صرف مکروہ تحریمی کے ترک سےواجب الاعادہ ہوتی ہے۔

کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی نماز کا حکم 

فقیہ محمد بن علی بن محمد علاء الدین حصکفی حنفی ( ۱۰۸۸ھ) در مختار میں لکھتے ہیں: كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُهَا۔ (در مختار: ۱/ ۴۵۷) ہر وہ نماز جو کراہت ِتحریم کے ساتھ ادا کی جائے ، اس کا اعادہ واجب ہے۔ 

واجب کے ترک سےنماز مکروہ تحریمی ہو جاتی ہے

ترک واجب ہی کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں ، لہٰذا لفظ خواہ ترک واجب ہو یا مکروہ تحریمی ، دونوں ہم معنی ہے۔

کراہت ِتحریم کے درست مصداق و اطلاق کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ محمد امین ابن عابدین شامی حنفی(1252ھ)لکھتے ہیں: 

تُعَادُ بِتَرْكِهِ مَا كَانَ مِنْ مَاهِيَّةِ الصَّلَاةِ وَأَجْزَائِهَا. (ردالمحتار:۱/ ۴۵۷) 

اس واجب کے ترک سے نمازکا اعادہ ضروری ہے جس واجب کا تعلق ماہیت نماز و ارکان ِنماز سے ہے۔ 

فقیہ زين الدين بن ابراہیم بن محمد،معروف بہ ابن نجیم مصری (970ھ) لکھتے ہیں :

سببه ترك واجب من واجبات الصلاة الأصلية سهوا وهو المراد بقوله "بترك واجب" لا كل واجب بدليل ما سنذكره من أنه لو ترك ترتيب السور لايلزمه شيء مع كونه واجبا. (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ، 2 / 165 ، دار الکتب الکتب العلمیہ، بیروت)

سجدۂ سہو کا سبب نماز کے واجباتِ اصلیہ میں سے کسی واجب کا سہواً ترک ہے،سجدۂ سہو کے اسباب کے بیان میں ”ترکِ واجب“سے یہی مراد ہے، ہرواجب کا ترک مراد نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہےکہ سورتوں کے درمیان ترتیب واجب ہے ،تاہم اس کے ترک پر کچھ لازم نہیں۔ 

علامہ بدر الدين عینی حنفی(855ھ)بنایہ میں لکھتے ہیں: 

(وهذا الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة) : ليكون الأداء على وفق الوجوب، فإن ترك واجبا من واجبات الصلاة يجب أن تعاد۔ (بنايہ شرح ہدايہ:2/ 460)

سجدہ سہو یا اعادہ کایہ حکم کراہت کے ساتھ ادا کی جانے والی ہر نماز کا ہے تاکہ نماز کی ادائیگی واجبات کے ساتھ ہوجائے ، اس لیے کہ اگر واجباتِ نماز میں سے کسی واجب کو ترک کیا تو اعادہ واجب ہوگا۔ 

ان تمام تفصیلات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسی واجب کے ترک سےنماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے، جو واجب ماہیت صلاۃ اور واجبات نماز سےہے؛  جیسے  تعدیل ارکان واجب ہے اس کے ترک سے سجدہ سہو واجب ہوگا ورنہ اعادہ جیسا کہ اس حوالےسےامام بخاری کےعلاوہ و دیگر محدثین نے بھی اس حدیث کو نقل فرمایا ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَدَّ وَقَالَ : ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ، فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي ، فَقَالَ : إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا. (صحیح بخاری :رقم:757)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اس کے بعد ایک اور شخص آیا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جاؤ اور پھر نماز پڑھو، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص واپس گیا اور پہلے کی طرح نماز پڑھی اور پھر آ کر سلام کیا۔ لیکن آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ واپس جا ؤاور دوبارہ نماز ادا کرو، کیونکہ تو نے نماز نہیں ادا کی۔ آپ نے اس طرح تین مرتبہ کیا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس کے علاوہ اور کوئی اچھا طریقہ نہیں جانتا، اس لیے آپ مجھے نماز سکھادیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے تکبیر تحریمہ کہو۔ پھر آسانی کے ساتھ جتنا قرآن تجھ کو یاد ہو اس کی تلاوت کرو۔ اس کے بعد رکوع کرو، اچھی طرح سے رکوع ہوجائے  تو پھر سر اٹھا کر پوری طرح  سے کھڑے  ہو جاؤ۔ اس کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو ۔ پھر سر اٹھاؤ اور اچھی طرح بیٹھ جاؤ۔ اسی طرح اپنی تمام نماز پوری کرو۔

اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے تعدیل ارکان جو نماز کے واجبات اصلیہ سے ہے اس کے ترک پر تین مرتبہ نماز کے اعادہ کا حکم ارشاد فرمایا ۔

اب ذیل میں بطورِ توضیح و تمثیل چند ایسے مسائل کا ذکر کیا جارہا ہےجن کو کرنا تو واجب ہے لیکن ان کے ترک سے نماز میں نہ سجدہ سہو واجب ہے نہ اعادہ؛ کیوں کہ ان مسائل کا تعلق  نماز کے واجباتِ اصلیہ سے نہیں ہے۔

 قرأت معکوس / الٹا قرآن پڑھنا 

 علامہ شامی نے اس معاملہ میں قرات ِ منکوس/ معکوس کی مثال دی ہے کہ اگر کسی نمازی نے دورانِ نمازترتیب کے خلاف قرأت کیا ، یعنی بعد والی سورہ کو پہلے اور پہلے والی کو بعد میں پڑھ دیا، تو یہ ترک واجب ہے،کیوں کہ قرأت میں ترتیبِ سورہ واجب ہے، لیکن اس واجب کے ترک سے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ نہیں ہوتی؛ کیوں کہ ترتیبِ قرأت واجباتِ قرات سے ہے، واجبات ِنماز سے نہیں ۔ 

فتاوی شامی میں ہے: 

أَنَّهُمْ قَالُوا يَجِبُ التَّرْتِيبُ فِي سُوَرِ الْقُرْآنِ، فَلَوْ قَرَأَ مَنْكُوسًا أَثِمَ لَكِنْ لَا يَلْزَمُهُ سُجُودُ السَّهْوِ لِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ وَاجِبَاتِ الْقِرَاءَةِ لَا مِنْ وَاجِبَاتِ الصَّلَاةِ كَمَا ذَكَرَهُ فِي الْبَحْرِ فِي بَابِ السَّهْوِ ۔ (رد المحتار:1/ 457)

فقہا نے کہا ہے کہ قرآن کی سورتوں میں ترتیب واجب ہے، لہذا اگر کسی نے منکوس/ معکوس قرات کر دی تو گنہ گار ہوگا ، لیکن اس سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، کیوں کہ ترتیب واجبات ِقرات سے ہے، واجبات نماز سے نہیں ہے جیسا کہ بحر الرائق کے باب السہو میں بیان ہوا  ہے۔ 

مولانا امجد علی اعظمی (۱۳۶۷ھ)اپنی کتاب "بہارِ شریعت " میں یہی بات رد المحتار کے حوالے سےلکھتے ہیں: 

’’ کوئی ایسا واجب ترک ہو جو واجبات نماز سے نہیں ، بلکہ اس کا وجوب امر خارج سے ہو تو سجدۂ سہو واجب نہیں ۔ مثلاً: خلاف ترتیب قرآن مجید پڑھناترکِ واجب ہے ، مگر موافق ترتیب پڑھنا واجباتِ تلاوت سے ہے ، واجبات نماز سے نہیں، لہذا سجدۂ سہو نہیں۔ ‘‘ ( بہار شریعت ، ح: ۴، ص: ۷۱۴، سجدۂ سہو کا بیان) 

تلاوت سجدہ کا ترک ہو جانا 

شمس الائمہ فقیہ محمد بن احمد بن ابو سہل سرخسی (483ھ) اپنی کتاب مبسوط میں لکھتے ہیں: 

