ایک مرتبہ حضور داعی اسلام مد ظلّہ النورانی کی مجلس با فیض میں حاضر ی کی سعادت حاصل ہوئی۔ دورانِ گفتگو آپ نے فرمایا کہ طالبانِ مولیٰ کو اپنےشیخ کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ رہناچاہیے،کیوں کہ اُن کی صحبت میں رہنے کا حکم قرآن و احادیث میں وارد ہے ،لیکن اگر یہ میسر نہ ہو تو طالب جہاں ہے وہیں ایسے لوگوں کو تلاش کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوں اور اپنے شیخ کی اجازت سے ان کی صحبت میں رہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتوایسی کتابوں کو دوست بنائے جو دلوں کو کھولنے والی ہوں ، مثلاً مشائخ صوفیا کی کتابوں اور ان کے ملفوظات کا مطالعہ کرے، کیوںکہ کَلِمَاتُ الْمَشَائِخِ جُنْدٌ مِّنْ جُنُوْدِ اللہِ۔یعنی مشائخ کی باتیں اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، اور مرید جب ایسی کتابوں کو پڑھتا ہےتو یہ کلمات اللہ کی راہ میں اس کے دل کو مضبوط کرتے ہیں اور نفس و شیطان اور دوسرے موانع کے بالمقابل صف آرا ہو جاتے ہیں ،اور اگرکسی کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ مختلف قسم کے اوراد اور وظائف میں لگا رہے۔اس کا کم سے کم یہ فائدہ ہوگاکہ اس کی زبان ذکر الٰہی سے تر،اورلایعنی باتوں سے محفوظ رہے گی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : مِنْ حُسْنِ إسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُ مَالَایَعْنِیْہِ ۔لا یعنی باتوں کو ترک کر دینا اسلام میں صاحب احسان بندے کی پہچان ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ اوراد اور وظائف میںمشغولیت یہ طالبان مولیٰ کے لیے تیسرے درجے کا کام ہے، ورنہ پہلا اور دوسرا درجہ وہی ہے جسے بیان کیا گیا ہے۔افسوس یہ ہے کہ آج کثرت سے ذکرو اوراد کو ہی تصوف و احسان کا اعلیٰ درجہ سمجھا جاتاہے ،بلکہ ایسے لوگ عموماً اپنے آپ کو سب سےاعلی گمان کرتے ہیں۔مشائخ زمانہ میںسے کسی کی بھی صحبت میں بیٹھنے سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں اور اس طرح نہ ان کی تربیت ہوپاتی ہے اور نہ ان کو اعلیٰ احوال سے کوئی حصہ مل پاتا ہے، بلکہ الٹاشیطان کا مسخرہ بنتےرہتے ہیں ۔
خضرِراہ، اکتوبر ۲۰۱۴ء
Leave your comment