سوال ۔ کیا فرماتے ہیں علما ے دین مسئلہ ذیل میں کہ عصر حاضر میں نوکری ، یا امتحان ، یا ٹیوشن کا وقت اس طرح ہوتا ہے جس میں کبھی کبھی ایک نماز کا وقت مکمل نکل جاتا ہے، تو ایسی صورت میں شریعت جمع بین الصلاتین کی اجازت دیتی ہے یا نہیں ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
محمد ارشد ۔ممبئی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر جواب:
بے ہوش ، جنون اور پاگل ہونے کی حالت کو چھوڑ کر نماز ہر حال میں فرض ہےحتی کہ جنگ اور اضطرار وخوف کی حالت میں بھی، ترک نماز سے بچانے کے لیے اعذار کی بنا پر نماز کے بنیادی ارکان کو بھی ساقط کرنے کا حکم آیا ہے تا کہ نماز کی ادا ئیگی ہوسکے اور کسی صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے جیسے: بیماری کے عذر میں قیام وقعود، اور رکوع وسجود ،جو فرض ہےاس کی ہیئت ساقط ہو جاتی ہے، تو اگر نماز کا وقت مقرر پر ادا کرنے میں واقعی عذر ہو تو ترک صلات سے بچنے کے لیے جمع ِ صلات کی جا سکتی ہے ،اگر چہ عذر کے وقت جمع صلات کی بعض دلیلیں مختلف فیہ ہیں ،مگر ضرورۃ ً اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ عرفہ اور مزدلفہ میں جمع صلات کی دلیل متفق علیہ ہے ۔ہاں! جہاں تک ممکن ہو سکے نمازوں کو ان کے اوقات مقررہ پر ہی ادا کرنی چاہیے تاکہ علما کے اختلاف سے بچا جاسکے اور اس لیے بھی کہ عذر یا ضرورت کے وقت بھی وقت پر نماز ادا کرنا عزیمت اور جمع کرنا رخصت ہے اور بلا ضرورت جمعِ حقیقی بدعت ہے۔ اگر واقعی عذرپیش آ جائے تو بوجہ مجبوری جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ ترک صلاۃ بہر صورت حرام قطعی ہے۔
تفصیلی فتاوی:
شریعت اسلامیہ کے احکام میں غور وفکر کرنے والوں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شریعت کی بنیاد توسع اور آسانی پر ہے جس میں بندوں کے احوال ومصالح کی مکمل رعایت ر کھی گئی ہے ، خاص طور سے شریعت میں نماز کی جس قدر اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے اسی قدر اس کی ادائیگی میں آسانی بھی دی گئی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ نے اولاً پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ،پھر بندوں کی رعایت میں پچاس سے پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ۔ مشقت کی وجہ سے سفر میں چار رکعات والی نماز میں دورکعت ادا کرنے کی رخصت دی گئی اور عذر کی وجہ سے قیام وقعود ، رکوع و سجود اور قبلہ جیسے نماز کے بنیادی ارکان کو ساقط قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(سورہ بقر ۔ ۱۸۵)
اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا ہے۔
يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا(سورہ نساء ۔ ۲۸)
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کر دے، اور انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام حالات میں نماز کے لیے کتاب وسنت میں وقت کی تعیین کی گئی ہے ،تاکہ ایک بندۂ مومن نماز کو ان کے وقتوں پر ادا کرکے اپنی کمال بندگی کا اظہار کرے اور اس لیے بھی کہ نماز کے وقتوں میں جو حکمت ومصلحت شارع نے رکھی ہے وہ فوت نہ ہو نے پائے ۔ ارشاد باری ہے :
اِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا(سورہ نساء۔۱۰۳)
بے شک نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے۔
حَافِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰىۖ وَقُوْمُوْا لِلّـٰهِ قَانِتِيْنَ(سورہ بقر ۔ ۲۳۸)
