Donate Now
مسئلہ اقامت

مسئلہ اقامت

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ تکبیر کھڑے ہو کر سننا چاہیےیا بیٹھ کر ہی سننا چاہیے! کیا تکبیر کے وقت کھڑا رہنا مکروہ تحریمی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا کیا طریقہ کار تھاکیا صحابہ کرام بیٹھ کر ہی تکبیر سنتے تھے یا کھڑے ہو کر؟ احادیث اور فقہاے کرام کے اقوال کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔بہت مہربانی ہوگی ۔

المستفتی: سید عبد الواسع حسینی بخاری، حیدرآباد۔ 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب:

خلاصہ فتوی:

ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا ایک فرعی اور مختلف فیہ مسئلہ ہے۔

 نبی کریم ﷺ سے اقامت کے وقت بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔ 

 بعض مجتہدین تابعین کے نزدیک ابتداے اقامت میں کھڑا ہوناواجب ہےاور اکثرمجتہدین اور جمہور ائمہ مذاہب کے نزدیک مستحب ہے جب کہ احناف کے نزدیک اس مسئلہ میں قدرے تفصیل ہے۔

 فقہ حنفی میں اقامت کے وقت کھڑےہونے کی تین صورتیں ہیں۔ دوصورتوں میں ابتداے اقامت میں اور ایک صورت میں حی علی الصلاۃ/حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے۔تاہم پہلے کھڑے ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

 سبقت خیر اور تعدیل صفوف کی وجہ سے ہند و پاک کی اکثر مقامات میں  ابتداے اقامت میں کھڑےہونے کا  معمول رہاہے

 اگر امام مسجد میں موجود نہ ہو تو اس کے لیے پہلے سے کھڑے ہوکر انتظار کرنا اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا ہے اس لیے ایسی صورت میں پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ورنہ ابتداے اقامت میں کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

تفصیلی فتوی 

 تکبیر کے وقت کھڑے رہنے یا بیٹھنے کا تعلق اصلاً امام سے ہے، تکبیر سے نہیں۔ تکبیر کے وقت اگر امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہو جائیں ، اور اگر امام بیٹھا ہو تو مقتدی بھی بیٹھے رہیں۔ اسی طرح امام اگر صفوں کے پیچھے سے مصلیٔ  امامت کی طرف بڑھ رہا ہو تو جتنے لوگ امام کو دیکھتے جائیں سب کھڑے ہوتے جائیں ، اور اگر امام آگے کی طرف سے آئے تو امام کو دیکھتے ہیں سارے لوگ ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ 

تکبیر کے وقت کھڑا رہنا  مکروہ تحریمی تو دور کی بات ہے بلکہ مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے،بلکہ بعض صورتوں میں تکبیر کے وقت کھڑے ہونے کا حکم ہے ،مثلاً اگر امام تکبیر ہوتے وقت مسجد میں داخل ہوا تو مقتدی کو حکم ہے کہ اسے دیکھ کر کھڑے ہوتے جائیں۔ 

حضور علیہ السلام کا طریقہ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ  کرام کا طریقہ یہ تھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم  اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما ہوتے ،جب جماعت کا وقت ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد میں داخل ہونے کے لیے اپنے حجرہ مبارکہ کا پردہ  ہٹاتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی پردہ ہٹاتے حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو دیکھ کر تکبیر کہنا شروع کر دیتے ۔ اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کر کھڑے ہوجاتے، عام معمول یہی  تھا۔

ایک  دو مرتبہ ایسا ہواتھا کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ سے نکلنے سے پہلے ہی صحابہ کرام تکبیر کہہ کر کھڑے ہو گئے تھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارکہ سے نکلے تو دیکھا کہ سب صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں کھڑے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے کھڑے ہونے سے منع فرما دیا ،اس کے بعد یہ معمول بن گیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مبارکہ سے نکلتے اور حضرت بلال آپ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور تکبیر کہنا شروع کر دیتے اور دوسرے صحابہ  بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے۔حدیث میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ صحابہ حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے تھے ۔

 اس اجمال کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

مسئلہ  اقامت کی شرعی حیثیت

یہ مسئلہ  تمام فقہا کے نزدیک استحباب  سے تعلق رکھتا ہے۔ 

درمختار میں ہے :(وَلَهَا آدَابٌ) تَرْكُهُ لَا يُوجِبُ إسَاءَةً وَلَا عِتَابًا كَتَرْكِ سُنَّةِ الزَّوَائِدِ، لَكِنَّ فِعْلَهُ أَفْضَلُ (نَظَرَهُ إلَى مَوْضِعِ سُجُودِهِ حَالَ قِيَامِهِ، وَإِلَى ظَهْرِ قَدَمَيْهِ حَالَ رُكُوعِهِ ...(وَالْقِيَامُ) لِإِمَامٍ وَمُؤْتَمٍّ (حِينَ قِيلَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ)[ الدر المختار  ،باب صفۃ الصلاة ]

نماز کے چند آداب ہیں ،جن کا ترک نہ ’’اساءت ‘‘ کا موجب ہے اور نہ کسی ’’عتاب ‘‘ کا۔ان آداب کا چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ’’سنن زوائد ‘‘ کا چھوڑ دینا ،لیکن ان کا کرنا افضل ہے ،جیسےنماز میں قیام کی حالت میں سجدہ گاہ پر نظر رکھنااور رکوع کی حالت میں قدم کی پشت کو دیکھنا ،وغیرہ...ان ہی آداب میں سے امام اور مقتدی کا حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا بھی ہے( جس کا ترک نہ تو اساءت ہے اور نہ موجب عتاب)۔

مولانا  امجد علی اعظمی نے بھی ’’بہار شریعت ‘‘ میں اس مسئلے کو مستحبات سے شمار کیا ہے ۔

 آپ فرماتے ہیں :’’جب مکبر حی علی الصلاۃ کہے تو امام و مقتدی سب کا کھڑا ہونا ... جب مکبر قد قامت الصلاۃ کہہ لے تو نماز شروع کر سکتا ہے ،مگر بہتر یہ ہے کہ اقامت پوری ہونے پر شروع کرے‘‘۔ [بہار شریعت ، جلد اول حصہ سوم ،ص:۵۳۸]

مولانا  موصوف نے مستحب کی تعریف یہ کی ہے:ہر وہ شئ جو نظر شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ نا پسندی نہ ہو، خواہ خود حضور اقدس ﷺ نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کرام نے پسند فرمایا،اگر چہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا ،اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقا ً کچھ نہیں۔ [بہار شریعت ،جلد اول ،حصہ دوم ،ص:۲۸۳]

خلاصہ یہ کہ صاحب در مختار کا اس مسئلہ کو سنن زوائد کی مثل بتا نا اور مولانا  امجد علی اعظمی کا اس کو مستحبات سے شمار کر کے ’’مستحب‘‘ کی تعریف میں یہ کہنا کہ ’’نظر شرع میں پسند ہو، مگر ترک پر کچھ نا پسندی نہ ہو...اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں‘‘ اس کی حیثیت اور نوعیت کو واضح کرتا ہے۔

مسئلہ اقامت : احادیث کی روشنی میں 

اس باب میں تین طرح کی روایتیں موجود ہیں:

 (۱) ابتدائے اقامت کے وقت کھڑے ہونا

(۲) وسط اقامت یعنی قد قامت الصلاۃ کے وقت کھڑے ہونا

(۳) اقامت کےوقت کھڑے ہونے کا کوئی متعین وقت مقرر نہیں

ذیل میں ان تمام  روایات کو نقل کیا جاتا ہے جن سے یہ مذکورہ تینوں مسئلے مستنبط ہوتے ہیں۔ 

حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں:

 أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَقُمْنَا، فَعَدَّلْنَا الصُّفُوفَ، قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ فَأَتَى رَسُولُ اللهِ ﷺ حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ، ذَكَرَ فَانْصَرَفَ، وَقَالَ لَنَا: مَكَانَكُمْ، فَلَمْ نَزَلْ قِيَامًا نَنْتَظِرُهُ حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا، وَقَدِ اغْتَسَلَ يَنْطُفُ رَأْسُهُ مَاءً، فَكَبَّرَ فَصَلَّى بِنَا. [صحیح مسلم ،كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب متى يقوم الناس للصلاة،ح:۶۰۵ ]

