عارف باللہ داعی اسلام شیخ ابو سعیدشاہ احسان اللہ محمدی صفوی قصبہ سیدسراواں میں۵ محرم ۱۳۷۷ھ مطابق ۲ اگست ۱۹۵۷ء بروز جمعہ ایک دینی و روحانی خانوادے میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں پروان چڑھے۔
آپ مسلکاسنی حنفی، مشربا چشتی قادری، نقش بندی و سہروردی اور نسبا عثمانی ہیں، اور ان سب سے پہلے آپ مسلم اور محمدی ہیں۔ آپ اس پر ہمیشہ زور دیتے ہیں- رشتۂ اسلام و ایمان کے علاوہ زمانے میں جتنی پنپنے کی باتیں وضع کر لی گئی ہیں، آپ ان سب سے بیزار رہتے ہیں۔
آپ کے والد کا نام حکیم آفاق احمد اور والدہ کا نام شاہدہ بی بی تھا۔ والد محترم نے دونوں ناموں کو ملاکر آپ کا نام شاہد الآفاق رکھا جو آپ کی شخصیت کا صحیح معنوں میں عکاس ہے ۔والد ماجد کو چوتھی صدی ہجری کےمشہور باکمال اور صاحب کشف و کرامت بزرگ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر سے قوی نسبت تھی، اسی نسبت کے زیر اثر آپ نے صاحب زادے کی کنیت ابو سعید تجویز فرمائی ۔
حضرت کی ابتدائی تعلیم گھر کی چہار دیواری میں ہوئی، بعد ازاں جناب علی ظہیر عثمانی علیگ نے آپ کو فارسی اور جناب درویش نجف علیمی نے ابتدائی انگریزی کی کتابیں پڑھائیں ، لالہ پور ضلع الٰہ آباد سے ہائی اسکول پاس کیاپھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۷۵ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے پہلے P.U.C.پاس کیا پھر فارسی سے بی اے کرنے لگے۔
حضرت کی تعلیم ا بھی جاری ہی تھی کہ حضرت مخدوم شاہ احمد صفی محمدی عرف شاہ ریاض احمدقدس سرہ نے جو زندگی کے آخری ایام سے گزررہے تھے،سلطان العارفین حضرت شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہٗ کے عرس بابرکت کے حسین موقع پر ۱۷؍ذی قعدہ ۱۳۹۸ھ/ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کوپر بعد نماز مغرب حضرت کو بیعت کیا اور بعد نماز عشا عرس کی تقریب کے دوران خلافت وسجادگی سے سرفراز فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف اکیس سال تھی۔
حضرت داعی اسلام کی زندگی مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔آپ نے ریاضت و مجاہدہ ،اوراد وظائف کیے۔خانقاہ کے ایک حجرے میں چٹائی بچھا کر سوتے اور سر کے نیچے اینٹ لگاتے۔ پھرایک دور وہ بھی گزرا جب آپ مشائخ اور صوفی علما کی کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بحر معانی کی بھرپور غواصی کی۔ ریاضت ومجاہدہ ،خالص جذب، مطالعہ و تحقیق اور شادی خانہ آبادی کے بعد پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ ارشاد وہدایت کی طرف متوجہ ہوئے۔آپ نے شریعت وطریقت کے جامع افراد تیار کرنے کے لیے نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ۱۹۹۳ء میں خانقاہ عارفیہ کے احاطے میں جامعہ عارفیہ کی بنیاد رکھی جو در اصل ایک علمی، فکری، اصلاحی اور انقلابی وتعمیری مشن سے عبارت ہے۔ آپ جامعہ عارفیہ کی تعمیرو ترقی کے علاوہ دیگر درجنوں مدارس کی سرپرستی، اعانت اور مشاورت میں شامل ہیں۔ مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر وسرپرستی اور ائمہ ومدرسین کی تقرری سے بھی خاص شغف ہے۔ جگہ او رماحول کے مطابق مختلف مقامات پر اپنے تربیت یافتہ ائمہ و معلمین اور دعاۃ ومبلغین کو بھیجتے ہیں تاکہ ابتدائی اور بنیادی سطح پر تعلیمی ، تعمیری، اصلاحی اور دعوتی مشن کا میابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔
حضرت شیخ کی شخصیت ایک دوراندیش صاحب نظر، مدبرو مربی اور حکیم داعی و مصلح کی ہے ۔اللہ کریم کی توفیق سے بے ایمانوں کو دولت ایمان عطا کرنا ، بے عملوں کو عامل وپارسا بنانا، ناکاروں کو برسرکار اور ناپختہ لوگوں کو پختہ بنانا حضرت کا مشن ہے۔ آپ دوسروں کی ہدایت، اصلاح ، کامیابی اورسرخروئی کے لیے حد درجہ حریص واقع ہوئے ہیں اور اس کے لیے شرعی حدود میںرہتے ہوئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