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص طور پر) درمیانی نماز کی، اور اللہ کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم ﷺ کو دو دن مخصوص وقتوں میں نماز کی امامت کرائی اور کہا :اے محمد ﷺ ! آپ سے پہلے نبیوں کے لیے بھی نماز کا یہی وقت تھا اور انھیں دونوں وقتوں کے درمیان آپ کے لیے نماز کا وقت ہے ۔
يَا مُحَمَّدُ، هَذَا الْوَقْتُ وَقْتُ النَّبِيِّينَ قَبْلَكَ، الْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ( شرح السنہ از بغوی ۔2/ 182)
جمع بین الصلاتین
احادیث کریمہ میں جمع بین الصلاتین کے تعلق سے تین طرح کی حدیثیں ملتی ہیں ۔بعض حدیثیں مطلق جمع پر دلالت کرتی ہیں ، بعض حدیثوں سے جمع صوری کی وضاحت ہوتی ہے، جبکہ وہیں بعض حدیثیں جمع حقیقی پر دلالت کرتی ہیں ۔
۱۔ عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: «خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَكَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا» (صحيح مسلم ، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر، ح:۷۰۶)
حضرت معاذ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ غزوہ ٔ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے ظہر عصر کو ایک ساتھ اور مغرب عشاء کو ایک ساتھ ادا فرمایا ۔
۲۔ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاةِ فِي سَفْرَةٍ سَافَرَهَا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ» قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: «أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ» (صحیح مسلم، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر، ح:۷۰۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر ادا کیا ، حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعیدسے پوچھا کہ آپ ﷺنے ایسا کیوں کیا؟ تو حضرت سعید نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انھوں نے بتایا کہ آپ ﷺکا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔
۳۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ۔(صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر، ح:۷۰۵)
حضرت جابر بن زید حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ میں نے سات یا آٹھ نمازیں ایک ساتھ ادا کی، آپ ﷺ نے ان نمازوں کو اس طرح ادا کیا کہ ظہر کو موخر فرمایا اور عصر کی نماز میں جلدی کی ، اسی طرح مغرب کی نماز کو موخر فرمایا اور عشاء کی نماز میں جلدی کی ۔
۴۔عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي السَّفَرِ، أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَدْخُلَ أَوَّلُ وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا» ( صحيح مسلم ۔باب جواز الجمع بین الصلاتین فی السفر،ح:۷۰۴)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سفر میں جب دو نمازوں کو جمع کرنے کا ارادہ فرماتے تو ظہر کو موخر کرتے یہاں تک کہ عصر کا اول ِوقت داخل ہوجاتا پھر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ادا فرماتے ۔
۵۔كانت أمراء نا إذا كانت ليلة مطيرة، أبطأوا بالمغرب وعجلوا بالعشاء قبل أن يغيب الشفق، فكان ابن عمر يصلي معهم، لا يرى بذلك بأسا، قال عبيد الله : ورأيت القاسم، وسالما يصليان معهم، فى مثل تلك الليلة ( مصنف ابن ابی شیبہ ،باب فی الجمع بين الصلاتين فی الليلۃ المطیرة)
