ایک چشم دید رپورٹ
جمعہ کی شام 20 اکتوبر 2023 کو سلسلہ مجددیہ شرافتیہ کے نیر تاباں ابوالایتام والارامل حضرت محمد ثقلین میاں نقش بندی مجددی رحمہ اللہ کے وصال پرملال کی خبر دل ودماغ پر بجلی بن کر گری اور پورا حلقۂ شریعت و طریقت غم واندوہ میں ڈوب گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مرشد گرامی نے بھی بہت افسوس کا اظہار کیا، آپ اس وقت پنجاب کے دورے پر تھے، آپ نے حکم دیا کہ خانقاہ کے چند علما جنازے میں ضرور شرکت کریں۔
دوسرے روز دن میں ایک بجے محب گرامی مولانا مجیب الرحمن علیمی کی امارت اور محب محترم مولانا ضیاء الرحمن علیمی کی رفاقت میں یہ فقیر الہ آباد روانہ ہوا، وہاں سے بذریعہ بس لکھنؤ اور پھر وہاں سے بذریعہ ٹرین شب ڈھائی بجے بریلی پہنچے۔ رات تین بجے کے قریب ہم لوگ درگاہ شرافتیہ پہنچے، جہاں ایک افسردہ شب برات کا ماحول تھا۔ حضرت اقدس کی زیارت کا سلسلہ جاری تھا اور بہت سلیقے اور نظم کے ساتھ ثقلینی عشاق اپنے محبوب کا آخری دیدار کر رہے تھے۔ ہمیں بھی بیک ڈور سے فورا انٹری مل گئی اور ہم نے حضرت کے گلاب سے چہرے کی زیارت کی۔ چہرے پر وہی متانت اور تبسم کا آمیزہ جو حیات میں تھا اب بھی قائم تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حضرت بس کچھ کہنے ہی والے ہیں۔ اقبال یاد آئے:
نشان مرد مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست
ہم لوگوں نے فاتحہ پڑھی، پھر مہمان خانہ پہنچ گئے، فجر کے اول وقت کا انتظار کیا اور اول وقت میں فجر پڑھ کر دراز ہوگئے۔
صبح آٹھ بجے جناب ضیا راشد ثقلینی کا فون آیا کہ آپ لوگ بہاری پور پولس چوکی کے راستے سے اسلامیہ گراؤنڈ پہنچ جائیں، ورنہ بعد میں دشواری ہوسکتی ہے۔ ہجوم میں ہم راستہ بھٹک گئے، اس لیے اسلامیہ گراؤنڈ کے عقبی دروازے سے اس میں داخل ہوئے۔ اس وقت ابھی ساڑھے آٹھ بج رہے تھے ، لیکن آگے کی طرف آنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ مولانا مجیب صاحب نے جناب ضیا راشد کو فون کیا تو انہوں نے مولانا یونس برکاتی کی معیت میں ہمیں بمشکل تمام آگے کے حصے میں جہاں پنڈال لگا ہوا تھا، بلوالیا۔ یہ پورا پنڈال خصوصی علما ومشائخ کے لیے ریزرو تھا، لیکن افسوس کہ ہماری آنکھیں اس میں ملک کے معروف علما ومشائخ کے چہرے ڈھونڈتی رہ گئیں۔ ایک طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اور دوسری طرف مشاہیر اہل سنت کا غیاب تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ ایک ہی جگہ اتنے فاصلے کیوں کر ممکن ہیں؟ غور کرنے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ جماعت اہل سنت ایک طرف خارجی فکر سے متاثر ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف متصوفین کی بے نیازی بھی اپنے شباب پر ہے۔ پہلے جملے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جہاں اسلامیہ گراؤنڈ نمازیوں کے لیے تنگ پڑ رہی تھی، چھتوں پر ، اور سامنے اور پیچھے کی سڑکوں پر نمازیوں کا ہجوم تھا تو دوسری طرف بعض ٹی ٹی ایس وہاٹس ایپ گروپس میں یہ بحث چل رہی تھی کہ حضرت ثقلین میں کی نماز جنازہ میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟
پنڈال میں حضرت اسلم وامقی خانقاہ وامقیہ بریلی، حضرت ناصر میاں بہیڑی، جناب مختار تلہری، مفتی فہیم احمد ثقلینی، مولانا آصف نقشبندی، مولانا زین العابدین الجامعۃ الاحمدیہ قنوج، مولانا انوار احمد شیری صاحبان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس حادثہ فاجعہ پر غم واندوہ کے اظہار کے ساتھ مختلف دینی وملی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔
