Donate Now
فاسق و بدعتی کی اقتدا کا حکم

فاسق و بدعتی کی اقتدا کا حکم

خلاصہ فتوی:

سوال ۔فاسق وبدعتی  کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب:جب  تک کسی کی بدعت و فسق سے کفر لازم نہ آئے اس وقت تک اس کے پیچھے نماز جائز ودرست ہے، اس پر متعدد احادیث و آثار موجود ہیں اور صحابہ، تابعین، سلف صالحین کا اسی پر عمل رہا ہے اور یہ اہل سنت و جماعت کی  علامت بھی  ہے ۔

سوال: دیوبندی کی اقتدا میں نماز درست ہے یا نہیں؟

جواب : دیوبندی نام سے منتسب حضرات کے عقائد  تین طرح کے ہیں، ان  تینوں کا حکم الگ الگ ہے۔

(۱) بعض وہ ہیں جن کے بارے میں یہ الزام ہے کہ یہ لوگ گستاخ  رسول ہیں، علم غیب کا مطلق انکار کرتے ہیں اور  اسی طرح ختم نبوت کا بھی انکار کرتے ہیں، واقعی جن لوگوں کا ایسا عقیدہ ہو  وہ کافر ہیں ان کی اقتدا جائز نہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ شاید ہی کسی کلمہ گو سے  ایسے عقائد کا صدور ہو، کسی کے بعض کلمات، تعبیرات اور  عبارات سے ایسے معنی کا لزوم سمجھ میں آئے جس سے ضروریات دین کا انکار لازم ہوتا ہو، اس سے ان کے  عقیدہ کا بھی ایسا ہونا مستلزم نہیں، اس لیے بلا تحقیق تکفیر مسلم سے بچنا اولیٰ ہے اور جب تک تحقیق نہ ہوجائے ان کی اقتدا میں نماز جائز و درست ہے۔

(۲) بعض وہ ہیں جو امکان نظیر اور امکان کذب باری کے قائل ہیں، اسی طرح بعض وہ ہیں جو قیام تعظیمی، میلاد، استغاثہ  اور زیارت قبور کے منکر ہیں۔ یہ لوگ فاسق یا بدعتی ہیں، ان لوگوں کی اقتدا میں نماز ہوجائے گی ،ہاں؛ اہل سنت امام کی موجودگی میں ان کو امام بنانا مکروہ ہے۔ لیکن اہل سنت کی مسجد نہ ہونے کی صورت میں جماعت و جمعہ کا ترک درست نہیں ہے۔

(۳) بعض وہ لوگ  ہیں جو اسمی طور سے اس جماعت کی طرف منسوب ہیں، ان کے عقائد کے بارے میں انھیں  کچھ بھی علم نہیں ہے تو ایسے لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

سوال: مجہول الحال امام کی اقتدا کیسا ہے؟

جواب: اللہ تعالی نے مسلمانوں کو نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس بات کا مکلف نہیں بنایا ہے کہ وہ ہر شخص کا ایمان  ناپتا پھرے اور جہاں جائے وہاں امام کے ایمان وعقیدہ کی چھان بین کرے اس لئے کہ امامت کے باب میں اصل یہی ہے کہ امام مسلمان ہے یہاں تک کہ اس کا کفر ظاہر ہو لہذا وہ امام جس کے اعتقاد کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز اداکرنا  جائز ودرست ہے ۔ 

 سوال: حرم مکہ اور حرم مدینہ کے اماموں کی اقتدا میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب: ان اماموں کے عقائد کا  یقینی علم نہ ہونے کے باوجود وہابی حکومت کے تابع  ہونے کی وجہ سے غالب گمان ہے کہ یہ ائمہ بھی وہابی ہوں گے۔ وہابیت تصوف مخالف ہے اور بعض مسائل میں اہل سنت کے معتقدات کے خلاف ہیں، اس لیے جمہور علماے اہل سنت نے انھیں بدعتی کہا ہے ، ان کی تکفیر سے اجتناب کیا ہے اور یہ واضح رہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک  جہاں اہل سنت کا امام موجود نہ ہو وہاں ان  کی اقتدا میں ہر نماز درست ہے لیکن اگر اختیار ہو تو ایسوں کو امام بنانا سخت مکروہ ہے۔

سوال: فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی اقتدا  کرنا  کیسا ہے؟ یعنی شافعی کا حنفی یا حنفی کا شافعی کی اقتدا کرنا کیسا ہے؟

جواب: امامت کے لیے عدالت و تقوی کی شرط استحبابی ہے اور جب عدالت بھی ثابت ہے تو اقتدا سے کون سی چیز مانع ہے؟ صرف کسی مسئلے میں اجتہادی اختلاف کی وجہ سے اقتدا سے منع کرنا محض تعصب مذہبی ہے اور یہ شرط لگانا کہ امام تمام مقتدیوں کے فروعی مسائل کی رعایت کرے تنگی اور اسلام کے ذوقِ وسعت و سماحت کے خلاف ہے۔


تفصیلی فتوی:

سوال ۔فاسق وبدعتی  کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب:جب  تک کسی کی بدعت و فسق سے کفر لازم نہ آئے اس وقت تک اس کے پیچھے نماز جائز ودرست ہے، اس پر متعدد احادیث و آثار موجود ہیں  اور صحابہ، تابعین، سلف صالحین کا اسی پر عمل رہا ہے اوریہ اہل سنت وجماعت کی  علامت بھی  ہے ۔

ہر نیک و بد کے پیچھے نماز کے جواز پر احایث وآثار

۱- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ مُسْلِمٍ، بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، وَإِنْ هُوَ عَمِلَ بِالْكَبَائِرِ  (سنن ابی داود ، کتاب الجہاد، باب فی الغزو مع ائمۃ الجور)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد  اگرچہ وہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہو ۔

اس حدیث کو دار قطنی نے دوسرے الفاظ کے ساتھ تخریج کیا ہے اور یہی الفاظ مشہور ہیں ۔

۲-عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  «صَلُّوا خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ (سنن الدارقطنی،کتاب العیدین،باب صفۃ من تجوز الصلاة معہ والصلاة عليہ)

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ :ہر نیک و بدکے پیچھے نماز پڑھو ۔ 

اس حدیث کی تخریج کے بعد دار قطنی نے کہا کہ اس حدیث کو مکحول نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے حالانکہ مکحول کی ملاقات ابوہریرہ سے ثابت نہیں ہے لیکن ان کے بعد کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اس کی سند میں ایک راوی معاویہ بن صالح ہے جو متکلم فیہ ہے لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے کیوں کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس سے استدلال کیا ہے ۔ 