جب بارش والی رات ہوتی، تو ہمارے امرا مغرب کو تاخیر سے ادا کرتے اور شفق غروب ہونے سے پہلے عشا کے ساتھ جمع کر لیتے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ ہی نمازادا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔حضرت عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے قاسم اور سالم رحمهما اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں حضرات بھی ان کے ساتھ ایسی راتوں میں مغرب و عشا کو جمع کرتے تھے۔
۶۔رأيت أبان بن عثمان يجمع بين الصلاتين فى الليلة المطيرة؛ المغرب والعشاء، فيصليهما معا، عروة بن الزبير، وسعيد بن المسيب، وأبو بكر بن عبدالرحمن، وأبو سلمة بن عبدالرحمن، لاينكرونه ( مصنف ابن ابی شیبہ ،باب فی الجمع بين الصلاتين فی الليلۃ المطیرة)
میں نے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کو بارش والی رات میں مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کرتے دیکھا۔عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمہم اللہ اس پر کوئی اعترض نہیں کرتے تھے۔
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا قدیم معاملہ ہے، جس پر صحابہ و تابعین کرام کے عہد میں مدینہ منورہ میں بھی عمل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک بھی صحابی سے اس پر اعتراض کرنا منقول نہیں۔ اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ صحابہ و تابعین سے بالتواتر اس کا جواز منقول ہے۔
مذاہب علما
جمع کا معنی ہوتا ہے: اکٹھا کرنا۔ جوڑنا۔ یکجا کرنا۔ جمع کا لفظ حقیقی، صوری اور معنوی سب کو شامل ہے۔
نماز میں جمع کی دو صورتیں ہیں:
جمعِ صوری: دو وقتوں کی نماز کو اپنے اپنے وقت میں ہی ادا کرتے ہوئے جمع کرنا جیسے: ظہر کی نماز کو بالکل اخیر وقت میں اس طرح ادا کی جائے کہ نمازِ ظہر ختم ہوتے ہوتے ظہر کا وقت ختم ہونے میں چند لمحہ ہی باقی رہ جائے ،پھر کسی دوسرے نماز وغیرہ میں مشغول نہ ہو اور وقت عصر ہوتے ہی بلا فصل عصر ادا کرلے۔ اس جمع میں فقہاے مذاہب میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
جمعِ حقیقی: اس کی دو قسمیں ہیں :
۱-جمع تقدیم : اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ ظہر کے وقت میں ہی ظہر کے ساتھ بلا فصل عصر ادا کرنا ۔ دوسری صورت یہ کہ مغرب کے وقت میں ہی مغرب کے ساتھ بلا فصل عشا ادا کرنا۔
۲-جمع تاخیر : اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ عصرکے وقت میں پہلے ظہر ادا کرے پھر بلا فصل نماز عصر ادا کرے۔ دوسری صورت یہ کہ عشا کے وقت میں پہلے مغرب ادا کرے پھر بلا فصل عشا ادا کرے۔
جمع حقیقی کی یہی چار صورتیں ہیں جن کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف ہے، ان کے علاوہ باقی کسی صورت سے جمع جائز نہیں ہے۔ جیسے: فجر کی نماز کسی دوسری نماز کے ساتھ جمع نہیں ہوگی، اسی طرح عصر مغرب کے ساتھ جمع نہیں کر سکتے ہیں۔
حکم کے اعتبار سےجمع حقیقی کی پھردو قسمیں ہیں ۔پہلی قسم سنت ہے، دوسری قسم رخصت ہے ۔ عرفہ اور مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین کرنا سنت ہے اس پر اجماع ہے ، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ دوسری قسم رخصت ہے، جو کسی عذر کی بنا پر ہو، جیسے؛ سفر ،مرض ، خوف یا کسی اورعذر کے سبب سے ہو، اسی میں اختلاف ہے ۔
احادیث کریمہ اور فقہا کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمع بین الصلاتین کا مسئلہ صحابہ ،تابعین ، سلف ِصالحین ، ائمہ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے ۔ اجمالی طور سے جمع بین الصلاتین میں دومذاہب سامنے آتے ہیں ۔
