Donate Now
دیوبندی، وہابی کافر ہیں یا نہیں؟

دیوبندی، وہابی کافر ہیں یا نہیں؟

‏سوالات

(۱) 

‏(۲) اس شخص کا کیا حکم ہے جو دیابنہ و وہابیہ کو کافر نہ جانے؟

‏(۳) دیابنہ و وہابیہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو جو صحیح بتائے اس کا کیا حکم ہے؟

‏(۴) بدعتی کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے یا نہیں؟

‏(۵) جس بدعتی کی گمراہی حدِ کفر کو نہ پہنچی ہو اس کا کیا حکم ہے؟

‏(۶) جس بدعتی کی گمراہی حدِ کفر کو پہنچ چکی ہو اس کا کیا حکم ہے؟

‏(۷) زید عالمِ دین مفتی نیز مسجد کا امام بھی ہے، دریافت امر یہ ہے کہ زید ایک گمراہ پیر کا گرویدہ ہے جس کو اکثر علما نے گمراہ و بد دین ‏ہونے کا فتویٰ دیا ہے جو عملی طور پر دیوبندی وہابی غیر مقلد وغیرہ وغیرہ کوئی بھی آئے اس کے پر تپاک خیر مقدم کو فرض و محبت تصور ‏کرتے اور اس کے یہاں ہندو مسلم مومن کافر سنی، شیعہ ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اور سب کو بلا تفریق اپنے حلقۂ ارادت میں داخل ‏کرتے ہیں، عند الشرع کیا حکم عائد ہوتا ہے، ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہوگی یا نہیں ؟ 

‏(۸) مذکورہ بالا دونوں قسم کے بدعتیوں کے ساتھ معاملات سلام و کلام نکاح و شادی وغیرہ کرنا از روئے شرع کیا حکم رکھتا ہے؟

(9) غلو فی التکفیر کیا ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

(10) سنیوں کا شیعوں کے ساتھ اتحاد کا کیا مطلب ہے،نیز یہ بھی واضح کریں آخر سنی شیعہ سے کیوں نفرت کرتاہے اور سنی کا شیعوں سے نفرت کرنا دینی تقاضا ہے یا نہیں؟ اگر سنی کا شیعوں سے نفرت کرنا دینی تقاضا ہے تو پھر اس نفر ت کو مٹانے کا مطلب کیاہے؟

(11) آپ کے نزدیک صرف وہی چند افراد کا فر و مرتد ہیں جن کو اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے نام بنام کا فرو مرتد کہا یا جو بھی ان افراد کے عقائد کی طرح عقائد رکھتاہو وہ بھی کافرو مرتد ہے۔ 

(12) جو شخص وہابیہ کے کفر پر مطلع ہونے کے باوجود ان کو اپنا امام یا پیشوا یا کم از کم مومن ہی مانتا ہو وہ کافر ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اور نہیں تو کیوں نہیں؟

(13) آپ کا عارفیہ سید سراواں، الٰہ آباد اور اس کے بانی ابومیاں سے کیا تعلق ہے؟ جب کہ درجنوں دار الافتا سے ان کی گمرہی کا فتوی ٰ دیا گیا ہے۔

(14) تصویر کس کو کہتے ہیں؟ موبائل یاکیمرے کے ذریعہ کھینچاگیا فوٹو تصویر ہے یا نہیں؟اگر تصویر ہے تو پھر اس شخص کے متعلق شریعت مطہرہ کاکیا حکم ہے جوبلا حاجت ایسے فوٹوز فیس بک وغیرہ پر ڈالتارہتاہے اور اگر موبائل اورکیمرے کے ذریعہ کھینچا گیا فوٹو تصویر نہیں ہے تو پھر فتاویٰ ر ضویہ شریف،جدیدجلد۲۴، ص:۵۶۷ کی عبارت کا کیا مطلب ہے؟

مستفتی: محمد رفیق موبائل والے، محمد فاروق پٹیل، کے جی این الیکٹریکل و عوام اہل سنت۔ امرت نگر، ممبرا، تھانے


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جوابات

(۱) دیوبندی، وہابی کافر ہیں یا نہیں؟

‏جواب: 1

‏ وہابیہ کے تعلق سے علماے اہل سنت کا موقف گمرہی کا ہے ۔اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی (1340ھ) لکھتے ہیں :

وہابیہ کا معِلّم اوّل ابن عبدالوہاب نجدی اور معلمِ ثانی اسمعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان دونوں سخت گمراہ بددین تھے۔( فتاویٰ رضویہ: ۲۹/رسالہ امورِ عشرین درامتیازِ عقائد سُنّیین)

دیوبندی نام سے منتسب حضرات تین طرح کے ہیں، ان تینوں کا حکم الگ الگ ہے۔

‏(الف) بعض وہ ہیں جن کے بارے میں یہ مقدمہ ہے کہ یہ لوگ گستاخ رسول ہیں، علم غیب کا مطلق انکار کرتے ہیں اور اسی ‏طرح ختم نبوت کا بھی انکار کرتے ہیں، واقعی جن لوگوں کا ایسا عقیدہ ہو وہ کافر ہیں۔  اسی طرح ان کے متبعین میں بھی جن کا یہ عقیدہ ہو ان کا بھی یہی حکم ہے۔البتہ ان کے متبعین میں جو التزامِ کفر نہ کریں اور تاویل سے کام لیں ان کا حکم الگ ہوگا۔چناں چہ کفریات روافض کی تاویل کرنے والے شیعہ عالم  نصیر الدین طوسی کے بارے میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

”طوسی کا رفض حدکفرنہ تھا بلکہ اس نے حتی الامکان اپنے اگلوں کے کفر کی تاویلات کیں، اور نہ بن پڑی تو منکر ہوگیا اور اس کی ایسی توجیہ گناہ ضرور ہے اور منطقی فلسفی شراح ومحشین معصوم نہیں، جہاں جہاں اس نے خلاف اہل سنت کیا ہے اس کا رد کردیا گیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔“( فتاویٰ رضویہ:۲۱/۲۱۹)

اسی طرح علامہ احمد سعید کاظمی(1406ھ) لکھتے ہیں:

’’ مسئلۂ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کرلے گاتو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے۔ خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی، لیگی ہو یا کانگریسی، نیچری ہو یا ندوی۔ اس بارے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ کافر ہوگئی، یا ایک ندوی نے ایک التزام کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہوگئے۔‘‘  (الحق المبین، ص: ۵۲)

‏‏ (ب) بعض وہ ہیں جو امکان نظیر اورامکان کذب باری کے قائل ہیں، اسی طرح بعض وہ ہیں جو قیام تعظیمی، میلاد، استغاثہ ‏اور زیارت قبور کے منکر ہیں۔ یہ لوگ فاسق یا بدعتی ہیں کافر نہیں ہیں۔ اس کی تفصیل انوار ساطعہ اورتقدیس الوکیل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔

‏(ج) بعض وہ لوگ ہیں جواسمی طور سے اس جماعت کی طرف منسوب ہیں، یا ان کے عقائد کے بارے کچھ علم نہیں ہے تو ‏ایسے لوگ بلاشبہ مسلمان ہیں ۔

