۲۱؍نومبر۲۰۱۵ء بروز سنیچر مرشدی حضور داعی اسلام ادام اللہ ظلہ علینا کی ہفتہ واری مجلس میں اساتذۂ جامعہ عارفیہ کے ساتھ یہ فقیر بھی حاضرتھا،سلسلہ شطاریہ کی بات آئی تو آپ نےپوچھاکہ اس کا بانی کون ہے اور یہ سلسلہ کہاں سے چلتا ہے؟ پھر خودہی فرمایاکہ میں نے ۱۹۸۲-۸۳میں مثال شریف میں طریقہ شطاریہ کے تعلق سےپڑھاتھا۔مثال شریف میں حضرت نجم الدین کبریٰ قدس اللہ روحہ کامکمل رسالہ اَقْرَبُ الطُّرُقِ إِلَی اللہِ تَعَالٰی موجودہے۔ اس میں شیخ نجم الدین کبریٰ قدس اللہ روحہ نے ذکرکیاہےکہ اللہ تک پہنچنے کے راستے مخلوق کے سانسوں کی طرح بے شمارہیں لیکن یہ سارے طریقے اپنی کثرت کے باوجودمندرجہ ذیل تین طریقوں میں سمیٹے جاسکتے ہیں: پہلاطریقہ ارباب معاملات کاہے،یہ حضرات کثرت سےنماز،روزہ،حج،زکاۃ اوردیگر اعمال صالحہ اختیارکرتے ہیں۔یہ طریقہ اختیارکرنے والے ایک طویل عرصہ تک لگے رہتے ہیں مگر بہت کم ہی لوگ واصل بحق ہوپاتے ہیں۔ دوسراطریقہ مجاہدہ وریاضت کاہے،اس طریقے کواختیارکرنے والے پہلے کے بہ نسبت واصل بحق ہیں،پھر بھی ان کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔ابن منصورحلاج نےابراہیم خواص سے پوچھاکہ کس مقام پراپنے نفس کو لگائے ہوئے ہو؟انھوں نے کہا کہ میں مقام توکل پر تیس سال سے ریاضت کررہا ہوں۔ ابن منصورحلاج نے کہاکہ تم نے پوری عمرباطن کی تعمیر میں لگادی ،توحید میں فنا کب ہوگے؟ تیسراطریقہ سائرین وطائرین باللہ کاہے،یہ طریقہ جذبہ الٰہی کے ساتھ سلوک طے کرنے والے اہل محبت شطارکا ہے۔ ان کی ابتدا ہی پہلے دونوں کی انتہاسے ہوتی ہے۔یہ طریقہ اپنےآپ کواللہ کے ارادے میں فناکردیناہے۔یعنی مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمَوْتُوْا(موت سے پہلے اپنے ارادہ واختیارکوفناکردو)کاراستہ ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس کی دس فصلوں پراجمالاروشنی ڈالی۔
خضر ِراہ ، دسمبر ۲۰۱۵ء
ترتیب: غلام مصطفیٰ ازہری
Leave your comment