علامہ بدرالدین عینی نے بخاری کی شرح میں کہا کہ یہ حدیث انقطاع کی وجہ سے اگرچہ ضعیف ہے مگر اس معنی  کی بہت سی حدیثیں مروی ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث قوی ہوگئی اوراب اس سے استدلال کرنا درست ہے۔ (عمدة القاری شرح صحيح البخاری،5/ 232)

وقال ابن حجر: وَيُوَافِقُهُ خَبَرُ الدَّارَقُطْنِيِّ: " «اقْتَدُوا بِكُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ» "، وَهُوَ وَإِنْ كَانَ مُرْسَلًا، لَكِنَّهُ اعْتَضَدَ بِفِعْلِ السَّلَفِ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ وَرَاءَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ، وَرَوَى الشَّيْخَانِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُصَلِّي خَلْفَ الْحَجَّاجِ، وَكَذَا كَانَ أَنَسٌ يُصَلِّي خَلْفَهُ أَيْضًا، (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،3/ 867)

ملا علی قاری مرقات میں علامہ ابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں ،ابن حجر نے کہا کہ دار قطنی کی حدیث«اقتدوا بكل بر وفاجر»  پہلی حدیث کے موافق ہےاگر چہ  یہ بھی مرسل ومنقطع ہے لیکن سلف کے عمل سے اس کی تقویت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ حضرات ظالم اماموں کی اقتدا کرتے رہے ہیں جیسا کہ امام بخاری ومسلم نے روایت  کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر اور انس حجاج کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔

3-  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيَلِيكُمْ بَعْدِي وُلَاةٌ، فَيَلِيَكُمُ الْبَرُّ بِبِرِّهِ، وَالْفَاجِرُ بِفُجُورِهِ، فَاسْمَعُوا لَهُمْ وَأَطِيعُوا فِي كُلِّ مَا وَافَقَ الْحَقَّ، وَصَلَّوْا وَرَاءَهُمْ، فَإِنْ أَحْسَنُوا فَلَكُمْ وَلَهُمْ، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ (سنن رادقطنی، کتاب العیدین، باب صفۃ من تجوز الصلاة معہ والصلاة عليہ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا میرے بعد حکمراں ہوں گے نیک حاکم اپنی نیکی کے ساتھ اور برے حاکم اپنی برائی کے ساتھ تم پر حکومت کریں گے تو تم ان کی باتوں کو سننا اور ان کی ہر اس بات  کی اطاعت کرنا جو حق کے موافق ہو اور ان کے پیچھے نماز  پڑھنا ، نیک عمل کریں تو وہ ان کے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی بھلائی ہے اور اگر وہ برا عمل کریں تو بھی تمہارے لئے نیکی ہوگی اور برائی کا وبال ان کے سر ہوگا ۔)

شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی  اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دارقطنی  اورترمذی نے اس کی تخریج صحیح سند سے کی ہے اس حدیث سے ہر نیک وبد کےپیچھے نماز کا جواز مستفاد ہوتا ہے۔ اور بعض سلف اپنے گھر وں میں نماز ادا کرتے تھے ،پھر ان کے ساتھ بھی اس کو پڑھتے تھے یہ امام مالک کا مذہب ہے اور بعض سلف اعادہ نہیں کرتے تھے ۔

 استفيد من الحديث: جواز الصلاة خلف البر والفاجر. وكان بعض السلف يُصلون في بيوتهم في الوقت ثم يُعيدون معهم؛ وهو مذهب مالك. وعن بعض السلف: لا يعيدون؛( شرح ابی  داود، ازعینی،2/ 318 )

۴-  وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «صَلُّوا خَلْفَ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَصَلُّوا عَلَى مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» (سنن الدارقطنی، 2/402)

 عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاجو لا الہ الا اللہ کہے اس کے پیچھے نماز پڑھو اور لا الہ الا اللہ پر مرے اس کی نماز پڑھو ۔ دار قطنی نے  اس کو ضعیف کہا ۔

علامہ مناوی نے جامع صغیر کی شرح میں اس کی تخریج کے بعد کہا کہ جب تک کسی کےفسق یا بدعت سے کفر لازم نہ آئے اس وقت تک اس کے پیچھے نماز درست ہے اس لئے کہ ابن عمر نے حجاج کے پیچھے نماز ادا کی اور وہ (حجاج) کم سے کم فاسق ضرور تھا یہی امام شافعی کا مذہب ہے اور امام مالک نے فاسق کے پیچھے مطلق نماز کو منع کیا ہے ۔) 

(وصلوا وراء) وفي رواية خلف (من قال لا إله إلا الله) مع ذلك ولو فاسقا ومبتدعا لم يكفر ببدعته وقد صلى ابن عمر خلف الحجاج وكفى به فاسقا هذا مذهب الشافعي ومنعها مالك خلف فاسق بلا تأويل (فيض القدير شرح الجامع الصغير 4/ 203)

علامہ شوکانی  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا مفاد یہ ہے کہ باب امامت میں عدالت شرط نہیں ہے لہذا جس کی اپنی نماز درست ہو گی تو اس کے پیچھے دوسروں کی بھی نماز درست ہوگی  تو جب فاسق کی اپنی نماز درست ہے تو اس کے پیچھے دوسروں کی نماز بھی درست ہو گی۔ 

الْحَاصِلُ أَنَّ الْأَصْلَ عَدَمُ اشْتِرَاطِ الْعَدَالَةِ، وَأَنَّ كُلّ مَنْ صَحَّتْ صَلَاتُهُ لِنَفْسِهِ صَحَّتْ لِغَيْرِهِ وَقَدْ اعْتَضَدَ هَذَا (نيل الاوطار 3/ 195) 

علامہ صنعانی محمد بن اسماعيل بن صلاح بن محمد الحسنی اس  حدیث کی شرح میں دونوں طرح کی روایتوں کوذکر نےکے بعد لکھتے ہیں۔