پہلا مذہب یہ ہے کہ سفر ،بارش، مرض اور خوف کی وجہ سے دونمازوں کا آپس میں جمع کرنا جائز ہے ۔ یہ مذہب صحابہ کرام میں سے حضرت علی ابن طالب ، سعد ابن ابی وقاص ، سعید ابن زید ، معاذ ابن جبل ،ابو موسی اشعری ،عبد اللہ ابن عمر ،عبد اللہ ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے ۔تابعین میں سے حضرت عطاء ابن ابی رباح ، طاوس ، مجاہد ، عکرمہ ، جابر بن زید ، ربیعۃ الراے ، ابو زناد ، محمد بن منکدر ،صفوان بن سلیم علیہم الرحمہ کا ہے ۔ ائمہ مجتہدین میں حضرت سفیان ثوری ،امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، اسحاق ابن راہویہ ، ابو ثور ، ابن منذر اور مالکیہ میں سے اشہب اور بقول علامہ ابن قدامہ حنبلی حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔(عمدة القاری از بدر الدين عینی ۔7/ 150)
دوسرا مذہب یہ ہے کہ عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ مطلقا ً جمع بین الصلاتین کرنا جائز نہیں ہے ۔ یہ مذہب حضرت حسن بصری ، محمد ابن سیرین ، ابراہیم نخعی ، اسود ، مکحول ، عمر و بن دینار ، عمر بن عبد العزیز ، لیث بن سعد ، امام ابو حنیفہ،امام ابو یوسف ، امام محمد اور ایک روایت کے مطابق مالکیہ میں سے ابن قاسم علیہم الرحمہ کا بھی ہے ۔(عمدة القاری از بدر الدين عینی ۔7/ 150)
پہلے مذہب والوں کے دلائل
مذکورہ بالا وہ تمام حدیثیں جو جمع بین الصلاتین کے تعلق سے وارد ہوئی ہیں ،پہلے مذہب والے ان سے استدلال کرتے ہیں۔ نیز رفع حرج وضرر والی آیات اور مسلم قواعد بھی ان کی دلیلیں ہیں مثلاً ’’ المشقۃ تجلب التیسیر ‘‘ الضرر یزال‘‘ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘
موطا امام مالک کی شرح ’’ المسالک ‘‘ میں قاضی محمد بن عبد الله ابو بكر بن عربی مالكی (543ھ)جمع بین الصلاتین کی حکمت اس طرح بیان کرتے ہیں :
كَانَ يَجمَعُ بَينَ الظُّهرِ وَالعَصْرِ" إنّما ذلك على وجه الرَّفْقِ بالمصلِّي، وذلك أنّ الله تبارك وتعالى نصب أوقات الصّلوات وَقْتًا يختصُّ بها ثمّ لمّا عَلِمَ من ضَعْفِ العباد وقِلَّة قدرتهم على الاستمرار في الاعتياد، وما يطرأ عليهم من الأعذار الّتي لا يمكلنهم دفعها عن أنفسهم، أرخصَ لهم في نقل صلاة إلى صلاة ،، وجمع المفترق منها، كما أذِنَ في تفريق الجمع أيضًا، رخصةً في قضاء رمضان إذا أفطَرَهُ لعُذرِ المرض والسَّفَر، وقد ثبت عن النَّبيِّ - صلّى الله عليه وسلم - ذلك.( المسالك فی شرح موطأ مالك۔۳/۶۶)
نبی کریم ﷺ کا ظہر اور عصر کا آپس میں جمع کرنا نمازی کے لیے بطور آسانی تھا ، وہ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالی ٰ نے نمازوں کے لیے وقت مقرر فرما یا اور نمازوں کو انھیں وقتوں کے ساتھ خاص کر دیا ، لیکن اللہ تعالی ٰ اپنے بندوں کی کمزوری جانتا ہے اور یہ کہ بندہ کسی عمل پر دوام واستمرار کی قدرت کم رکھتا ہے اس کے علاوہ کبھی کبھی ایسے اعذار سے بھی دوچار ہوتا ہے جن کے دفع کی قدرت نہیں رکھتا ہے، تو اللہ تعالی ٰ نے ایک نماز کو دوسری نماز کی طرف منتقل کرنے کی رخصت دی اور الگ الگ چیزوں کو جمع کرنے کی اجازت دی، جیسے کہ نمازوں میں جمع کی رخصت دی ہے ۔یہ اسی طرح ہے جیسے مرض اور سفر کے عذر کے سبب رمضان کے دنوں میں افطار کی اجازت دی ہے، جب کہ جمع بین الصلاتین تو خود نبی کریم ﷺ سے ثابت بھی ہے ۔
فقہ مالکی کی مستند کتاب مدونہ میں ہے :
