تصوف کے تین درجے ہیں:پہلا درجہ تزکیہ کاہے جس کاحکم قرآن میں اس طرح آیا:قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(۱۰) (شمس) تزکیہ تصوف کاپہلا زینہ ہے۔تصوف کادوسرادرجہ اخلاق ہے، وہ اخلاق جس کے بارے میں ارشاد ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(قلم) یہ وہ اخلاق ہے جس کی وضاحت حدیث رسول میںملتی ہے کہ جوتمھیں نہ دے اس کودواورجوتم پرظلم کرے اس کے ساتھ احسان کرو اورجوتمہارے ساتھ بُراچاہے اس کے ساتھ بھلاچاہو۔ اخلاق کی انتہامکمل طمانیت اور صبر ہے کہ پورے اختیار ہونے کے ساتھ، انتقام اور بدلے کا کوئی خوف نہ ہونے کے باوجودآپ اپنے جانی دشمنوں کو کہہ سکیں:لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، اَللّٰھُمَّ اِھْدِقَوْمِی۔اور تصوف کا تیسرا درجہ ہے احسان کہ عبادت ایسے کریں گویاآپ اللہ کودیکھ رہے ہیں اوراگر یہ نہ ہوسکے تو کم ازکم یہ کیفیت ضرور ہوکہ اللہ آپ کودیکھ رہاہے۔ یہ کیفیت دوطرح سے حاصل ہوتی ہے: ایک راستہ تویہ ہے کہ کوئی کھڑاہوااوراچانک جناب الٰہی میں حاضر ہوگیااور دنیاومافیھاسے بے خبر ہوگیا۔یہ جذب کاراستہ ہے۔ اللہ کسی کسی کویہ کیفیت عطاکرتاہے اور یہ کیفیت جسے عطاہوتی ہے کوئی ضروری نہیں کہ ایسابندہ بہت بڑاعالم یاعابد ہو۔اللہ کاکرم جس کواُس کے لیے چن لے۔ دوسراراستہ سلوک اور مجاہدے کاہے کہ باربار یہ خیال لانے کی کوشش کرے کہ میرامولیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔یہ خیال دوطرح کاہوسکتاہے: ایک عابد انہ ومجرمانہ اندازسے اور دوسراعاشقانہ اندازسے۔ یہ کیفیت بڑھ کراس حد تک بندے کوپہنچادیتی ہے کہ وہ زبان حا ل سے گویاہوتاہے
اسی کے نور سے تم اس کو بے چون و چرا دیکھو
وہ اک نور مقدس ہے وہاں چون و چرا کیسا
خضرِراہ ، مارچ ۲۰۱۶ء
Leave your comment