فَإِنْ كَانَ مَا تَرَكَ سَجْدَةً صَلَاتِيَّةً فَعَلَيْهِ إعَادَةُ الصَّلَاةِ؛ لِأَنَّهَا رُكْنٌ، وَإِنْ كَانَ مَا تَرَكَ سَجْدَةَ التِّلَاوَةِ أَوْ قَرَأَ قِرَاءَةَ التَّشَهُّدِ فَلَيْسَ عَلَيْهِ إعَادَةٌ؛ لِأَنَّهَا وَاجِبَةٌ، وَتَرْكُ الْوَاجِبِ يُوجِبُ الْكَرَاهَةَ وَالنُّقْصَانَ، وَلَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ؛ لِأَنَّ حُكْمَ الْجَوَازِ مُتَعَلِّقٌ بِأَدَاءِ الْأَرْكَانِ، وَعَنْ زُفَرَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - التَّسْوِيَةُ بَيْنَ سَجْدَةِ التِّلَاوَةِ وَالصَّلَاتِيَّةِ وَالْفَرْقُ بَيْنَهُمَا وَاضِحٌ، فَإِنَّ سَجْدَةَ الصَّلَاتِيَّةِ مِنْ مُوجِبَاتِ التَّحْرِيمَةِ وَسَجْدَةُ التِّلَاوَةِ لَيْسَتْ مِنْ مُوجِبَاتِ التَّحْرِيمَةِ، وَلَكِنَّهَا وَجَبَتْ بِعَارِضِ قِرَاءَةِ آيَةِ السَّجْدَةِ فَبِتَرْكِهَا لَا تَفْسُدُ الصَّلَاةُ۔( مبسوط سرخسی: 223/1) 

اگر کسی شخص نے نماز کے کسی سجدہ کو ترک کیا تو اس پر اعادہ واجب ہے، کیوں کہ یہ رکن ہے۔ اور اگر کسی نے سجدہ تلاوت کو ترک کیایا تشہد (غیر محل میں) پڑھ دیا تو اس پر اعادہ واجب نہیں ہے ، اگرچہ یہ اعمال واجب ہیں اور ترکِ واجب کراہت و نقصان کو واجب کرتا ہے، لیکن ان واجبات کےترک سے نماز فاسدنہیں ہوگی ، کیوں کہ یہ واجبات ارکانِ نماز سے نہیں ہیں، جب کہ ارکان کی ادائےگی ہی نماز کے لیے کافی ہے۔ امام زفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سجدہ تلاوت اور سجدہ نمازدونوں ایک حیثیت سے برابر ہیں اورایک حیثیت سے دونوں میں فرق بھی ہے۔ سجدہ نماز موجبات تحریمہ سے ہے اور سجدہ تلاوت موجبات تحریمہ سے نہیں ہے۔ سجدہ تلاوت کا وجوب آیت سجدہ کی قرأت کی وجہ ہے ، لہذا اس کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

ریشم میں یا غصب کیے ہوئے کپڑے یا زمین میں  نماز ادا کرنے کا حکم

ریشم کے کپڑے کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے،حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: 

حُرِّمَ لِبَاسُ الحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ.(سنن ترمذی : 1720) 

ریشم کا لباس اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے۔

علامہ ابو بكر بن علي بن محمد زبیدی یمنی حنفی  (800ھ)لکھتے ہیں : 

وَيُكْرَهُ الصَّلَاةُ فِي الثَّوْبِ الْحَرِيرِ وَعَلَيْهِ ؛ لِأَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَيْهِ لُبْسُهُ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ فَفِيهَا أَوْلَى فَإِنْ صَلَّى فِيهِ صَحَّتْ صَلَاتُهُ ؛ لِأَنَّ النَّهْيَ لَا يَخْتَصُّ بِالصَّلَاةِ ، وَإِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مَغْصُوبٍ أَوْ تَوَضَّأَ بِمَاءٍ مَغْصُوبٍ أَوْ صَلَّى فِي أَرْضٍ مَغْصُوبَةٍ فَصَلَاتُهُ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ صَحِيحَةٌ (الجوهرة النيرة: 1/ 189)

ریشم کے کپڑے میں یا ریشم کے کپڑے پر  نماز ادا کرنا  مکروہ ہے  ،اس لیے کہ  مصلی پر  اس کا پہنا نماز کے علاوہ میں بھی  حرام ہے  تو نماز میں بدرجہ اولیٰ  حرام ہوگا لیکن  اس میں نماز   درست ہے  ،اس لیے کہ  یہ نہی نماز کے ساتھ خاص  نہیں ہے ، اسی طرح اگر غصب کیے ہوئے کپڑے   میں نماز ادا کیا  ،یا  غصب کیے  پانی  سے وضو کیا ،یا   غصب کی زمین میں نماز ادا کیا   تو ان تمام صورتوں  میں  نماز    صحیح  اور درست ہے ۔

علامہ طحطاوی(1069ھ) لکھتے ہیں:

والثوب ‌الحرير والمغصوب وأرض الغير تصح فيها الصلاة مع الكراهة.(مراقی الفلاح شرح نور الايضاح،ص82)

ریشم کے کپڑے ، غصب کیا ہوا کپڑا یا زمین میں  نماز ادا کرناکراہت کے ساتھ درست ہے۔

بہت سارے فقہا نے ان صورتِ مذکورہ میں بھی نماز کو ناجائز  یا کراہتِ تحریمی لکھا ہے۔  اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ ستر پوشی شرط سے ہے اور جائز کپڑا کی موجودگی میں اس کا استعمال کرنا گویا کہ ستر کو فوت کرنا ہےلیکن یہ حکم تہدید کے بنا پر تو سہی ہے لیکن اصل مسئلہ کے اعتبار سے مناسب نہیں  ہے کیوں کہ ان اشیا کا استعمال نماز اور خارج نماز دونوں میں یکساں طور سے حرام ہے۔ 

جیسا کہ امام ابو زكريا محیی الدين يحیی بن شرف نووی (676ھ) مجموع میں لکھتے ہیں: 

لا يجوز للرجل أن يصلي في ثوب حرير ولا علي ثوب حرير لانه يحرم عليه استعماله في غير الصلاة فلان يحرم في الصلاة أولي فان صلي فيه أو صلي عليه صحت صلاته لان التحريم لا يختص بالصلاة ولا النهى يعود إليها فلم يمنع صحتها ۔ (مجموع-3/ 179)

کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ریشم کے کپڑے میں یا ریشم کے کپڑے پر نماز ادا کرے، کیوں کہ اس کا استعمال نماز کے علاوہ میں حرام ہے ، تو وہ نماز میں بدرجۂ اولیٰ حرام ہوگا۔ لیکن ( اس کے باوجود) اگر کسی نے اس میں یا اس پر نماز ادا کر لی تو نماز ہو گئی کیوں کہ حرمت نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ ہی حکمِ نہی نماز کی طرف عود کرتا ہے، لہذا یہ حکم صحت نماز کو مانع نہیں ۔ 

اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر اسے جمہور کا قول قرار دیا ہے: 

أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي ثَوْبٍ حَرِيرٍ وَعَلَيْهِ فَإِنْ صَلَّى فِيهِ صَحَّتْ صَلَاتُهُ عِنْدَنَا وَعِنْدَ الْجُمْهُورِ۔(مجموع شرح مہذب ۔3/ 180)

علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرد کا ریشم کا کپڑا پہن کر یا ریشم کے کپڑے پر نماز ادا کرنا حرام ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کسی نے ریشم کے کپڑے میں نماز ادا کر لی تو اس کی نماز ہمارے نزدیک بھی اور جمہور کے نزدیک بھی صحیح و درست ہوگی۔ 

علامہ ابو الوليد محمد بن احمد بن رشد قرطبی مالکی (520ھ)البیان و التحصیل میں لکھتے ہیں: 

سئل عن الذي يصلي بثوب حرير - متعمدا لذلك - وهو يجد غيره، أنه لا إعادة عليه في وقت ولا غيره، وقاله ابن الماجشون. (البيان والتحصيل۔2/ 159)

اس شخص سے متعلق سوال کیا گیاجو دوسرے کپڑے ہونے کے باوجود جان بوجھ کر ریشم کےکپڑے میں نماز ادا کرتا ہوتو علامہ ابن ماجشون نے جواب دیا کہ اس پر کوئی اعادہ نہیں ، نہ وقت رہتے ہوئے ، نہ وقت کے بعد۔ 

سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز ادا کرنے کا حکم

سونے کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہےجیسا کہ حدیث میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فِي يَدِ رَجُلٍ، فَنَزَعَهُ فَطَرَحَهُ، وَقَالَ: «يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَيَجْعَلُهَا فِي يَدِهِ»، فَقِيلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْ خَاتِمَكَ انْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: لَا وَاللهِ، لَا آخُذُهُ أَبَدًا وَقَدْ طَرَحَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(صحیح مسلم :2090)

‌‌‌‏ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک سونے کی انگوٹھی دیکھی۔  آپ ﷺ نے اتار کر پھینک دی اور فرمایا: تم میں سے کوئی قصد کرتا ہے جہنم کے انگارے کا، پھر اس کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو اپنی انگوٹھی اٹھا لے اور اس سے نفع حاصل کر (یعنی اس کی قیمت سے) وہ بولا: قسم اللہ کی! میں اس کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا جس کو رسول اللہ ﷺ نے پھینک دیا۔ 