قَالَ مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ إنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ هَلْ يُجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي السَّفَرِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ، أَلَمْ تَرَ إلَى صَلَاةِ النَّاسِ بِعَرَفَةَ؟ قَالَ مَالِكٌ عَنْ دَاوُد بْنِ الْحُصَيْنِ: إنَّ الْأَعْرَجَ أَخْبَرَهُ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فِي سَفَرِهِ إلَى تَبُوكِ (المدونہ ۔1/ 205)
امام مالک نے ابن شہاب زہری سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے سالم بن عبید اللہ سے پوچھا کہ کیا سفر میں ظہر اور عصر کو آپس میں جمع کیا جائے گا ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ : ہاں ۔ اورفرمایا: کیا نہیں دیکھتے کہ لوگ عرفات میں جمع کرتے ہیں ۔ نیز امام مالک داود بن حصین سے روایت کرتے ہیں، انھیں اعرج نے خبر دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے تبوک کے سفر میں ظہر وعصر کے درمیان جمع فرمایا ۔
امام ابو زكريا محیی الدین یحی بن شرف نووی شافعی (676ھ) مذہب شافعی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْأَصْحَابُ: يَجُوزُ الْجَمْعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ : فِي الْمَطَرِ . وَحَكَى إمَامُ الْحَرَمَيْنِ قَوْلًا أَنَّهُ يَجُوزُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ ،۔ ( المجموع شرح المهذب ۔۴/۳۸۱)
امام شافعی اور ان کے اصحاب نے فرمایا کہ بارش میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کے درمیان جمع کرنا جائز ہے اور امام حرمین نے ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ مغرب وعشاء کا مغرب کے وقت جمع کرنا جائز نہیں ہے ۔
امام ابو اسحاق شیرازی شافعی نے جمع بین الصلاتین کو تین شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے لکھتے ہیں :
وإن أراد الجمع في وقت الأولى لم يجز إلا بثلاثة شروط: أحدها: أن ينوي الجمع.. وفي وقت النية قولان: أحدهما: يلزمه أن ينوي عند ابتداء الأولى؛ لأنها نية واجبة للصلاة فلا يجوز تأخيرها عن الإحرام كنية الصلاة ونية القصر. والثاني: يجوز أن ينوي قبل الفراغ من الأولى وهو الأصح؛ لأن النية تقدمت على حال الجمع فأشبه إذا نوى عند الإحرامالشرط الثالث: التتابع؛ وهو ألَّا يفرق بينهما.. فإن فُصِلَ بينهما بفصلٍ طويل بطل الجمع، وإن فُصِلَ بينهما بفصلٍ يسير لم يضر۔(المہذب ۔۱/۱۹۷)
اگر جمع تقدیم کا ارادہ ہوتو تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے ، پہلی شرط یہ ہے کہ جمع کی نیت کرے۔ نیت کے وقت میں دو قول ہے ایک یہ کہ پہلی نماز کی ابتدا کے وقت نیت کرے، کیوں کہ نماز کے لیے نیت واجب ہے ۔ لہذا اس میں احرام سے تاخیر درست نہیں ہے، جیسے؛ نماز اور قصر کی نیت ۔اور دوسرا قول یہ ہے کہ پہلی نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے نیت کر لے ، یہی اصح ہے ،اس لیے کہ جمع کی حالت میں نیت مقدم ہو چکی ہے تو اب یہ احرام کے وقت کی نیت کے مشابہ ہو گیا ۔تیسری شرط یہ ہے کہ دو نوں نمازوں کو پے در پے ادا کرے،ایسی صورت میں اگر زیادہ طویل فاصلہ ہوا تو جمع باطل ہو جائے گا، اور اگر فصل قصیر ہو تو کوئی حرج نہیں ۔
ابو محمد موفق الدين عبد الله بن احمد بن محمد بن قدامہ مقدسی حنبلی (620ھ) مذہب حنبلی کا خلاصہ لکھتے ہیں :