مفتی شریف الحق (1421ھ) لکھتے ہیں:” عرف مدار حکم نہیں حکم کا دارومدار حقیقی معنیٰ پر ہے، اس لئے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی (وہابی) کہتا ہو لوگ بھی اس کو دیوبندی(وہابی) کہتے ہوں، وہ ان چاروں علماء دیوبند کو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو حتیٰ کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے_ واللہ تعالٰی اعلم۔“  (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص ٣٨٦ تا ٣٨٩)

معروف عالم دین مولانا یٰسین اختر مصباحی اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

یہ نکتہ یہاں ذہن نشیں رہے کہ دیوبندی وغیر مقلد حضرات کوبلاالتزام کفر کے محض ان کی مخصوص جماعت کا ایک جز اور فرد ہونے کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ ہاں! ایسی جماعتوں کے افراد کی تکفیر واجب ہے جن کے کل اور مجموعہ پر حکم تکفیر ہو، جیسے قادیانی وبہائی وغیرہ... کسی کا محض قاسمی یا مظاہری یا ندوی یا غیر مقلد ہوناسبب تکفیر نہیں، تاوقتیکہ اس سے کسی کفر کا التزام اور ثبوت شرعی متحقق نہ ہوجائے۔ (تکفیری غلط فہمی کا ازالہ، یٰسین اختر مصباحی، مشمولہ اہل قبلہ کی تکفیر، ص:۵، ۶)

(۲) اس شخص کا کیا حکم ہے جو دیابنہ و وہابیہ کو کافر نہ جانے؟

جواب: 2

جواب نمبر ا میں گزرا کہ وہابیہ پر گمرہی کا حکم ہے البتہ دیابنہ کے تعلق سے جو تفصیل گزری اس سے ان کا تفصیلی حکم بھی معلوم ہوجاتا ہے چنانچہ گروپ الف کے تحت مذکور دیابنہ پر کفر کا حکم ہے اور جو بھی ان کے کفر سے مطلع ہوکر ان کی تکفیر نہیں کرے گا اس پر بھی حکم کفر عائد ہوگا البتہ اس سلسلے میں جسے ان کے کفر پر اطلاع نہ ہو وہ اس حکم سے خارج ہے ۔

مفتی مطیع الرحمٰن رضوی صاحب مَن شَکَّ فِی کُفرِہ وعَذابِہ فَقَد کَفَر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مَن شَکَّ فِی کُفرِہ وعَذابِہ فَقَد کَفَر میں ’’ ھ‘‘ضمیر کا مرجع مُنکِرُ ضُرُورِیاتِ الدِّینِ ہے تو معنی ہوئے مَن شَکَّ فِی کُفرِ مُنکِرِ ضَرُورِیَّاتِ الدِّینِ وَعَذابِہ فَقَد کَفَرَ۔اور جس کے نزدیک منکر ضروریات دین ہونا بداہۃً متحقق نہ ہو، وہ اگر شک کرتا ہے تو در اصل وہ مَن شَکَّ فِی کُفرِہ وَ عَذابِہ کا مصداق ہی نہیں۔ (اہل قبلہ کی تکفیر، ص:۶)

 رہے گروپ ب اور گروپ ج والے دیابنہ تو ان پر چوں کہ حکم ِ کفر ہے ہی نہیں تو انہیں کافر ماننے کا کیا مطلب؟ بلکہ ایسوں کو کافر کہنا خود غلو فی التکفیر اور گمراہی ہے ۔

حدیث پاک میں ہے: مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ: كَافِرٌ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا (موطا امام مالک، الکلام، ما یکرہ من الکلام)

جو اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے، کفر ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹتا ہے۔ 

‏(۳) دیابنہ و وہابیہ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو جو صحیح بتائے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: 3

حکم ِ شرع ہے کہ سنی متقی عالم کو امام بنایا جائے چنانچہ قدرت ہوتے ہوئے کسی فاسق یا مبتدع کو امام بنانا درست نہیں۔ ہاں اگر کسی نے فاسق یا مبتدع کے پیچھے نماز پڑھ لی تو فرضیت ادا ہو جائے گی ۔اسی طرح اگر کسی مقام پر فاسق یا گمراہ امام ہو اور وہاں اپنی قدرت و اختیار نہ ہو تو اس کے پیچھے جمعہ و جماعت ادا کی جائے گی اس کے فسق یا گمرہی کی وجہ سے ترک جماعت جائز نہیں ہوگا ۔ رہا کافر تو اس کے پیچھے کسی بھی صورت میں نماز درست نہیں ۔

وہابیہ و دیابنہ کے تعلق سے اوپر تفصیلی احکام گزر چکے ۔چناں چہ ان میں سے جن پر حکمِ کفر ہے ان کے پیچھے ہرگز نماز نہیں ہوگی لیکن جن پر صرف بدعتی اور گمراہ ہونے کا حکم ہے ان کے پیچھے اقتدا کے حوالے سے احکام اگلے سوال میں بیان کیے جاتے ہیں۔

‏(۴) بدعتی کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے یا نہیں؟

‏(۵) جس بدعتی کی گمراہی حدِ کفر کو نہ پہنچی ہو اس کا کیا حکم ہے؟

‏(۶) جس بدعتی کی گمراہی حدِ کفر کو پہنچ چکی ہو اس کا کیا حکم ہے؟

‏(۸) مذکورہ بالا دونوں قسم کے بدعتیوں کے ساتھ معاملات سلام و کلام نکاح و شادی وغیرہ کرنا از روئے شرع کیا حکم رکھتا ہے؟

جواب:   4، 5، 6، 8 

بدعتی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعتی جس کی بدعت وگمراہی حد کفر تک پہنچی ہوئی ہو یعنی جو ضروریات دین کا منکر ہو یا ‏گستاخ رسول ہو ایسا شخص کافر ہے اس کی اقتدا جائز نہیں، اور نہ عام لوگو ں کے لیے اس سے دینی معاملات، سلام و کلام ‏نکاح و شادی وغیرہا کرنا درست ہے، بعض معاملات میں داعیان اور علما اور مشائخ اس حکم سے بری ہیں ۔ دعوتی مصلحت کے ‏لیے جو مناسب اقدامات ہو وہ کر سکتے ہیں ۔ ‏

‏ بدعتی کی دوسری قسم یہ ہے کہ جس شخص کی بدعت و فسق حد ِکفر تک نہ پہنچی ہو وہ گمراہ ضرور ہے لیکن ضرورت کے ‏وقت اس کے پیچھے نماز جائز ودرست ہے ۔ جہاں سنی امام ہو اور جہاں جماعت عامہ خاص طور سے عیدین و جمعہ قائم کرنا ‏ممکن ہو سنی متقی امام کی اقتدا کی جائے ایسی صورت میں بدعتی کے پیچھے نماز ادا کر نا مکروہ ہے اگر چہ نماز ادا ہو جائے ‏گی ۔

اسی طرح اس سے شادی بیاہ ، ان کی نماز جنازہ اور سلام و کلام کرنا بھی جائز ہے، امام شمس الائمہ سرخسی(۴۸۳ھ) لکھتے ہیں :