علامہ فخر الدین زیلعی (745ھ) لکھتے ہیں:

أَمَّا الذَّهَبُ فَلِأَنَّهُ لَا يُسْتَعْمَلُ إلَّا لِلتَّزَيُّنِ فَكَانَ لُبْسُهُ لُبْسَ الْحُلِيِّ وَلِهَذَا حَرُمَ اسْتِعْمَالُهُ عَلَى الرِّجَالِ فَكَانَ كَامِلًا فِي مَعْنَى التَّحَلِّي( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشیۃ الشلبی: 3/ 155)

 سونا کا استعمال  خاص زینت کے لیے  ہے اس لیے سونا کا پہننا  زیور کا پہننا ہے اس لیے اس کا استعمال  مردوں پر حرام ہے  کیوں کہ یہ کامل طور سے  زینت اختیار کرنا ہے ۔

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ جب سونا مردوں کے لیے حرام ہے تو کیا اس کو پہن کر نماز ہوجائے گی؟ 

اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ زين الدين تنوحی حنبلی (631 - 695 ھ) لکھتے ہیں: 

أما كونها تصح على روايةٍ مع التحريم؛ فلأن التحريم لا يختص الصلاة، والنهي لا يعود إليها فوجب أن يصح؛ كما لو غسل ثوبه من النجاسة بماء مغصوب، أو صلى وعليه عمامة مغصوبة، أو حرير، أو في يده خاتم ذهب. (الممتع فی شرح المقنع ، 1/ 302)

ایک روایت کے مطابق تحریم کے ساتھ بھی نماز کے درست ہونے کاحکم ہے تو وہ اس لیے کہ حرمت نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ حکم نہی نماز کی طرف عود کرتا ہے، لہذانماز کا درست ہونا واجب ٹھہرا، جیسا کہ اگر کسی نے ناپاک کپڑے کو غصب کےپانی سے دھویا ، یا کسی نے غصب کیے ہوئے عمامے کے ساتھ نماز ادا کی، یا ریشمی کپڑے میں نماز ادا کی، یا سونے کی انگوٹھی پہن کر نماز ادا کی (تو ان تمام صورتوں میں نماز درست قرار پاتی ہے، کیوں کہ یہ تمام چیزیں واجبات نماز سے نہیں ہیں، ایسے ہی جو کراہت تحریم واجبات نماز سے نہ ہو ، اس کے ہوتے ہوئے بھی نماز درست ہوگی۔ ) 

علامہ منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن ادريس بہوتی حنبلی (1051ھ)شرح منتہی الارادات میں لکھتے ہیں: 

(وَلَا يُبْطِلُهَا) أَيْ الصَّلَاةَ (لُبْسُ عِمَامَةٍ وَخَاتَمٍ مَنْهِيٍّ عَنْهُمَا) كَعِمَامَةِ حَرِيرٍ وَخَاتَمِ ذَهَبٍ، أَوْ غَصْبٌ (وَنَحْوِهِمَا) كَخُفٍّ وَتِكَّةٍ كَذَلِكَ ; لِأَنَّ النَّهْيَ لَا يَعُودُ إلَى شَرْطِ الصَّلَاةِ، فَلَا يُؤَثِّرُ فِيهَا۔ ( شرح منتهى الارادات - دقائق اولي النهى لشرح المنتهى۔1/ 153)

ممنوع عمامہ اور انگوٹھی پہننا نماز کو باطل نہیں کرتا ہے، جیسے ریشم کا عمامہ، سونے کی انگوٹھی یا غصب کی ہوئی اشیا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں جیسے موزہ اور بیلٹ ۔ اس لیے کہ نہی شرائط نماز کی طرف نہیں لوٹتی ہے، تو اس میں مؤثر بھی نہیں ہوگی۔ 

امام ابو محمد عبد الله بن قدامہ مقدسی حنبلی (۶۲۰ھ)کافی میں لکھتے ہیں: 

إن صلى في عمامة محرمة أو خاتم ذهب صحت صلاته لأن النهي لا يعود إلى شرط الصلاة ۔( الکافی فی فقہ ابن حنبل۔1/ 115)

اگر کسی نے حرام عمامہ یا سونے کی انگوٹھی پہن کرنماز ادا کی تو نماز درست ہوگی، کیوں کہ نہی شرط نماز کی طرف نہیں لوٹ رہی ہے۔ 

اسی طرح لوہے، پیتل کی انگوٹھی پہن کر نماز ادا کی/ کرائی تو اس صورت میں بھی نماز واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ان کی ممانعت شرائط و واجبات کی طرف نہیں لو ٹتی ہے۔ 

علامہ احمد بن محمد بن احمد بن حمد منقورحنبلی( 1125 ھ)الفواکہ العدیدہ میں لکھتے ہیں:

لو لبس عمامة منهيًا عنها، أو تكة وصلى فيها، صحت صلاته على الصحيح من المذهب. ولو صلى وفي يده خاتم ذهب، أو دملج، أو في رجله خف حرير، لم تبطل صلاته على الصحيح من المذهب۔الفواكه العديدة في المسائل المفيدة (1/ 96)

اگر ممنوع عمامہ یا بیلٹ باندھااور اسی میں نماز ادا کی تو صحیح مذہب پر نماز ہو گئی ، اور اگر اس حال میں نماز ادا کی کہ سونے کی انگوٹھی یا کنگن پہنے تھا یا ریشم کا موزہ پہنے تھا تو بھی صحیح مذہب پر اس کی نماز باطل نہیں ہوئی۔ 

 اسی طرح اگر چین والی گھڑی پہن کر نماز اداکی تو بھی نماز واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔ 

فاسقِ معلن کی اقتدا میں نماز ادا کرنا 

فاسقِ معلن یعنی اعلانیہ  فسق کرنے والے کی اپنی نماز مکروہِ تحریمی نہیں ہوتی ہے ، ورنہ لازم آئے گا کہ کبائر کا علانیہ ارتکاب کرنے والے تمام لوگوں کی نماز مکروہِ تحریمی و واجب الاعادہ ہو ،حالانکہ یہ بات کتاب و سنت میں مذکور ہےنہ فقہائے کرام کی ایسی کوئی تصریح موجودہے . بلکہ احادیث و آثار کے مطالعہ سے یہ بات صاف ظاہر ہےکہ فاسقِ معلن اگرچہ سخت گنہگار ہے تاہم اس کی نماز مکروہِ تحریمی و واجب الاعادہ نہیں ہے ۔امام احمد بن حنبل رضى الله تعالى عنہ سندِ صحیح کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنہ سے روایت کرتےہیں:

جاء رجل إلى النبى صلى الله تعالي عليه وسلم فقال إن فلانا يصلى بالليل فإذا أصبح سرق، قال إنه سينهاه ما يقول

 (مسند احمد بن حنبل رقم:9777)

ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتاہےاور صبح ہوتے ہی چوری کرنے لگتاہے، آپ نے فرمایا نماز کی پابندی اسے اس چیز سے روک دے گی۔

چوری کرنا یقیناً فسق ہے ، نبی کریم ﷺ نے اس شخص کی چوری کی بات سن کر یہ نہیں فرمایا کہ اس کی نماز مکروہ تحریمی و واجب الاعادہ ہے،یہ اس بات کی دلیل ہےکہ علانیہ فسق کے مرتکب کی اپنی نماز واجب الاعادہ نہیں ہوتی ہے ۔

امام شمس الدین محمد بن احمد قرطبی لکھتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی الله تعالى عنہ فرماتے ہیں:

کان فتى من الأنصار يصلى مع النبى صلى الله تعالي عليه وسلم ولا يدع شيئا من الفواحش والسرقة إلا ركبه، فذكر للنبى صلى الله تعالي عليه وسلم فقال إن الصلاة ستنهاه(الجامع لأحكام القرآن، 13/ 347)

انصار کا ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور بے حیائی اور چوری جیسے کام بھی کرتا تھا، اس بات کا نبی کریم ﷺ  سے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا نماز اس کو ان چیزوں سے روک دے گی۔

یہاں سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ فاسق کی اپنی نماز واجب الاعادہ نہیں ہو تی ہے،اگر ایسا ہوتا تو نبی کریم ﷺ ضرور بیان فرماتے اور مرتکب فسق کو اعادۂ نماز کا حکم دیتے، فاسق کی اپنی نماز مکروہِ تحریمی نہیں ہوتی ہےاس کے باجود فقہائے احناف کے نزدیک اس کو امام بنانا مکروہِ تحریمی و گناہ ہے ۔

