احناف سلف کے یہاں فقہ تقدیری کی روایت تھی، یعنی وہ غیر واقع ممکنہ و محتملہ مسائل کی بھی تحقیق کرڈالتے تھے، جب کہ احناف خلف کے یہاں فقہ واقعی سے بھی کھلا اغماض ہے۔
اس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ کم از کم جدید پیدا شدہ مسائل کا دلائل اور احوال کی روشنی میں شخصی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر خالص اللہ کی رضا، اسلام کی بقا اور اہل اسلام کے شرف کو نگاہ میں رکھ کر علمی تحقیقی ومعروضی حل تلاش کیا جائے۔
یہ کام بڑے اداروں اور بڑے علما کا ہے۔ جو مسائل ہمہ گیر ملکی وعالمی نوعیت کے حامل ہوں، ان کے حل میں مختلف فقہی ونظری دبستانوں کو ایک دوسرے سے کھلے ذہن کے ساتھ استفادہ کرنا چاہیے اور جب تک یہ نہیں ہوجاتا اصاغر کو حرام حرام کی رٹ سے بچنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ اکابر کی بے خبری نے اصاغر کو جری بنا دی ہے۔
ایک اور بدترین ظاہرہ جو دیکھنے میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ گروہی تعصبات نے نگاہوں کو اس قدر بے غیرت کردیا ہے کہ مخالف خیمے کی کوئی بھی ایک ایسی تصویر مل جائے جس سے اس کے خلاف ہواخیزی کی جاسکتی ہے تو دوسرے خیمے کے کہتر ومہتر اس کے خلاف بیان بازی اور دشنام طرازی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ اگر وہی تصویر خود ان کے خیمے کی ہوتی تو وہ کیا کرتے اور قطع نظر اس سے کہ کیا اس تصویر کے جواز میں بھی کوئی شرعی گنجائش موجود ہے؟
ان نکات پر غور کرنے کی زحمت لوگ نہیں کرتے، کیوں کہ انہیں تو مخالف خیمے کی طنابیں کاٹنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آچکا ہوتا ہے، جسے وہ کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ افسوس کہ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں سب ننگے ہیں۔
ایک بات اور اہم ہے کہ جب کسی گروہ کے شعوری یا غیر شعوری کوتاہیوں کے خلاف دوسرے لوگ احتساب کرتے ہیں تو اس گروہ کے دانشور حسن ظن، حسن کلام، آداب اختلاف، آداب تاویل پر لیکچر دینا شروع کردیتے ہیں، لیکن جب خود ان کو دوسرے خیمے کے خلاف کوئی موقع ہاتھ آجاتا ہے تو وہ خود اپنا ہی لیکچر نسیاً منسیا کرڈالتے ہیں۔
یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ بالعموم مذہبی لوگ دینی وملی شرف کے بجائے گروہی ومسلکی شرف عزیز رکھتے ہیں، بلکہ اس سے نیچے اترکر شخصی شرف کی تلاش عام ہوگئی ہے، بلکہ اس سے بھی نیچے اتر کر مخالف کو ننگا کرنا مقصود بن گیا ہے اور اپنی لنگوٹ تک کی کوئی فکر نہیں رہی ہے۔
مسلم ذہن عصر اول میں ہی دو خانوں میں تقسیم ہوگیا تھا، اصحاب الظاہر یا اہل الحدیث اور اصحاب الرائے یا اصحاب فقہ۔ اصحاب ظاہر میں جو فقہی غلو ہوا وہ انکار قیاس تک جاپہنچا اور اصحاب الرائے میں جو فقہی غلو ہوا وہ انہیں تفسیر بالرائے تک لے گیا۔ اسی طرح اصحاب الظاہر میں جو نظری غلو ہوا وہ انہیں حرف پرستی، انکار مجاز، حشویت اور تشبیہ وتجسیم تک پہنچا دیا اور اصحاب الرائے میں جو نظری غلو ہوا اس نے انہیں اعتزال اور باطنیت تک پہنچا دیا۔ اول الذکر کی باقیات موجودہ غالی قرآنیوں اور اہل الحدیث میں تلاش کی جاسکتی ہے جو ہر اس چیز کو رد کرنے کے درپے ہوتی ہے جو کتاب اللہ میں نہ ملے یا جس کا ثبوت احادیث صحیحہ سے نہ ہو۔ اسی طرح ثانی الذکر کی باقیات اہل تشیع اور متصوفین کے بعض خیموں میں تلاش کی جاسکتی ہے جس کے نزدیک شریعت کی کوئی حقیقت نہیں، یہاں تک کہ نماز وروزہ تک کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔
افراط وتفریط کے ان دونوں رجحانات کے برخلاف اہل اعتدال کا بڑا گروہ ہر عہد میں موجود تھا جو ظاہر کے ساتھ باطن کو بھی اہمیت دیتا تھا، عبارات کے ساتھ مقاصد پر بھی نظر رکھتا تھا اور کتاب وسنت پر سختی سے کاربند ہونے کے ساتھ کھلے دل ودماغ سے عقل وفلسفہ اور مشاہدہ وتجربہ سے استفادہ کرتا تھا، کتاب وسنت اور اجماع کے ساتھ قیاس واجتہاد، کشف ووجدان اور دیگر اقوام کے علمی ، فکری اور ثقافتی تراث سے استفادے کو بھی کبھی حرف غلط نہیں سمجھتا تھا۔
فکر وفلسفہ، حساب وہندسہ، طب وحکمت اور مراقبہ ومجاہدہ خواہ یونان ومصر کی تہذیبوں کا برآمد شدہ ہو، خواہ ایران وہندوستان کا تراشیدہ ہو، اہل نظر مسلم علما-فقہا، متکلمین، صوفیہ اور فلاسفہ- نے ان سے استفادے میں کبھی عار محسوس نہیں کی، بلکہ کمال مہارت سے ان میں سے اکثر و بیشتر کو کفر و ضلالت سے پاک کر کے اسلامی توحید ورسالت کے پانی سے وضو کرادیا اور اس طرح سے جو فکر وفلسفہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے سد راہ بن سکتا تھا، اسے ہی اسلامی فکر وثقافت کا خادم بنا دیا۔
یوگا، ہندو فلسفے کے ۶؍دبستانوں میں سے ایک ہے۔ باقی پانچ کے نام یہ ہیں:سانکھیا، نیایا، ویشیشکا، میمامسا اور ویدانتا۔ اس کی روایت ہندو مت کے علاوہ دیگر مشرقی ثقافتوں میں بھی موجود رہی ہے۔مثلاً بودھی، جینی اور ایرانی ثقافت۔ یوگا؛ ریاضت، عبادت اور ثقافت ہے۔یوگا بنیادی طور پر ریاضت ہے جس کے ذریعے جسم ودماغ پر کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے اور انہیں پرسکون بنایا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس سے جسمانی وذہنی صحت وسکون کا حصول ہوتا ہے۔
یوگادوسرے مرحلے میں عبادت ہے۔ اس مرحلے میں پرسکون ذہن وجسم کو معرفت وعبادت میں لگایا جاتا ہے۔ یہ ذکروفکر اور ترکیز ومراقبے والی عبادت ہے۔ یہ عبادت، مراقب یا یوگی کے پیشگی عقیدے کےمطابق ہوگی۔یعنی وہ پہلے سے جس کو معبود مان چکا ہوتا ہے اپنے پرسکون ذہن کو مراقبے کے ذریعے اسی پر مرتکز کردیتا ہے۔بعض دفعہ اس کے ساتھ ان کا ذکر بھی کرتا جاتا ہے اور اپنے مراقبے کو ذکروفکر کا جامع بنادیتا ہے۔اس وقت برہمن یا تو پرمیشور کے تصور میں گم ہوجاتا ہے یا اس کے نیچے جو اس نےذیلی خدا بنا رکھے ہیں ان کا دھیان جمالیتا ہے۔ اسی طرح جینی اور بودھی جوبالعموم تصور خدا سے خالی ہوتے ہیں، وہ اپنے ذہن کو نقطے پر مرکوز کردیتے ہیں جس سے ان کے اخلاقی تزکیے کا حصول ہوجاتا ہے جو ان کی معرفت اور گیان کی انتہا اور مقصود ہے۔