وَالْمَرَضُ الْمُبِيحُ لِلْجَمْعِ هُوَ مَا يَلْحَقهُ بِهِ بِتَأْدِيَةِ كُلِّ صَلَاةٍ فِي وَقْتِهَا مَشَقَّةٌ وَضَعْفٌ. قَالَ الْأَثْرَمُ، قِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: الْمَرِيضُ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ؟ فَقَالَ: إنِّي لِأَرْجُوَ لَهُ ذَلِكَ إذَا ضَعُفَ، وَكَانَ لَا يَقْدِرُ إلَّا عَلَى ذَلِكَ. وَكَذَلِكَ يَجُوزُ الْجَمْعُ لِلْمُسْتَحَاضَةِ، وَلِمَنْ بِهِ سَلَسُ الْبَوْلِ، وَمَنْ فِي مَعْنَاهُمَا؛ لِمَا رَوَيْنَا مِنْ الْحَدِيثِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ(مغنی از قدامہ ۔2/ 205)
وہ مرض جس کی وجہ سے جمع بین الصلاتین مباح ہوجاتا ہے یہ ہے کہ اگر ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے تو مشقت یا کمزوری لاحق ہو جائے۔ اثرم نے ابو عبد اللہ ( امام احمد ) سے سوال کیا : کیا مریض جمع کر سکتا ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اگر مریض کمزور ہو اور جمع کے علاوہ پر قادر نہ ہو ،تو میں سمجھتا ہوں کہ جمع اس کے لیے جائز ہے ۔ اسی طرح مستحاضہ اور اس شخص کے لیے جس کو برابر پیشاب کا قطرہ آتا ہو، یا اسی کی طرح کوئی دوسرا عذر لاحق ہو، تو ان سب کے لیے جمع کرنا جائز ہے ۔
نیز علامہ ا بن قدامہ حنبلی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
سفر کے علاوہ بارش ،بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔اگر جمعِ تقدیم میں پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرلی جائے ،تو سفر یا بارش کا عذر ختم ہونے کے بعد اگر دوسری نماز کا وقت باقی ہو تو بھی ادا شدہ نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔( مغنی از قدامہ ۔ ۲/۲۸۱)
دوسرے مذہب والوں کے دلائل
دوسرے مذہب والے ان تمام آیات سے استدلال کرتے ہیں ،جن میں نمازوں کے اوقات کا بیان اور حفاظت کا حکم ہے ۔ان کے علاوہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کو بھی بنیاد بناتے ہیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ (المستدرك على الصحيحين للحاكم۔۱/409)
حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :جس نے بغیر عذر کے جمع بین الصلاتین کیا،تو وہ کبائر کے دروازوں میں سے ایک میں داخل ہوگیا ۔
اس حدیث میں اگر چہ امام بخاری ، دار قطنی ، ابن معین ، ابو ذرعہ ، ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے سخت کلام کیا ہے ۔نیز اس حدیث کو اگر درست مان لیا جائے تب بھی یہ حدیث پہلے مذہب والوں کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ اس حدیث میں بغیر عذر جمع کرنے والوں پر وعید ہے جب کہ کوئی بھی بغیر عذر کے جمع بین الصلاتین کا قائل نہیں ہے ۔
فقیہ علاء الدين ابو بكر بن مسعود بن احمدكاسا نی حنفی (587ھ) لکھتے ہیں :
قال أصحابنا: إنه لا يجوز الجمع بين فرضين في وقت أحدهما ، إلا بعرفة والمزدلفة ؛ فيجمع بين الظهر والعصر في وقت الظهر بعرفة، وبين المغرب والعشاء في وقت العشاء بمزدلفة، اتفق عليه رواة نسك رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه فعله، ولا يجوز الجمع بعذر السفر والمطر۔( بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع۔1 / 126)
ہمارے اصحاب نے کہا کہ دو فرضوں کو عرفات اور مزدلفہ کےعلاوہ کسی ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے ۔لہذا، ظہر و عصر کی نمازوں کو عرفات میں ظہر کے وقت اور مغرب وعشاء کی نمازوں کو مزدلفہ میں عشاء کے وقت جمع کیا جائے گا ،کیوں کہ اس پر اللہ کے رسول ﷺ کے حج کے احوال بیان کرنے والے راویوں کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیا ۔ اور سفر ومطر کی عذر کی بنا پر جمع کرنا جائز نہیں ہے ۔
خلاصہ فتوی
