سوال:درج ذیل مسائل میں علما کی کیا رائے ہیں وضاحت فرمائیں: (۱) جب کوئی مسلمان غیرمسلم کے عبادت خانہ میں داخل ہوجائے تو کیا حکم ہے ؟(۲) کوئی مسلمان غیر مسلم کے تہواروں میں شریک ہوکر خوشیاں منائے تو کیا حکم ہے ؟(۳)کوئی مسلمان غیر مسلموں کے تہواروں کے موقع پر اُن کو مبارکباد دے تو کیا حکم ہے ؟ (۴)ہندؤں کے یہاں سے آنے والے پرساد کھانے کا کیا حکم ہے ؟
مستفتی: تنویر، دہلی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب ۔(۱) غیر مسلموں کے عبادت خانے میں داخل ہونے کے تعلق سے علما ءکے مختلف اقوال ہیں حرام ،مکروہ اورجائز ۔ جمہور علما کے نزدیک عبادت خانے کے اندر داخل ہونےمیں کوئی حرج نہیں ۔جمہور اپنے قول پر حسب ذیل حدیث وواقعات سے استدلال کرتے ہیں۔
بخاری شریف کی روایت ہے : عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا: مَارِيَةُ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، وَأُمّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَتَا أَرْضَ الحَبَشَةِ، فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا(صحیح بخاری رقم ۱۳۴۱)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے تو آپ کی ازواج میں سے بعض نے اس کنیسہ کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا (کہا گیا کہ وہ ماریہ تھیں ) ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما جب حبشہ سے آئیں تو انہوں نے اس کنیسہ کے حُسن اور اس کے اندر کی تصویروں کے بارے میں بتایا ۔اِس حدیث سے ظاہر ہے کہ آپ نہ اُن سے ناراض ہوئے اور نہ اِس سے منع فرمایا۔ اگر مطلقا ًداخل ہونا منع ہوتا تو آپ ضرور انہیں منع فرمادیتے ۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی مقدسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ساتھ کنیسہ میں داخل ہوئے اور اس کے اندر رکھی تصویروں کو دیکھ کر خوش ہوئے ۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل ذمہ کو حکم دیا کہ اپنے کنیسوں کے دروازے کو کشادہ کریں تاکہ مسلمان اور گزرنے والے آسانی سے اُس میں داخل ہو سکیں ۔
أَنَّ النَّصَارَى صَنَعُوا لَعُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، حِينَ قَدِمَ الشَّامَ، طَعَامًا، فَدَعَوْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ هُوَ؟ قَالُوا: فِي الْكَنِيسَةِ، فَأَبَى أَنْ يَذْهَبَ، وَقَالَ لَعَلِيٍّ: امْضِ بِالنَّاسِ، فَلِيَتَغَدَّوْا. فَذَهَبَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِالنَّاسِ، فَدَخَلَ الْكَنِيسَةَ، وَتَغَدَّى هُوَ وَالْمُسْلِمُونَ، وَجَعَلَ عَلِيٌّ يَنْظُرُ إلَى الصُّوَرِ، وَقَالَ: مَا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ دَخَلَ فَأَكَلَ،وَهَذَا اتِّفَاقٌ مِنْهُمْ عَلَى إبَاحَةِ دُخُولِهَا وَفِيهَا الصُّورُ(مغنی لابن قدامہ: 7/ 283)
اِن واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلموں کےعبادت خانہ میں مطلقا ًداخل ہونا منع نہیں۔ دیکھنے یا اور کسی معلومات کے لئے جایا جاسکتا ہے ۔
جواب۔(۲) غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شریک ہونا اور خوشیاں منانا ،تو اصل اِس میں حُرمت ہے جس پر بہت ساری نصوص دلالت کرتی ہیں ۔
صحیح مسلم وبخاری میں ہے : إن لكل قوم عيدا، وإن عيدنا هذا اليوم۔ (صحيح بخاری۵/۶۷ )
ہر قوم کے لئے ایک عید ہے اور یہ ہمارے لئے عید ہے ۔
اِس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث إن لكل قوم عيدا، وإن عيدنا هذا اليوم سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے تہواروں میں خوشی منانااور ان کی مشابہت اختیار کرنا مکروہ ہے ۔نیز ہر مذہب والوں کا عید اُن کے مذہب کا شعار ہوتا ہےاور کسی کے مذہبی شعار کا اختیار کرنا حرام ہے ۔
امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں : أن رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ النَّحْرِ (ابوداؤد: ۱۱۳۴)
بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے ان دونوں کو دو بہتر چیزوں سے بدل دیا ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ ۔اِس حدیث پاک میں بتایا گیا کہ تمام لوگوں سے الگ اللہ تعالیٰ نے اِس امت کے لئے عید کا دن رکھا ہے ۔