تقْدِيمُ الْفَاسِقِ لِلْإِمَامَةِ جَائِزٌ عِنْدَنَا وَيُكْرَهُ .... وَلَنَا حَدِيثُ مَكْحُولٍ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «الْجِهَادُ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ وَالصَّلَاةُ خَلْفَ كُلِّ إمَامٍ وَالصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مَيِّتٍ»، وَقَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «صَلُّوا خَلْفَ كُلِّ بِرٍّ وَفَاجِرٍ»، وَلِأَنَّ الصَّحَابَةَ وَالتَّابِعِينَ كَانُوا لَا يَمْنَعُونَ مِنْ الِاقْتِدَاءِ بِالْحَجَّاجِ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ وَغَيْرِهَا مَعَ أَنَّهُ كَانَ أَفْسَقَ أَهْلِ زَمَانِهِ حَتَّى قَالَ الْحَسَنُ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لَوْ جَاءَ كُلُّ أُمَّةٍ بِخَبِيثَاتِهَا وَنَحْنُ جِئْنَا بِأَبِي مُحَمَّدٍ لَغَلَبْنَاهُمْ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ لِأَنَّ فِي تَقْدِيمِهِ تَقْلِيلُ الْجَمَاعَةِ وَقَلَّمَا يَرْغَبُ النَّاسُ فِي الِاقْتِدَاءِ بِهِ (المبسوط، 1/ 40) 

فاسق کو امامت کے لئے آگے بڑھانا ہمارے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے ... ہماری دلیل مکحول کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ہر امیر کےما تحت جہاد کرو،ہر امام کے پیچھے نماز پڑھو،ہر میت کی نماز پڑھو،نیز آپ نے فرمایا :ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھو،اور اس لئے بھی کہ صحابہ و تابعین جمعہ وغیرہ میں حجاج کی اقتدا سے نہیں روکتے تھے حالانکہ وہ اپنے زمانے میں سب سے بڑا فاسق تھا،یہاں تک کہ امام حسن بصری نے کہا کہ اگر پوری امت کی خباثت ایک جگہ جمع کی جائے تب بھی ابو محمد (حجاج) کی خباثت ان پر سبقت لے جائے گی ۔رہا فاسق کی امامت کا مکروہ ہونا تو وہ صرف اس لئے ہے کہ اس کو امامت کے لیے آگے بڑھانا تقلیل جماعت کا باعث ہوگا کیوں کہ ایسے امام کی اقتدا میں لوگ رغبت کم رکھتے ہیں ۔ 

 امام ابو جعفر طحاوی ( 321ھ )فرماتے ہیں:

وَنَرَى الصَّلَاةَ خَلْفَ كُلِّ بَرٍّ وَفَاجِرٍ مِنْ أَهْلِ الْقِبْلَةِ، وعَلَى مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ. (عقیدہ طحاویہ،نمبر:92) 

ہم اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے ہر نیک و بد کی اقتدا میں نماز جائز ہے، اور اس کی نماز جنازہ بھی درست ہے۔

علامہ سعد الدین تفتازانی( 793ھ ) مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ولأن علماء الأمة كانوا يصلون خلف الفسقة وأهل الأهواء والبدع من غير نكير (شرح العقائد النسفیہ: 154)

کیوں کہ امت کے علما؛ فساق، اہل ہوا اور اہل بدعت کی اقتدا میں بغیر کسی انکار کے نماز ادا کرتے تھے۔

بدعتی کی مثال دیتے ہوئے شرح عقائد کی شرح نبراس میں علامہ عبد العزیز فرہاروی(1239ھ) لکھتے ہیں:

] والبدع [ وهم المعتزلة والشيعة والخوارج والجبرية وأشباهه

بدعی جیسے معتزلہ، شیعہ، خوارج، جبری وغیرہ

علامہ صدر الدين ا بن ابی العز حنفی (792ھ) اس بات کی مزید دلیل کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَمَنْ تَرَكَ الْجُمْعَة وَالْجَمَاعَة خَلْفَ الْإِمَامِ الْفَاجِرِ، فَهُوَ مُبْتَدِعٌ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ. وَالصَّحِيحُ أنه يُصَلِّيهَا وَلَا يُعِيدُهَا، فَإِنَّ الصَّحَابَة رضي الله عَنْهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ الْجُمْعَة وَالْجَمَاعَة خَلْفَ الْأَئِمَّة الْفُجَّارِ وَلَا يُعِيدُونَ، كَمَا كَانَ عَبْدُ الله بْنُ عُمَرَ يُصَلِّي خَلْفَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ، وَكَذَلِكَ أَنَسٌ رضي الله عنه ، وَكَذَلِكَ عَبْدُ الله بْنُ مَسْعُودٍ رضي الله عنه وغيره... وَأَمَّا إِذَا كَانَ تَرْكُ الصلاة خَلْفَه يُفَوِّتُ الْمَأْمُومَ الْجُمْعَة وَالْجَمَاعَة، فَهُنَا لَا يَتْرُكُ الصلاة خَلْفَه إِلَّا مُبْتَدِعٌ مُخَالِفٌ لِلصَّحَابَة رضي الله عَنْهُمْ . (شرح الطحاویۃ فی العقيدة السلفیۃ،2/ 404)

”فاسق وفاجر امام کی اقتدا میں جو جمعہ وجماعت ترک کردے وہ اکثر علما کے نزدیک بدعتی ہے اور صحیح قول یہ ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد اعادہ واجب نہیں، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فاسق وفاجر ائمہ کی اقتدا میں جمعہ وجماعت ادا کرتے تھے لیکن اعادہ نہیں کرتے تھے، مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر   اور حضرت انس حجاج بن یوسف کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے ۔ایسے ہی عبد اللہ ابن مسعود اور دیگر صحابہ بھی فاسق وفاجر ائمہ کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔.... اور اگر فساق کی اقتدا میں نماز ترک کرنے کی وجہ سے جمعہ وجماعت فوت ہوجائے تو ایسا عمل بدعتی اور صحابہ کے مخالف شخص کا ہی ہوسکتا ہے۔“

لیکن علما و مشائخ کے علاوہ جاہل عوام کو دینی موالات ومدارات ‏سے بچنا چاہیے خاص طور سے جو اپنی بدعت کی دعوت کا کام کرتے ہوں تاکہ عوام ان کے فسق و بدعت اور گمرہی سے متاثر نہ ‏ہوسکیں۔

‏(۷) زید عالمِ دین مفتی نیز مسجد کا امام بھی ہے، دریافت امر یہ ہے کہ زید ایک گمراہ پیر کا گرویدہ ہے جس کو اکثر علما نے گمراہ و بد دین ‏ہونے کا فتویٰ دیا ہے جو عملی طور پر دیوبندی وہابی غیر مقلد وغیرہ وغیرہ کوئی بھی آئے اس کے پر تپاک خیر مقدم کو فرض و محبت تصور ‏کرتے اور اس کے یہاں ہندو مسلم مومن کافر سنی، شیعہ ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اور سب کو بلا تفریق اپنے حلقۂ ارادت میں داخل ‏کرتے ہیں، عند الشرع کیا حکم عائد ہوتا ہے، ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہوگی یا نہیں ؟ 