ذَهَبَتْ الشَّافِعِيَّةُ، وَالْحَنَفِيَّةُ إلَى صِحَّةِ إمَامَتِهِ مُسْتَدِلِّينَ بِمَا يَأْتِي مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ وَغَيْرِهِ وَهِيَ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ دَالَّةٌ عَلَى صِحَّةِ الصَّلَاةِ خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ، وَفَاجِرٍ إلَّا أَنَّهَا كُلَّهَا ضَعِيفَةٌ، وَقَدْ عَارَضَهَا حَدِيثُ «لَا يَؤُمَّنَّكُمْ ذُو جُرْأَةٍ فِي دِينِهِ» وَنَحْوُهُ وَهِيَ أَيْضًا ضَعِيفَةٌ قَالُوا فَلَمَّا ضُعِّفَتْ الْأَحَادِيثُ مِنْ الْجَانِبَيْنِ رَجَعْنَا إلَى الْأَصْلِ، وَهِيَ أَنَّ مَنْ صَحَّتْ صَلَاتُهُ صَحَّتْ إمَامَتُهُ، وَأَيَّدَ ذَلِكَ فِعْلُ الصَّحَابَةِ فَإِنَّهُ أَخْرَجَ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيخِ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَنَّهُ قَالَ " أَدْرَكْت عَشَرَةً مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُصَلُّونَ خَلْفَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ " وَيُؤَيِّدُهُ أَيْضًا حَدِيثُ مُسْلِمٍ «كَيْفَ أَنْتَ إذَا كَانَ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا أَوْ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا قَالَ فَمَا تَأْمُرُنِي قَالَ صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتهَا مَعَهُمْ فَصَلِّ فَإِنَّهَا لَك نَافِلَةٌ» فَقَدْ أَذِنَ بِالصَّلَاةِ خَلْفَهُمْ وَجَعَلَهَا نَافِلَةً؛ لِأَنَّهُمْ أَخْرَجُوهَا عَنْ وَقْتِهَا، وَظَاهِرُهُ أَنَّهُمْ لَوْ صَلُّوهَا فِي وَقْتِهَا لَكَانَ مَأْمُورًا بِصَلَاتِهَا خَلْفَهُمْ فَرِيضَةً.(سبل السلام 1/ 373)

ابن عمر وغیرہ کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے امام شافعی اورامام ابو حنیفہ فاسق وبدعتی کے پیچھے نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں اوراس باب میں کہ ہر نیک وبد کے پیچھے نماز صحیح ہے، بہت ساری حدیثیں موجود ہیں مگر سب ضعیف ہیں  نیز ان کے معارض حدیث بھی ہے  جیسےیہ حدیث کہ :دین میں جرات کرنے والا تمہاری امامت نہ کرے :اور اس طرح کی دوسری حدیثیں  لیکن یہ سب بھی ضعیف ہیں  ،لہذا جب دونوں جانب احادیث ضعیف ہیں تو ہم نے ایک ا صل کی طرف رجوع کیا وہ اصل یہ ہے کہ: ہر وہ شخص جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔ صحابہ کرام کے فعل سے اس اصل کی تائید ہوتی ہے چنانچہ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عبد الکریم سے روایت نقل کیا ہے کہ انھوں نے دس صحابہ کرام کو پایا جنھوں نے ظالم اماموں کے پیچھے نماز ادا کی ،نیز امام مسلم کی اس حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا :کیا کروگے جب تمہارے اوپر ایسے امرا ہونگے جو نمازوں کو ان کے وقتوں سے موخر کریں گے یا نمازوں کومستحب وقت کے بعد ادا کریں گے ۔صحابہ نےعرض کیا تو آپ ﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟تو حضور ﷺ نے فرمایا نمازوں کو ان کے وقتوں میں اد ا کرو پھر اگر انہیں جماعت قائم کرتے دیکھو تو ان کے ساتھ نماز پڑھو وہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی :اس حدیث میں حضور ﷺ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا اوران کی  نمازوں  کو نفل قرار دیا اس لیے کہ وہ (امرا)نمازوں کو موخر کرتے تھے لہذا اگر وہ نمازوں کو ان کے وقتوں پر ادا کرتے تو آپ ﷺ انہیں (صحابہ )فرض نمازوں میں بھی ضرور اقتدا کا حکم دیتے۔

۵-     أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا حُصِرَ صَلَّى بِالنَّاسِ شَخْصٌ، فَسَأَلَ سَائِلٌ عُثْمَانَ: إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ، وَهَذَا الَّذِي صَلَّى بِالنَّاسِ إِمَامُ فِتْنَةٍ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ الصَّلَاةَ مِنْ أَحْسَنِ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحْسَنُوا فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ.( صحيح البخاری ،1/ 141)

صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھائی ،کسی نے آپ سےکہا کہ آپ عام لوگوں کےامام ہیں اور یہ شخص جس نے لوگوں کو نماز پڑھائی ہے یہ تو فتنہ کا امام ہے؟(كنانہ بن بشر،یہ خوارج کا سردارتھا جس نے نماز پڑھائی تھی ) آپ نے کہا اے میرے بھائی یہ نماز لوگوں کے عمل میں سب سے بہتر عمل ہے تو جب وہ نیک عمل کی طرف بلائیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کرو اور جب وہ برا کریں توتم   ان سے پرہیز کرو ۔ 

علامہ ابن حجر عسقلانی اس واقعہ کی شرح میں فرماتے ہیں ۔اس میں لوگوں کو جماعت کی طرف ابھارنا ہے خاص طور سے جب  فتنہ کا زمانہ ہو تاکہ کلمہ میں اور فرقہ بندی نہ ہو نیز اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ جس کے پیچھے نماز مکروہ ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا  اولی ہے نمازکے  ترک کرنے سے ۔

وفي هذا الأثر الحض على شهود الجماعة، ولاسيما في زمن الفتنة؛ لئلا يزداد تفرق الكلمة، وفيه أن الصلاة خلف من تكره الصلاة خلفه أولى من تعطيل الصلاة۔( فتح الباری لابن حجر، 2/ 190)

۶- انَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يُصَلِّي خَلْفَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ الثَّقَفِيِّ، وَكَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَكَانَ الْحَجَّاجُ فَاسِقًا ظَالِمًا. 