یوگا کا ایک پہلو ثقافتی بھی ہے۔ چوں کہ یہ جنوبی ایشیائی ممالک کا ثقافتی ورثہ ہے۔ جدید احیاپسند ہندو اس لیے بھی اس کے فروغ میں کوشاں ہیں کہ اس سے ان کی ثقافت کی ثروت مندی واضح ہوتی ہے۔ دنیا کی دیگر اقوام حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی اس کے فروغ میں کوشاں ہیں۔ ان کا مقصد یوگا کا طبی اور ریاضتی پہلوسے استفادہ کرنا ہے۔ جدید پرتعیش زندگی، جو اے سی کی متکیف ہواؤں اور کار ، کرسی، کمپیوٹر اور صوفے کی راحتوں یازنجیروں میں جکڑ کر انتہائی بےکیف اور جسمانی ونفسیاتی امراض کی آماج گاہ بن چکی ہے،یوگا اسے نجات کا ایک فطری، طبعی اور آسان نسخہ عطا کرتاہے۔دنیا کی دیگر قوموں کا مقصد بس یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے تراث میں موجود انسانی جسم وذہن کے علاج کے اس موثر نسخے سے استفادہ کریںاور بس۔ عام اقوام عالم کو اس کے تعبدی پہلو سے کوئی غرض نہیں، گو کہ ہندو مبلغین کی کوشش یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس راستے سے دوسری اقوام کو ہندوفکروعقیدےسے بھی قریب کریں۔
الغرض!یوگا سے جسمانی وذہنی امراض کا علاج اور سکون کا حصول سب کو ہوگا اور کم وبیش آج سب کر بھی رہے ہیں،خواہ وہ ایرانی ہوں یا تورانی، برہمن ہوں یا بودھی وجینی، یا ایسے لوگ ہوں جو سرے سے کسی مذہب میں ہی یقین نہیں رکھتے۔
اب علماے اسلام کے سامنے سوال دراصل یہ ہے کہ ایک ایسا عمل جو قبل از اسلام ثقافتوں کا ورثہ ہے، اس سے استفادہ جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ اگر یہ استفادہ فقط جسمانی وذہنی ریاضت اور طبی مقاصد کے حصول تک منحصر ہو،تو اس میں شرعاً کیا قباحت ہے؟ اور یہ کہ جس طرح اس ریاضت سےحاصل پرسکون جسم ودماغ کو مختلف عقائد ونظریات کی حامل قوموں نے اپنےعقیدے کے مطابق اپنے معبودوں کے ذکرومراقبے کے لیے استعمال کیا، کیا مسلمانوں کے لیے بھی یہ اجازت ہوسکتی ہے کہ وہ ریاضت کے ذریعے حاصل کردہ پرسکون ذہن کو معبود واحدحق تعالیٰ کے ذکروفکر میں مراقب کردیں؟ یہ سوال اس لیے بھی بہت اہم ہوجاتا ہے کہ ہمارے بہت سے صوفیہ کے یہاں یوگا کے مختلف آسن مروَّج رہے ہیں ، خود بابا فرید گنج شکر سے صلات معکوس کی جو روایت ہے، وہ کیا ہے، یوگا ہی کی تو ایک شکل ہے؟ یا کتاب وسنت سے اس کا کوئی منقول ثبوت بھی موجود ہے؟ یا صرف اس نقطے کے پیش نظر کہ اسلام ایک کامل دین ہے، کسی بھی جہت سے مسلمانوں کو دیگر اقوام کے علوم وتجربات سےاستفادے کی اجازت نہیں ہوسکتی؟
اشتعال انگیز اور جذباتی بیانات دینے والے نوجوان علما کو ان سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کرنا چاہیےاور اس غور وخوض کا مقصد اس مسئلے کی شرعی تحقیق اور عام مسلمانوں کی دینی ودنیوی نجات وفلاح کی کوشش ہونی چاہیے۔ جو لوگ الزام در الزام یا تاویل در تاویل میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں بھی مسئلے پر اصولی طور پر تحقیقی نظر ڈالنی چاہیے ۔مقصد کسی گروہ کو بچانا یا پھنسانا نہیں ہونا چاہیے، یہ سفلی جذبات صاحبان عزیمت مسلمانوں کے نہیں ہوسکتے۔
Leave your comment