نمازکی اقامت کہی گئی اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہوکر صفیں برابر کرنی شروع کردیں۔ آپ ﷺ تشریف لائےاور اپنے مصلے پر کھڑے ہوگئے ،تکبیر( تحریمہ)  کہنے سے پہلے آپ کو غسل کرنا یاد آیا ،آپ لوٹ گئےاور ہم سے فرمایا: اپنی اپنی جگہ لیے رہو،ہم آپ ﷺ کے انتظار میں کھڑے رہے ،حتی کہ آپ تشریف لائے۔ اس وقت آپ کے سر اقدس سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ،پھر آپ نے تکبیر کہہ کر ہم کو نماز پڑھائی ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور  کے آنے سے قبل ہی اقامت کہہ دی گئی تھی اور صحابہ کھڑے ہوکراپنی صفوں میں جگہ لے چکے تھے۔ 

امام بزار اپنی ’’مسند‘‘ میں،  امام ہیثمی ’’مجمع الزوائد‘‘ میں سیدنا عبداﷲ بن ابی اوفی   سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَالَ بِلَالٌ:قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ نَهَضَ فَكَبَّرَ[مجمع الزوائد ،کتاب الصلاۃ،باب ما يفعل اذا اقيمت ...ح:۱۹۲۰) مسندالبزار،ح:۳۳۷۱]

جب حضرت بلال  اقامت میں ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کہنے لگتے تو حضورﷺ اٹھ کھڑے ہوتے ۔پھر اﷲ اکبر کہتے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور تکبیر کہتے تھے۔

صحیح مسلم ہی کی ایک روایت یہ بھی ہے، حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں:

إنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ تُقَامُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ ، فَيَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّهُمْ، قَبْلَ أَنْ يَقُومَ النَّبِيُّ ﷺ مَقَامَهُ[صحیح مسلم ،كتاب المساجد ،ح:۶۰۵ ] 

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اقامت آپ کے آنے کے بعد کہی جاتی تھی۔

 ترمذی کی حدیث ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ  بیان کرتے ہیں : 

كَانَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُمْهِلُ فَلَا يُقِيمُ، حَتَّى إِذَا رَأَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ أَقَامَ الصَّلَاةَ حِينَ يَرَاهُ[سنن الترمذی ،ابواب الصلاۃ،باب ما جاء ان الامام احق بالاقامۃ،ح:۲۰۲ ]

مکبر تکبیر کہنے میں تاخیر کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے جب تک آپ  کو دیکھ نہ لیتے جب دیکھتے پھروہ  اقامت کہتے۔

صحیح بخاری میں ہے،حضرت ابو قتادہ  فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي[صحيح البخاری،کتاب الاذان،باب: متى يقوم الناس، اذا رأوا الامام عند الاقامۃ،ح:۶۳۷ ]

جب اقامت کہی جائے تو اس وقت تک مت کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو ۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کو دیکھنے سے پہلے کھڑا ہونا منع ہے اور آپ کو دیکھتے ہی کھڑا ہوجانا ہے،خواہ تکبیر شروع ہوتے ہی حضور کو دیکھ لیا جائے یا حی علی الصلاۃ یاحی علی الفلاح یا ختم تکبیر پر حضور کو دیکھا جائے،ہر صورت میں کھڑا ہوناجائز ہے۔

ان احادیث میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے، اس تضاد کوامام نووی، ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی نے ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

امام محی الدین نووی (۶۷۶ھ)لکھتے ہیں:

يُجْمَع بَيْن مُخْتَلَف هَذِهِ الْأَحَادِيث بِأَنَّ بِلَالًا -كَانَ يُرَاقِبُ خُرُوجَ النَّبِيّ ﷺ مِنْ حَيْثُ لَا يَرَاهُ غَيْره أَوْ إِلَّا الْقَلِيل ، فَعِنْد أَوَّل خُرُوجه يُقِيم ، وَلَا يَقُوم النَّاس حَتَّى يَرَوْهُ ، ثُمَّ لَا يَقُوم مَقَامه حَتَّى يَعْدِلُوا الصُّفُوف . وَقَوْله فِي رِوَايَة أَبِي هُرَيْرَة:( فَيَأْخُذ النَّاس مَصَافّهمْ قَبْل خُرُوجه ) . لَعَلَّهُ كَانَ مَرَّة أَوْ مَرَّتَيْنِ ، وَنَحْوهمَا ، لِبَيَانِ الْجَوَاز أَوْ لِعُذْرٍ ، وَلَعَلَّ قَوْله ﷺ ( فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي ) كَانَ بَعْد ذَلِكَ ، قَالَ الْعُلَمَاء : وَالنَّهْي عَنْ الْقِيَام قَبْل أَنْ يَرَوْهُ لِئَلَّا يَطُول عَلَيْهِمْ الْقِيَام ، وَلِأَنَّهُ قَدْ يَعْرِض لَهُ عَارِض فَيَتَأَخَّر بِسَبَبِهِ .[ شرح النووی على مسلم، کتاب الصلاۃ، باب متى يقوم الناس للصلاة (۵/۱۰۳]

ان تمام مختلف احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی آمد پر نظر گڑائے رہتےتھے ،اس لیے صرف حضرت بلال یا ان کے علاوہ کچھ لوگ ہی آپ ﷺ کو نکلتے دیکھ پاتے تھے۔ آپ ﷺ کے نکلتے ہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اقامت شروع کر دیتے تھے اور صحابہ بھی آپﷺ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوجاتے تھے، پھرحضور ﷺ پہلے صفیں درست کراتے اور اس کے بعد اپنے مصلے پر تشریف لے جاتے۔ اور حضرت ابو ہریرہ  کی روایت میں جو یہ ہے کہ لوگ حضور ﷺ کے نکلنے سے پہلے ہی اپنی اپنی صفوں میں جگہ لے لیتےتھے،تو ہوسکتا ہے کہ یہ ایک یا دو مرتبہ کا واقعہ ہو، یا بیان جواز کے لیے ہویا کسی عذر کی بنا پر ایسا ہو۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ’’ مت کھڑے ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو‘‘ اس واقعہ کے بعد کا ہو۔ علما نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کو دیکھنے سے پہلے کھڑے ہونے کی ممانعت اس لیے تھی تا کہ لوگوں پر قیام طویل نہ ہو جائے اور اس لیے بھی کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو کوئی عارضہ پیش آجائےجس کی وجہ سے نکلے میں تاخیر ہو جائے۔

 علامہ بدر الدین عینی حنفی (۸۵۵ھ)نے بھی عمدة القاری  (۸/۲۱۲)میں یہی توضیح و تطبیق ان ہی الفاظ سے فرمائی ہے ۔

علامہ ابن حجر عسقلانی’’فتح الباری‘‘ میں ایک واضح توضیح اس طرح لکھتے ہیں:

لَا تَقُومُوا: نَهْيٌ عَنْ الْقِيَام، وَقَوْله:"حَتَّى تَرَوْنِي" تَسْوِيغٌ لِلْقِيَامِ عِنْدَ الرُّؤْيَة، وَهُوَ مُطْلَقٌ غَيْرُ مُقَيَّدٍ بِشَيْءٍ مِنْ أَلْفَاظ الْإِقَامَة. [فتح الباری ،ابن حجر (۲/۱۱۹ ]

لاتقوموا کے ذریعہ قیام سے منع کیا گیا ہے، جب کہ دیکھنے کے بعد قیام کی اجازت دی گئی ہے اور یہ اجازت مطلق ہے، اقامت کے کسی مخصوص کلمہ پر اس حکم کو مقید نہیں کیا گیا ہے ۔

مذکورہ بالا احادیث کریمہ اورمحدثین کی تشریحات سےیہ بات واضح ہوگئی کہ دین میں اقامت کے وقت کھڑے ہونے کاکوئی متعین وقت مقرر نہیں ہے اور نہ ہی کلمات اقامت میں سے کسی کلمےکی ایسی تحدید کی گئی ہے کہ اس کلمے پر ہی کھڑا ہونا ضروری ہے،البتہ بعض دفعہ صحابہ کرام حضورﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنی اپنی صفیں درست کرلیں تو اس کاجواب محدثین نے یہ دیا ہے کہ یہ جواز کی صورت ہے یا کسی عذر کی بنا پر ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبھی کبھی ایسابھی کر سکتے ہیں ۔ 