صحیح سند سےثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ،حجاج بن یوسف ثقفی کے پیچھے نماز ادا کرتے  تھے اسی طرح  انس ابن مالک بھی اس  کے پیچھے نماز ادا  کرتے تھے  حالانکہ حجاج فاسق وظالم تھا ۔

اس اثر کی شرح میں شارح بخاری علامہ ابن بطال لکھتے ہیں:

واختلف العلماء فى الصلاة خلف الخوارج وأهل البدع، فأجازت طائفة الصلاة خلفهم، روى عن ابن عمر أنه صلى خلف الحجاج وصلى خلفه ابن أبى ليلى، وسعيد ابن جبير، وخرج عليه، وقال الحسن: لا يضر المؤمن صلاته خلف المنافق، ولا تنفع المنافق صلاة المؤمن خلفه. وقال النخعى: كانوا يصلون وراء الأمراء ما كانوا وكان أبو وائل يجمع مع المختار. وقال جعفر بن برقان: سألت ميمون بن مهران عن الصلاة خلف رجل يذكر أنه من الخوارج فقال: أنت لا تصلى له إنما تصلى لله، قد كنا نصلى خلف الحجاج، وكان حروريًا أزرقيًا، وأجاز الشافعى الصلاة خلف من أقام الصلاة، وإن كان غير محمود فى دينه. وكرهت طائفة الصلاة خلفهم (شرح صحيح البخارى لابن بطال، 2/ 326)

خوارج اور اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنے کے سلسلے میں علما کا اختلاف ہے علماکی ایک جماعت  اس کو جائز کہتی ہے  جیسا کہ ابن عمر ،قاضی ابن ابی لیلی ،اور سعید ابن جبیر کے تعلق سے روایت ہے کہ یہ حضرات حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز ادا کرتےتھے  ،حسن بصری نے کہا کہ مومن کا منافق کے پیچھے نمازادا کرنا کچھ ضرر نہ دے گا اور منافق کا مومن کے پیچھے نماز ادا کرنا کچھ فائدہ نہ دے گا ،ابراہیم نخعی نے کہا کہ صحابہ تابعین امرا کے پیچھے نماز ادا کرتے  رہے جب تک وہ با حیات رہے ،جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے خوارج کے پیچھے نماز پڑھنے کے تعلق سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ تم ان کے لئے نماز نہیں پڑھتے ہو اللہ کے لئے پڑھتے ہو ہم حجاج کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ وہ حروریا (خارجی )تھا ،امام شافعی نے اس شخص کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا جو   دین میں محمود نہ ہو اور علما کی ایک جماعت نے مکروہ کہا۔

۷- روى ابن أبى شيبة، عن وكيع قال: حدثنا بسام قال: سألت أبا جعفر محمد بن على عن الصلاة خلف الأمراء، فقال: صل معهم، قد كان الحسن والحسين يعتدان الصلاة خلف مروان، (شرح صحيح البخارى لابن بطال 2/ 322)

ابن ابی شیبہ نے وکیع کے واسطے سےبسام سے روایت کیا کہ انہوں نے ابو جعفر محمد بن علی سے امرا کے پیچھے نماز پڑھنے کے تعلق سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اس لئے کہ امام حسن وحسین مروان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔ 

8-   عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَغَيْرُهُ يُصَلُّونَ خَلْفَ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَكَانَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ -(شرح مسندالشافعی،۳۳۵/۵) 

مسند شافعی کی شرح میں ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابو معیط شراب پیتا تھا اس کے باوجود عبد اللہ ابن مسعود اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے ۔ 

ان مذکورہ بالا احادیث  و اثار سے واضح ہے کہ عادل امام کی اقتدا ممکن نہ ہو تو فاسق و بدعتی کے پیچھے نماز جائز ودرست ہے یہی سلف صالحین و ائمہ مجتہدین سے منقول و ماثور ہےاس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے  ۔

فاسق و بدعتی کے پیچھے نماز کے جواز وعدم جواز میں ائمہ کا مذہب

صالح وعادل امام کی اقتداممکن نہ ہو تب توبالاتفاق فاسق وبدعتی کے پیچھے نماز جائز ودرست ہےاس میں سلف صالحین ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے ،مگر عادل امام کے ممکن ہونے کے باوجود اگر فاسق وبدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟   علماکا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں نماز  مکروہ ہے مگر نماز کے جواز وعدم جواز میں دو قول ہے :

(۱) پہلا قول یہ ہے کہ نماز صحیح و درست ہےاعادہ واجب نہیں ہے،کراہت صرف تنزیہی ہے امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،اور امام مالک و امام احمد کا راجح قول  یہی ہے  اور جمہور علما کا عمل بھی اسی پر  ہے ۔

(۲) دوسرا قول  یہ ہے کہ نماز صحیح نہیں  ہے اس نماز کا اعادہ واجب ہے ۔امام مالک اور امام احمد کا یہ دوسرا قول ہے ۔

مذہب حنفی

امام شمس الائمہ سرخسی لکھتے ہیں  :

تقْدِيمُ الْفَاسِقِ لِلْإِمَامَةِ جَائِزٌ عِنْدَنَا وَيُكْرَهُ .... وَلَنَا حَدِيثُ مَكْحُولٍ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «الْجِهَادُ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ وَالصَّلَاةُ خَلْفَ كُلِّ إمَامٍ وَالصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مَيِّتٍ»، وَقَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «صَلُّوا خَلْفَ كُلِّ بِرٍّ وَفَاجِرٍ»، وَلِأَنَّ الصَّحَابَةَ وَالتَّابِعِينَ كَانُوا لَا يَمْنَعُونَ مِنْ الِاقْتِدَاءِ بِالْحَجَّاجِ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ وَغَيْرِهَا مَعَ أَنَّهُ كَانَ أَفْسَقَ أَهْلِ زَمَانِهِ حَتَّى قَالَ الْحَسَنُ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لَوْ جَاءَ كُلُّ أُمَّةٍ بِخَبِيثَاتِهَا وَنَحْنُ جِئْنَا بِأَبِي مُحَمَّدٍ لَغَلَبْنَاهُمْ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ لِأَنَّ فِي تَقْدِيمِهِ تَقْلِيلُ الْجَمَاعَةِ وَقَلَّمَا يَرْغَبُ النَّاسُ فِي الِاقْتِدَاءِ بِهِ، (المبسوط ، 1/ 40) 

فاسق کو امامت کے لئے آگے بڑھانا ہمارے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے  ... ہماری دلیل مکحول کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ہر امیر کے ساتھ جہاد کرو ،ہر امام کے پیچھے نماز پڑھو ،ہر میت کی نماز پڑھو ،نیز آپ نے فرمایا :ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھو ،اور اس لئے بھی کہ صحابہ تابعین جمعہ وغیرہ میں حجاج کی اقتدا سے نہیں روکتے تھے حالانکہ وہ اپنے زمانے میں سب سے بڑا فاسق تھا ،یہاں تک کہ امام حسن بصری نے کہا کہ اگر پوری امت کی خباثت ایک جگہ جمع کی جائے تب بھی ابو محمد (حجاج) کی خباثت ان پر سبقت لے جائے گی ۔رہا فاسق کی امامت کا مکروہ ہونا تو وہ صرف اس لئے ہے کہ اس کو امامت  کے لیے آگے بڑھاناتقلیل جماعت کا باعث ہوگا کیوں کہ  ایسے امام  کی اقتدا میں لوگ رغبت کم رکھتے ہیں ۔ 