علامہ ابن ِ عابدین شامی لکھتے ہیں:

وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، و بأن فى تقديمه للإمامة تعظيمه، و قد وجب عليهم إهانته شرعاً، و لايخفى إذا كان أعلم من غيره لاتزول تلك العلة، فإنه لايؤمن أن يصلى بهم بغير طهارة، فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى فى شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا، قال ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك و رواية عن أحمد. (رد المحتار :2/365 )

 فاسق کو امام بنانے کی علتِ کراہت یہ ہےکہ وہ امور دینیہ کی پرواہ نہیں کرتاہے ، دوسری وجہ یہ ہےاس کو امام بنانے میں اس کی تعظیم ہے ، حالانکہ لوگوں پر شرعاً اس کی توہین واجب ہے(یعنی مقتدیوں پر امام کی تعظیم واجب ہوتی ہےاور لوگوں پر فاسق کی توہین لازم ہوتی ہے، اور یہ بات ظاہرہےکہ تعظیم و توہین کا اجتماع نہیں ہوسکتا). تو اگر فاسق دوسروں کی بنسبت زیادہ علم والا ہوتب بھی وجہِ کراہت دور نہیں ہوگی کیوں کہ اس کے بارے میں یہ اندیشہ بہر حال رہےگاکہ کہیں وہ بے طہارت نماز نہ پڑھا دے، تو فاسق کی امامت بدعتی کی طرح بہر حال مکروہ ہےبلکہ شرحِ منیہ میں مذکورہ وجوہات کے پیشِ نظر اس کی امامت کو مکروہِ تحریمی قراردیا ہے،اسی لیے امام مالک کے نزدیک اس کے پیچھے نماز سرے سے جائز ہی نہیں ہے اور یہی امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے ۔

فاسقِ معلن و مبتدع کی امامت کی جو وجوہِ کراہت علامہ شامی نے اوپر بیان کیا ہےان سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ امام کا فسق وابتداع سے پاک ہونا امامت کے واجباتِ اصلیہ سے نہیں ہے ، بلکہ واجباتِ عارضیہ سےہے ، اسی لیے فاسق و مبتدع کی اقتداء میں نماز اداکرنا انفراداً ادا کرنے سے اولیٰ ہےاور اس طرح جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہوجاتی ہے ۔

علامہ حصکفی لکھتے ہیں :

صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة (درمختار مع ردالمحتار :2/358) 

فاسق یا بدعتی کے پیچھے نماز اداکرنےسے جماعت کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے۔

علامہ شامی لکھتےہیں :

أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقى ورع.(ردالمحتار:2/359)

شارح نے یہ افادہ فرمایا ہےکہ فاسق و مبتدع کی اقتداء انفراد سے بہتر ہےہاں ان کی اقتداء میں وہ اجر نہیں ملے گا جو متقی و پرہیزگار کی اقتداء میں ملتا ہے۔

امام کا محراب میں کھڑا ہونا 

امام کامحراب میں کھڑا ہونا فقہائےاحناف کے یہاں مکروہ ہےتبیین الحقائق میں ہے : 

يُكْرَهُ قِيَامُ الْإِمَامِ فِي الطَّاقِ وَهُوَ الْمِحْرَابُ وَلَا يُكْرَهُ سُجُودُهُ فِيهِ إذَا كَانَ قَائِمًا خَارِجَ الْمِحْرَابِ. (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، ۱/۱۶۵) 

امام کا محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانا مکرو ہ ہے۔ ہاں! اگر امام محراب سے باہر کھڑا ہو تو محراب کے اندر سجدہ کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

فقہانے محراب کے اندر کھڑے ہو کر نماز ادا کرانے کو یہود سے تشابہ یا مقتدی سے اس کے اوجھل ہوجانے کی بنیاد پر مکروہ بتایا ہے،لیکن آج کے دور میں یہ ساری وجوہات ختم ہو چکی ہیں ، اس لیے محراب کے اندر سے نماز ادا کرانے میں سرے سے کوئی کراہت ہی باقی نہ رہی۔

کراہت کا اعتبارکرنے کےباوجوداگر محراب میں کھڑےہو کرامام نماز ادا کراتا ہے تب بھی نماز جائز ودرست ہے واجب الاعادہ نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ کراہت نماز سے خارج کی بنا پر ہےداخلِ نماز میں کراہت نہیں جیسا کے غصب کردہ زمین میں نماز کا حکم گزرا ۔

صفوں کو سیدھی کرنے کا حکم

علامہ بدر الدین عینی حنفی (۸۸۵ھ) عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں: 

التسویۃ واجبۃ بمقتضی الامر ولکنھا لیست من واجبات الصلاۃ بحیث انہ ترکھا فسدت صلوتہ او نقصتھا (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری باب : 5 / 371)

امر کے مقتضی کی وجہ سے صفوں میں تسویہ( یعنی صفوں کا سیدھا ہونا ) واجب ہے،لیکن یہ نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اس کےترک پر نماز فاسد ہو یا نماز میں کچھ کمی واقع ہو ۔

صف کے پیچھے تنہا نماز ادا کرنے کا حکم

صف میں جگہ خالی ہونے کے باوجود مقتدی کاصف کے پیچھےتنہا نمازادا کرنا مکروہ ہےفتاوی ٰہندیہ میں ہے : 

ويكره للمقتدي أن يقوم خلف الصفوف وحده إذا وجد فرجة في الصفوف وإن لم يجد فرجة في الصفوف روى محمد بن شجاع وحسن بن زياد عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لايكره (فتاو یٰ ہندیہ: 1/107)

صف میں جگہ خالی ہونے کے باوجود مقتدی کاصف کے پیچھےتنہا نمازادا کرنا مکروہ ہےاور اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو تو محمد ابن شجاع اور حسن ابن زیاد کی امام ابو حنیفہ کی روایت ہے کہ مکروہ نہیں ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

وينبغي اذا لم يجد فرجة ان ينتظر من يدخل المسجد ليصطف معه خلف الصف، فان لم يجد احدا وخاف فوت الركعة جذب من الصف الى نفسه من يعرف منه علما وحسن الخلق لكي لا يغضب عليه، فان لم يجد يقف حينئذ خلف الصف بحذاء الامام(بدائع الصنائع:1/218) 

مقتدی جب اگلی صف میں جگہ نہ پائے، تو اسے چاہیے کہ کسی کے مسجد میں داخل ہونے کا انتظار کرے تاکہ اس کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو سکے، پس اگر کوئی بھی نہ ملے اور رکعت کے فوت ہونے کا خوف ہو، تو اگلی صف میں سے کسی ایسے شخص کو کھینچ لے جو مسئلہ جاننے والا اور خوش اخلاق ہو، تا کہ وہ دوسرا شخص کھینچنے والے پر غصہ نہ کرے، پس اگر ایسا شخص بھی نہ پائے، تو اس صورت میں امام کے پیچھے تنہا کھڑا ہو جائے ۔ 

اگر کسی نےبغیر کسی عذر کےصف میں جگہ خالی ہونے کے باوجودپچھلی صف میں تنہا نماز ادا کی تو مکروہ ضرور ہے لیکن نماز ہو جائے گی،واجب الاعادہ نہیں ہوگی جیسا کہ ماسبق میں گزرا کہ صف بندی نماز کے واجبات اصلیہ میں سے نہیں ہے ۔

جماعت سے نماز ادا کرنے کا حکم 

جماعت سے نماز ادا کرنا راجح مذہب کے مطابق واجب ہے کسی نے بغیر کسی عذر شرعی کے جماعت ترک کیااور تنہانماز ادا کیا توواجب کا ترک ضرور ہوا لیکن اس کی تنہا ادا کی گئی نمازدرست ہوگی ، واجب الاعادہ نہیں ہوگی کیوں کہ یہ واجب نماز کے واجبات اصلیہ میں سے نہیں ہے ،علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: 

