دورۂ فقہ و حدیث کے دوسرے دن محدث سوڈان ڈاکٹر محمد خامس ازہری کا اظہارخیال
۲۴ ؍اپریل ،سید سرواں محدثین کے یہاں احادیث کی صحت و ضعف کے حوالے سے متعین علمی منہج ہے جس کی روشنی میں کسی بھی حدیث کی صحت و ضعف کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں کی گہری معرفت کےساتھ ہرطرح کے تعصب سے پاک اور علمی امانت کا محافظ ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگانا انتہائی نازک امر ہےجس سے متوسط درجے کےعلما کو بھی بہت دور رہنا چاہیے ۔یہ صرف اس فن کے کا ملین کامنصب ہے ؛ یہاں تک کہ علامہ ابن صلاح نے تو یہ فیصلہ کر دیا کہ اب ایسی صلاحیت کے لوگ ہی نہ رہے ۔اگرچہ علامہ نووی اور علامہ سخاوی نے اس سے اتفاق نہیں کیا ۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شیخ محمد خامس بن سلیمان ازہری نےجامعہ عارفیہ میں منعقد دور ۂ فقہ وحدیث کے دوسرے دن کیا ۔
ڈاکٹر خامس ازہری نے کہا کہ احادیث کی صحت وضعف کا فیصلہ اجتہادی صلاحیت کا طالب ہے ۔ہماری اس سے مراد یہ ہے کہ آیات احکام ، احادیث احکام ،ان سے متعلقہ علوم ،عربی زبان وادب ، احکام اجماع ، ناسخ ومنسوخ، اصول فقہ ،اصول جرح وتعدیل وغیرہ پر کامل قدرت رکھتا ہو ـ ساتھ ہی ساتھ طرق تخریج ،علل واصطلاحات ، اسانید ،تاریخ ومغازی ، سیرت وقرات کے علوم پر بھی گہری نظر ہو ـ اس کے بغیر کسی حدیث پر صحت وضعف کا فیصلہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے جان بوجھ کر نبی کریم ﷺ کی طرف اپنی طرف سے جھوٹی حدیث کو منسوب کرنا۔احادیث کی تصحیح وتضعیف کے لیے ان تمام صلاحیتوں کے بعد محدث کےلیے ضروری ہے کہ وہ تحقیق و تفتیش میں پوری کوشش صرف کردے۔ اس کے بعد جو بھی وہ حکم لگائے گا وہ ظنی ہوگا قطعی نہیں ۔ایسا ہوسکتا ہے کہ دنیا میں جس کو اس نے حدیث صحیح سمجھا وہ آخرت میں حدیث موضوع ہو اور اسی طرح اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے ۔
اسی طرح یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ ایسا ہو سکتا ہےکہ کوئی حدیث اپنی ذات میں صحیح ہو اوراس کی سند ضعیف ہو اور اسی طرح کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے ۔اس لیے علمائےحدیث نے احادیث پر حکم لگانے میں بڑی احتیاط سے کام لیاہے ۔ علامہ ذہبی جیسے محدث نے بھی بہت کم ہی فیصلے سنائے ہیں ۔
اس کے برعکس موجودہ زمانے میں احادیث پر فیصلے صادر کرنے کی جسارت وجراءت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ دو چند کتابیں پڑھتے ہی لوگ اپنے حتمی فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر خامس ازہری نے شیخ ناصرالدین البانی کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ شیخ البانی کو معاف فرمائے انہو ں نے اس معاملے میں بڑی جراءت بلکہ جسارت کا مظاہرہ کیا ۔ اور اپنی تصحیح و تضعیف پر جلدو ں کی جلدیں تحریر کردیں، نتیجے میں بےشمار تناقضات کا شکار ہوئے۔ چنانچہ ایک ہی حدیث کو ایک مقام پر صحیح قرار دیتے ہیں اور دوسرے مقام پر ضعیف ۔
خاص بات یہ ہے کہ شیخ صرف اپنا تحکمانہ فیصلہ سناتے چلے جاتے ہیں اور عام طور سے اپنے فیصلے کی کوئی علت نہیں بناتے ۔حقیقت یہ ہے کہ شیخ البانی کا اپنا منہج ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں محدثین کے مقررہ منہج کا اتباع نہیں کیا اس لیے ہم یہ تو نہیں کہتے ہیں کہ ہم ان سے بری ہیں ہاں ان کے فیصلوں سے بری ہیں ۔
شیخ خامس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ موجودہ زمانےمیں مدعیان حدیث کا ایک بڑا طبقہ آنکھ بند کر کے شیخ البانی کے فیصلے پر اعتماد کر تا ہے گویا بخاری ومسلم ،ترمذی ونسائی ،ماجہ و بیہقی کے فیصلے تو حتمی نہ رہے لیکن البانی کے فیصلے ایسی حتمی ہوں گویا وحی والہام پر مبنی ہوں۔ علامہ ذہبی نے امام حاکم کو حافظ بارع کہا ہے اس کے باوجود جب امام حاکم کی تصحیح وتضعیف کلی طور پر قابل اعتماد نہ رہی تو چہ جائکہن البانی یا دیگر محدثین کے فیصلوں پر ایمان لایا جائے ۔
آخر میں نقیب الصوفیہ مفتی محمد کتاب الدین رضوی نے تصور دین پر خطاب کیا ۔ ایمان واسلام اور احسان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے متکلمین ،محدثین ،فقہا اور صوفیا میں سے ہر ایک کی اہمیت اور ایک دوسرے پر انحصار کو واضح فرمایا۔داعی اسلام کی دعاپر محفل اختتام پذیر ہوئی ۔ رات میں شیخ خامس نے محدث کیسے بنیں ؟ کے عنوانات پر پر مغز محاضرہ دیا۔
Leave your comment