فقیہ علاء الدين، ابو بكر بن مسعود بن احمد كاسانی حنفی نے فاسق کی امامت کے  جواز وکراہت کی وجہ بیان کیا ہے لکھتے ہیں: 

وَلِأَنَّ جَوَازَ الصَّلَاةِ مُتَعَلِّقٌ بِأَدَاءِ الْأَرْكَانِ وَهَؤُلَاءِ قَادِرُونَ عَلَيْهَا، إلَّا أَنَّ غَيْرَهُمْ أَوْلَى؛ لِأَنَّ مَبْنَى الْإِمَامَةِ عَلَى الْفَضِيلَةِ، وَلِهَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَؤُمُّ غَيْرَهُ وَلَا يَؤُمُّهُ غَيْرُهُ، وَكَذَا كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - فِي عَصْرِهِ؛ وَلِأَنَّ النَّاسَ لَا يَرْغَبُونَ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ هَؤُلَاءِ فَتُؤَدِّي إمَامَتُهُمْ إلَى تَقْلِيلِ الْجَمَاعَةِ، وَذَلِكَ مَكْرُوهٌ (بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع 1/ 156)

 نماز کے جوازکا تعلق ارکان کی ادائیگی پر ہے اوریہ (اندھا، فاسق، ولد الزنا وغیرہ )سب ارکان کی ادائیگی پر قادر ہیں لہذا ان کے پیچھے نماز جائز ہے،البتہ ان کا غیر اولی صرف اس لئے ہے کہ امامت کی بنیاد فضیلت پر ہے اسی لئے حضور ﷺ خود دوسرے کی امامت فرماتے تھے دوسرا آپ کی امامت نہیں کرتا تھا اور اسی طرح خلفائے راشدین بھی کرتے تھے ،اور مکروہ اس لئے ہے کہ ان کے پیچھے نماز میں لوگ رغبت کم کریں گے جس سے جماعت میں کمی پیدا ہوگی ۔ 

بنایہ میں ہے:

وفي " المحيط ": لو صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة؛ لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «صلوا خلف كل بر وفاجر» .وأما لا ينال ثواب من صلى خلف التقي، ثم الفاسق إذا كان يؤم، وعجز القوم عن منعه تكلموا فيه، قيل: يقتدى به في صلاة الجمعة، ولا يترك الجمعة بإمامته۔ في " شرح بكر " فأصل الجواب أن من كان من أهل قبلتنا، ولم يعمل بقوله لم يحكم بكفره، وتجوز الصلاة خلفه، ملخصا (البنايہ شرح الدنایہ، 2/ 333)(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشيۃ الشلبی،1/ 134)

علامہ بدر الدین عینی محیط کےحوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر فاسق یا بدعتی کے پیچھے کسی نے نماز ادا کی تو وہ جماعت کا ثواب پانے والا ہوگا ،اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھو ،البتہ متقی کے پیچھے نماز پڑھنے کے ثواب سے کم پائے گا ،پھر اگر فاسق امامت کرے اور لوگ اس کو روکنے پر قادر نہ ہو تو اس میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے جمعہ کی نماز میں اس کی اقتدا کرے اور اس کی امامت کی وجہ سے جمعہ نہ چھوڑے۔ شرح بکر میں اصل جواب یہ دیا گیا ہے کہ:ہر وہ شخص جوبھی اہل قبلہ سے ہو، اور اس کے کسی قول وفعل سے کفر لازم نہ آتا     ہو تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے ۔

تجزیہ: فقہاے احناف کے ان اقوال سے واضح ہوا کہ ہر فاسق وبدعتی  جس کی فسق وبدعت حد کفر تک نہ پہنچی ہو  اس کی اقتدا جائز ہے۔ لیکن وہ شخص جو امام کے تقرر پر قادر ہے اس کے لیے کراہت کے ساتھ جائز  ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے جو امام بنانے پر قادر نہ ہوں ان کے لیے بلاکراہت  جائز ہے۔ جماعت کا ترک کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں اگرچہ متقی امام کی اقتدا اولی و انسب ہے ۔

مذہب مالکی 

فقیہ محمد بن عبد الله خرشی مالكی،لکھتے ہیں:

 إنَّ الْمُعْتَمَدَ صِحَّةُ الصَّلَاةِ خَلْفَ الْفَاسِقِ كَمَا فِي ابْنِ غَازِيٍّ وَغَيْرِهِ وَهُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ مَا يَأْتِي مِنْ صِحَّةِ الصَّلَاةِ خَلْفَ الْمُبْتَدِعِ مَعَ أَنَّهُ قَدْ وُجِدَ فِيهِ قَوْلٌ بِكُفْرِهِ مِمَّنْ يُعْتَدُّ بِقَوْلِهِ، وَإِنْ كَانَ خِلَافَ الرَّاجِحِ وَلَمْ يَقَعْ قَوْلٌ مِمَّنْ يُعْتَدُّ بِقَوْلِهِ بِكُفْرِ الْفَاسِقِ بِجَارِحَةٍ إلَّا تَارِكَ الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِمَامِ أَحْمَدَ وَمَنْ وَافَقَهُ، وَعَلَى الْمُعْتَمَدِ الِاقْتِدَاءُ بِهِ مَكْرُوهٌ حَيْثُ كَانَ فِسْقُهُ غَيْرَ مُتَعَلِّقٍ بِالصَّلَاةِ كَشُرْبِ خَمْرٍ وَنَحْوِهِ. وَأَمَّا مَا تَعَلَّقَ بِهَا كَقَصْدِ الْكِبْرِ بِعُلُوِّهِ فَإِنَّهُ يَمْتَنِعُ الِاقْتِدَاءُ بِهِ وَلَا يَصِحُّ. (شرح مختصر خليل للخرشی 2/ 23)

معتمد قول یہ ہے کہ فاسق کے پیچھے نماز صحیح ہے جیسا کہ ابن غازی وغیرہ نے کہا ۔اس کی صحت پر دلیل بدعتی کے پیچھے نماز کا جائز ہونا ہے حالاں کہ اس کے اندر ایسی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ اس کی تکفیر بھی کرتے ہیں اگر چہ تکفیر مرجوح ہی کیوں نہ  ہو اور فاسق کا فسق اعلانیہ ہی کیوں نہ ہو۔امام احمد کے علاوہ  کوئی بھی  فاسق  کی تکفیر نہیں کرتا ، امام احمد اورر  ان کے موافقین تارک نماز کی تکفیر کرتے ہیں  البتہ فاسق کی اقتدا مکروہ ہے جب کہ اس کا فسق نماز سے متعلق نہ ہو جیسے شراب پینا اور اگر اس کا فسق نماز سے متعلق ہو جیسے وہ  اپنی امامت سے تکبر کا اظہار کرتا ہو تو اس کی اقتدا درست نہیں ہے ۔