۱۔نمازوں کو جماعت یا اس کے وقتوں پر ادا کرنے سے پہلے ضروری تو یہ ہے کہ اولا’’نماز ‘‘ ادا کی جائے، جو شخص سرے سے نماز ہی ا دا نہیں کرتا اس کے لیے یہ دلائل کیا معنی رکھتے ہیں ؟ نیز آج جو مسلمانوں کی بے عملی ہے اس میں تو ضروری ہے کہ ان کو نماز جیسے اہم فر یضۃ کی طرف بلایا جائے ، یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ جو ایک وقت کی بھی نماز ادا نہیں کرتا ہے وہ ایک وقت بھی ادا کرنے لگے تو یہ بھی ایک قسم کی کامیابی ہے ۔
۲۔نما زکے جو اوقات مقرر ہیں، انھیں میں مزدلفہ اور عرفہ بھی تو ہے ، نیز زوال کا وقت، نماز جنازہ کا وقت نہیں ہے مگر جنازہ حاضر ہو تو اس وقت نماز جنازہ جائز ہے، اسی طرح ترک نماز سے بہتر تو یہی ہے کہ جمع کر کے نماز ادا کرلے جیسا کہ مبسوط میں ہے:
ولا يصلى في هذه الأوقات على الجنازة أيضا لقوله وأن نقبر فيهن موتانا فليس المراد به الدفن لأن ذلك جائز بالإتفاق ولكنه كناية عن الصلاة على الجنازة أيضا قال : ولا يسجد فيهن للتلاوة ولو أدى سقط عنه لأن الوجوب في هذا الوقت ۔(المبسوط۔1/ 151)
ان اوقات مکروہا میں نماز جنازہ ادا نہ کی جائے، کیوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان وقتوں میں ہم اپنے مردوں کو قبر میں نہ اتاریں۔ اس سے مراد دفن کرنا نہیں ہے بلکہ یہ نماز جنازہ سے کنایہ ہے کہ ہم ایسے وقتوں میں نماز جنازہ ادا نہ کریں اور نہ سجدہ تلاوت کریں ، اس کے باوجود اگر ایسے وقتوں میں نماز جنازہ ادا کی جائے یا سجدہ تلاوت کیا جائے تو وجوب ساقط ہو جائے گا ۔
۳۔ اعذار کی بنا پر نماز کے بنیادی ارکان کو ساقط کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ نماز کی ادا ئیگی ہوسکے اور وہ کسی صورت میں ترک نہ ہونے پائے ۔جیسے بیماری کی وجہ سے یا سفر کی حالت میں قیام وقعود، اور رکوع وسجود ،جو فرض ہے ، عدم قدرت کی وجہ سے ساقط ہو جاتاہے ،تو اگر نماز کا وقت مقرر پر ادا کرنے میں واقعی عذر ہو تو ترک صلات سے بچنے کے لیے جمع ِ صلات کی جا سکتی ہے اگر چہ عذر کے وقت جمع صلات کی بعض دلیلیں مختلف فیہ ہیں مگر ضرورۃ ً اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے، خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ عرفہ اور مزدلفہ میں جمع صلات کی دلیل متفق علیہ ہے ۔
۴۔ جمع ِ صوری کی صورت وہاں ممکن ہے جہاں صورتا جمع کر پانا بندوں کے اختیار میں ہو،مثلا : اپنی دوکان پر بیٹھا ہو یا اپنی گاڑی سے ہو وغیرہ ۔ لیکن، جہاں صورتا جمع کر پانا بندوں کے اختیارمیں نہ ہو، جیسے ؛ تعلیم یا نوکری کے اوقات یا ہر وہ جگہ جہاں عذر اس کی جانب سے نہ ہو ، بلکہ عذر من جہت اللہ ہو، تو ایسی صورت میں جمع حقیقی کی اجازت ہوگی ۔
ہاں! اتنی کوشش ضرور رہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے نمازوں کو ان کے اوقات مقررہ پر ہی ادا کرنی چاہیے تاکہ علما کے اختلاف سے بچا جاسکے ،اور اگر واقعی عذرپیش آ جائے تو بوجہ مجبوری جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ ترک صلاۃ بہر صورت حرام قطعی ہے۔یہ بھی خیال رہے کہ جو لوگ یہ کہہ کر نماز قضا کر دیتے ہیں کہ ابھی وقت نہیں ہے یا طبیعت میں شادگی و اطمینان نہیں ہے بعد میں پڑھ لیں گے۔ سخت گناہ گار ہیں ۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں۔ ان پر توبہ لازم ہے۔ اس طرح گناہِ کبیرہ کے ارتکاب سے ہزار گنا بہتر ہے کہ جمع کرکے نماز ادا کرے۔ واللہ اعلم
محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
۱۱؍ مارچ ۲۰۲۱ء
Fahad
عمدہ
Leave your comment