آپ کی بارگاہ میں ہندو مسلم، سنی شیعہ،حنفی شافعی، اور امیر وفقیر، عالم و جاہل،گورے کالے ، ہر طرح کے پیاسے آتے ہیں اور حضرت صوفی مشرب پرعمل کرتے ہوئے بلا تفریق سب کو سیراب کرتے ہیں۔وہ سب کی اصلاح چاہتے ہیں اور ایک حکیم دانا کی طرح جس کے لیے جو دو ا اور جیسا پرہیز مناسب سمجھتے ہیں تجویز فرمادیتے ہیں۔وہ سب کی دل جوئی کرتے ہیںاور سب کے لیے سعادت دارین کے متمنی رہتے ہیں اور پورے معنوں میں دل بدست آوری کو حج اکبر تصور کرتے ہیں۔
آپ کے دربار سادہ ورنگین کی یہ کرامت ہے کہ اس میں ہر مغرور کی پیشانی جھکتی نظر آتی ہے۔ ان سے مل کر بچوں کو ایک دوست، بڑوں کو ایک سرپرست ، بوڑھوں کو ایک دست گیر، عالموں کو ایک مربی اور اہل نظر کو ایک دور اندیش مفکر ومدبر کی ملاقات محسوس ہوتی ہے-آپ کی دعوت کا رنگ دل کش اور اصلاح کا طریقہ انوکھا ہے۔آپ جس سے گفتگو کرتے ہیں اس کی زبان، اصطلاح، نفسیات اور مزاج کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ سکھوں سے بات کرتے ہوئے گروبانیوں کا استعمال اور ہندؤں سے گفتگو کے دوران دیومالائی قصوں اور ہندی اصطلاحوں سے استفادہ ،مخاطب کو حد سے زیادہ قریب کردیتا ہے۔حضرت کے دعوتی اور اصلاحی انداز میں ،حکمت و موعظت، ترتیب و تدریج ، انفاق و بے لوثی، انذاروتبشیراور دل جوئی و خیر خواہی کے عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ چند لمحے میں بے ایمانوں، گم راہوں اور بد کاروں کو سپر انداز ہوتے اور اپنے پچھلے کرتوتوںپر احساس ندامت میں آہ وزاری کرتے دیکھ کر خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ ایسی آنکھیں جو کبھی رونا نہیں جانتیں، جب موسلادھار برسنے لگتی ہیں، اور ایسے دل جنہیں پتھر سمجھا جاتا ہے، جب وہ موم کی طرح پگھلتے نظر آتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دست مسیحائی کو چوم لینے کو دل بے قرار ہوجاتا ہے۔
ان کی محفل میں دل کو سکون ، عقل کو روشنی، قلب کو اخلاص، ذہن کو پختگی ، فکر کو سمت اور علم کو توانائی ملتی ہے ۔بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ مغرور پیشانی کے ساتھ حاضر دربار ہوئے پہلی اور دوسری ملاقات کے بعدہی ان کی انا کے بت ٹوٹ گئے ۔وہ لوگ بھی ہمارے سامنے ہیں جو علم وآگہی کے غر ور سے چور تھے اور اب ان کے سر سے غرور علم ہمیشہ کے لیے اتر گیاہے۔اب وہ صرف خاموش طالب اور سوالی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم ان سے بھی واقف ہیں جو مولانا روم کی طرح علمی اسناد و شہادات کو درنار کرچکے ہیں اور اب ہاتھوں میں کشکول لیے روئے جاناں کو تکے جارہے ہیں۔ یہاں ہر منگتا کی مرادیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں، وہ منگتا کسی بھی سطح کا اور اس کا سوال کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو۔ آپ کی محفل کأنّ علٰی رؤسہم الطیور کا نمونہ معلوم ہوتی ہے اور خاص بات یہ کہ گفتگو جہاں سے بھی شروع ہو ،بات مطلوب و مقصود حقیقی تک ہی پہنچتی ہے۔ محفل پر کبھی انذار کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی تبشیر کا۔ اس میں غم دنیا کا رونا نہیں ہوتا، فکر آخرت میں ہی آنکھیں برستی نظر آتی ہیں اور کبھی دنیا کی بات بھی ہوئی تو اس میں دین کا پہلوتلاش کرلیا گیا اور اس طرح دنیا دین بن گئی ۔
حضرت کے شب وروز کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ حضرت کے اخلاق و کردار ناقابل یقین حد تک اسوۂ حسنہ کی تصویرہیں۔ بزرگوں کے اخلاق و عمل اور کشف و کرامات کے تعلق سے جو واقعات کتابوں میں ملتے ہیں ان کی صحبت اٹھانے والے سر کی آنکھوں سے ان کا مشاہد ہ کرتے ہیں ۔ وہ اس دور زوال میں صحیح معنوں میں نمونۂ اسلاف ہیں۔ نماز باجماعت کا اہتمام ، احکام شریعت کی پابندی وپاسداری، خوشی اور غم میں صبر وشکر ،ہر حال میں مسکرانا اور مسکراتے ہوئے سب کا استقبال کرنا،ہر شخص کی دل جوئی ، سب کا خیال ، اپنے چاہنے والوں کو ٹوٹ کر چاہنا اور دشمنوں کے دل کو بھی محبت سے جیت لینا ،آپ کی دل آویز شخصیت کے خاص عناصرہیں۔
Leave your comment