أَنَّ صَلَاةَ الْجَمَاعَةِ وَاجِبَةٌ عَلَى الرَّاجِحِ فِي الْمَذْهَبِ أَوْ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ فِي حُكْمِ الْوَاجِبِ كَمَا فِي الْبَحْرِ وَصَرَّحُوا بِفِسْقِ تَارِكِهَا وَتَعْزِيرِهِ، وَأَنَّهُ يَأْثَمُ، وَمُقْتَضَى هَذَا أَنَّهُ لَوْ صَلَّى مُفْرَدًا يُؤْمَرُ بِإِعَادَتِهَا بِالْجَمَاعَةِ، وَهُوَ مُخَالِفٌ لِمَا صَرَّحُوا بِهِ فِي بَابِ إدْرَاكِ الْفَرِيضَةِ مِنْ أَنَّهُ لَوْ صَلَّى ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ مِنْ الظُّهْرِ ثُمَّ أُقِيمَتْ الْجَمَاعَةُ يُتِمُّ وَيَقْتَدِي مُتَطَوِّعًا، فَإِنَّهُ كَالصَّرِيحِ فِي أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ إعَادَةُ الظُّهْرِ بِالْجَمَاعَةِ مَعَ أَنَّ صَلَاتَهُ مُنْفَرِدًا مَكْرُوهَةٌ تَحْرِيمًا أَوْ قَرِيبَةٌ مِنْ التَّحْرِيمِ، فَيُخَالِفُ تِلْكَ الْقَاعِدَةَ، إلَّا أَنْ يَدَّعِيَ تَخْصِيصَهَا بِأَنَّ مُرَادَهُمْ بِالْوَاجِبِ وَالسُّنَّةِ الَّتِي تُعَادُ بِتَرْكِهِ مَا كَانَ مِنْ مَاهِيَّةِ الصَّلَاةِ وَأَجْزَائِهَا فَلَا يَشْمَلُ الْجَمَاعَةَ لِأَنَّهَا وَصْفٌ لَهَا خَارِجٌ عَنْ مَاهِيَّتِهَا۔ (در مختار وحاشيہابن عابدين - رد المحتار-1/ 457)

جماعت سے نماز ادا کرناراجح مذہب کے مطابق واجب ہے، ایک قول کے مطابق سنت مؤکدہ ہے جو قریب بواجب ہے جیسا کہ البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں مذکور ہے ۔فقہاء نے (ہمیشہ ) جماعت ترک کرنے والے کوفاسق کہا ہےاور اس کو بطورتعزیر ( سزا دینے کی ) صراحت کی ہے، لہذاتارک جماعت گنہگار بھی ہوگا ۔اس تفصیل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر کسی نےتنہا نماز ادا کی تو اسے جماعت کے ساتھ نماز لوٹانےکا حکم دیا جائےگا ، حالانکہ یہ قول اس قول کے مخالف ہے جس کی تصریح باب ادراک الفریضۃ میں فقہا نے کی ہے کہ اگر کسی نے تنہا تین رکعت ادا کر لی پھر جماعت قائم ہوئی تو وہ اپنی نماز مکمل کرے اور جماعت میں نفل کی نیت سے شریک ہو جائے، تو یہ حکم اس بات میں تصریح ہے کہ اس پر ظہر کی نماز کا جماعت کے ساتھ اعادہ واجب نہیں ہے۔حالانکہ اس کی نماز مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تحریمی کے قریب ہے تو یہ اس قاعدہ کے خلاف ہے ، مگر یہ کہ اس کی تخصیص کا دعوی کیا جائے کہ ان کی اس واجب و سنت سے مراد جس کی وجہ سے نماز کا اعادہ کیا جائے وہ واجب یا سنت ہے جو نماز کی ماہیت و حقیقت اور اس کے اجزاء میں سے ہو۔ لہذا  اس حکم میں جماعت شامل نہ ہوگی کیوں کہ یہ مستقل ایک ایسا واجب ہے جو ماہیت نماز سے خارج ہے۔ 

کپڑے پر جان دارکی تصویر کے ساتھ نماز کا حکم

کپڑے پر تصویر کے ہونے کی صورت میں فقہا نے نماز کی کراہت کا قول اس لیے کیا ہے کہ یہ حامل صنم کے مشابہ ہے، حالاں کہ اسی کے ساتھ فقہا نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ اگر تصویر کپڑے کی بجائے ہاتھ میں ہو تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ اسی طرح سر کے اوپر یاسامنے ہونےکی صورت میں کراہت کا قول اس وقت کیا ہے جب کہ تصویر بڑی ہو ، لیکن تصویر اگر چھوٹی ہو تو کوئی حرج نہیں جس کی علت یہ بتائی گئی ہے کہ عموماً  اس طرح کی چھوٹی تصاویر کی عبادت نہیں کی جاتی، جب کہ تصویر کی کراہت علت عبادت سے مقید ہے۔ اس اعتبار سے کپڑے پر تصویر ہونے کی صورت میں نماز مکروہ نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ عمومی طور پر یہ تصاویر ان کی نہیں ہوتیں ، جن کی عبادت کی جاتی ہے، نہ اتنی بڑی ہوتی ہیں جو دور سے نمایاں ہوں، بلکہ نہایت چھوٹی ہوتی ہیں۔مزید برآں جن فقہا نے کراہت کا قول بھی کیا ہے، انھوں نے اعادۂ نماز کا ذکر نہیں کیا ہے۔

فخر الدين عثمان زيلعی حنفی(۷۴۳ھ)اپنی مشہور زمانہ کتاب تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں،  

 ( ولبس ثوب فيه تصاوير ) لأنه يشبه حامل الصنم فيكره قال رحمه الله ( وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو بحذائه صورة ) لقوله صلى الله عليه وسلم لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة ولأنه يشبه عبادتها فيكره وأشدها كراهة أن تكون أمام المصلي ثم فوق رأسه ثم على يمينه ثم على يساره ثم خلفه وفي الغاية إن كان التمثال في مؤخر الظهر والقبلة لا يكره لأنه لا يشبه عبادته وفي الجامع الصغير أطلق الكراهة قال رحمه الله ( إلا أن تكون صغيرة ) لأنها لا تعبد إذا كانت صغيرة بحيث لا تبدو للناظر والكراهة باعتبار العبادة فإذا لم يعبد مثلها لا يكره روي أن خاتم أبي هريرة كان عليه ذبابتان وخاتم دانيال عليه السلام كان عليه أسد ولبوة وبينهما رجل يلحسانه قال رحمه الله ( أو مقطوعة الرأس ) أي ممحوة الرأس بخيط يخيطه عليه حتى لا يبقى للرأس أثر أو يطليه بمغرة أو نحوه أو ينحته فبعد ذلك لا يكره لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة ولا اعتبار بالخيط بين الرأس والجسد لأن من الطيور ما هو مطوق ولا بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونهما قال رحمه الله ( أو لغير ذي روح ) أي أو كانت الصورة غير ذي الروح مثل أن تكون صورة النخل وغيرها من الأشجار لأنها لا تعبد عادة وعن ابن عباس أنه رخص في تمثال الأشجار۔ (تبيين الحقائق-1/ 166)

 (اور اس پر تصویر والا لباس پہننا) کیوں کہ یہ بت رکھنے والے کے مشابہ ہے اس لیے یہ مکروہ ہے۔ پھر یہ کہ تصویرنمازی کے سر کے اوپر  ہو، یا سامنے یا پیچھے ہو، جیسا کہ حضور ﷺ  کا قول ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو۔ مزید یہ کہ یہ عبادت کے مشابہ ہے اس لیے بھی مکروہ ہے۔ اور کراہت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جس  وقت وہ نمازی کے سامنے ہو، اس کے سر پر ہو، داہنی جانب ہو، بائیں جانب ہو ، پیچھے کی طرف ہو۔ عنایہ میں ہے کہ مجسمہ اگر پیٹھ کے پیچھے ہو یا قبلہ کے پیچھے ہو تو مکروہ نہیں ہے کیوں کہ یہ عبادت کے مشابہ نہیں ہے۔ جامع صغیر میں ہے کہ کراہت مطلق آئی ہے۔ مصنف نے کہا کہ کراہت اس صورت میں نہیں ہوگی جب کہ تصویر چھوٹی ہو، کیو ں کہ اگر تصویر اس قدر چھوٹی ہو کہ دیکھنے والے پراس کے اوصاف نمایاں نہ ہوں ۔ کراہت کا تعلق چوں کہ عبادت سے متعلق ہے اور اس طرح کی تصاویر کی عبادت نہیں کی جاتی، لہذا اس طرح کی تصاویر مکروہ نہیں ہوں گی۔ روایت کی جاتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر دو مکھیوں کی تصاویر تھی اور حضرت داوود علیہ السلام کی انگوٹھی پر ایک شیر اور شیرنی کے ساتھ بیچ میں ایک مرد بھی بیٹھا ہوا ہے۔ یا مقطوع الراس ہو ، یو نہی  اس کے سر کو دھاگے سے گوندھ کر پوشیدہ کر دیا گیا ہو یا کسی اور مٹانے والی چیز سے مٹا دیا ہو، اس طرح سر کٹی تصویر کا ہونا مکروہ نہیں ہے۔ کیوں کہ عادتاً کسی سر کٹی تصویر کی عبادت نہیں کی جاتی ہے۔ہاں ! سر اور جسم کے درمیان دھاگے کے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں، کیوں کہ بہت سی چڑیاں ہوتی ہیں جن کے گلے میں طوق بنا ہوتا ہے، اسی طرح ابرو اور آنکھوں کے نہ ہونے کا بھی اعتبار نہیں ہے، کیوں کہ ان کے نہ ہونے کے باوجود ان کی عبادت کی جاتی ہے۔ یا یہ کہ تصاویر غیر ذی روح کی ہوں ، مثلاً کھجور یا اسی قسم کی دوسرے درختوں کی تصاویر کہ عادتاً ان کی عبادت نہیں کی جاتی ہے۔ ابن عساکر نے کہا ہے کہ درختوں کے مجسمے کی رخصت ہے۔ 