مذکورہ بالااحادیث و تشریحات سے یہ بھی واضح ہوا کہ عہد رسالت میں اذان کا وقت متعین تھا،اقامت کا وقت متعین نہیں تھا،اقامت اس وقت ہوتی جب سرکار علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آتے ۔آپ کو دیکھ کر ہی حضرت بلال اقامت شروع کرتےاور آپ کو دیکھنے کے بعد ہی صحابہ کھڑے ہوتے اور حضرت بلال کےدیکھنے اور صحابہ کےدیکھنے میں کتنے لمحات کا فاصلہ ہوتا ہوگا،اس کا تصور کیا جاسکتا ہے اور اسی سے مکبر اور مقتدیوں کے کھڑے ہونے کا مسنون وقت بھی معلوم کیا جاسکتا ہے، اصل سنت اور دائمی سنت یہی ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ وقتی یا کسی علت کے سبب ہے ۔ اور یہ بھی ذہن نشیں رہنا چاہیےکہ سرکار علیہ السلام حجرے میں ہوتے ،مسجد میں نہ ہوتے ۔آپ کا معمول یہی تھا۔اقامت کے وقت کھڑے ہونے کے سلسلے میں فقہا کی جزئیات اورتفریعات دیکھنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی جو یہ اصل سنت اور معمول ہے وہ ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہونا چاہیے۔ 

مذکورہ روایات کی روشنی میں یہ بھی واضح ہوتا ہےکہ حدیث میں ابتدا سے کھڑے ہونے کی ممانعت صرف اس صورت میں ہےجب امام مسجد میں نہ ہو اور مقتدی امام کے انتظار میں کھڑے ہوجائیں، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا کہ صحابہ کرام حضور کے آنےسے پہلے ہی کھڑے ہوجاتے تھےتو آپ نے فرمایا کہ جب تک مجھے دیکھ نہ لو اس وقت تک کھڑے مت ہوا کرو۔اس ممانعت کی وجہ محدثین یہ بتاتے ہیں کہ تا کہ ان کو دیر تک کھڑے ہونے کی مشقت نہ اٹھانی پڑے ،گویا یہ منعِ تکریم وتسہیل ہوا نہ کہ منع تحریم، یعنی ایسا نہیں کہ صحابہ کوئی ناجائزو حرام کام کرتے تھےجس سے آپ نے روکا بلکہ وہ یک گونا مشقت میں پڑ رہے تھے،اس لیےرحمت عالم ﷺ نے از راہ شفقت منع فرمادیا ۔

 خلاصہ یہ کہ حدیث کی روسے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مقتدی کا امام کے انتظار میں کھڑاہونا منع ہے ، وہ بھی اس لیے تاکہ اسے دیر تک انتظار کی مشقت نہ اُٹھانی پڑے ، وہ بھی منع حرمت کے لیے نہیں بلکہ منع تیسیر و تسہیل کے لیے ہے،اس کے علاوہ کسی اور صورت میں مقتدیوں کے لیے کھڑے ہونےکی ممانعت حدیث میں مذکور نہیں، بلکہ صحابہ کرام کی محبت اور بارگاہ نبوی کے آداب کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ابتداے اقامت میں کھڑا ہونا ہی اولیٰ ہے ۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں یہ صراحت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’لاتقوموا حتی ترونی ‘‘مجھے دیکھنے سے قبل کھڑا مت ہوا کرو۔اب سوال ہے کہ صحابہ کا عام معمول اقامت کہنے کا کیا رہاہوگا۔بعض روایتیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ آپ ﷺ کے نکلنے سے پہلے ہی صحابہ اقامت کہہ دیتے اور کھڑے بھی ہو جایا کرتے لیکن شارحین حدیث نے فرمایا کہ ایسا ایک دو دفعہ ہوا ہوگا،عام معمول یہ تھا کہ حضرت بلال نبی کریم ﷺ کی آمد پر نظر گڑائے رہتے تھے اور جوں ہی آپ کی آمد کی آہٹ محسوس کرتے تکبیر شروع کر دیتے، غالباً حجر ۂ اقدس جو مسجد سے متصل تھااس کا پردہ جوں ہی ہلتاہوگایا اور کسی طرح سےحضرت بلال محسوس کرتے ہوں گے کہ سرکار نکل رہے ہیں فوراً اقامت شروع کردیتے رہےہوں گے ،سرکار جوں ہی مسجد میں قدم رکھتے سارے صحابہ کھڑے ہوجاتے، اس عمل میں حضرت بلال اور دوسرے صحابہ کے کھڑے ہونے میں بمشکل چند ثانیے کا فرق ہوتا ہوگا۔ یہ نہیں کہ حضور آکر کھڑے رہتےہوں گے اور صحابہ بیٹھے رہتے ہوں گے،اور حی علی الصلاۃ یا قد قامت الصلاۃ پر سب کھڑے ہوتے ہوں گے۔ روایتوں پر نظر کرنے سے یہی واضح ہوتاہے کہ سرکار کو دیکھتے ہی سب کھڑے ہو جاتے، سرکار صفوں کو درست کراتے اور جب صفیں سیدھی ہوجاتیں ،تب اپنے مصلی پر پہنچتے اور نماز شروع کرتے۔ یہاں یہ گمان غلط اوراحترام رسالت کے منافی ہے کہ مذکورہ روایتوں کو رد کرتے ہوئے کوئی یہ کہے کہ صحابہ حضور کے نکلنے سے پہلے از خود اقامت شروع کردیتے اور حضورﷺ حی علی الصلاۃ پر باہر آتے ؛کیوں کہ نبی کریم ﷺ کے آنے سے پہلے تکبیر کہنا ایک طرح سےنبی دو جہاں ﷺکو گھر سے باہر نکلنے کےلیےآواز دینا ہےجس کی صحابہ سے توقع نہیں کی جاسکتی ،یہ قرآن کے مطابق آداب بارگاہ نبوی کے خلاف ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ،وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (الحجرات:۴،۵)

جو لوگ آپ کو گھر کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ عقل نہیں رکھتے ۔ اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ﷺخود ہی باہر تشریف لے آتے تویہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا،اللہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس کی مزید تائید ان روایتوں سے بھی ہوتی ہےجن کے مطابق کبھی کبھی صحابہ انتظار کرکے تھک جاتے، یہاں تک کہ بعض سونے لگتے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا:

أَخَّرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ صَلَاةَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى المسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ، قَالَ:” أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الْأَدْيَانِ أَحَدٌ يَذْكُرُ اللهَ هَذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ “[مسند احمد،ح:۳۷۶۰(۶/۳۰۴]

ایک روز آپ ﷺ نے عشا کی نماز مؤخر فرمادی ،پھر جب آپ مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ نماز کا انتظار کر رہے ہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا :دین ِخدا کو ماننے والوں میں سے کوئی اس وقت تمہارے علاوہ اللہ کو یادنہیں کر رہا ہے ۔

لہٰذاجن حدیثوں میں یہ آیاہے کہ مکبر نے حی علی الصلاۃ کہا اس وقت آپ ﷺ نماز کے لیے آئے، یہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے جو ترمذی کے حوالے سے گزری ، صحابہ کے ادب کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے منشا کے بھی خلاف ہے ، محدثین نے اس کی توضیح بھی کردی کہ ایسا ایک یا دو بار ہوا ہوگا،یہاں یہ بات بھی سراسر وسوسہ ہے اگر کوئی یہ سوچےکہ آپ خود سے حجرہ سے نکل کر مسجد میں آکرمصلی پر بیٹھ جاتے اور پھر حی علی الصلاۃ پر کھڑے ہوتے تھےکیوں کہ یہ آپ سے نہ ثابت ہے اور نہ عقلاً بیٹھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے ۔صحیح روایتیں اس وسوسے کی تکذیب کرتی ہیں، اس لیے یہ وسوسہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ 

بعض لوگ یہ بھی احتمال نکالتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنے حجرۂ مبارکہ سے نکلتے اور تکبیر شروع ہوجاتی لیکن صحابہ کرام حضور ﷺ کو حی علی الفلاح کے وقت دیکھتے تھے،پھر کھڑے ہوتے تھے ،اس لیے مقتدی کوحی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہونا چاہیے۔

یہ احتمال صحیح حدیث کے بالکل خلاف ہے ،بخاری میں ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ فرماتے ہیں:

إِنَّ المُسْلِمِينَ بَيْنَا هُمْ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ مِنْ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي لَهُمْ، لَمْ يَفْجَأْهُمْ إِلَّا رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَشَفَ سِتْرَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ فِي صُفُوفِ الصَّلاَةِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقَالَ أَنَسٌ : وَهَمَّ المُسْلِمُونَ أَنْ يَفْتَتِنُوا فِي صَلاَتِهِمْ، فَرَحًا بِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ ثُمَّ دَخَلَ الحُجْرَةَ وَأَرْخَى السِّتْرَ.[ صحيح البخاری ،کتاب المغازی ،باب مرض النبی صلی الله علیہ وسلم ووفاتہ،ح : ۴۴۴۸ ]

