Donate Now
یومِ عرفہ کا روزہ

یومِ عرفہ کا روزہ

سوال: ہمارے ایک مصری استاذہیں وہ کہتے ہیں کہ عرفہ تو اسی دن ہوگا جس دن وقوفِ عرفات ہوگا اس لیے تم لوگ ۸ ؍ ذی الحجہ کو ہی روزہ رکھو کیوں کہ سعودیہ میں یہاں کے حساب سے وقوفِ عرفات ۸؍ ذی الحجہ کو ہی ہو رہا ہے۔   جب کہ حقیقتاً  یوم عرفہ  تو ۹؍ ذی الحجہ کو کہا جاتا ہےتو   ایسی صورت میں  ہم ہندوستان والے روزہ کس دن رکھیں ؟   اس دن روزہ رکھنے کی کیا فضیلت آئی ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں۔ 

مستفتی   : فیض العزیز، مراد آباد 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب :  عرفہ کے روزہ کے تعلق سے کئی طرح کی حدیثیں آئی ہیں ایک میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو دوسرے میں منع کیا گیا ہے لیکن بعض دوسری روایات سے ان سب کی تطبیق ہوجاتی ہے ۔ 

عرفہ کے روزے کی غیر معمولی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاہے:

صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ.

(صحیح مسلم:1162، سنن ابوداؤد:2425،سنن ترمذی:749،سنن ابن ماجہ: 1730، مسنداحمد:22530)

مجھے اللہ کریم  کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔

اس میں وقوف کی جگہ  یوم عرفہ کا ذکر ہے جو کہ ۹؍ ذی الحجہ کی تاریخ ہے جس  علاقے میں  جب ۹؍ ذی الحجہ پڑے روزہ رکھے گا۔ اس کی وضاحت اس روایت سے بھی ہوتی ہے:

کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه و سلم یَصُومُ تِسْعَ ذِی الحِجَّةِ وَیَومَ عَاشُورَاء . 

(سنن ابوداؤد :2437، سنن نسائی :2372،2417،  مسند احمد: 22334،27376)

۹؍ ذی الحجہ  اور یوم عاشورہ کو رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے۔

اس کے بر عکس ایک دوسری روایت میں ارشاد ہے :

«يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ»

(سنن ابو  داود :2419، سنن ترمذی:773، سنن نسائی:3004،  مسند احمد :۱۷۳۷۹) 

ہم اہل اسلام کی عیدیں یوم عرفہ ، یوم نحر  اور ایام تشریق ہیں ، یہ سارے ایام  کھانے پینے کے ہیں۔

اور اس کی تطبیق بھی ایک روایت میں مذکور ہے حضرتِ ابو ہریرہ فرماتے ہیں:

نَهَى عَنْ صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ

(سنن ابو  داود :2440، سنن نسائی:2830،  مسند احمد :8031) 

رسول اللہ ﷺ نے حاجی کو وقوف کی صورت میں عرفہ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔

اسی لیے فقیہ ابو بكر علاء الدين سمرقندی نے یوم عرفہ  کے روزے کی فضیلت اور منع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: 

وَأما صَوْم يَوْم عَرَفَة فِي حق الْحَاج فَإِن كَانَ يُضعفهُ عَن الْوُقُوف بِعَرَفَة ويخل بالدعوات فَإِن الْمُسْتَحبّ لَهُ أَن يتْرك الصَّوْم لِأَن صَوْم يَوْم عَرَفَة يُوجد فِي غير هَذِه السّنة فَأَما الْوُقُوف بِعَرَفَة فَيكون فِي حق عَامَّة النَّاس فِي سنة وَاحِدَة وَأما إِذا كَانَ لَا يُخَالف الضعْف فَلَا بَأْس بِهِ وَأما فِي حق غير الْحَاج فَهُوَ مُسْتَحبّ لِأَن لَهُ فَضِيلَة على عَامَّة الْأَيَّام  (تحفۃ الفقهاء ، کتاب الصوم ، 1/ 343)

اگر حاجی کےلیے عرفہ کا روزہ ضعف و نکاہت کا سبب ہو جو    وقوف سے مانع ہو اور دعا میں خلل  کا سبب ہو تو اس کے حق میں عرفہ کا روزہ ترک کردینا ہی بہتر ہے، کیوں کہ اس کو اس سال کے علاوہ بھی عرفہ کا روزہ مل  سکتا ہےلیکن وقوف عرفہ عام طور سے لوگوں کو  زندگی میں ایک بار ملتا ہےاور اگر روزہ اس کے لیے ضعف کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ حاجی کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے کیوں کہ اس دن کی فضلیت دوسرے  دونوں سے بہت زیادہ ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ وقوف کی وجہ سے  حاجی  کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے لیکن   یوم عرفہ کی فضیلت کی وجہ سے  دوسرے لوگوں کے لیے روزہ رکھنا سنت ومستحب ہے۔ گویا روزے کی فضیلت وقوف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ  اس دن کی اپنی خاص فضیلت کی وجہ سے ہے ، اس لیے  دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان ’’یومِ عرفہ‘‘ کا روزہ سعودی عرب کی تاریخ کے حساب سے رکھنے کے پابند نہیں ہیں، سعودی عرب کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ؍ذی الحجہ ہو، اور دوسرے ممالک کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9؍ ذی الحجہ ہو۔

مفتی محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

خادم دارالافتاء  عارفیہ ،سید سراواں شریف

۱9/جولائی ۲۰۲۱ء

Ad Image