 علامہ احمد بن محمد بن اسماعيل طحطاوی حنفی (1231ھ) لکھتے ہیں : 

لا يكره "السجود على بساط فيه تصاوير" ذوات روح "لم يسجد عليها" لإهانتها بالوطء عليها ولا يكره قتل حية بجميع أنواعها لذات الصلاة (حاشیۃالطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص: 369)

کپڑےلٹکا کر، موڑ کر یا بٹن کھول کر  نماز پڑھنا  

اسبال: ائمہ اربعہ کا  اس بات پر اتفاق ہے کہ کپڑے کوخواہ تہبند ہو یا پائجامہ یا پینٹ یا اور دوسرے کپڑے اگر تکبر کی نیت سے ٹخنے سے نیچے کیاتو نماز کی حالت میں ہو یا غیر نماز کی حالت میں، ہر صورت میں مکروہ تحریمی ہے ۔اور اگر تکبر کی نیت سے نہ ہو، تو اس حدیث کی وجہ سے جو اس سلسلے میں وارد ہے ،مکروہ تنزیہی ہے۔

سدل :یعنی بغیر باندھےکپڑے کو سر یا  کاندھے پر ڈال کر دونوں کنارے کو نیچے کی طرف لٹکادینا، یہ علماےاحناف کے نزدیک ستر کھلنے کی وجہ سے یا اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سےمکروہ  بتایا گیا ہے ۔

مگرآج کے دور میں ستر کھلنے کی کوئی صورت نہیں  رہی کیوں کہ لوگ چادر کے نیچے عام طور سے کپڑے پہنتے ہیں۔ رہ گئی مشابہت، تو آج یہ بھی نہیں ہےکیوں کہ اس طرح چادر اوڑھنا اہل کتاب کا خاصہ نہیں  رہا۔لہذا ،مکروہ کی جو وجہ تھی وہ اب موجود نہیں رہی ،تو اب مکروہ  بھی نہیں ہوناچاہیے  ۔

تشمیر: یعنی کپڑے فولڈ کرنا۔نماز کے اندر کپڑے کو فولڈ کرنا یہ مکروہ تحریمی ہے  ،لیکن بوقت نماز پائینچے کو اوپر چڑھا لیناتاکہ نماز کے وقت کم ازکم گناہ سے بچے اور اس حدیث کا مصداق نہ بنے جو اس سلسلے میں وارد ہے ،اوراس کی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہوجائے، تو یہ فعل مستحسن ہوگا مکروہ نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بوقت نماز پائنچے کو اوپر چڑھاکر نماز پڑھنے کو مکروہِ تحریمی کہنا نہ تو نقلاً صحیح اور نہ عقلاً۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ  آستین آدھی کلائی سے زیادہ سمیٹ کر نماز پڑھنا یہ وضع کے خلاف ہے کیوں کہ فل آستین سمیٹنے کے لیے  نہیں بنایا جاتا ۔ چوں کہ آستین موڑنا یہ عرف اور وضع دونوں کے خلاف ہے اس وجہ سے  یہ آدابِ نماز کے بھی خلاف ہے۔ اور اگر پہلے ہی سے آستین ہاف ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ یہ عرف اور وضع کے خلاف نہیں ہے  ۔

بٹن کھول کر نماز پڑھنے کا حکم:کپڑے پہننے کے سلسلے میں دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔

پہلی بات یہ کہ کپڑے عرف وعادت کے خلاف نہ ہوں،  اگر عرف  بٹن بند کرنے کا ہوجیسے قمیص میں ،تو بٹن  بند کرکے نماز ادا کریں ، اور اگر عرف بٹن بند رکھنے اور کھولنے دونوں طرح  کا ہو جیسے صدری وغیرہ میں، تو دونوں صورت  میں، خواہ بٹن بند ہو یا کھلا ہو، بلا کسی حرج کے نماز ہو جائےگی۔ 

دوسری بات وضع یعنی بناوٹ کے خلاف  نہ ہو جیسے کپڑے کو الٹا کرکے پہننا، یہ کپڑے کے وضع کے خلاف ہے اور یہ  مکروہ ہے ۔

نماز میں سترِ عورت شرط ہے ،  جو نماز سترِ عورت کے ساتھ ادا کی جائے گی ، وہ ہوجائے گی اس کے علاوہ کپڑے سے متعلق جو بھی آداب ہیں وہ استحباب کے قبیل سےہیں، اور جہاں کہیں فقہا نے  مکروہ تحریمی لکھا ہے وہ مطلق ہے خواہ وہ نماز میں ہو یا خارجِ نماز، اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ خصوصیت کے ساتھ اس کا تعلق ماہیت صلاۃ سے نہیں ہے۔ 

عمل کثیر  کی تعریف اور اس کا حکم 

 عمل ِ کثیروقلیل کا تعلق یوں تو نماز کے ارکان وشرائط اور واجبات وآداب سے نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک نماز سے باہرکا عمل بھی نہیں ہےاس لیے نماز کی صحت وعدم ِصحت میں اس کا بڑا دخل ہے ۔نبی کریم ﷺ نےنماز میں عبث کام کرنے سے منع فرمایا ہے :

عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَرِهَ لَكُمُ الْعَبَثَ فِي الصَّلَاةِ، وَالرَّفَثَ فِي الصِّيَامِ، وَالضَّحِكَ عِنْدَ الْمَقَابِرِ. (الزهد والرقائق. 1/ 543)

یحیی بن ابو کثیر سے مروی ہےکہ :نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیےنماز میں عبث کام ، روزہ میں فحش گوئی ،اورقبرستان میں ہنسنےکوناپسند کیا ہے ۔

عملِ کثیر:  فقہا ے کرام کا اس بات پرتو اتفاق ہےکہ وہ عملِ کثیر جو بغیر کسی عذر کے ہو، اسی طرح  نماز کی اصلاح کے لیے نہ ہو ، اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے لیکن عملِ کثیر کی تعریف وتحدیدمیں فقہا کےاقوال مختلف ہیں ۔

حنفی فقہا سے عملِ کثیر کی متعددتعریفیں منقول ہیں ان  میں مشہور تین ہیں:

1۔ ہر وہ عمل جس کی بنیاد پر دیکھنے والے کو یہ گمان ہو جائے کہ اگلا شخص نماز میں نہیں ہے، عمل کثیر ہے۔ اور ہر وہ عمل جس کی وجہ سے دیکھنے والا مشتبہ ہو جائے کہ اس کا کرنے والا شاید ابھی نماز ہی میں ہے ، تو وہ عمل قلیل ہے۔ 

 علامہ زين الدين ابن نجيم مصری حنفی(970ھ) لکھتے ہیں : 

اخْتَلَفُوا فِيمَا يُعَيِّنُ الْكَثْرَةَ وَالْقِلَّةَ عَلَى أَقْوَالٍ أَحَدِهَا مَا اخْتَارَهُ الْعَامَّةُ كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ وَالْخَانِيَّةِ أَنَّ كُلَّ عَمَلٍ لَا يَشُكُّ النَّاظِرُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي الصَّلَاةِ فَهُوَ كَثِيرٌ وَكُلَّ عَمَلٍ يَشْتَبِهُ عَلَى النَّاظِرِ أَنَّ عَامِلَهُ فِي الصَّلَاةِ فَهُوَ قَلِيلٌ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ وَهَذَا أَصَحُّ وَتَابَعَهُ الشَّارِحُ والْوَلْوَالِجِيُّ وَقَالَ فِي الْمُحِيطِ إنَّهُ الْأَحْسَنُ وَقَالَ الصَّدْرُ الشَّهِيدُ إنَّهُ الصَّوَابُ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 2/ 12)