یعنی پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے۔ آپ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا پردہ اٹھا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ رہے تھے۔ صحابہ رضی ا للہ عنہم نماز میں صف باندھے کھڑے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر ہنس پڑے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تاکہ صف میں آ جائیں۔ آپ نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، قریب تھا کہ مسلمان اس خوشی کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انہیں ہوئی تھی وہ اپنی نماز توڑدیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو، پھر آپ حجرہ کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ ڈال لیا۔

اس حدیث میں غور کریں کہ حضور نے صرف پردہ ہٹایا تو تمام صحابہ  نے آپ کو دیکھ لیا،جب کہ اس وقت وہ حالت نماز میں تھے لہٰذا جب وہ آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوں ، اس وقت  وہ آپ کو حجرہ سے نکلنے کے بعد حی علی الفلاح پر دیکھتے تھے، یہ فہم سے بالا ہے۔

اور حدیث ابن ابی اوفی  رضی اللہ عنہ سے جو قد قامت الصلاۃ کے وقت کھڑے ہونے  پر استدلال کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ اس کے اندر بہت زیادہ ضعف ہے ،امام نووی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :

أَمَّا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي أَوْفَى فَضَعِيفٌ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ لَا يَرْوِيهِ إلَّا حَجَّاجُ بْنُ فَرُّوخَ وَكَانَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ يُضَعِّفُهُ: قُلْتُ اتَّفَقُوا عَلَى جَرْحِ الْحَجَّاجِ هَذَا فَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنْ يَحْيَى بن معين ليس هو بشئ وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ هُوَ شَيْخٌ مَجْهُولٌ وَقَالَ النسائي ضعيف وقال الدارقطني متروك وهذه أوضح الْعِبَارَاتِ عِنْدَهُمْ وَفِي الْحَدِيثِ ضَعْفٌ مِنْ جِهَةٍ أخرى وهى أن ابن العوام بن حوشب لم يدرك بن أَبِي أَوْفَى كَذَا قَالَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَغَيْرُهُ وَلَمْ يَسْمَعْ أَحَدًا مِنْ الصَّحَابَةِ وَإِنَّمَا رِوَايَتُهُ عَنْ التَّابِعِينَ[المجموع ،کتاب الصلاۃ،باب صفۃالصلاۃ(۳ / ۲۵۴ ]

’’ ابن ابی اوفی کی حدیث ضعیف ہے ،بیہقی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو صرف حجاج بن فروخ نے روایت کیا ہے،یحیی بن معین اس کی تضعیف کرتے تھے،امام نووی فرماتے ہیں : حجاج بن فروخ کی جرح پر سب لوگ متفق ہیں،ابن ابی حاتم نے یحیی ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ حجاج بن فروخ کو ’’ ليس هو بشيء ‘‘ کہتے تھے،ابو حاتم نےکہا کہ وہ شیخِ مجہول ہیں، نسائی نے ضعیف کہا،دارقطنی نے متروک کہا، امام نووی فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں محدثین کی یہ واضح عبارتیں ہیں ،اور اس حدیث میں ایک دوسری جہت سے بھی ضعف ہے، وہ یہ ہے کہ عوام ابن حوشب کی ملاقات ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ  ابن حوشب کا سماع کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے،ان کی ساری روایتیں صرف تابعین سے ہیں۔

اور حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا:حَجَّاجِ بْنِ فَرُّوخَ وَهُوَ ضَعِيفٌ جِدًّا [مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،باب ما يفعل اذا اقيمت الصلاۃ(۲ / ۵ ] حجاج بن فروخ کے اندر بہت زیادہ ضعف ہے ۔اور فیض القدیر میں ہے : 

وقال الذهبي في المهذب: فيه حجاج بن فروخ واه والحديث لم يصح [  فیض القدیر (۵ / ۱۵۳ )

امام ذہبی نے کہا کہ اس حدیث میں حجاج بن فروخ ہے، انتہائی ضعیف ہےاور حدیث صحیح نہیں ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ  علی سبیل التنزل اگر اس حدیث کو لائق حجت مان بھی لیں تو بھی یہ حدیث ہمارے موقف کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ’’ ابتدا ‘‘سے کھڑےہونے کا استحباب شروع ہوتا ہے اور’’ قدقامت الصلاۃ ‘‘تک باقی رہتا ہے ،اس کے بعد استحباب باقی نہیں رہتا، اور پھر نماز کے لیے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے،اور مذکورہ حدیث میں آپ ﷺکا قد قامت الصلاۃ پر کھڑےہونا استحباب کے اندر ہی تھا ،لہٰذا یہ حدیث ہمارےمعارض نہیں ، اور اس لیے بھی معارض نہیں ہے کہ اس حدیث میں ابتدا سے کھڑے ہونے کی کراہت کا ثبوت نہیں ہے جبکہ محل اختلاف یہی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ابتدا سے کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے اور ہمارے بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ابتدا سے کھڑا ہونامکروہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضور ﷺ اپنے حجرۂ مبارکہ سے مسجد میں تشریف لاتے تھے اور آپ کے تشریف لانے کے بعد اقامت ہوتی تھی ،آپ بیٹھتے نہیں تھے بلکہ کھڑے رہتے اور مصلے پر جاتے اور نماز شروع کرتے تھے۔ اس لیے تمام فقہا نے یہ لکھا ہے کہ امام اگر مسجد میں آئے تو اس کو دیکھ کر سب لوگ کھڑے ہوجائیں،اور امام مصلے پر جاکر نماز شروع کرے ،کسی نے بیٹھنے کا حکم نہیں دیا ہے ،پھر کیا وجہ ہے کہ امام اگر مسجد میں پہلے سے موجود ہو اور تکبیر شروع ہوجائے تو کھڑے نہیں ہوسکتے،  بلکہ حی علی الصلاۃ / الفلاح کا انتظار کرنا ہوگا اور اگر اس سے پہلے کھڑے ہوگئے تو مکروہ ہوجائے گا !

پھر حدیثِ ابن ابی اوفی آپ کے لیے بھی مستدل نہیں کہ اس میں قد قامت الصلاۃ پر کھڑے ہونے کا ذکر ہے اور آپ حی علی الصلاۃ / الفلاح کے قائل ہیں،جب کہ ہم اس پر عامل ہیں اور اسے انتہائے استحباب پر محمول کرتے ہیں، مسئلہ آپ کے لیے ہے کہ وہی،  آپ کے لیے ابتدائے استحباب بھی ہے اور انتہائے استحباب بھی۔

مسئلہ اقامت اور صحابہ و تابعین کا عمل

اس سلسلے میں صحابہ اور تابعین سے دو طرح کی روایتیں سامنے آتی ہیں :

(۱)قد قامت الصلاۃپر کھڑےہونے کا استحباب

(۲ )ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے کا وجوب

قد قامت الصلاۃپر کھڑے ہونے کا استحباب:

حضرت ابن المبارک حضرت ابو یعلی سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ إِذَا قِيلَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قام فوثب[ابن عبد البر،الاستذکار ،کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی النداء للصلاۃ(۱ / ۳۹۱ ]

 میں نے حضرت انس کو دیکھا کہ جب قد قامت الصلاۃکہا گیا تو آپ فورًا کھڑے ہوگئے۔ 

 امام عبدالرزاق اپنی سند سےامام حسین  کے بارے میں نقل کرتے ہیں:

أَقَامَ الْمُؤَذِّن بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَامَ حُسَيْنٌ [مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب قيام الناس عند الاقامۃ،ح:۱۹۳۷]

 مؤذن نے نماز کے لیے اقامت کہی تو جب وہ قد قامت الصلاۃ کہنے لگا تو حضرت امام حسین  کھڑے ہوگئے۔

امام عبدالرزاق لکھتے ہیں:

عَنْ عَطِيَّةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَلَمَّا أَخَذَ الْمُؤَذِّنُ فِي الْإِقَامَةِ قُمْنَا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: ” اجْلِسُوا فَإِذَا قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ فَقُوْمُوا “[مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب قيام الناس عند الاقامۃ،ح:۱۹۴۰]

 حضرت عطیہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبداﷲا بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے، جب موذن نے اقامت کہنا شروع کیا،تو ہم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، حضرت عبداﷲا بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ ، جب موذن قد قامت الصلاۃ کہنے لگے تب کھڑے ہونا ۔