جواب: ۷

موجودہ زمانے میں غیر محتاط مفتیوں کی کثرت ہے نفس پرست مفتیوں نے موجودہ زمانے کے کسی بھی بڑے عالم ،مفتی اور شیخ طریقت کو نہیں بخشا ہے ایسے میں صرف علما کے مجہول فتووں کا حوالہ دے کر کسی شیخ طریقت کے بارے میں سوال کرنا مناسب نہیں ہے خدا نہ خواستہ وہ فتوے غیر تحقیقی ہوئے اور وہ شیخ طریقت ان کے الزامات سے بری ہوا تو اس کے خلاف زبان کھول کر اور فتویٰ عام کر کے عند اللہ و عند الناس ہم بھی مجرم ٹھہریں گے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد میں گرفتار ہوں گے ۔ بطور خاص اس صورت میں کہ استفتا میں مذکور عبارت سے مستفتی کی نیت درست معلوم نہیں ہوتی ۔ چنانچہ مستفتی نے سوال میں لکھا ہے کہ وہ شیخ بد مذہبوں کے خیر مقدم کو فرض سمجھتے ہیں ۔ بالفرض اگر اس شیخ کے یہاں بد مذہب آتے ہوں جیسا کہ اہل سنت کی عام خانقاہوں کی یہی روش ہے کہ ان کا دروازہ کسی بھی مذہب یا مسلک والے کے لیے بند نہیں ہوتا تو اب مستفتی سے سوال ہے کہ اس کو کہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شیخ بد مذہبوں کے استقبال کو فرض سمجھتے ہیں کیا یہ بات انہوں نے کہیں لکھی یا کہی ہے یا مستفتی کو اپنے لیے علم غیب کا دعوی ہے کہ وہ لوگوں کی دلوں کے حالا ت سے با خبر ہو جاتا ہے ۔ بہر کیف جب تک کسی کے بارے میں کامل تحقیق نہ ہو جائے اس کے خلاف فتوے بازی سے گریز لازم ہے اس روش نے اہل سنت کو ماضی میں برباد کیا ہے اب ہمیں ایسی روش سے احتراز لازم ہے ۔ اور تحقیق کی صورت یہ ہے کہ اگر وہ زندہ ہے تو براہِ راست اس سے رابطہ کیا جائے اور اگر وفات یافتہ ہے تو اس کی تحریر کو سیاق و سباق سے براہِ راست دیکھا جائے اور اس کے قریبی لوگوں سے تحقیقِ حال کی جائے۔

 یہاں یہ بات خصوصی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علما و دعاۃ اور اولیا و مشائخ کی حیثیت طبیب ایمانی اور روحانی کی ہے جس طرح طبیبِ جسمانی کے پاس ہر طرح کے ‏لوگ جاتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مکتبۂ فکر یا کسی بھی مسلک یا مذہب کا ہو، اسی طرح طبیبِ روحانی کے پاس ہر طرح کے ‏قلبی مریض حاضر ہوتے ہیں، اور وہ مشائخ اپنی روحانیت و تصرفات سے ان کے قلبی امراض کو دور کرکے حلقۂ اسلام و ‏احسان میں داخل کرتے ہیں، اور باطل عقائد و نظریات اور فاسد اعمال سے دور کرکے عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی تعلیم دیتے ہیں۔ بہر کیف یہ سوال اپنے آپ میں خود تحقیق طلب ہے ۔ متعلقہ امام اور اس کے شیخ سے راست ملاقات اور تحقیق کیے بغیر ان کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔

(9) غلو فی التکفیر کیا ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

جواب: 9

غلو فی التکفیر کا مطلب ہے کسی کے قول و فعل اور عبارت کو کفریہ قرار دینے اور قائل کی تکفیر کرنے میں عجلت سے کام لینا اور تاویل سے کام  نہ لینا ۔ 

تکفیر میں غلو کرنے والے دین کی فروعی بات کو اصولی بات قراردیتے ہیں،ا پنے فہم کو نص کا درجہ دیتے ہیں،یہ خود چاہیں تو تاویل کرلیں مگر دوسروں کو تاویل کا حق نہیں دیتے۔تعصب اور جہالت غلو فی التکفیر کے بنیادی اسباب ہیں۔

تکفیر میں غلو سے کام لینا یہ آج کا فتنہ نہیں ہے بلکہ اس کا سرا عہد صحابہ سے ملتاہے۔ خوارج اور معتزلہ اس میں پیش پیش رہے ہیں، ایک نے حضرت علی کی تکفیر کی تو دو سرے نے گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو اسلام سے خارج کیا، اگر چہ واضح طور پر کافر نہیں کہا۔ بعد کے ادوار میں وہا بی تحریک غلو فی التکفیر میں بہت سرگرم رہی،یہاں تک کہ جس نے توسل و زیارت، احترام اولیا و مشائخ اور استعانت لغیر اللہ کا قول کیا تو اس کی تکفیر کر دی گئی، اسی طرح بعض متشدد سنی بھی تمام دیوبندی وہابی علما کی عمومی تکفیر کرنے لگے۔ ایسے لوگوں کا زعم فاسد یہ ہے کہ صرف وہی ایک سچے سنی مسلمان ہیں باقی سب یا تو گمراہ و بدعقیدہ ہیں یا پھر کافرو مرتد۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر ایسی بات جس میں نناوے پہلو ایمان کے ہوں اور ضعیف سے ضعیف پہلو کفر کا پایا جاتاہو تو اس کفر ی پہلو کو  واضح کر کے فتویٰ ایشوکردیا جاتاہے اور قائل کی تکفیر کر کے جگہ جگہ اس کی تشہیر کی جاتی ہے جس سے واضح طور پر معلوم ہو تا ہے کہ تکفیر کے ضمن میں ذاتی رنجش اور شخصی عناد کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے ۔ اللہ خیر فرمائے۔

جہاں تک غلو فی التکفیر کے خاتمے کی بات ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب تکفیر کے باب میں متکلمین کے وضع کردہ اصول واحکام پر عمل کیا جائے۔ خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے فتاویٰ رضویہ میں تکفیر کے جو اصول واحکام بیان کیے ہیں اس کی روشنی میں اگر کفر کے فتوے دیے جائیں تو بہت حد تک ایک دوسرے کو کافر بنانے کی ہوڑ ختم ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے فتاویٰ رضویہ کی چند عبارتیں ملاحظہ کر کے باب تکفیر کی حساسیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

تکفیر اہل قبلہ واصحاب کلمۂ طیبہ میں جرأت و جسارت محض جہالت بلکہ سخت آفت جس میں وبال عظیم ونکال کا صریح اندیشہ، والعیاذ باللہ رب العالمین! فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول و فعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فضیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں، اگر کوئی ضعیف سے ضعیف،نحیف سے نحیف تاویل پیداہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتاہو تو اس کی طرف جائیں اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں۔حدیث میں ہےحضور سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الاِسلَامُ یَعلُو وَلَا یُعلٰی۔أَخرَجَہُ الرُّؤیَانِی وَالدَّار قُطنِی وَالبَیھَقِی وَالضِیاءُ فِی المُختَارَۃِ کُلُّھُم عَن عَائذِ بنِ عَمرو المُزَنِی رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنہُ۔اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس کو رؤیانی، دارقطنی، بیہقی، مختارہ میں ضیاء اور خلیل نے عائذبن عمر و مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔(ت) 

احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں۔العیاذباللہ رب العالمین۔ 

 (فتاویٰ رضویہ، ج،۱۲،ص ۳۱۷)

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

’’اہل لا الٰہ الا اللہ پر بد گمانی حرام ہے اور ان کے کلام کو جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نہ خواہی معاذ ا للہ معنی کفر کی طرف ڈھال لے جانا قطعا گناہ کبیرہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج،۱۲،ص ۳۲۹)

(10) سنیوں کا شیعوں کے ساتھ اتحاد کا کیا مطلب ہے،نیز یہ بھی واضح کریں آخر سنی شیعہ سے کیوں نفرت کرتاہے اور سنی کا شیعوں سے نفرت کرنا دینی تقاضا ہے یا نہیں؟ اگر سنی کا شیعوں سے نفرت کرنا دینی تقاضا ہے تو پھر اس نفر ت کو مٹانے کا مطلب کیاہے؟

جواب: 10

مشترکہ امور میں سنی شیعہ اتحاد کے ساتھ ہر کلمہ گو کا ایک پلیٹ فارم پر آنا وقت کا جبری تقاضا ہے جس پر توجہ نہ دینے کے سبب امت مسلمہ کا وقار آئے دن مجروح ہو تا جا رہا ہے۔اعلیٰ حضرت کے نامور خلیفہ مبلغ اسلام مولانا عبد العلیم صدیقی نے گزشتہ صدی میں تمام مکاتبِ فکر کی مشترکہ تنظیم قائم فرمائی تھی یہی نہیں اس سے آگے بڑھ کر فروغ انسانیت اور قیامِ امنِ عالم کے لیے مختلف مذاہبِ عالم کی مشترکہ تنظیم بھی قائم فرمائی تھی، علامہ میرٹھی موجودہ مبلغین کے لیے رہنما ہیں اور جن ضرورتوں کے تحت انھوں نے بین المذاہب اور بین المسالک تنظیمیں قائم کی تھیں وہ ضرورتیں اکیسویں صدی میں کل سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔

 اس وقت ارتداد کی لہریں زوروں پر ہیں، مسلم لڑکیوں کو دین سے منحرف کرنے کی منظم سازشیں چل رہی ہیں، اسلام دشمن عناصر مذہب کی اصل روح کو مسخ کرنے کی منصوبہ بند کوشش کر رہے ہیں، اس وقت مسلمان ہونا جرم بنتا جا رہا ہے، غیر مسلم طاقتیں کسی فرقہ یا مسلک پر حملہ آور نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمان ان کے ٹارگیٹ میں ہیں۔ گھر واپسی کا نعرہ، لو جہاد کے پھندے، N.R.Cکی حکمت عملی یہ ساری سازشیں مسلمانوں کے کسی خاص طبقے کے لیے نہیں بلکہ اہل لا ا لٰہ الا اللہ کے لیے ہیں۔ سازشوں کے اس طوفان کے پیش نظر کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمام اہل قبلہ ذاتی نفرتوں کو مٹا کر اپنے عقیدے کے تحفظ کے ساتھ ایک ایسے پلیٹ فارم کی تشکیل کریں جس میں سنی، شیعہ کے ساتھ تمام مکاتب فکر کے افراد شامل ہوں ۔ اگر اس زمانے میں بھی کوئی اس نوعیت کے اتحاد کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تو اس کی عقل و بصیرت پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

اس قسم کے اتحاد کا ثبوت نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں ملتاہے،حلف الفضول، میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی ترقی کی عظیم شاہراہ ہیں۔ اسی طرح اسلاف کرام کی زندگی میں بھی اس نوعیت کے اتحاد کے نمو نے ملتے ہیں بالخصوص گزشتہ سو سال میں علما و مشائخِ اہل سنت نے بھی مشترکہ امور میں مختلف مکاتب فکر کے ساتھ مجالست واتحاد کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ ملاحظہ کریں شہزاداۂ اعلی حضرت مولانا حامد رضا خان قادری بریلوی کی درد انگیز تحریر، آ پ لکھتے ہیں کہ:

 ’’حضور پر نور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے مجھے مولوی عبد الباری صاحب کی دعوت پر اس جلسے میں بھیجا تھا جس کے دعوت نامے میں عبد الباری صاحب وغیرہ علمائے فرنگی محل(لکھنؤ) کے ساتھ مجتہدین روافض کے بھی نام تھے۔ اور وہ یہ وقت ہے جب ’’مائٹی گو‘‘ وزیر ہندوستان آیا تھا اور سیلف گورنمنٹ کا ہندوستان میں ایک شور و غوغا مچا ہوا تھا۔(چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں) تو کیا تحفظ حقوق کے لیے اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا ہمیں اجازت شرکت دینا عیاذا بالمولیٰ تعالی گمرہی و فسق کہا جاسکتاہے ؟ اور کیا ہم سب شریک ہونے والے کسی گمرہی و فسق کے مرتکب ہوئے تھے؟ حاشا، الامور بمقاصدھا۔ (مظاہر الحق الاجل، جو طویل سوالات و جوابات پر مشتمل ہے اور فتاویٰ حامدیہ مطبوعہ بریلی ۱۴۲۴ھ /۲۰۰۳ء میں صفحہ نمبر ۴۲۴، تا ۴۴۶ تک میں شامل ہے۔ )

روافض کے ساتھ مجالست کے سبب مولانا حامد رضا خان پر بھی نا اہل لوگوں کی ایذا رسانی کس قدر ہوئی تھی آپ کی اس تحریر کی ایک ایک سطر سے جھلک رہی ہے۔

حیرت اس بات پرہے کہ بعض لوگ فتاویٰ حامدیہ کے اس فتویٰ کو ملاحظہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ:

’’ مسلک اعلیٰ حضرت کا خون ہو گیا، اس فتویٰ کو فتاویٰ حامدیہ سے نکال دینا چاہیے، اس جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے   ترجمان   فرزندان ِاشرفیہ معروف عالم دین مولانا یٰس اختر مصباحی لکھتے ہیں: جس فرضی مسلک کا خون اعلیٰ حضرت کے حکم سے حجۃ الاسلام وصدر الشریعہ و دیگر خلفائے اعلیٰ حضرت نے کیا اس کا خون ہونا ہی چاہیے، اور بارہا ہونا چاہیے (عرفان مذہب و مسلک، ۱۷۰، مطبع دارالسلام گنج بخش روڈ لاہور)

 ۱۹۷۲ ء میں مسلم پرسنل لا کنونشن ممبئی میں منعقد ہوئی جس کی صدارت و قیادت قاری محمد طیب مہتمم دارا لعلوم دیوبند، مولانا منت اللہ رحمانی مونگیری اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کر رہے تھے ایسے پروگرام میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا برہان الحق جبل پور ی (۱۴۰۵ھ/۱۹۸۴ء )علامہ ارشد القادری (۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲ء) شریک ہوئے اور خطاب بھی کیا ۔مولانا برہان الحق صاحب مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں صاحب کی اجازت اور تاکیدی حکم سے شریک ہوئے تھے۔

