یادش بخیر! غالباًوہ الہ آباد کا پہلا سفر تھا۔ حضرت عارف ربانی شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ النورانی کے ساتھ ہمارے احباب کا چند نفری قافلہ خانقاہِ عارفیہ سے الہ آبادشہر کے لیے رواں دواں تھا۔ وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے استفسارات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ رفیق گرامی مولانا شہباز عالم مصباحی نے سوال کیا : حضور! تصور شیخ کے بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت نے برجستہ فرمایا:ہر وہ تصور جو ہمیں حق تعالیٰ سے جوڑدے مستحب ہے اور ہر وہ تصور جو ہمیں حق تعالیٰ سے کاٹ دے، دور کردے حرام ہے۔ حضرت نے مزید فرمایا:اصل یہ ہے کہ ہم مولیٰ تعالیٰ سے یک نفس کے لیے بھی غافل نہ ہوں۔ ہر وقت اس کے تصور میں ڈوبے رہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہمارا ذہن خرافات اور فواحش میں ڈوبا رہتا ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے اوقات میں بہ کوشش حق تعالیٰ کا تصور جمائیںجو محبوب لذاتہ ہے۔اس کے محبوب و صالح بندوں کا تصور جمائیں جو محبوب لغیرہ ہیں؛ کیوں کہ ہم اللہ کے لیے صالحین سے محبت کرتے ہیں۔
اصل مقصود و محبوب اللہ کریم کی ذات ہے۔بہر کیف! یہ تو واضح ہے کہ صالحین کا تصور، دنیا اور خرافات دنیا کے تصورات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ حدیث پاک میںاللہ کے صالح بندوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ جب ان کو دیکھو تو اللہ کی یاد آئے۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ بندے ایسے ہیں جو صبح وشام اللہ کے ذکر و فکر اور محبت و اطاعت میں ڈوبے رہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان سے مل کرفطری طور پر اللہ کی یاد آئےگی۔ اسی طرح انھیں سوچ کر بھی فوراً اللہ کی یاد آئے گی،اور ہر وہ فکر جو ہمیں اللہ کے ذکر سے جوڑدے وہ بلا شبہ عبادت ہے۔
ہاں! اگر کسی کا تصور ، شیخ میں ہی الجھ کر رہ گیا، تصور شیخ، ذکر حق کے لیے حجاب بن گیا، تو اس کے ناجائز ہونے میں بھی شبہ نہیں ہے؛ کیوں کہ جو چیز بھی حق کی یاد سے روک دے وہ صنم ہے اور تصور صنم حرام ہے۔ اسے اس طور پر بھی دیکھیےکہ ہمیں وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ۳۵(مائدہ)کا حکم ہے ۔ اسی لیے ہم شیخ کو وسیلہ الیہ یعنی وسیلہ الی الحق سمجھتے ہیں۔ اب اگر کسی کا تصور وسیلہ الی الحق نہیں ہوا بلکہ حق سے حجاب بن گیا ، پھر وہ وسیلہ کہا ںرہا، وہ تو مطلوب و مقصود ہوگیا، جو شرک ہے۔ لہٰذا تصور شیخ اگر وسیلہ الی الحق ہے توجائز و مستحسن ہے اوراگر حق سے حجاب کا باعث ہے تو ناجائز اور سخت مکروہ۔
خضرِ راہ ، جولائی ۲۰۱۵ء
Leave your comment