ان روایات سے حضرت انس ،حضرت امام حسین اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا پسندیدہ عمل قد قامت الصلاۃ پر کھڑا ہونا معلوم ہوتا ہے،  لیکن ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے کی ممانعت صرف حضرت ابن عمر کی روایت سے سمجھ میں آتی ہے ، تو یہ اس صورت پر محمول ہے جب امام مسجد میں موجودنہ ہو ،کیوں کہ حضور ﷺ نے امام کی عدم موجودگی میں کھڑے ہونے سے منع فرمایاتھا، ورنہ اصلاًاس کی ممانعت شرع سے ثابت نہیں ہے۔بلکہ اقامت کے وقت جلدی کھڑا ہونایہ تعجیل من الصلاۃ کی قبیل سے ہے اورتعجیل من الصلاۃ سے روکنا شرع میں غیر معقول ہے ۔اور مقدم الذکر دونوں نفوس قدسیہ حضرت انس ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما سے کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ آپ دونوں ابتدا میں کھڑے ہونےکی کراہت کے قائل تھےاور نہ کوئی ایسی روایت ملتی ہےکہ جس میں یہ ہو کہ آپ دونوں ابتدامیں کھڑے نہیں ہوتے تھےبلکہ صرف روایتوں میں یہ ملتا ہے کہ آپ دونوں’’قدقامت الصلاة‘‘ کے وقت کھڑے ہوتے تھے۔اس سےصرف زیادہ سے زیادہ ’’قدقامت الصلاة‘‘ کے وقت کھڑے ہونے کا استحباب ثابت ہوگا ،اور اس کے ہم بھی قائل ہیں کہ کھڑے ہونے کا استحباب ابتدا سے لے کر ’’قدقامت الصلاة‘‘ تک رہتاہے،لہٰذا اس درمیان میں جب بھی کھڑا ہوا جائے استحباب ہی پر عمل ہوگا ۔ہاں! اس سے زیادہ تاخیر کرنے سے استحباب ختم ہوجائےگا۔  

اگر آپ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس روایت میں ’’قام فوثب ‘‘ کے الفاظ ہیں جس کے معنی کودنا،اچھلنا،چھلانگ لگانا  کے ہوتے ہیں،اب معنی یہ  ہوگا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بڑی  تیزی کے ساتھ کھڑے ہوئے۔[لسان العرب:۱ / ۷۹۲ ]

آپ تیزی کے ساتھ اسی لیے کھڑے ہوئے کہ اب اس سے زیادہ تاخیر کرنا مناسب نہیں تھا،کیوں کہ اگرکھڑےہونےکا استحباب قدقامت الصلاۃ کےبعد ہی شروع ہوتا تو پھر تیزی کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ 

اسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب مؤذن نے قدقامت الصلاۃ کہا توآپ کھڑے ہوگئے،آپ سے عرض کیاگیاکہ  بیٹھ جائیں،تاکہ لوگ صف لگالیں،توآپ نےدوبارارشاد فرمایا:’’نماز قائم ہوچکی ہے ،نماز قائم ہو چکی ہے‘‘

 [فَلَمَّا قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَامَ حُسَيْنٌ، وَذَلِكَ بَعْدَ وَفَاةِ مُعَاوِيَةَ، وَأَهْلُ مَكَّةَ لَا إِمَامَ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: اجْلِسْ حَتَّى يَصُفَّ النَّاسُ فَيَقُولُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ-فی روایة-مَرَّتَيْنِ۔مصنف عبد الرزاق(۱ /۵۰۵ )] 

اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ نماز قائم ہو چکی ہے،اب اس کے بعد بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔اور یہی میری رائے ہے کہ قدقامت الصلاۃ کے بعد بیٹھے رہنامناسب نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں نے جو آپ کو بیٹھنے کے لیےکہا تھا تو وہ ترحماً تھا کہ جب تک لوگ صفیں درست نہیں کیے ہوئے ہیں تب تک آپ بیٹھ جائیں تاکہ سب لوگ صفیں درست کر لیں ،کیوں کہ جب تک صفیں درست نہ ہوں گی تب تک جماعت شروع نہ ہوگی تو اس سے پہلے کھڑا ہونا گویا کہ مشقت اٹھانا ہے ،اس لیے لوگوں نے چاہا کہ آپ یہ مشقت نہ اٹھائیں،لوگوں کے روکنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا منع ہے، اس لیے آپ بیٹھ جائیں، لیکن آپ نے لوگوں کی بات یہ کہہ کر رد کردی کہ نماز قائم ہو چکی ہے، اب اس سے زیادہ بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔ 

ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے کا وجوب:

 امام ابن عبد البرکی ’’الاستذکار‘‘ میں ہے،حضرت عمر بن مہاجر  فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : 

إِذَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ بِالْإِقَامَةِ فَكُنْ أَوَّلَ مَنْ أَجَابَ[ ابن عبد البر/الاستذکار،كتاب الصلاة،باب ما جاء في النداء للصلاة(۱ /۳۹۱ ]

جب تم اقامت کی ندا سنو تو سب سے پہلے اس کی بجاآوری کرنے والے بنو۔

علامہ محمد بن ابراهيم بن منذرنيشاپوري (۲۴۲-۳۱۹ ھ)جو ایک زبر دست مجتہد اور فقیہ ہیں،آپ کی متعددمایہ ناز تصانیف ہیں، ان ہی میں سے ایک ’’الاوسط في السنن والاجماع والاختلاف ‘‘ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں:

 وَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ، وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبُو قِلَابَةَ، وَعِرَاكُ بْنُ مَالِكٍ، وَالزُّهْرِيُّ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ الْمُحَارِبِيُّ يَقُومُونَ إِلَى الصَّلَاةِ فِي أَوَّلِ بَدْئِهِ مِنَ الْإِقَامَةِ. وَبِهِ قَالَ عَطَاءٌ وَهُوَ مَذْهَبُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ إِذَا كَانَ الْإِمَامُ فِي الْمَسْجِدِ. [الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف ،کتاب الامامۃ(۴/۱۶۶، ح: ۱۹۵۸]

یعنی عمر بن عبد العزیز،سالم بن عبد اللہ،ابو قلابہ ،عراک بن مالک غفاری ،محمد بن کعب قرظی اور امام زہری اقامت شروع ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ یہی امام عطا بن یسار، احمد بن حنبل اوراسحاق بن راھویہ کا مذہب ہےاور یہ اس صورت میں ہے جب امام مسجد میں موجود ہو ۔

ابن حجر عسقلانی نے’’فتح الباری ‘‘ میں، بدر الدین عینی حنفی نے ’’عمدۃ القاری‘‘ میں، ابن عبد البرنے ’’الاستذکار ‘‘ میں ،قاضی عیاض نے ’’اکمال المعلم بفوائد المسلم‘‘ میں اور ابن ملقن نے ’’التوضیح لشرح الجامع الصحیح‘‘ میں حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہماکا یہ مذ ہب بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں: 

إِذَا قَالَ المُؤَذِّنُ اللهُ أَكْبَرُ وَجَبَ الْقِيَامُ وَإِذَا قَالَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ عُدِّلَتِ الصُّفُوفُ وَإِذَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ كَبَّرَ الْإِمَامُ.[ فتح الباری(۲/۴۵۱) عمدة القاری(۸/۲۱۱)الاستذكار(۱/۳۹۱)اكمال المعلم (۲/۵۵۷) التوضيح لشرح الجامع الصحيح(۶/۴۰۸]

جب مکبر ’’اللہ اکبر‘‘ کہے اس وقت نماز کے لیے کھڑا ہونا واجب ہے اور جب حی علی الصلاۃ کہے ،اس وقت صفیں درست کرلی جائیں اور جب ’’لاالہ الا اللہ کہے ‘‘ اس وقت امام نماز کے لیے تکبیر کہہ دے ۔

ان تمام روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں صحابہ اور تابعین کا عمل مختلف ہے ،بعض افراد کا معمول قدقامت الصلاۃ پر کھڑے ہونے کا ہے جب کہ بہت سے حضرات کا معمول ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے کا ہے اور بقول حضرت سعید بن مسیب اور عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہما، ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا واجب ہے ۔