 (دیکھیں: مفتی اعظم نمبر استقامت، ڈائجسٹ کان پور،شمارہ مئی ۱۹۸۳ء اور ماہنامہ حجاز جدید دہلی ۱۹۹۰ء، بحوالہ عرفان مذہب و مسلک)

 اسی طرح فقہ اکیڈمی دہلی کا فقہی سیمینار جو قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی سربراہی میں ہوتا چلا آرہا تھا، ۱۹۸۹ء میں اس کی طرف سے آنے والی دعوت میں مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی ، خواجہ مظفر حسین رضوی صاحبان مفتی اختر رضا قادری ازہری کی رائے سے شریک ہوئے تھے۔ اسی طرح مسئلہ بابری مسجد کو حل کرنے کے لیے مولانا منت اللہ رحمانی اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے ایک میٹنگ کی جس میں سید مظفر حسین کچھوچھوی، علامہ ضیاء المصطفی قادری، مفتی نظام الدین رضوی وغیرہ شریک ہوئے۔ (عرفان مذہب و مسلک، ص۸۸)

رہا شیعوں کے ساتھ ہمارے اختلاف یا نفرت کا مسئلہ تو یہ ہمارا داخلی اور مسلکی معاملہ ہے، بہت سے روافض حضرات شیخین اور دیگر صحابہ کی توہین کرتے ہیں جو سخت گمرہی ہے اور جس سے براءت ضروری ہے البتہ سنی شیعہ اتحاد یا مسلکی اتحاد خارجی مسائل اور ملی ضرورتوں کے سبب ہے دونوں کی الگ الگ حیثیت ہے۔ تاہم ملی ضرورتوں کے لیے مسلکی اتحاد کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بہت سے روافض حضراتِ شیخین کی بر ملا اہانت سے گریز کریں گے۔

(11) آپ کے نزدیک صرف وہی چند افراد کا فر و مرتد ہیں جن کو اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے نام بنام کا فرو مرتد کہا یا جو بھی ان افراد کے عقائد کی طرح عقائد رکھتاہو وہ بھی کافرو مرتد ہے۔ 

جواب: 11

ہمارے نزدیک وہ تمام افراد کافرو مرتد ہیں جن کے قول و فعل اور عبارت سے التزامی طور پر گستاخ رسول ہونا ختم نبوت کا منکر ہونا،علم غیب مطلق کا انکار کرنا، یا کسی بھی ضروریات دین کا انکاری ہونا ثابت ہو جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےاپنے اصول کی روشنی میں جن کی تکفیر کی صرف وہی کافر ہیں بلکہ جو شخص بھی منکر ضروریات دین ہے اس کا کافر و مرتد ہونا سب کے نزدیک مسلم و محقق ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی کے نزدیک کافر و مرتد ہو لیکن وہی شخص دوسرے کے نزدیک خالص مومن ہو جیسے ایمان فرعون کامسئلہ،شیخ ابن عربی کے نزدیک فرعون کا خاتمہ ایمان پر ہوا لیکن اجماعِ امت یہ ہے کہ فرعون کا خاتمہ کفر پر ہوا۔ باب تکفیر میں اجماعی مسئلے سے اختلاف کر نے کے باوجود شیخ ابن عربی کو اعلی حضرت فاضل بریلوی ” خاتم ولایت محمدیہ“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں جب کہ ملا علی قاری ان کی سخت تکفیر کرتے ہیں۔ اس لیے ایسا ہو سکتاہے کہ شخص واحد ایک محقق کے نزدیک مومن ہو جب کہ وہی دوسرے محقق کے نزدیک کافر ہو۔

یہی صورت حال تکفیر اکابر دیابنہ میں ہے کہ اعلی حضرت کے نزدیک یہ لوگ کافرو مرتد ہیں جب کہ اعلیٰ حضرت ہی کے معاصرین اور مابعد دوسرے محققین کے نزدیک یہ لوگ کافر ومرتد نہیں ہیں۔

در اصل حسام الحرمین کی اشاعت کے بعد اس کی تصدیق و عدم تصدیق کے حوالے سے دو گروپ سامنے آئے۔

پہلے گروپ نے حسام الحرمین کی حرف بحرف تصدیق کی ۔

دوسرے گروپ نے واضح طور پر اکابر دیابنہ کی تکفیر سے انکارکیا یا سکوت فرمایا لیکن ان کی عبارتوں کو غیر مناسب اور بے محل قرار دیا جن میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی،علماے رامپور، مشائخ پھلواری کے علاوہ دیگر اکابر بھی شامل ہیں۔

بعد میں خرابی یہ آئی کہ اس کتاب کی تصدیق کو ایمان و کفر کا معیار بنا دیا گیا، گویا جس نے تصدیق کی وہ مومن رہا جس نے انکار کیا اسے خارج اہل سنت یا پھر کافر قرار دے دیا گیا۔ جب کہ تاریخ اسلامی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی کے تکفیر ی فتوےکی تصدیق یا عدم تصدیق  کو ایمان و کفر کا معیار یا اہل سنت کا مدار قرار دیا گیا ہو، ا گر اسی معیار پر اہل سنت کی تشخیص کی جائے تو ہمارے بہت سے اکابر اہل سنت دین سے خارج ہوتے نظر آئیں گے۔ معاذ اللہ

اب اصل جواب ملاحظہ کریں:

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے فتوے کا اطلاق صرف انھیں افراد پر ہوتا ہے جن پر آپ نے فتوی دیا ہے۔ چوں کہ اکابر دیابنہ کی عبارتوں کا کفریہ ہونا اعلی حضرت پر اس قدر واضح ہو گیا تھا کہ ان کے نزدیک ان عبارتوں میں تاویل کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا تھا اس لیے ان پر واجب ہو گیا کہ اکابر دیابنہ کی تکفیر کریں ورنہ حکم کفر خود ان پر عائد ہو جاتا اسی طرح جس شخص پر اکابر دیابنہ کی عبارتوں کا کفریہ ہونا قطعی و یقینی طور پر معلوم ہو جائے اور ضعیف سے ضعیف پہلو بھی تاویل کا نہ نکلے تو اس کے باوجود اگر ایسا شخص تکفیر سے انکار کرے تو خود کافر ہو جائے گا۔ چاہے وہ شخص دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو یا وہابی نظریات کا حامل ہو یا پھر بریلویت کا علم بردار ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جس شخص پر اکابر دیابنہ کا کفر قطعی و یقینی طور پر واضح نہ ہو یا تاویل کا اضعف ترین پہلو اس کے نزدیک موجود ہو اور اسی سبب سے وہ تکفیر نہ کرتا ہو تو شرعاً اسے عدم تکفیر کا حق حاصل ہے ۔ اس بنیاد پر شخص مذکور کو کافر قرار دینا تشدد و تعنت اور غلو فی التکفیر ہے۔

(12) جو شخص وہابیہ کے کفر پر مطلع ہونے کے باوجود ان کو اپنا امام یا پیشوا یا کم از کم مومن ہی مانتا ہو وہ کافر ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو کیوں؟ اور نہیں تو کیوں نہیں؟