اُن کے تہواروں میں شریک ہونا، اُن کے مذہبی شعار سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور اس سے حدیث پاک میں منع فرمایا گیا ہے ۔
"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ۔(ابوداؤد:۴۰۳۱)
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے ۔
دوسری حدیث میں ہے :جو شخص نیروز اور مہر جان ان(مجوسیوں) کے ساتھ منائے اور اسی پر مرے تو قیامت کے دن وہ انہیں کے ساتھ اٹھایا جائےگا:
وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَة (سنن كبرى للبيهقی :9/ 392)
تیسری حدیث میں ہے :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَصُومُ يَوْمَ السَّبْتِ وَالْأَحَدِ أَكْثَرَ مَا يَصُومُ مِنَ الْأَيَّامِ، وَيَقُولُ: إِنَّهُمَا يَوْمَا عِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أُخَالِفَهُمْ (سنن كبرى للنسائی: 3/ 214)
حضرت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺسنیچر اور اتوار کو عام دنوں سے زیادہ روزہ رکھتے تھے اور فرماتے کہ یہ دونوں مشرکوں (یہود و نصاری )کے عید کا دن ہے میں پسند کرتا ہوں کی ان کی مخالفت کروں ۔
اُن کے تہواروں میں شریک ہونا، ان سے قلبی لگاؤ اور اُن کے کفر یات سے بظاہرراضی ہونے کی علامت ہے اور اِس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے :
يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ (ممتحنہ:۱)
مگر بعض حضرات نے غیرمسلموں کے تہواروں میں شریک ہونے کو جائز قرار دیاہے وہ کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور جو مسلمان ہے وہ ضرور اپنے ایمان کی حفاظت کرے گا ۔ ایک مسلمان کا ایمان وعقیدہ اتنا کمزور نہیں کہ صرف شریک ہوجانے سے اُس کا ایمان کمزور ہوجائے یا اس کے اعتقاد میں تذبذب پیدا ہوجائے؛ لہذا اگر کوئی مسلمان اپنے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کے ساتھ کسی سماجی معاشرتی تقاضےیا کسی اور غرض سے غیر مسلم کے تہوار میں شریک ہوتاہے توکوئی حرج نہیں ہونی چاہیے البتہ بلاوجہ شرکت سے بچے ۔
جواب ۔(۳) غیر مسلموں کوان کےتہواروں کے موقع پر مبارک باد دینا تو اس میں اکثر علما کی رائے یہ ہے کہ جائز ہے ۔جواز پر حسب ذیل دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔
۱-کسی بھی تہوار میں مبارک باد دینے کا تعلق مسائل عملیہ فرعیہ سے ہے نہ کہ مسائل اعتقادیہ اصلیہ سے۔ اِسی لیے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ اُن کے ملک میں ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کرتے تھے اور معاملات میں ایک دوسرے کی خوشی وغم میں تعزیت و تہنیت ایک لازمی امر ہے ۔
۲- مبارک باد دینےکا تعلق عادات سے ہے نہ کہ عبادت سے اور مسائل عادیہ میں بہت وسعت ہوتی ہے، نیز عادات میں اصل اباحت ہے جیسا کہ اہل ِعلم پر پوشیدہ نہیں ۔
۳- کوئی ایسی صحیح وصریح نص موجود نہیں جو اس کی ممانعت پر دلالت کرتی ہو ۔
۴- غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ اِس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ مبارک باد دینا جائز ہو ارشاد باری تعالی ہے :
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (ممتحنہ،۸)
اللہ تعالی تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھر سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والے کو پسند فرماتا ہے ۔
۵- کسی کے مبارک باد دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مبارک باد دینے والا جس کو مبارک باد دے رہا ہے اس کے معتقدات سے راضی بھی ہو؛ بلکہ ایک مسلمان اپنے عقیدے پر کامل یقین رکھتا ہے اوراس کےعلاوہ کو باطل سمجھتا ہےجیسے غیر مسلم مسلمانوں کی عید بقرعید پر مبارک باد دیتا ہےتوکیا اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اسلام کا اقرار کر رہا ہے اور ہمارے دین سے وہ راضی ہے؟ اِسی طرح مسلمان کے مبارک بادی کو سمجھنا چاہیے۔ تاویل کا مقصد ایمان واعتقاد کی حفاظت ہونی چاہیے نہ کہ کفر کی طرف لے جانے کے لیے!