مذکورہ بالا روایات و تشریحات کی روشنی میں ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ شروع میں کھڑے ہونے کی کراہیت امام کے انتظار کے ساتھ مشروط ہے ۔یعنی امام موجود نہیں ہے اور مقتدی کھڑے ہوکر انتظار کریں ،یہ مکروہ ہے ،کیوں کہ اس عمل میں خواہ مخواہ مشقت اور تکلف ہے جو دین کی سادگی کے خلاف ہے ۔البتہ ایک طبقہ وہ ہے جو شروع میں کھڑے ہونے کے استحباب کا قائل یا کم از کم عامل ہے اور ایک طبقہ قد قامت الصلاۃ پر کھڑے ہونے کو مستحب سمجھتا ہے ۔ان دونوں میں سے کسی پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے ۔البتہ قد قامت الصلاۃ پر کھڑے ہونے میں ایک اشکال یہ ہے کہ اس صورت میں عمل بالاستحباب تو ہو جائے گا جو ایک گروہ کا مذہب ہے لیکن ایک دوسرے گروہ کے مطابق جو شروع میں کھڑے ہونے کو واجب کہتا ہے، اس صورت میں ترک وجوب لازم آئےگا ۔ اس لیے جمع و تطبیق اور رفع خلاف کا سب سے اعلی طریقہ یہی ہے کہ شروع میں کھڑا ہوا جائے۔صوفیہ کا مذہب احتیاط ہے اور احتیاط اسی صورت میں ہے کیوں کہ اس صورت میں صرف ایک مذہب کے مطابق ترک استحباب لازم آئےگا اور دوسری صورت میں ایک مذہب کے مطابق ترک وجوب لازم آئے گا اور ترک استحباب ترک وجوب سے اولیٰ و اعلی ہے ۔

مسئلۂ اقامت میں مذاہب اربعہ کا موقف

اقامت کے وقت کھڑے ہونے کے سلسلے میں حضور رسالت مآب، صحابہ اور تابعین کے معمولات کے حوالے سے مختلف روایات اور ان میں تطبیق وترجیح کے بعداب اس مسئلے میں  ائمہ مجتہدین اور مذاہب اربعہ کا مذہب  درج ذیل ہے: 

امام مالک کا مذہب:

’’مؤطا ‘‘میں ہے کہ امام مالک سے اقامت کے وقت کھڑے ہونےکے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا :

وَأَمَّاقِيَامُ النَّاسِ،حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ،فَإِنِّي لَمْ أَسْمَعْ فِي ذَلِكَ بِحَدٍّ يُقَامُ لَهُ،إِلَّا أَنِّي أَرَى ذَلِكَ عَلَى قَدْرِ طَاقَةِ النَّاسِ،فَإِنَّ مِنْهُمُ الثَّقِيلَ وَالْخَفِيفَ،وَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَكُونُوا كَرَجُلٍ وَاحِدٍ]مؤطا مالك،کتاب الصلاۃباب ما جاء فی  النداء (۱/۷۰ [

اقامت کے وقت کھڑے ہونےکی حد کیا ہے ؟اس سلسلے میں میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جس کی روشنی میں اس کی کوئی متعین حد مقرر کی جائے۔البتہ میرے نزدیک یہ مسئلہ لوگوں کی استطاعت پر موقوف ہے ،کیوں کہ بعض لوگ بھاری جسم کے ہوتے ہیں اور بعض ہلکے جسم کے ہوتے ہیں ،سب لوگ ایک ہی طرح کے نہیں ہو تے،اس لیے سب ایک ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ 

امام شافعی کا مذہب: 

اما م محی الدین نووی شافعی لکھتے ہیں:

مَذْهَب الشَّافِعِيّ–رَحِمَهُ الله تَعَالَى-وَطَائِفَة:أَنَّهُ يُسْتَحَبّ أَلَّا يَقُوم أَحَد حَتَّى يَفْرُغ الْمُؤَذِّن مِنْ الْإِقَامَة]شرح النووی على مسلم،كتاب المساجد ومواضع الصلاة،باب متى يقوم الناس للصلاة(۵ /۱۰۳[

 امام شافعی اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اقامت سے فراغت کے بعد کھڑا ہونا مستحب ہے۔

 اس سلسلے میں امام شافعی کا دوسرا قول بھی ہے جس کو امام ابن عبد البر نے ’’تمہید‘‘ میں بیان کیا ہے، آپ فرماتے ہیں :

وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَدَاوُدُ الْبِدَارُ فِي الْقِيَامِ إِلَى الصَّلَاةِ أَوْلَى فِي أَوَّلِ أَخْذِ الْمُؤَذِّنِ فِي الْإِقَامَةِ لِأَنَّهُ بِدَارٌ إِلَى فِعْلِ بِرٍّ وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ شَيْءٌ مَحْدُودٌ عِنْدَهُمْ. ]التمہید،حرف میم،تابع لمحمد بن شہاب زہری( ۹/۱۹۰[

امام شافعی ،ان کے اصحاب اور امام داؤد نے فرمایا: مکبر کے اقامت شروع کرتے ہی فورا ًنماز کے لیے کھڑا ہوجانا اولی ہے،کیوں کہ یہ نیک عمل کی طرف جلدی کرنا ہےاور نیکی میں جلدی کرنے کے سلسلے میں ان کے نزدیک کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ 

امام احمد بن حنبل کا مذہب: 

مقتدی بوقت اقامت کب کھڑے ہو ں؟اس سلسلےمیں امام احمد بن حنبل سےبھی دو قول منقول ہیں۔

پہلا قول یہ ہے کہ مقتدی قد قامت الصلاۃ پر کھڑے ہوں ۔]شرح النووی على مسلم،كتاب المساجد ،باب متى يقوم الناس ...(۵ /۱۰۳[

دوسرا قول یہ ہے کہ اگر امام مسجد میں موجود ہو تو ابتدائے اقامت میں کھڑے ہوں۔]الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف ، کتاب الامامۃ،ذكر وقت قيام المامومين الى الصلاة(۴/۱۶۷[

المختصر! تینوں ائمہ حضرات امام مالک ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل کا اس بات میں اشتراک ہے کہ ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا مستحب ہے،بلکہ مشہور حنفی شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی کے مطابق امام مالک اور جمہور علما کے نزدیک ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا مستحب ہے،آپ لکھتے ہیں:

ذهب مَالك وَجُمْهُور الْعلمَاء إِلَى أَنه لَيْسَ لقيامهم حد،وَلَكِن اسْتحبَّ عامتهم الْقيام إِذا أَخذ الْمُؤَذّن فِي الْإِقَامَة.]عمدة القاري ،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب متى يقوم الناس إذا رأوا الامام عند الاقامۃ(۸/۲۱۱[

امام مالک اور جمہور علما کا مذہب یہ ہےکہ کھڑے ہونے کی کوئی حد مقررنہیں ہے، پھر ان میں سےاکثر علما کا مذہب یہ ہے کہ اقامت شروع ہوتے ہی کھڑا ہونا مستحب ہے۔

امام ابو حنیفہ کا مذہب:

فقہاے احناف کے نزدیک اقامت کے وقت مقتدیوں کے کھڑے ہونے کے سلسلے میں امام کے مسجد میں ہونے کے وقت الگ حکم ہے اور نہ ہونے کی صورت میں اس کے مسجد میں داخل ہونے کی کیفیت کے لحاظ سے الگ الگ طریقہ مذکور ہے،  جس کی قدرے تفصیل درج ذیل ہے۔

مسئلہ اقامت میں فقہائے احناف کی تفصیل

اقامت کےوقت کھڑے ہونے کی فقہاے احناف نےبطور خاص تین صورتیں بیان کی ہیں؛

 پہلی صورت یہ ہےکہ امام پیچھے کی  صفوں کی طرف سے مسجد میں داخل ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ جس جس صف سے امام گزرتا جائے ، اس صف کے لوگ کھڑے ہوتے جائیں۔

 دوسری صورت یہ ہے کہ امام اقامت کے وقت محراب کی جانب سے مسجد میں داخل ہو،اس کا حکم یہ ہےکہ سارےمقتدی امام کودیکھتےہی ایک ساتھ  کھڑے ہوجائیں، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے :

إذَا كان الْإِمَامُ خَارِجَ الْمَسْجِدِ فَإِنْ دخل الْمَسْجِدَ من قِبَلِ الصُّفُوفِ فَكُلَّمَا جَاوَزَ صَفًّا قام ذلك الصَّفُّ وَإِلَيْهِ مَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ وَالسَّرَخْسِيُّ وَشَيْخُ الْإِسْلَامِ خُوَاهَرْ زَادَهْ وَإِنْ كان الْإِمَامُ دخل الْمَسْجِدَ من قُدَّامِهِمْ يَقُومُونَ كما رَأَى الْإِمَامَ [الفتاوى الهنديۃ (۱/۵۷]

اگر اما م مسجد کے با ہر ہواور مسجد میں پیچھے کی صف کی جانب سے داخل ہوتوامام جس جس صف سے گزرتا جائے ،اس صف کے لوگ کھڑے ہوتے جائیں،اسی کی طرف شمس الائمہ حلوانی ،امام سرخسی اور شیخ الاسلام خواہر زادہ گئے ہیں اور اگرامام مسجد میں آگے سے داخل ہو تو سارے  مقتدی امام کو دیکھتے ہی کھڑے ہوجائیں۔