ہر وہ عمل جس کی بنیاد پر دیکھنے والے کو یہ غالب ہو جائےکہ اگلا شخص نماز میں نہیں ہے، عمل کثیر ہے۔ اور ہر وہ عمل جس کی وجہ سے دیکھنے والا مشتبہ ہو جائے کہ اس کا کرنے والا شاید ابھی نماز ہی میں ہے ، تو وہ عمل قلیل ہے صاحب ِ بدائع نے کہا کہ یہی اصح ہے ،اسی کی اتباع شارح ولوالجی نے کی ہےاور محیط میں ہے کہ یہی احسن ہےاور صدر الشہید نےکہا کہ یہی درست ہے ۔ 

علامہ ابن ِ عابدین شامی نے بھی عمل ِ کثیرکی یہی تعریف کی ہے : 

الْعَمَلُ الْكَثِيرُ وَهُوَ مَا يُظَنُّ أَنَّ فَاعِلَهُ لَيْسَ فِي الصَّلَاةِ( الدر المختار ورد المحتار:1/ 625)

عملِ کثیروہ ہے جس کے کرنے والےکے بارے میں دیکھنےوالے کو غالبِ گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے ۔ 

2۔ دوسرا قول یہ ہےکہ جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عمل کثیر شمار ہوتے ہیں، اگر یہ کام ایک ہاتھ سے کرے تب بھی یہ عملِ کثیر کہلائے گا اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عملِ قلیل شمار ہوتا ہے، اگر یہ کام دو ہاتھوں سے کرے تب بھی عملِ قلیل ہی کہلائے گا:

الْقَوْلُ الثَّانِي أَنَّ مَا يُعْمَلُ عَادَةً بِالْيَدَيْنِ كَثِيرٌ وَإِنْ عُمِلَ بِوَاحِدَةٍ كَالتَّعْمِيمِ وَشَدِّ السَّرَاوِيلِ وَمَا عُمِلَ بِوَاحِدَةٍ قَلِيلٌ وَإِنْ عُمِلَ بِهِمَا كَحَلِّ السَّرَاوِيلِ وَلُبْسِ الْقَلَنْسُوَةِ وَنَزْعِهَا إلَّا إذَا تَكَرَّرَ ثَلَاثًا مُتَوَالِيَةً وَضَعَّفَهُ فِي الْبَحْرِ بِأَنَّهُ قَاصِرٌ عَنْ إفَادَةِ مَا لَا يُعْمَلُ بِالْيَدِ كَالْمَضْغِ وَالتَّقْبِيلِ. الثَّالِثُ الْحَرَكَاتُ الثَّلَاثُ الْمُتَوَالِيَةُ كَثِيرٌ وَإِلَّا فَقَلِيلٌ (الدر المختار و رد المحتار:1/ 625)

3۔ تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے۔

متاخرین میں سے اکثر فقہا نے یہی تعریف کی ہے اور مالکیہ کامذہب بھی حنفی مذہب سے قریب ہےجیساکہ علامہ صاوی مالکی نےشرحِ صغیر کے حاشیہ میں لکھا ہے ۔ 

وَالْكَثِيرُ عِنْدَنَا هُوَ مَا يُخَيِّلُ لِلنَّاظِرِ أَنَّهُ لَيْسَ فِي صَلَاةٍ (حاشیہ صاویعلى شرح صغير: 2/ 81)

ہمارے نزدیک کثیر وہ عمل ہے جس سےدیکھنے والے کو خیال ہو کہ ایسا کرنے والا نماز میں نہیں ہے ۔

شافعیہ، حنبلیہ اورحنفیہ میں سے بعض فقہا جیسے شمس الائمہ حلوانی وغیرہ نے قلیل و کثیر کی کوئی حدمقررنہیں کی ہے بلکہ اس کو عرف وعادت پر چھوڑا ہے جس کو عام طور سے لوگ کثیر سمجھتے ہوں وہ کثیر ہے اور جس کو لوگ قلیل سمجھتے ہوں وہ قلیل ہے۔  چناں چہ امام ابوزكريا محيی الدين يحيى بن شرف نووی(676ھ) مہذب کی شرح میں لکھتے ہیں : 

الصَّحِيحُ الْمَشْهُورُ وَبِهِ قَطَعَ الْمُصَنِّفُ وَالْجُمْهُورُ أَنَّ الرُّجُوعَ فِيهِ إلَى الْعَادَةِ فَلَا يَضُرُّ مَا يَعُدُّهُ النَّاسُ قَلِيلًا كَالْإِشَارَةِ بِرَدِّ السَّلَامِ وَخَلْعِ النَّعْلِ وَرَفْعِ الْعِمَامَةِ ۔۔۔۔ وَأَمَّا مَا عَدَّهُ النَّاسُ كَثِيرًا كَخُطُوَاتٍ كَثِيرَةٍ مُتَوَالِيَةٍ وَفَعَلَاتٍ مُتَتَابِعَةٍ فَتُبْطِلُ الصَّلَاةَملخصاً(المجموع شرح المهذب 4/ 93)

شافعیہ کا مشہور قول جس پر مصنف اور جمہور نےجزم کیا ہےوہ یہ ہے کہ : قلیل وکثیر کی معرفت میں عرف وعادت کی طرف رجوع کیا جائے ،جس کو لوگ قلیل شمار کرتے ہوں اس سے نماز میں کوئی ضررنہیں ہوگا جیسے اشارہ سے سلام کا جواب دینا ، چپل اتارنا، عمامہ کھولناوغیرہ۔۔۔۔لیکن جس کولوگ کثیر سمجھتے ہوں جیسے لگاتارپے  در پے چند قدم چلنا تو اس سے نماز باطل ہوجائے گی ۔

اسی طرح فقہ حنبلی میں بھی ہےجیسا کہ فقہ العبادات میں ہے : 

والفعل اليسير ما شابه فعل النبي صلى الله عليه وسلم فيما روي عنه، والفعل الكثير ما زاد على ذلك مما يُعد كثيراً في العرف فيبطل الصلاة إلا إن فعله متفرقاً( فقہ العبادات على المذہب الحنبلی ص: 249)

فعل ِیسیروہ فعل ہے جو نبی کریم ﷺ کے فعل کے مشابہ ہو ، اور فعلِ کثیروہ ہےجو اس پر زائد ہواور عرف میں اس کو کثیر سمجھا جاتا ہوتو اس سے نمازباطل ہو جائے گی، البتہ کوئی فعل متفرق طور پر کیاتو اس سے نماز باطل نہیں ہوگی ۔ 

عذر یا اصلاح کے سبب عمل کثیر سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے

ماسبق کی گفتگو سے واضح ہوگیا کہ عمل ِکثیر سےباتفاق ائمہ اربعہ نماز باطل ہوجاتی ہے ۔لیکن وہ عمل ِ کثیرجو نماز کی اصلاح کے لیے ہویا کسی ضرورت کی وجہ سے ہو تو نماز باطل نہیں ہوتی ہے ۔ اس کی چند صورتیں حسبِ ذیل ہیں:

1۔اگلی صف میں فرجہ ہونے کی صورت میں نمازی کا پچھلی صف سے چل کراگلی صف میں داخل ہونا۔

2۔ دو شخص جماعت سے نماز ادا کر رہا ہو تو تیسرے کے آنے کی صورت میں امام کا نماز کی حالت میں آگے بڑھ جانا ۔

3۔نماز میں حدَث لاحق ہونے یا رُعاف پھوٹنے کی صورت میں وضو کر کے دوبارہ اسی نماز پر بنا کرنا ۔ 

اس سلسلے کی بعض احادیث شرح کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِدَّةِ الحَرِّ، فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ وَجْهَهُ مِنَ الأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ، فَسَجَدَ عَلَيْهِ (صحيح البخاری، باب بسط الثوب فی الصلاة للسجود : 1208)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہو جاتا تو نماز کے دوران  اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كُنْتُ أَمُدُّ رِجْلِي فِي قِبْلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَرَفَعْتُهَا، فَإِذَا قَامَ مَدَدْتُهَا(صحيح البخاری: 1209)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےبیان کیاکہ میں اپنا پاؤں نبی کریم ﷺ کے سامنے پھیلا لیتی تھی اور آپ ﷺ نماز پڑھتے ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ کرنے لگتے تو مجھے ہاتھ سے اشارہ  کرتےتو  میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے تو میں پھیلا لیتی۔