مذہب شافعی 

ام شافعی کی کتاب ام میں ہے:

أَكْرَهُ إمَامَةَ الْفَاسِقِ وَالْمُظْهِرِ الْبِدَعَ وَمَنْ صَلَّى خَلْفَ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَجْزَأَتْهُ صَلَاتُهُ وَلَمْ تَكُنْ عَلَيْهِ إعَادَةٌ إذَا أَقَامَ الصَّلَاةَ       ۔ (الام للشافعی  ،1/ 193)

امام شافعی فرماتے ہیں میں فاسق اور بدعت ظاہر کرنے والے کی امامت کو مکروہ جانتا ہو ں ،مگر کسی نے ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا تو اس کی نماز درست ہے اس پر اعادہ نہیں ہے ۔

امام نووی شافعی مہذب کی شرح میں لکھتے ہیں :

وأما صلاة بن عُمَرَ خَلْفَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ فَثَابِتَةٌ فِي صحيح البخاري وغيره وفى الصَّحِيحِ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ تَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ الصَّلَاةِ وَرَاءَ الْفُسَّاقِ وَالْأَئِمَّةِ الْجَائِرِينَ: قَالَ أَصْحَابُنَا الصَّلَاةُ وَرَاءَ الْفَاسِقِ صَحِيحَةٌ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً لَكِنَّهَا مَكْرُوهَةٌ وكذا تكره وراءه الْمُبْتَدِعِ الَّذِي لَا يَكْفُرُ بِبِدْعَتِهِ وَتَصِحُّ ۔ (المجموع شرح المهذب ،4/ 253)

حضرت عبد اللہ ابن عمر کا حجاج کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح بخاری وغیرہ سے ثابت ہے اس کے علاوہ صحیح میں بہت ساری روایت ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ فاسق اور ظالم امام کے پیچھے نماز درست ہے اسی لئے ہمارے اصحاب نے کہا کہ فاسق کے پیچھے نماز جائز ہے حرام نہیں ہے لیکن مکروہ ہے اسی طرح بدعتی کے پیچھے بھی درست ہے جبکہ اس کی بدعت کی وجہ سے کفر لازم نہ آتا ہو ۔

   ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں:

إِذَا لَمْ تَحْصُلُ الْجَمَاعَةُ إلَّا بِالْفَاسِقِ وَالْمُبْتَدِعِ لَمْ يُكْرَهْ الِائْتِمَامُ (تحفۃ المحتاج فی شرح المنهاج،2/ 294)

 اگر فاسق وبدعتی کے علاوہ جماعت نہ ملے تو مکروہ بھی نہیں ہے۔

مذہب حنبلی

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

قَالَ أَحْمَدُ: أَمَّا الْجُمُعَةُ فَيَنْبَغِي شُهُودُهَا، فَإِنْ كَانَ الَّذِي يُصَلِّي مِنْهُمْ أَعَادَ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَعَادَهَا فَهُوَ مُبْتَدِعٌ. وَهَذَا يَدُلُّ بِعُمُومِهِ عَلَى أَنَّهَا لَا تُعَادُ خَلْفَ فَاسِقٍ وَلَا مُبْتَدِعٍ؛ لِأَنَّهَا صَلَاةٌ أُمِرَ بِهَا، فَلَمْ تَجِبْ إعَادَتُهَا كَسَائِرِ الصَّلَوَاتِ.(مغنی لابن قدامہ ،2/ 140)

امام احمد نے کہا کہ رہا جمعہ تو اس میں حاضر ہونا ضروری ہے پھر جو   ،ان کے پیچھے نماز پڑھے وہ اس کا اعادہ کرے ،اور انہوں نے ہی کہا کہ جو نماز کا اعادہ کرے وہ خود ہی بدعتی ہے ،ان کا یہ قول اپنے عموم کے ساتھ دلالت کرتا ہے کہ فاسق اور بدعتی کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا اعادہ نہیں ہے اس لئے کہ اس کا حکم دیا گیا ہے لہذا دوسری نمازوں کی طرح اس کی بھی اعادہ نہیں ہے ۔

علامہ اسحاق بن منصور بن بهرام، ابو يعقوب مروزی حنبلی مسائل امام احمد میں لکھتے ہیں :

الصحيح من المذهب: (أن الفاسق في الاعتقاد أو الأعمال يصلى خلفه الجمعة، وعليه جماهير الأصحاب. وقال كثير منهم: يصلى خلفه صلاة الجمعة رواية واحدة لكن بشرط عدم جمعة أخرى خلف عدل    (مسائل الإمام احمد واسحاق بن راهویہ  ،2/ 861) 

صحیح مذہب یہ ہے کہ فاسق خوا ہ عملا ًہو یا اعتقاداً بہر صورت اس کے پیچھے نمازجمعہ جائز ہے  اسی پر جمہور حنابلہ ہیں اور اکثر نےاس کے پیچھے جمعہ کے جواز پر ایک ہی قول کیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امام عادل کی جمعہ دوسری جگہ قائم نہ ہو۔

علامہ عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن قدامہ مقدسی حنبلی لکھتے ہیں کہ جمعہ اور عید کی نماز ہر نیک وبد کے پیچھے پڑھی جائے گی اس لئے کہ امام احمد ،جمعہ اور عید  میں معتزلہ (گمراہ فرقہ )کے ساتھ حاضر ہوتے تھے اور اسی طرح ان کے زمانے کے علما بھی حاضر ہوتے تھے ۔

تبصرہ وتجزیہ : ائمہ اربعہ کے اقوال سے واضح ہوا کہ  ہر شخص کو چاہیے کہ صالح و  متقی امام کی اقتدا کرے اور متقی امام نہ ہو تو وہ ہراس شخص کی اقتدا کرے جو کہ مسلمان ہو ۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے ، جماعت کو ترک نہ کرے اگرچہ امام فاسق و بدعتی ہی کیوں نہ ہو۔

مستور الحال امام کی اقتدا

اللہ تعالی نے مسلمانوں کو نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا ہےاس بات کا مکلف نہیں بنایا ہے کہ وہ ہر شخص کا ایمان  ناپتا پھرے اور جہاں جائے وہاں امام کے ایمان وعقیدہ کی چھان بین کرے اس لئے کہ امامت کے باب میں اصل یہی ہے کہ امام مسلمان ہے یہاں تک کہ اس کا کفر ظاہر ہو لہذا وہ امام جس کے اعتقاد کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ودرست ہے ۔ 