تیسری صورت یہ ہے کہ امام اقامت کے وقت مسجد میں موجود ہو ،تو اس کا حکم یہ ہے کہ امام اور مقتدی حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں، جیسا کہ در مختار شرح تنویر الابصار میں ہے :

(والقيام) لإمام ومؤتم (حين قيل حي على الفلاح) خلافا لزفر، فعنده عند حي على الصلاة (إن كان الإمام بقرب المحراب) [الدر المختار شرح تنوير الابصار (ص:۶۶]

یعنی آداب نماز میں سےہے کہ امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے اور امام زفر کے نزدیک امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مکبر حی علی الصلاۃ پر پہنچے،یہ اس وقت ہے جب امام محراب میں ہو۔

امام طحطاوی کاموقف:

فقہاے احناف میں سے ایک نامور فقیہ امام طحطاوی(متوفی :۱۲۳۱ ھ) ابتدائے اقامت ہی میں قیام کے قائل ہیں اوردرالمختار پر دو حواشی جو مقبول ہوئے ان میں ایک علامہ ابن عابدین شامی کا ہے اور دوسرا آپ کا ہے ۔آپ ’’درمختار‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : 

(والقیام لإمام و مؤتم الخ ) مسارعة لامتثال أمره و الظاهر أنه احترازعن التأخیر لا التقدیم حتی لو قام أول الإقامة لا بأس و حرر. [ طحطاوی علی الدر المختار (۱/۲۱۵]

(امام اور مقتدی کا کھڑا ہونا) یعنی مکبر کی آواز پر لبیک کہنا ، اس سے ظاہرہوتاہے کہ حی علی الفلاح پر کھڑے ہونے کو مستحب کہنا یہ تاخیر سے روکنا ہے ،نہ کہ ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے سے روکنا ،لہٰذا کوئی اگر ابتدائے اقامت ہی میں کھڑا ہوجائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، خوب غورو فکر کرلو ۔

امام طحطاوی کی توضیح کی تائید

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَيُكَبِّرُ الْإِمَامُ قُبَيْلَ قَوْلِهِ قد قَامَتْ الصَّلَاةُ [الفتاوی الہندیۃ،کتاب الصلاۃ ،ومما يتصل بذلک اجابۃ المؤذن۱ / ۵۷ ]

 مکبرکے’’ قد قامت الصلاۃ‘‘ کہنےسے کچھ لمحے پہلےامام تکبیر تحریمہ کہہ دیں۔ 

حی علی الفلاح کے وقت قیام کو مستحب کہنا اگر مسجد میں امام موجود ہو-اور قد قامت الصلاۃ سے کچھ لمحے پہلےتکبیر تحریمہ کہنے کو مستحب کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ’’ حی علی الفلاح‘‘ کے وقت قیام کرنا‘ استحباب کا اولِ وقت نہیں ہے کیوں کہ حی علی الفلاح کے بعد اور قدقامت الصلاۃ سے پہلے اتنا وقت نہیں ہے کہ قیام بھی کریں اور تکبیر تحریمہ بھی کہیں، اگر قیام کرتے ہیں تو صف کی درستگی بھی کرنی پڑے گی جو نہایت اہم ہے اور اتنے وقت میں صف کی درستگی نہ ہوپائے گی ،معلوم ہوا کہ حی علی الفلاح پر کھڑے ہونے کو مستحب کہنا ، تاخیر سے روکنا ہے ،نہ کہ ابتدائے اقامت میں کھڑے ہونے سے روکنا-اس کی مزید تائید فاضل بریلوی کے فتاوے سے بھی ہوتی ہے، آپ ایک فتوی کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: 

اگر وہ[امام ] تکبیر ہوتے میں چلا تو اسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں ،مصلے پر جائے اور حی علی الفلاح یا ختم تکبیرپر تکبیر تحریمہ کہے [فتاوی رضویہ (۵ /۴۱۹ ]

فاضل بریلوی  کے اس فتوی سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ حی علی الفلاح کے وقت قیام کرنا، استحباب کا اولِ وقت نہیں ہے،ورنہ حی علی الفلاح پر امام کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم نہیں دیاجاتا ،کیوں کہ اس وقت مقتدی کھڑا ہی ہو رہا ہوگااور امام نماز شروع کر چکا ہوگا۔

احناف کے نزدیک ابتداے اقامت میں کھڑے ہونے کی کراہت اور صاحب مضمرات کا تسامح

اقامت کے مسئلے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ احناف کے نزدیک شروع اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے؛یہ بعض متاخرین ِفقہا کی غلط فہمی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی نقل در نقل فقہاے متاخرین کے یہاں چلی آرہی ہے، ہم اس سلسلے میں پہلے فقہاے متاخرین کا موقف اور ان کے دلائل ذکر کریں گے ،پھر استنباط مسائل میں جو تسامح ہواہے، اس کی وضاحت کریں گے۔

متاخرین فقہانے اقامت شروع ہونے کے وقت کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے۔

 چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

إذَا دخل الرَّجُلُ عِنْدَ الْإِقَامَةِ يُكْرَهُ له الِانْتِظَارُ قَائِمًا وَلَكِنْ يَقْعُدُ ثُمَّ يَقُومُ إذَا بَلَغَ الْمُؤَذِّن قَوْلَهُ حَيَّ على الْفَلَاحِ كَذَا في الْمُضْمَرَاتِ[الفتاوى الهنديۃ ،كتاب الصلاة،الفصل الثانی فی كلمات الاذان والاقامۃ (۱/۵۷]

جب نمازی اقامت کے وقت مسجد میں آئےتو اس کے لیے کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے ،وہ بیٹھ جائے اور اس وقت کھڑاہو جب مکبر حی علی الفلاح پرپہنچے، ایسا ہی مضمرات میں لکھا ہے ۔

اس کے علاوہ دوسرے فقہاے متاخرین نے بھی ’’مضمرات‘‘ کے حوالے سے ابتداے اقامت کے وقت کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے ،اور صاحب مضمرات یوسف بن عمر صوفی کی وفات۷۳۲/ ۸۳۲ھ میں ہوئی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ کراہت کا یہ قول آٹھویں / نویں صدی ہجری سے متعلق ہے،اس سے پہلے شروع اقامت میں کھڑے ہونے کے سلسلے میں کراہت کا قول نہیں ملتا ،لیکن خودصاحب مضمرات کو اس مسئلے کے استنباط میں تسامح ہوا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحب مضمرات نے اس مسئلے کو جس دلیل سے مستنبط کیا ہے، اس دلیل سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا،چنانچہ آپ لکھتے ہیں :

فإذا دخل الرجل عند الإقامة یكره له الانتظار والقیام ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قوله حی علی الفلاح هکذا جاء الأٔثر عن علی[جامع المضمرات والمشکلات،کتاب الصلاۃ،۱/۳۰۱،دار الکتب العلمیۃ]

جب نمازی اقامت کے وقت مسجد میں داخل ہو تو اس کے لیے کھڑاہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے ،وہ بیٹھ جائے ،پھر اس وقت کھڑا ہو جب مکبر حی علی الصلاۃ پر پہنچے ، اسی طرح حضرت علی  سے مروی ’’اثر‘‘ میں ہے ۔ 

اس اثر کو امام ابن ابی شیبہ نے ’’ مصنف ‘‘ میں ذکر کیا ہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:  

خَرَجَ عَلِيٌّ،وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَهُمْ قِيَامٌ يَنْتَظِرُونَهُ، فَقَالَ:مَا لِي أَرَاكُمْ سَامِدِينَ؟ [ مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الصلوات ، باب... اذا اقيمت الصلاة قبل ان يجيء الامام(ح:۴۰۹۴]حضرت علی  نماز کے لیے نکلے ،اس وقت اقامت ہوچکی تھی اور لوگ کھڑے ہو کر  آپ کا انتظار کر رہے تھے ،آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا : میں تمہیں حیران وپریشان کھڑے کیوں دیکھ رہا ہوں ؟

آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں کھڑے ہوکر میرا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ امام کی عدم موجود گی میں امام کاکھڑے ہوکر انتظارکرنا مشقت میں پڑنا ہے ،اسی لیےنبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ: لاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي[ صحيح البخاری،کتاب الاذان،باب: متى يقوم الناس،ح:۶۳۷ ] اس وقت تک مت کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لو ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام اگر موجود نہ ہو تو امام کے انتظار میں کھڑا نہ ہونا چاہیے،اسی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کو منع فرمایا تھا کہ اگر میں موجودنہ رہوں تو میرے انتظار میں کھڑے نہ رہا کرو۔لہٰذا حضرت علی   کے قول سے معلوم ہوا کہ کراہت کا قول اس صورت میں ہے،جب امام مسجد میں نہ ہو، ورنہ کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے،جیساکہ جامع فقہ حنفی امام محمد نے اپنی کتاب ’’المبسوط ‘‘ میں لکھا ہے، آپ فرماتے ہیں :