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، «فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي اليُمْنَى يَفْتِلُهَا بِيَدِهِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، (صحيح البخاری: 1198)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (ایک رات کاواقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ ) میں ایک رات ا ٹھا اور جس طرح نبی کریم ﷺ نے(وضو) کیا میں نے بھی کیا اور پھر جا کر آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تو نبی کریم ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے داہنے کان کو پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔

عَنْ أَبِي قَتَادَةَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا (سنن أبی داود:917)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھائے  ہوئے تھے، جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو انھیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انھیں اٹھا لیتے تھے ۔

فائدہ: اس حدیث کی شرح میں صاحب ِ سبل السلام نے کہا کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں جاندار یا غیر جاندار کا اٹھانا خواہ ضرورت کے سبب ہو یا بغیر ضرورت کے ، فرض نماز ہو یا کہ نفل،امام ہو کہ مقتدی ،نماز میں کوئی خلل پیدا نہیں کرے گاکیوں کہ امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے فرض نما ز میں امامت کی حالت میں ایسا کیا، لہذا جب فرض میں جائزہے تو نفل میں بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔(سبل السلام 1/ 211)

امام زرقانی نے موطا کی شرح میں کہا کہ اکثر علما نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ عمل متفرق طور پر تھا یعنی درمیان میں وقفہ تھا ۔ 

علامہ ابن ِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کی شرح میں امام نووی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: بعض مالکیہ نےکہا کہ یہ حدیث منسوخ ہے، بعض نے کہا کہ یہ آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے ،بعض نے کہا کہ یہ ضرورت کی وجہ سے تھا ،یہ تمام طرح کی تاویلیں اور دعوےباطل ہیں کیوں کہ اس حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہےجوقواعد ِ شرع کے مخالف ہواس لیے آدمی پاک ہےاور جو اس کے پیٹ میں (نجاست ) ہے وہ معاف ہےاور بچے کے کپڑے پاک ہیں جب تک نجاست لگنے کا یقین نہ ہو ۔ لہذا اس طرح کے اعمال جب کہ قلیل ہوں یامتفرق طور پر  ہوں تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کا یہ عمل بیانِ جواز کے لیے ہے ۔ (فتح الباري لابن حجر: 1/ 592)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ: الْحَيَّةَ، وَالْعَقْرَبَ(سنن ابی داود:921) نماز میں دونوں کالوں (یعنی) سانپ اور بچھو کو (اگر دیکھو تو) قتل کر ڈالو۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ أَحْمَدُ - يُصَلِّي وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَجِئْتُ فَاسْتَفْتَحْتُ - قَالَ أَحْمَدُ: - فَمَشَى فَفَتَحَ لِي، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ، وَذَكَرَ أَنَّ الْبَابَ كَانَ فِي الْقِبْلَةِ(سنن ابی داود:922)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ۔ عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔

فائدہ : شارحین نے اس حدیث میں بھی تاویل کی ہے،چنانچہ صاحب مرقات ملا علی قاری نےکہا کہ دو قدم چلنے پر محمول ہےجو کہ عملِ قلیل ہےاور علامہ ابنِ حجر نے کہا کہ یہ عمل متفرق طور تھا۔ 

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ فِي الصَّلَاةِ(سنن أبی داود:943)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں اشارہ کرتے تھے ۔

فائدہ : اس حدیث سےبعض علما نےاشارہ سے سلام کے جواب دینےپر استدلال کیا ہے ، لیکن جمہور علما نےاس کو منسوخ مانا ہے ۔ 

عَنْ مُعَيْقِيبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَمْسَحْ وَأَنْتَ تُصَلِّي، فَإِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا، فَوَاحِدَةٌ تَسْوِيَةَ الْحَصَى(سنن أبی داود:946)

حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم نماز پڑھنے کی حالت میں (کنکریوں پر) ہاتھ نہ پھیرو، یعنی انہیں برابر نہ کرو، اگر کرنا ضروری ہو تو ایک دفعہ برابر کر لو۔

فائدہ: اس حدیث کی شرح میں علامہ ابنِ حجرنے کہا کہ یہ صرف کنکر ی کےبرابر کرنے کے ساتھ خاص نہیں ہےبلکہ ہر وہ چیز جس کی وجہ سےسجدہ کرنے میں دقت و ضرر ہو اس کا دور کرناجائز ہےخواہ نماز شروع کرنے سے پہلےبرابر کرنا ہویا نماز کی حالت میں ہو ،اس سے نماز باطل نہیں ہوتی ہے ۔ 

حَدَّثَتْنِي أُمُّ قَيْسٍ بِنْتُ مِحْصَنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ، اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ(سنن أبی داود:948)

ام قیس بنت محصن نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کی عمر جب زیادہ ہو گئی اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو آپﷺنے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون بنا لیا جس پر آپ ٹیک لگاتے تھے۔

فائدہ:اس حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی نے بخاری کی شرح ”عمدۃ القاری“ میں کہا کہ: اس حدیث کی وجہ سے ہمارے اصحاب نے کہا کہ بوڑھا ، ضعیف ،کمزورشخص اگر کسی چیز کے سہارےقیام کر سکتا ہے تو اس پر قیام واجب ہےوہ کھڑے ہو کر نماز اداکرےبیٹھ کر نہیں ۔ 

فائدہ :سنن ابی داؤد کی تمام مذکورہ بالا احادیث پرعلما نے ”صحیح“ہونے کا حکم لگا یا ہے ۔ 

اعادہ کب تک  واجب ہے؟

امام زین العابدین بن علامہ ابراہیم بن نجیم مصری (970ھ)الاشباہ و النظائر میں لکھتے ہیں: 

كل صلاة أديت مع ترك واجب أو فعل مكروه تحريما، فإنها تعاد وجوبا في الوقت ، فإن خرج لا تعاد (الاشباه والنظائر ، ص: 169)

ہر وہ نماز جوواجب کے ترک کے ساتھ یا مکروہ تحریمی کے ارتکاب کے ساتھ ادا کی جائے وقت رہتے ہوئے لازمی طور پر لوٹائی جائےگی، اور اگر وقت نکل گیا تو لوٹانا واجب نہ ہوگا۔ 

علامہ شامی رد المحتار میں لکھتے ہیں: 

وُجُوبَ الْإِعَادَةِ فِي أَدَاءِ الصَّلَاةِ مَعَ كَرَاهَةِ التَّحْرِيمِ بِمَا قَبْلَ خُرُوجِ الْوَقْتِ، أَمَّا بَعْدَهُ فَتُسْتَحَبُّ . (ردالمحتار:۱/ ۴۵۷)

کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی نماز کا لوٹانا وقت نکلنے سے پہلے واجب اوروقت نکلنے کےبعدمستحب ہے۔ 

یعنی اگر کسی نے دوران نماز ، واجبات نماز میں سے کوئی واجب سہواً ترک کر دیا تو وقت نکلنے سے پہلے تک ہی اس کا اعادہ واجب ہوگا، وقت نکل جانے کے بعد اعادہ واجب نہیں ہوگا۔ البتہ، اعادہ کا استحباب باقی رہےگا۔ 

خلاصہ یہ کہ واجب کے ترک پر نماز مکروہ تحریمی  ہوتی ہے ،لیکن نماز واجب الاعادہ اس مکروہ تحریمی کے سبب ہوتی ہے، جو واجب نماز کے  واجبات سے ہو۔ اگر نماز کے دوران اس کے ترک کا علم ہوجائے تو سجدہ سہو سے اس کی بھرپائی ہوجائے گی، اور نماز مکمل ہوجائے گی۔

  اور نماز کے مکمل کرنے کے بعد ترکِ واجب  کا علم ہوا تو  وقت کے اندر نماز کا اعادہ واجب  ہے، وقت نکلنے کے بعد  اعادہ صرف مستحب  ہے۔ وقت نکلنے کے بعد اگر کوئی نہ لوٹائے تو گنہ گار نہیں ہوگا۔

ارکان و  ماہیت نماز کے علاوہ کی وجہ سے جو کراہت ہوتی ہے اس سے نہ سجدہ سہو واجب ہے نہ اعادۂ  صلاۃ واجب ہے۔

 کثرتِ عمل کی وجہ سے جو کراہت یا کمی پیدا ہوتی ہے اس کی بھرپائی  سجدہ سہو سے نہیں ہوگی بلکہ نماز کا اعادہ کرنا  واجب ہوگا۔

 واللہ اعلم باالصواب 

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

12/محرم الحرام 1444ھ

11/اگست 2022ء

Ad Image