خالہ زاد برادر گرامی مولانا محمد اختر تابش سعیدی ازہری کو جامعہ ازہر شریف، مصر کے کلیہ شریعہ میں جید جدا مع الشرف کی پوزیشن سے فارغ ہونے پر ڈھیروں مبارک باد۔ اللہ علم و فضل میں خوب برکتیں نصیب فرمائے۔
عمر میں گرچہ میں بڑا ہوں پھر بھی ہم دونوں بھائیوں نے باضابطہ مدرسہ کی تعلیم ایک ساتھ شروع کی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سن 2002 کے قریب چچا محترم مولانا فیضان الرحمٰن سبحانی ثقافی حفظہ اللہ نے میرے والد محترم مولانا خالد رضا قادری سے مشورہ کیااور مجھے اسکول سے نکال کر جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ، کیرالہ لے گئے۔ وہاں قریب 2 سال کی ابتدائی تعلیم ہوئی لیکن شمال اور جنوب کے نصابی فرق کی وجہ سے میری ابتدائی تعلیم متاثر ہو گئی اور کیرالہ کی آب و ہوا نے بھی صحت پر بُرا اثر کیا جس کے بعد وہاں سے واپس اپنے وطن دربھنگہ لوٹنا پڑا۔
پھر2004-5 کے تعلیمی سیشن میں والد محترم نے مجھے اور اختر تابش کو ہمارے ماموں جان مولانا صائم حسین رضوی کے حوالے کیا جو ضیاء العلوم، ادری میں زیر تعلیم تھے۔ ماموں جان ہم لوگوں کو لے کر شہر محبت بریلی شریف پہنچے، وہاں ہم نے جامعۃ الرضا میں اعدادیہ کا ٹیسٹ دیا اور میں اُس ننھی سی عمر میں حضور اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں مسلسل پانچ دن حاضر ہو کر پتہ نہیں کیوں لیکن یہی دعا کرتا رہا کہ ’’ کہ حضور! اگر میری اچھی تعلیم و تربیت یہیں آپ کے در پر رہ کر ہوجائے گی تو داخلہ کروا دیں یا پھر وہاں بھیج دیں جہاں میں اچھا عالم بن سکوں‘‘۔ اور خدا کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ ماموں جان ہماری داخلہ کارروائیوں کی وجہ سے خود اپنے مدرسہ میں وقت پر حاضر نہ ہو سکے۔ اُن کے پاس جلد مدرسہ حاضر ہونے کی وارننگ بھی پہنچ گئی اور یوں ہم دونوں بھائی جامعۃ الرضا میں داخلہ کارروائی مکمل کرنے کی بجائے ماموں جان کے ساتھ ضیاء العلوم، ادری آ گئے۔ چونکہ وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جس کی سرپرستی میں ماموں ہمیں چھوڑ سکتے تھے۔
خیر! 2004 سے 2006 کے دورانیہ میں ہم دونوں بھائیوں نے ضیاء العلوم میں ہی اعدادیہ اور اولیٰ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پھر سے میں مرکز الثقافہ، کیرالہ چلا گیا اور اختر تابش وہیں ادری میں زیر تعلیم رہے۔ میں نے 2007 سے 2011 کے دورانیہ میں دو سال ثانویہ اور دو سال کلیہ لغہ عربیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 2011 میں جامعہ عارفیہ، سید سراواں کا رخ کر لیا۔
داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کے قائم کردہ ادارہ جامعہ عارفیہ میں پہنچنے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا کہ بارگاہ اعلیٰ حضرت میں مانگی ہوئی دعا مستجاب تھی اور میں بالآخر وہاں پہنچ گیا جہاں تعلیم و تربیت کی بہترین فضا ہے اور علمی و روحانی پرواز کے لیے اِس سے بہتر جگہ شاید میرے نصیب میں نہ ہو!