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

وَإِنْ لَمْ يُعْلَمْ حَالُهُ وَلَمْ يَظْهَرْ مِنْهُ مَا يَمْنَعُ الِائْتِمَامَ بِهِ، فَصَلَاةُ الْمَأْمُومِ صَحِيحَةٌ. نَصَّ عَلَيْهِ أَحْمَدُ؛ لِأَنَّ الْأَصْلَ فِي الْمُسْلِمِينَ السَّلَامَةُ. وَلَوْ صَلَّى خَلْفَ مَنْ يَشُكُّ فِي إسْلَامِهِ، فَصَلَاتُهُ صَحِيحَةٌ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ لَا يَتَقَدَّمُ لِلْإِمَامَةِ إلَّا مُسْلِمٌ (مغنی، ابن قدامہ2/ 140)

اور اگر امام کا حال معلوم نہ ہو اور نہ ہی اس سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو اقتدا سے مانع ہو تو ایسی صورت میں مقتدی کی نماز درست ہے امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے  اور اس لئے بھی کہ مسلمانوں میں اصل یہی ہے کہ وہ خلاف شرع باتوں سے سلامت رہتا ہے ،اور اگر نماز پڑھا ایسے شخص کے پیچھے جس کے اسلام میں شک ہو تب بھی اس کی نماز صحیح ہے اس لئے کہ ظاہر یہی ہے کہ امامت نہیں کرتا مگر مسلمان، یعنی امام مسلمان ہی ہوتا ہے۔

ایسے امام کی اقتدا کا حکم جو فروع میں مقتدی کے مخالف ہو

تمام فروعی اختلافات کے باوجود خیر القرون سے صدیوں تک حرمین طیبین میں ایک ہی  امام کی اقتدا میں نماز ہوتی تھی ، صحابہ و تابعین اور ائمہ و مجتہدین  ایک  دوسرے  کی اقتدا  کرتے رہے لیکن  دور متاخرین  آتے آتے نماز جیسے اہم رکن پر بھی اور  وہ  بھی حرمین طیبین  میں اہل سنت کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم نہ رہ پایا۔ 

مورخین نے حتمی طور سے اس بات پر اتفاق نہیں کیا ہے کہ کس سال حرم  مکی میں ہر مذہب کے لیے الگ  الگ امام مقرر کئے گئے، لیکن فارسی شاعر ناصر  خسرو نے اپنے سفر نامہ (۴۴۲ھ) میں شام، حجاج  اور مصر کے تمام مقامات کا بالتفصیل ذکر کیا ہے ، اس میں  اس نے  حرم  مکی میں ہر مذہب کے الگ الگ مصلی و مقام کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ۴۹۷ھ میں ابو طاہر سلفی، صاحب كتاب ‘‘معجم السفر’’ (متوفی:576ھ) نے حج کیا توانھوں نے  وہاں چند مصلے دیکھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر  میں  حرم میں چند جماعتیں ہونے لگیں تھیں۔ 

حرم نبوی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری تک ایک ہی امام کی اقتدا میں لوگ نماز ادا کرتے تھے ،  نویں صدی کے نصف کے بعد  ایک ایک کرکے کئی جماعتیں ہوتی رہیں ، اس کے باوجود تراویح کی ایک ہی جماعت ہوتی تھی۔ حرمین میں تعدد جماعت کی بدعت کو حکومت سعوددیہ نے ۱۹۲۶ء میں ختم کرکے ہر مذہب کے دو دو امام مقرر کیے جو باری باری امامت کرتے ہیں اور یہی آج بھی جاری ہے۔

فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی اقتدا  سے منع کرنے کا یہ  کھیل تعصب مذہبی کی وجہ سے پیدا ہوا جس کی وجہ سے یہ شرط لگائی گئی کہ امام مقتدی کے مذہب کی مکمل رعایت کرے مثلا امام شافعی ہو تو حنفی مقتدی کی نماز اس وقت درست ہو گی جب شافعی امام حنفی مذہب کے مطابق وضو وغسل کرنے والا ہو۔

حالانکہ یہ خلاف معقول بات ہے  فقظ اتنی  ہی شرط ہے کہ  امام ومقتدی اپنے اپنے مذہب کی رعایت کرنے والا ہو، اس کی بہت ساری نظیریں کتب فقہ میں موجود ہے،فقہ حنفی میں ہے کہ ایک شخص جس کا کپڑا ناپاک ہو اور وہ اس کو دھونے کے بعد اتنی طاقت سے نچوڑے کہ اب پانی ایک دو قطر ا اس سے نہ ٹپکے تو یہ کپڑا اس نچوڑنے والے کے لئے پاک ہے مگر اسی کپڑے کو اس سے طاقتور انسان نچوڑے تو پانی ٹپکے تو ایسی صورت میں یہ کپڑا اس کے لئے ناپاک ہے اب ایسی صورت میں وہ شخص جس کے نزدیک کپڑا پاک ہے وہ امام ہو اور وہ شخص جس کے نزدیک کپڑا ناپاک ہے اقتدا کرے تو اس کی نماز درست ہے کیوں کہ ہر ایک نے اپنے حساب سے عمل کیا ہے ۔

امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حمام سے غسل کرکے جمعے کی نماز پڑھی اور لوگوں کو پڑھائی اور سب لوگ نماز ادا کرکے چلے گئے ،پھر کسی نے آپ کو بتلایا کہ حمام میں ایک مرا ہوا چوہا تھا ،تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے مدینے والے بھائی یعنی امام مالک کے قول پر عمل کرلیا  پانی کے نجس ہونے کے تعلق سے امام مالک کا یہ قول ہے کہ  جب پانی دو قلہ(حجازی مٹکے سے دو مٹکاپانی ) ہو جائے تو ناپاک نہیں ہوتا ۔

امام ابو یوسف نے تو یہاں کمال ہی کردیا کہ  خود حنفی ہوتے ہوئے حنفیوں کی امامت مالکی مذہب کے مطابق  فرمائی۔

اسی طرح امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا کہ اگر باندی عورتوں کی امامت کرے اور آزاد عورت کی طرح ستر نہ چھپائے بلکہ باندی کے لئے جو فرض ہے اتنا ہی لباس استعمال کرے تو آزاد عورتوں کی نماز درست ہے باوجودیکہ امامت کرنے والی کا لباس  اقتدا کرنے والیوں کے خلاف ہے اس صورت میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ دونوں کی نماز درست ہے اس لئے کہ ہر ایک نے اپنا اپنا فرض ادا کیا ۔

اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  لکھتے ہیں :‘‘ صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں کچھ لوگ تو نماز میں بسم اللہ پڑھتے تھے ، کچھ لوگ نہیں پڑھتے تھے ، کچھ لوگ جہراً بسم اللہ پڑھتے تھے ،کچھ لوگ سراً پڑھتے تھے ، بعض حضرات فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے بعض حضرات نہیں پڑھتے تھے ، بعض پچھنالگانوانے ، نکسیر اور قئ کو ناقضِ وضو مانتے تھے اور بعض نہیں مانتے تھے ، بعض مَامَسَّتِ النَّارُ پر وضو کرتے تھے بعض نہیں کرتے تھے ، بعض اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرتے تھے ، بعض نہیں کرتے تھے ؛ مگر بایں ہمہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ، خواہ وہ امام مالکی ہو یا اس کے علاوہ ہو؛ حالاں کہ مالکیہ نماز میں بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے ، اسی طرح ہارون رشید نے پچھنے لگوائے ، پھر نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائی ، امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ان کو فتوی دیا تھا کہ فصد لگوانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور اس کے پیچھے امام ابویوسف نے نمازپڑھی اور اس کا اعادہ نہیں کیا۔[حالاں کہ ان کے نزدیک بدن سے خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔] اسی طرح امام احمد کامذہب یہ ہے کہ نکسیر آنے اور پچھنالگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ مگر جب ان سے مسئلہ پوچھاگیا کہ ایک شخص کے بدن سے خون نکلا اور اس نے وضو کیے بغیر نماز پڑھائی تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ‘‘میں امام مالک اور حضرت سعید بن مسیب کے پیچھے نماز کیسے نہیں پڑھوں گا ․؟’’  یہ بھی مروی ہے کہ امام ابویوسف اور امام محمد عیدین کی نماز پڑھاتے تھے تو ایک قول کے مطابق بارہ تکبیریں کہتے تھے ؛ کیوں کہ خلیفہ ہارون رشید کو اپنے دادا کی تکبیریں پسند تھیں،امام شافعی نے ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ کی قبر کے قریب فجر کی نماز پڑھی تو قنوت نہ پڑھا ، پوچھاگیا تو فرمایا کہ ”صاحب قبر کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوئے میں نے ایسا کیا ہے “اور آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ”ہم کبھی اہلِ عراق کے مذہب کی طرف اترتے ہیں۔ ’’ (حجۃ اللہ البالغہ، ص:۲۴۵)

پھر یہ عقل سے بعید بھی ہے کہ امام مقتدی کی رعایت کرے بھلا شافعی ،حنفی کی اور حنفی شافعی کی رعایت کیوں کرے گا؟      بلکہ ہر مقلد اپنے امام کی تقلید کرے گا نہ کہ دوسرے کی۔

علامہ ابن قدامہ حنبلی نے امام احمد کے حوالے سے نقل کیا ہے :

فَأَمَّا الْمُخَالِفُونَ فِي الْفُرُوعِ كَأَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، فَالصَّلَاةُ خَلْفَهُمْ صَحِيحَةٌ غَيْرُ مَكْرُوهَةٍ. نَصَّ عَلَيْهِ أَحْمَدُ؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يَزَلْ بَعْضُهُمْ يَأْتَمُّ بِبَعْضٍ، مَعَ اخْتِلَافِهِمْ فِي الْفُرُوعِ، فَكَانَ ذَلِكَ إجْمَاعًا، وَلِأَنَّ الْمُخَالِفَ إمَّا أَنْ يَكُونَ مُصِيبًا فِي اجْتِهَادِهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ أَجْرٌ لِاجْتِهَادِهِ وَأَجْرٌ لِإِصَابَتِهِ، أَوْ مُخْطِئًا فَلَهُ أَجْرٌ عَلَى اجْتِهَادِهِ، وَلَا إثْمَ عَلَيْهِ فِي الْخَطَأِ، لِأَنَّهُ مَحْطُوطٌ عَنْهُ. فَإِنْ عَلِمَ أَنَّهُ يَتْرُكُ رُكْنًا أَوْ شَرْطًا يَعْتَقِدُهُ الْمَأْمُومُ دُونَ الْإِمَامِ، فَظَاهِرُ كَلَامِ أَحْمَدَ صِحَّةُ الِائْتِمَامِ بِهِ. قَالَ الْأَثْرَمُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يُسْأَلُ عَنْ رَجُلٍ صَلَّى بِقَوْمٍ، وَعَلَيْهِ جُلُودُ الثَّعَالِبِ، فَقَالَ: إنْ كَانَ يَلْبَسُهُ وَهُوَ يَتَأَوَّلُ: «أَيُّمَا إهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ» . يُصَلَّى خَلْفَهُ. (مغنی لابن قدامہ 2/ 14)

رہے فروع میں اختلاف کرنے والے جیسے اصحاب ابو حنیفہ ،و مالک ،و شافعی  تو ان میں سے ہرایک کی نماز دوسرے کے پیچھےصحیح ودرست ہے مکروہ نہیں ہے جیساکہ امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے اور اس لئے بھی کہ صحابہ و تابعین اور ان کے بعد والے ایک دوسرے کی اقتدا کرتے چلے آرہے ہیں حالانکہ ان کے درمیان فروع میں اختلاف تھا ، یہ اجماع سے ثابت ہے ،نیز اس لئے بھی کہ مخالف اپنے اجتہاد میں مصیب ہوگا یا خطا کرنے والا بہر صورت وہ ثواب پانے والا ہوگا اگر مصیب ہے تو دوگنا ثواب اور خاطی ہے تو ایک اجر، نیز خطا کی صورت میں بھی اس پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ وہ ساقط ہے ۔لہذا اگر یہ معلوم ہو جائے کہ امام نے کوئی رکن یا شرط مقتدی کے اعتقاد کے مطابق چھوڑ دیا ہےمگر امام نےاپنے اعتقاد کےمطابق نہیں چھوڑا ہے تب بھی امام احمد کے قول کا ظاہر یہی ہے کہ اقتدا درست ہے ،اثرم نے کہا کہ میں نے ابو عبد اللہ (احمد ) سے سنا ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بھیڑیا کی کھال پہن کر نماز پڑھاتا ہو (جوامام احمد کے نزدیک درست نہیں )آپ فرماتے ہیں کہ اس کی اقتدا درست ہے اگر وہ تاویل کرتا ہو مثلا یہ کہ :ہر کھال جس کی دباغت ہوگئی ہو وہ پاک ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

۴؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ

۲۹؍فروری ۲۰۲۰ء

Ad Image