 وأما إذا لم يكن الإمام معهم في المسجد فإنني أكره لهم أن يقوموا في الصف والإمام غائب عنهم[ المبسوط، کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ(۱ /۱۹ ]جب امام مسجد میں موجود نہ ہو بلکہ مسجد سے باہر ہو تو میں صف میں کھڑے ہونے کو مکروہ سمجھتا ہوں۔

چنانچہ شارح فقہ حنفی امام الائمہ علامہ شمس الدین محمد بن احمد سرخسی (۴۸۳ ھ) نےاس مسئلہ کی دلیل میں حضرت علی  کے ’’اثر‘‘ کو ذکر کیا ہے،آپ لکھتےہیں:

 إذَا لَمْ يَكُنْ الْإِمَامُ مَعَهُمْ فِي الْمَسْجِدِ يُكْرَهُ لَهُمْ أَنْ يَقُومُوا فِي الصَّفِّ حَتَّى يَدْخُلَ الْإِمَامُ لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -:لَا تَقُومُوا فِي الصَّفِّ حَتَّى تَرَوْنِي خَرَجْتُ، وَإِنَّ عَلِيًّا - رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ - دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى النَّاسَ قِيَامًا يَنْتَظِرُونَهُ فَقَالَ مَالِي أَرَاكُمْ سَامِدِينَ أَيْ وَاقِفِينَ مُتَحَيِّرِينَ[المبسوط،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاة(۱/۳۵ ]

جب امام مقتدیوں کے ساتھ مسجد میں موجود نہ ہو ،تو ان کے لیے صف میں کھڑا ہونا مکروہ ہے ،جب تک کہ امام نہ آجائے،کیوں کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے : اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھ لوکہ میں نمازکے لیےنکل چکا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت علی   مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں ،تو آپ نے فرمایا :کیا بات ہے کہ میں تمہیں حیران وپریشان کھڑا دیکھ رہا ہوں؟

اس تشریح سے واضح ہوگیاکہ کھڑےہونے کی ممانعت صرف اس صورت میں ہے جب امام مسجد میں موجود نہ ہو،لہٰذا حضرت علی  کے ’’اثر‘‘ سے عند الاقامۃ کھڑے ہونے کو مکروہ ثابت کرناصاحب مضمرات کا تسامح ہے اور وہ بھی ایسا تسامح جو جامع فقہ حنفی امام محمد اور شارح فقہ حنفی امام سرخسی کی تشریح کے خلاف ہے،امام سرخسی کا مذکورہ حوالہ ان کی شہرۂ آفاق کتاب المبسوط سے ماخوذ ہے اور اہل نظر سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مبسوط فقہ حنفی کی کتب ظاہرالروایہ(مبسوط،زیادات،سیر کبیر،سیر صغیر ،جامع کبیر ،جامع صغیر)کی جامع کتاب ہے، کتب ظاہر الروایہ کی اس جامع کتاب کے بالمقابل آٹھویں/ نویں صدی ہجری کے ایک حنفی صوفی فقیہ کی تشریح کو پیش کرنااصولی اعتبار سے کیا ہے؟ یہ بتانے کی حاجت نہیں، جب کہ مبسوط کے بالمقابل اگرامام محمد کی کتب نادر الروایہ کا کوئی حوالہ بھی آتاہے توحنفی اصول فتوی کے مطابق اسے بھی رد کر دیا جاتاہے۔افسوس کہ صاحب مضمرات کی متابعت میں یہ تسامح متاخرین فقہا میں بھی درآیا اور آج بعض حضرات اسے ہی اصل فقہ حنفی سمجھتے ہیں،اسی غلط فہمی کے سبب کراہت سے بچنے کے لیے امام عین ِوقتِ جماعت  باہر سے آکر پہلے مصلی پر بیٹھ جاتا ہے پھر اس کے بعد تکبیر ہوتی ہےاور حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح پر امام و مقتدی سب کھڑے ہوتے ہیں ،یہ احایث کریمہ بلکہ فقہا کے بھی خلاف ہے ،ایسا طریقہ نہ حدیث سے ثابت ہے اور نہ حضور ﷺ نے کبھی ایسا کیا ہے اور نہ ہی کسی فقیہ سے اس طرح کا قول منقول ہے۔ فاضل بریلوی مولا نااحمدرضا خان نے بھی اس کو اپنے فتاوی میں لکھا ہے :

آپ سے سوال ہوا کہ ’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے حجرہ میں امام ہو اور تکبیر مکبر شروع کردے اب امام حجرہ سے روانہ ہو ،ختم تکبیر سے پہلے حی علی الفلاح کے وقت یا بعد ختم تکبیر مصلے پر پہنچ جاوے، اس میں کوئی قباحت تو نہیں ہے بصور ت احیاناً یا بصورت دواماً ،ہر دو صورت کا کیا حکم ہے ؟

اس کے جوا ب میں لکھتے ہیں:

اس صورت میں کوئی حرج نہیں، نہ امام مکبر کا پابند ہو سکتا ہے بلکہ مکبر کو امام کی پابندی چاہیے،حدیث میں ہے:

"المؤذن أملک بالأذان،والإمام أملک بالإقامة "

(اذان کا اختیار مؤذن کو ہے اور اقامت کا اختیار امام کو )اور اگر وہ تکبیر ہوتے میں چلا تو اسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں ،مصلے پر جائے اور حی علی الفلاح یا ختم تکبیرپر تکبیر تحریمہ کہے، یونہی بعد خطبہ اسے اختیار ہے کہیں منقول نہیں کہ خطبہ فرماکر تکبیر ہونے تک جلوس فرماتے، یہ حکم قوم کے لیے،واللہ اعلم [فتاوی رضویہ (۵ /۴۱۹ ]

فاضل بریلوی کے اس فتوی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ خطبہ جمعہ کے بعدامام کے لیے بیٹھنا ثابت نہیں بلکہ امام منبر سے اترنے کے بعد حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح کا انتظار کیے بغیر شروع اقامت ہی میں کھڑا ہو جائے، لہٰذا جب جمعہ کی نماز کے لیے بیٹھنا ثابت نہیں ہےحالانکہ یہی ایک موقع ہے جہاں امام بیٹھ سکتاتھا تو دیگر نماز کے لیے بیٹھنا کہاں سے ثابت ہوگا اور دیگر نما زوں میں حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح کا انتظار کرنے میں کون سی حکمت ہے ؟

اور جب خطبۂ جمعہ  کے بعد امام کا بیٹھنا ثابت نہیں بلکہ اسے سیدھے مصلے پر کھڑا ہوجاناہے تو اس صورت میں کم از کم جمعہ کی حد تک توعام مقتدیوں کو اول اقامت میں کھڑا ہوناہی چاہیے،اس لیے کہ یہ کسی کا مذہب نہیں کہ امام کھڑا ہو اور مقتدی بیٹھے رہیں۔

حاصل گفتگو

ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا ایک فرعی اور مختلف فیہ مسئلہ ہے۔

 نبی کریم ﷺ سے اقامت کے وقت بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔ 

 بعض مجتہدین تابعین کے نزدیک ابتداے اقامت میں کھڑا ہوناواجب ہےاور اکثرمجتہدین اور جمہور ائمہ مذاہب کے نزدیک مستحب ہے جب کہ احناف کے نزدیک اس مسئلہ میں قدرے تفصیل ہے۔

 فقہ حنفی میں اقامت کے وقت کھڑےہونے کی تین صورتیں ہیں۔ دوصورتوں میں ابتداے اقامت میں اور ایک صورت میں حی علی الصلاۃ/حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے۔تاہم پہلے کھڑے ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

 سبقت خیر اور تعدیل صفوف کی وجہ سے ہند و پاک کی اکثر مقامات میں  ابتداے اقامت میں کھڑےہونے کا رہاہے

 اگر امام مسجد میں موجود نہ ہو تو اس کے لیے پہلے سے کھڑے ہوکر انتظار کرنا اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا ہے اس لیے ایسی صورت میں پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ورنہ ابتداے اقامت میں کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔واللہ اعلم 

کتبہ

اصغر علی مصباحی 

جامعہ عارفیہ ۔سید سراواں الٰہ آباد

16/دسمبر 2021ء

الجواب صحیح

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادرری

دار الافتا عارفیہ ۔سید سراواں  الہ آباد

11/جمادی الاولیٰ 1443ھ

Ad Image