حسنِ اتفاق کے جس وقت میں جامعہ عارفیہ میں داخلہ کے لیے چلا تھا اسی وقت بھائی اختر تابش ضیاء العلوم، ادری سے الجامعۃ الاشرفیہ کے لیے پا بہ رکاب تھے۔ وہ وہاں گئے، ٹیسٹ دیا اور قدرت کے انتظام نے انہیں ناکام کر کے جامعہ عارفیہ میں کامیاب ہونے کے لیے بھیج دیا۔
میں نے 2011-12 میں جماعت خامسہ کی تعلیم کو مکمل کر لیا تھا جب کہ اختر تابش اشرفیہ سے واپس ادری جا کر خامسہ میں پڑھنے لگے تھے اور صحت کی ناسازی کی وجہ سے وہ جماعت "خام سا" ہی رہا۔ دہلی میں زیر علاج رہے، آپ کے والد گرامی مولانا اسرائیل مصباحی جو بہترین عالم دین اور اشرفیہ کے نمایاں فارغین میں سے ہیں۔ انہوں نے گھر پر ہی "خام سا" کو "پختہ سا" کر کے تابش کو جامعہ عارفیہ میں سادسہ کے لائق بنا دیا۔
2012 میں تابش بھائی نے جامعہ عارفیہ میں داخلہ لے لیا۔ ہم دونوں بھائی جنہوں نے ضیاء العلوم میں اعدادیہ ایک ساتھ شروع کیا تھا، اب 2012-13 کے سیشن میں ساتھ ہی جامعہ عارفیہ سے دستار عالمیت کے مستحق ہو رہے تھے۔تابش بھائی پڑھنے میں مجھ سے زیادہ شغف رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے عالمیت کے بعد ہی جامعہ عارفیہ سے اڈوانس ڈپلومہ کا کورس جوائن کر لیا اور 13 ؍ستمبر 2014 میں دستار فراغت سے سرفراز ہوئے ۔جب کہ میں جامعہ میں ہی ابتدائی جماعت کی تدریس سے وابستہ ہو گیا ۔ ساتھ ہی کمپیوٹر سے شغف رکھنے کی بنا پر میرے ذمہ خانقاہ عارفیہ کو برقی نشریات سے جوڑنے کا کام دیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر الاحسان میڈیا کے نام سے خانقاہ عارفیہ کا اپنا چینل شروع ہوا، جس میں تا حال فقیر اپنی خدمات انجام دینے میں لگا ہے۔
2014-15 کے تعلیمی سیشن سے جامعہ عارفیہ میں فضیلت کی تعلیم کا بھی آغاز ہوا، جس کی شروعات ہماری جماعت سے ہی ہوئی۔دونوں بھائیوں نے پھر سے جامعہ میں داخلہ لیا اور 23؍ اگست 2016 کو جامعہ عارفیہ کی تاریخ میں فضیلت کے اولین فارغین کی صف میں ہمارا بھی شمار ہو گیا۔ الحمدللہ
فراغت کے بعد جامعہ میں ہی تدریس اور اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم و تحقیق کا سلسلہ چلتا رہا، بالآخر 7؍ اگست 2018 کو اللہ کے فضل و کرم سے جامعہ عارفیہ، سید سراواں سے 5؍ افراد پر مشتمل عارفی فارغین کا قافلہ جامعہ ازہر، قاہرہ کی جانب روانہ ہوا جس میں مولانا تابش بھی شامل تھے۔
آج جب وہ ازہری ہو کر وہاں سے واپس آئے ہیں تو مجھے بے انتہا خوشی اور مسرت کا احساس ہو رہا ہے اور اللہ سے دعا گو بھی ہوں کہ مرشدِ گرامی حضور داعی اسلام کی نگاہِ فیض کا سلسلہ ہم سیہ کاروں پر یوں ہی جاری رہے اور علم و آگہی کے حصول میں اُن کی ہمتیں شامل حال رہیں۔ و باللہ التوفیق
13؍ اکتوبر 2023
محمد طارق رضا قادری
Leave your comment