۶- غیر مسلم کو سلام کرنے پر بھی قیاس کا تقاضاہے کہ مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں ،حضرت ابو امامہ ،حضرت عبداللہ حضرت ابو دردہ سے فضالہ بن عبید ہر ایک کو سلام کرتے تھے خواہ وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو ۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَأَنَّهُ كَانَ لَا يَمُرُّ بِمُسْلِمٍ وَلَا يَهُودِيٍّ وَلَا نَصْرَانِيٍّ إِلَّا بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ۔ (الأدب لابن أبي شيبہ ص: 191)
۲۔ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، وَأَبَا الدَّرْدَاءِ، وَفَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ كَانُوا يَبْدَؤُونَ أَهْلَ الشِّرْكِ بِالسَّلَامِ( الأدب لابن أبي شيبہ ص: 191) وقال الأوزاعي: إن سلمت فقد سلم الصالحون، وإن تركت فقد ترك الصالحون۔
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ وہ جس کے پاس سے گزرتے تو سلام سے ابتدا کرتے خواہ وہ مسلمان ہو ،کہ یہودی ،یا عیسائی۔حضرت عجلان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ حضرت ابودردااور فضالہ بن عبید اہل شرک سے سلام سے ابتدا کرتے تھے ،امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ اگرتم نے سلام کیا تو یقینا صالحین نے بھی سلام کیا ہے اگر تم نے سلام ترک کیا تو یقینا صالحین نے بھی ترک کیاہے ۔
جواب (۴)ا یک ہے تقوی جس کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ ہر وہ عمل جس سے شبہ پیدا ہو اس سے پر ہیز کیا جائے۔ دوسرا ہے فتوی یعنی کسی بھی فعل وعمل میں شرعی حکم ظاہر کرنا۔ از راہ تقوی مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ پرساد ہی کیا غیروں کے یہاں کی بنی ہوئی ہر چیز سے پر ہیز کیا جائے۔ اور از راہ فتویٰ جواب یہ ہے کہ جس طرح ان کے یہاں کی مٹھائی اور دوسری بنی ہوئی چیز کھاتے ہیں اسی طرح پرساد بھی ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق متبرک ضرور ہے مگر ایک مسلمان کے لئے سواے مٹھائی کے اور کچھ نہیں۔ کسی مسلمان کا وہم وخیال تک نہیں ہوتا کہ اس کو وہ مبارک سمجھے میرے خیال سے یہ قید لگانا کہ اگر یہ سمجھ کر کھایا تو یہ حکم ہے اور یہ سمجھ کرکھایا تو یہ حکم۔ یہ قید مسئلہ کو اور پیچیدہ بنادیتا ہے ۔ رہ گئی ایمان کی بات اور نکاح کا حکم تو کسی مسلمان کا ایمان اتنا کمزور نہیں کہ صرف مٹھائی کھانے سے ختم ہو جا ئے اور نکاح ٹوٹ جائے یہ ہے شرعی حکم۔ مگر کوئی عالم اس سے منع کرتا ہو تو یقینا ً اُن کی اچھی نیت ہوگی۔ ہر شخص کو اس کی نیت کا بدلہ ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ غیر مسلموں کے تہواروں پر مبارک باد دینے میں حرج نہیں نیز بہت ساری چیزوں کا تعلق سماج اور معاشرت سے ہے۔ انسان جس ملک میں جن لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اس کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں جس کی رعایت اس سماج کا ہر فرد کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔اسلام حسنِ معاشرت کی ترغیب دیتا ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
۲۸/ربیع الاول ۱۴۴۱ ھ
۲۶ /نومبر ۲۰۱۹ء
Leave your comment