محب گرامی جناب حافظ شاہد ثقلینی سے بھی پنڈال میں ہی ملاقات ہوئی۔ اشکوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے بھی اس وقت وہ پھوٹ پھوٹ کر رو چکے تھے جب میں نے اول روز ان سے خبر کی تصدیق کے لیے فون کیا تھا۔ شاہد بھائی ایک بڑے تاجر حافظ وقاری ہیں۔ ثقلین میاں صاحب کے معتمد خاص اور دار الثقلین فاؤنڈیشن کے روح رواں ہیں۔ آج ان کی لسانی قوت کے مظاہرے دیکھے۔ اتنے بڑے ہجوم کو آپ نے بہت اچھی طرح سے کنٹرول کیا۔ حضرت ثقلین میاں کی عظمت، دینی واخلاقی نصیحت اور نظم ونسق اور حسن اخلاق کی دعوت دیتے رہے۔ آپ کی گفتگو نظم ونسق کے ساتھ لوگوں کو دھوپ کی تمازت اور ہجوم کی حدت میں صبر وضبط کی قوت بھی بخشتی رہی۔
دس بجے جنازے کا اعلان تھا، منتظمین نے وقت کو بہت مینیج کیا۔ تقریبا ساڑھے دس بجے جنازہ آگیا اور ہجوم کو بڑی مشکلوں اور حکمتوں سے کنٹرول کرتے ہوئے حضرت کے ولی عہد محترم شیخ غازی میاں ثقلینی نے تقریبا 11 بجے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ کے دوران بھی بعض لوگوں کی سسکیاں بلند ہورہی تھیں اور نماز کے بعد تو بہتوں کی چیخیں بلند ہوگئیں اور وقفے وقفے سے بلند ہوتی رہیں۔
تقریبا ایک گھنٹے تک ہم لوگ پنڈال ہی میں رہے ، جب مجمع منتشر ہوگیا اور راستے خالی ہوگئے تو ہم لوگ بھی نکلے، راستے میں ناشتہ کیا اور مہمان خانہ پہنچے۔ پھر نماز ظہر پڑھ کر تھوڑی دیر آرام کرلیا۔
تقریبا تین بجے ہم لوگوں کو حضرت ثقلین میاں کے مزار پاک پر لے جایا گیا۔ دو دروازوں سے الگ الگ عوام کی لمبی لائنیں ابھی بھی لگی ہوئی تھیں، وہ ایک طرف سے داخل ہوتے اور تربت اقدس کے قریب رضاکاروں کے ٹوکرے سے تھوڑی سی مٹی لیتے اور حضرت کی قبر پر ڈالتے ہوئے اور فاتحہ وسلام پیش کرتے ہوئے دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔
حضرت ثقلین میاں کی تربت اقدس پر ہی حضرت غازی میاں سے بھی ملاقات ہوئی۔ آنکھوں کی سیاہی اور چہرے کی طمانیت سے سب کچھ ظاہر تھا۔ انہوں نے محبت کا اظہار کیا اور وقت نہ دینے پر اعتذار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کہیں ، اس وقت آپ بڑے غم میں ہیں جو ہمارا بھی غم ہے۔ ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ حضرت مرشد نے ہمیں بھیجا ہے اور آپ کی خدمت میں اپنی تعزیت پیش کی ہے۔ انہوں نے شاہد بھائی سے کہا کہ مہمان خانے میں ان حضرات کو لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔ شاہد بھائی، مفتی فہیم ثقلینی ازہری اور دیگر خاص ثقلینی برادران کے ساتھ کھانا کھایا گیا، جن میں جاوید صاحب فاؤنڈر سینٹ عمر اسکول جھانسی، مولانا ضمیر ثقلینی، مولانا یونس برکاتی، مولانا عابد ثقلینی، مولانا رفاقت علی ثقلینی اور جناب عبد الحفیظ ثقلینی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس کے بعد مہمان خانے کے ہال میں حضرت غازی میاں کی رسم سجادگی ودستار بندی کی مجلس منعقد ہوئی۔ ہم احباب نے ان کی خدمت میں نذر پیش کی اور اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔
حضرت ثقلین میاں رحمہ اللہ کے محبوب نظر مرحوم مولانا راشد ثقلینی نعیمی کے صاحب زادے جناب ضیا راشد ثقلینی کا خصوصی شکریہ واجب ہے، جن کے توسط سے ہمیں بہت آسانی ہوئی۔ جامعہ عارفیہ کے ثقلینی طلبہ عزیزم تسلیم اور معاذ کی محبتیں بھی ناقابل فراموش ہیں۔ ایدھما اللہ بروح القدس۔
اب ہم تینوں احباب حضرت ثقلین میاں رحمہ اللہ کی شخصیت وخدمات اور ملی وجماعتی مسائل وافکار پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے سنگم اکسپریس 14308 سے اپنی سنگم نگری کی طرف رواں دواں ہیں۔
ذیشان احمد مصباحی
22 اکتوبر، 2023 ، شب 8 بجے
Leave your comment