جواب: 12

 سوال نمبر ایک کے جواب میں یہ بات گزر چکی ہے کہ علماے اہلِ سنت نے وہابیہ کی تضلیل کی ہے تکفیر نہیں۔

(13) آپ کا عارفیہ سید سراواں، الٰہ آباد اور اس کے بانی ابومیاں سے کیا تعلق ہے؟ جب کہ درجنوں دار الافتا سے ان کی گمرہی کا فتوی ٰ دیا گیا ہے۔

 جواب: 13

 جامعہ عارفیہ،سید سراواں شریف اور اس کے بانی داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی سے ہماری علمی، عملی اور روحانی وابستگی ہے، ان کی صحبت بابرکت سے ہمیں حلاوتِ ایمان، فکرِ آخرت اور لذتِ بندگی حاصل ہوئی۔ خانقاہ عارفیہ سے وابستگی ہماری زندگی کی معراج ہے، اس درکے گدا گروں میں شامل ہونا ہمارے لیے فخر و اعزاز کی بات ہے۔ چار سالہ قیام کے دوران ہم نے یہاں کے در و دیوار کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ خانقاہ عارفیہ سے ہمارا تعلق کیسے ہوا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کو سننے کے بعد فاروقی طرز عمل کی ایک جھلک محسوس ہوتی ہے۔

خانقاہ عارفیہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ناچیز کا تفصیلی مقالہ بنام ’’برصغیر کی چشتی نظامی خانقاہیں‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا۔ اس خانقاہ سے متعدد تصانیف شائع ہو کر اہل علم میں مقبول ہو چکی ہیں۔ جیسے مجمع ا لسلوک، الاحسان کے متعدد شمارے، مرج البحرین، تکمیل الایمان وغیرہ۔ ان کتابوں میں گمراہ کن مواد اگر کسی کی نظر سے گزرے تو ہمیں بھی مطلع کرے، اس لیے کہ ان کتب کے مطالعے کے بعد ہمیں ایسی کوئی عبارت نظر نہ آئی کہ جس بنیاد پر خانقاہ عارفیہ کو گمراہ کہا جائے۔ معاذ اللہ رب العالمین۔

جہاں تک متعدد دار الافتا سے گمرہی کا فتویٰ دیے جانے کی بات ہے تو یہ جان لیں کہ اس طرح کے فتوے کی نشر واشاعت عہد حاضر میں کوئی بڑا ایشو نہیں رہ گیا ہے، اس لیے کہ موجودہ وقت میں شاید ہی کوئی ایسی خانقاہ، مدرسہ،تحریک یا تنظیم ہو جو فتووں کی زد سے محفوظ ہو۔ اہل سنت کا مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے خلاف آئینہ صلح کلیت نامی کتاب لکھنے کا تعلق کسی دوسرے مکاتب فکر سے نہیں بریلوی طبقے سے ہی ہے۔ علامہ ازہری میاں اور علامہ ضیاء المصطفی قادری کی موجودگی میں مولانا غیاث الدین کا لپوی کا جرأت بھرا اعلان کہ ’’اشرفیہ صلح کلیت کا اڈہ ہے۔ اشرفیہ کو چندہ دینا حرام ہے حرام ہے۔‘‘ اشرفیہ کے خلاف یہ ساری کارستانیاں اپنوں کے ظل عاطفت میں ہوئی، حتی کہ مجبور ہو کر فرزندان اشرفیہ بالخصوص مولانا یٰس اختر مصباحی کو جوابی تحریر کے لیے آمادہ ہونا پڑا، تو کیا ان لوگوں کی ناعاقبت اندیشی کے سبب فرزندان اشرفیہ صلح کلی ہو گئے؟

دعوت اسلامی اور سنی دعوت اسلامی کو مسلک اعلیٰ حضرت کا مخالف قرار دے کر اس کی گمراہیت کا بھی فتویٰ دیا گیا تو کیا   ان  سے وابسطہ سارے علماو عوام گمراہ ہیں؟

اب ذرا فیصلہ کن نگاہوں سے ان شخصیات و تحریکات کا بھی مطالعہ کرلیں جن کی تضلیل و تفسیق میں بڑی جرأت مندی کا مظاہرہ کیا گیا ہے جن کو پڑھنے کے بعد انصاف پسند آنکھیں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

(۱)حضرت ازہری میاں کے والد مفسر اعظم پر مفتی محمد اعظم اور قاضی عبدالرحیم نے کفر کا فتویٰ لگایا جس کی تاویل میں مفتی غلام محمد نے مثنوی مولانا روم کا شعر پیش کیا، جو تلاش بسیار کے باوجود آج تک نہ مل سکا۔

(۲) مفتی غلام محمد صاحب نے ’’ احکام شرع مصطفوی برگردن بر ادران کچھوچھوی‘‘ نامی کتاب میں مثنی میاں، ہاشمی میاں پر تفسیق و تضلیل کا حکم صادر کیا، تو ذرا انصاف سے کام لیں آل رسول کی اس جماعت کو کس جرم کی پاداش میں گمراہ قرار دیا گیا؟  کیا کسی مفتی کے کہنے سے واقعی یہ حضرات گمراہ قرار پائے؟ ہر گز نہیں یہی عین انصاف ہے۔

(۳) شیخ طریقت حضرتثقلین میاں اور خانقاہ سمرقندیہ دربھنگہ کے شیخ طریقت سید شاہ نور علی بڑے حضور اور ان کے معتقدین سے نام نہاد  پیروں اور مفتیوں کا توبہ و تجدید کا مطالبہ۔ انصاف پسندوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟

(۴) جام نور اور اس کی ٹیم کی گمرہی کا اعلان ہوا۔ جس کے نمائندہ افراد شہید بغداد علامہ اسید الحق قادری، ڈاکٹر خوشترنورانی، اور ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی تھے کیا یہ حضرات گمراہ ہیں؟

(۵) محدث کبیر سے حشمتی برادران نے تجدید ایمان کا مطالبہ کیا اور محدث کبیر نے زرتاب رضا اور سنابل رضا کی تضلیل کی اور ازہری میاں سمیت کئی علما نے تجدید و رجوع کا مطالبہ کیا ۔ خود ازہری میاں کے خلاف پیلی بھیت میں تقریریں ہوئیں، انھیں گمراہوں کا شاگرد، مسلک اعلیٰ حضرت سے منحرف اور غیر مستند اور غیر معتبر قرار دیا گیا۔ بلکہ بعض مداری برادران نے ان کی تکفیر بھی کی۔

(۶) سالم میاں بدایوں، اشرف العلما سید حامد اشرف اشرفی، مفتی ظہیر الدین،مولانا عبید اللہ خان اعظمی،مولانا یٰس اختر مصباحی وغیرہ کے خلاف گمراہیت کے فتوے دیے گئے کیا یہ حضرات گمراہ ہیں؟

اتنے پر ہی بس نہیں بلکہ شاید ہی کوئی بڑا عالم و پیر بچا ہو جو  مولویوں کے فتوے کی زد سے محفوظ ہو اس لیے اگر کوئی دارالافتا خانقاہ عارفیہ کے خلاف گمراہیت کا فتویٰ دیتاہے تو میں ان فتوؤں کو ایسے ہی کالعدم قرار دیتا ہوں جیسے مذکورہ معزز شخصیات کے خلاف لگائے گئے فتوؤں کو ناقابل التفات سمجھتاہوں۔ میں نے خانقاہِ عارفیہ کے خلاف بعض فتاوے دیکھے ہیں جو سراسر غیر تحقیقی الزامات و اتہامات اور تحریفات پر مبنی ہیں۔ 

اس کے بر خلاف فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی جو کئی بار خانقاہ جا بھی چکے ہیں ان کا تاثر یہ ہے:

 الغرض میں نے یہاں بعض فروعی مسائل جن پر سنیت کا مدار نہیں ہے، جیسے اقامت کے شروع ہی میں سارے لوگوں کا کھڑا ہو جانا، سماع بالمزامیر وغیرہ کو چھوڑ کر کوئی ایسی بات نہیں پائی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے یہ خانقاہ سنیت بلفظ دیگر مسلک اعلیٰ حضرت کی پابند نہیں ہے۔(معائنہ رجسٹر، خانقاہ عارفیہ) 

(14) تصویر کس کو کہتے ہیں؟ موبائل یاکیمرے کے ذریعہ کھینچاگیا فوٹو تصویر ہے یا نہیں؟اگر تصویر ہے تو پھر اس شخص کے متعلق شریعت مطہرہ کاکیا حکم ہے جوبلا حاجت ایسے فوٹوز فیس بک وغیرہ پر ڈالتارہتاہے اور اگر موبائل اورکیمرے کے ذریعہ کھینچا گیا فوٹو تصویر نہیں ہے تو پھر فتاویٰ ر ضویہ شریف،جدیدجلد۲۴، ص:۵۶۷ کی عبارت کا کیا مطلب ہے؟

 جواب: 14

اس مسئلہ کا تعلق فروعات سے ہے جس میں علما کا باہم اختلاف ہے اور یہ اختلاف رحمت و برکت کے دروازے کھولتا ہے اس مسئلہ میں چند علما کی رائے ہے کہ تصویر خواہ ڈیجیٹل ہو یا نان ڈیجیٹل اس کا بنانا چھاپنا ناجائز و حرام ہے جب کہ دوسرے علما ڈیجیٹل تصاویر کے جواز کا قول کرتے ہیں ۔دوسری طرف علماے ازہر اور عالمِ اسلام کے بہت سارے سنی صوفی علما و مشائخ کا موقف یہ ہے کہ وہی تصاویر یا مجسمے حرام ہیں جو عبادت کے لیے ہوں یا منجر الی العبادۃ ہوں۔

اس طرح کے مختلف فیہ مسائل میں ضابطہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے معتمد علیہ کے موقف پر عمل کرے یا از خود تحقیق کر کے کسی نتیجے تک پہنچے تاہم اس قسم کے اجتہادی اور مختلف فیہ مسائل میں کسی فریق کے لیے جائز نہیں کہ مخالف فریق کی تفسیق کرے۔ تفسیق صرف منصوص متفق علیہ مسائل کی خلاف ورزی پر کی جاتی ہے۔

فقہ اسلامی کا متفقہ قاعدہ ہے: "لا ينكر المختلف فيه و انما ينكر المجمع عليه" ( الاشباه و النظائر للسيوطى، ص:158) 

مختلف فیہ پر عمل کرنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے, مواخذہ تو صرف اجماعی مسائل کے خلاف کرنے والے پر ہو سکتا ہے.

علامہ عبد الغنی نابلسی(1143ھ)کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے:

 "متى امكن تخريجها على قول من اقوال فى مذهبنا او مذهب غيرنا فليست بمنكر يجب انكاره و النهى عنه، و انما المنكر ما وقع الاجماع على حرمته و النهى عنه خصوصا". (فتاوی رضویہ، 9/ 532- الحدیقۃ الندیۃ شرح الطريقۃ الندیۃ، 2/204) 

جب کسی مسئلے کے جواز کی تخریج ہمارے مذہب یا ہمارے غیر کے مذہب کے اقوال میں سے کسی قول پر ممکن ہو تو یہ وہ منکر نہیں ہوگا جس پر نکیر کرنا یا جس سے روکنا واجب ہو، بلکہ منکر تو صرف وہی ہے جس کی حرمت پر اور اس سے نہی پر اجماع واقع ہو. 

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں:

إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ الَّذِي قَدِ اخْتُلِفَ فِيهِ وَأَنْتَ تَرَى غَيْرَهُ فَلَا تَنْهَهُ(حلیۃ الاولیا لابی نعیم338/6)

اگر تم کسی کو ایسا عمل کرتے دیکھو جس میں علما کا اختلاف ہو اور تمہاری رائے اس کے برعکس ہو تو تم اس عمل سے اس کو منع نہ کرو.

اس مسئلے میں جن لوگوں کے معتمد علیہ وہ علما و محققین ہیں جو ڈیجیٹل تصویر کے جواز کا قول کرتے ہیں- خود ہماری تحقیق بھی یہی ہے- ان کے لیے ڈیجیٹل تصویر کھینچنا یا کھینچوانا جائز و درست ہے۔ اور جن لوگوں کے معتمد علیہ وہ حضرات ہیں جن کے نزدیک ہر طرح کی تصاویر کھینچنا یا کھینچوانا ناجائز و حرام ہے تو ان کے متبعین کے لیے موبائل میں تصویر کھینچنا، یا کسی بھی طرح کی ویڈیو بنانا، دیکھنا، سننا، سنانا، یا بلا ضرورت شرعی ایسی جگہ جانا جہاںCCTV کیمرے لگےہوں ناجائز و حرام ہے،ایسے لوگوں کے لیے فیس بک، ٹوئٹر و دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال سے گریز کرنا بھی نہایت ضروری ہے اس لیے کہ یہ سارے پلیٹ فارم ویڈیوز،اور فوٹوز سے خالی نہیں ہوتے بلکہ انھیں ملٹی میڈیا موبائل، انٹرنیٹ کے ساتھ کمپیوٹر وغیرہ کے استعمال سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

اگرایسے لوگ بالقصد ڈیجیٹل تصاویر یا ویڈیو وغیرہ سوشل سائٹس پر اپلوڈ کرتے ہیں تو وہ اپنے معتمد  علیہ  عالم دین  کے فتوے کے مطابق فاسق معلن ہیں لیکن بحمد اللہ اس فسق سے وہ لوگ محفوظ ہیں جن کے معتمد علیہ کے نزدیک ڈیجیٹل تصاویر کے ساتھ حکمِ حرمت متعلق نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: ساجد الرحمن شبر مصباحی

خطیب و امام طیبہ مسجد، امرت نگر، ممبرا

‏28/صفر المظفر۱۴۴۳ھ‎=‌‏ 6/ اکتوبر ۲۰۲۱ء

رکن ۔دار الافتا العارفیہ

الجواب صحیح

محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری 

جامعہ عارفیہ  ۔سید سراواں 

7/ربیع الاول۱۴۴۳ھ‎=‌‏14/ اکتوبر ۲۰۲۱ء

Ad Image