[یہ مضمون آل انڈیا ریوڈیو پر ۱۱؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو نشر ہوا۔]
سامعین کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خواتین وحضرات! رمضان المبارک کا مہینہ بڑےہی خیر وبرکت کا مہینہ ہے۔ اس کے آتے ہی مسلمانوں میں طاعت وعبادت کا گراف بڑھ جاتا ہے ، گھر کی رونق اور بازار کی چہل پہل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس ماہ مبارک کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۸۵ میں اللہ کریم فرماتا ہے:
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم -بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ﴾ [البقرة: 185]
یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا، جو تمام انسانیت کی ہدایت اور ہدایت وفرقان کے دلائل کا خزانہ ہے،لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے، اسے لازم ہے کہ اس مہینے میں روزے رکھے۔
اس آیت کریمہ میں رمضان کی فضیلت کے حوالے سے دو باتیں مذکور ہیں؛ ایک یہ کہ رمضان میں قرآن نازل ہوا جو پوری انسانیت کی ہدایت کا سامان ہے اور دوسری یہ بات کہ اس میں روزے فرض ہیں۔رمضان کی فضیلت میں کچھ نہ ہو تو بھی یہ دو باتیں اس کی شان وعظمت کے اظہار کےلیے کافی ہیں۔
قرآن کوئی معمولی کتاب نہیں ہے، بلکہ آسمانی ہدایت کا آخری سرچشمہ ہے، جو اپنی اصل صورت میں محفوظ ہے۔ قرآن کے لفظوں میں یہ ہدایت بھی ہے اور دلیل ہدایت بھی، یعنی دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی۔ لیکن افسوس کہ دنیا نے اسے مسلمانوں کی کتاب سمجھ لیا ہے اور مسلمانوں کے منفی کردار کو دیکھتے ہوئے اس سرچشمۂ ہدایت سے فاصلہ بنا رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس کی برکات وہدایات سے دور ہیں۔ دوسری طرف مسلمان بھی اپنی لکھی ہوئی کتابوں میں گم ہیں اور اللہ کی اس کتاب کو اپنے فکر ونظر کا قبلہ بنانے کو تیار نہیں ہیں، جس کی وجہ سے وہ تنگ نظری، پسماندگی اور فرقہ بندی کا شکار ہیں۔
جہاں تک روزے کی بات ہے تو یہ محض بھوکے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ روحانی واخلاقی تربیت کا ایک جامع منشور ہے۔ ایک مہینے تک دن کے اوقات میں صرف اللہ کی رضا کے لیے پیٹ اور جنس کی جائز خواہشات سے خود کو دور رکھنا ، دراصل پورے سال خود کوناجائز خواہشات اور شہوتوں سے دور رکھنے کا ایک تربیتی ورک شاپ ہے۔ہرٹ ایٹیک، بلڈپریشر، کولیسٹرال، جسم سے زہریلے مواد کی صفائی جیسے درجنوں طبی فوائد اس پر مستزاد ہیں۔
رمضان الکریم کے فضائل وبرکات کے حوالے سے کثرت سے احادیث بھی وارد ہیں۔خصوصاً یہ حدیث بہت ہی مشہور ہے:
إذا جاءَ رَمَضانُ فُتِّحَتْ أبْوابُ الجَنَّةِ، وغُلِّقَتْ أبْوابُ النَّارِ، وصُفِّدَتِ الشَّياطِينُ.
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۰۷۹)
اس حدیث کی شرح میں علما نے دو باتیں کہی ہیں؛ ایک یہ کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہےکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کرلیے جاتے ہیں۔ اس پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جب رمضان میں شیاطین مقید ہوتے ہیں ، پھر اس مہینے میں لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ گناہ کی طرف دعوت دینے والا صرف شیطان نہیں ہوتا، بلکہ خود انسان کا نفس بھی اسے برائیوں کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ﴾ [يوسف: 53] دوسری بات یہ کہ شیطان تو نیک لوگوں کو بہکانے کا کام کرتا ہے، جو لوگ نفس کی غلامی میں خود ہی شیطان بن چکے ہوتے ہیں، انہیں الگ سےکسی شیطان کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علما نے دوسری بات یہ کہی ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے، جہنم کے دروازے بند کرنے اور شیاطین کو مقید کرنے کی بات بطور مجاز ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان المبارک میں نیکیاں کرنے اور برائیوں اور نفس کے وسوسوں سے بچنے کی توفیقات زیادہ ملتی ہیں، جن سے جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان سال کے دوسرے مہینوں کے بہ نسبت رمضان میں ذکر وفکر،عبادت واطاعت اور صدقات وعطیات کا کام زیادہ کرتا ہے۔
رمضان کے ایام سحری سے شروع ہوکر تراویح پر ختم ہوتے ہیں۔ سحری کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اس میں برکت ہے اور اہل کتاب کے روزوں سے امتیاز ہے۔ چوں کہ یہ ایک مسنون عمل ہے، اس لیے اسےسنت وعبادت سمجھ کر کرنا خود اپنے آپ میں روحانیت کا عمل ہوا۔ مزید یہ کہ سحری کرنے سے دن بھر کی بھوک کی جو شدت ہے، اس میں بھی کمی آتی ہے، جو طبی لحاظ سے بھی مفید ہے۔
رمضان کے دن میں اپنے معمول کے کام کرنے کے ساتھ ذکر وتلاوت پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہیے۔ چوں کہ یہ وہ خاص ایام ہیں جن کی عبادتوں کا ثواب کئی درجے بڑھ جاتا ہے۔
سورج غروب ہوتے ہی مسلمان افطار کرتے اور دوسروں کو کراتےہیں۔ یہ عمل بھی مسنون اور بابرکت ہے۔ اس سے باہمی محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل افطار پارٹیاں غیر معمولی تکلفات اور دکھاوے کا سامان بنتی جارہی ہیں۔ گویا سحری وافطاری کا اہتمام تبرک اور ثواب کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ تکلف، ریاکاری اور بےتحاشہ کھاکھاکر خود کو بیمار کرنےکے لیے ہونا چاہیے۔
رمضان کی راتوں میں نفل نمازوں کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں، اس لیے ان راتوں میں جتنا ممکن ہوسکے، زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔ سلف سے بیس رکعات کی روایات زیادہ ملتی ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک بیس رکعات تراویح پڑھنا افضل اور مانوس عمل ہے، تاہم اگر کوئی اس میں کمی یا بیشی کرتا ہے تو بھی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
ان اعمال کے ساتھ نئے ملبوسات کا اہتمام، غریبوں اور حاجت مندوں کی خبر گیری، چیریٹی اور صدقات پر خصوصی توجہ بھی اس ماہ مبارک کی برکات میں اضافے کا باعث ہے اور مسلمان ان امور کا اہتمام بھی خوب کرتے ہیں۔
رمضان کے ان ظاہری اعمال ومراسم کے ساتھ روح رمضان پر بھی ہماری نظر ہونی چاہیے۔چوں کہ روزہ ایک خالص روحانی معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو بندے اور اس کے خدا کے بیچ ایک راز ہے۔ اس سے کوئی دوسرا شخص آشنا نہیں ہوسکتا۔اسی لیے اللہ کریم کا ارشاد ہے: إِنَّ الصَّوْمَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ(متفق علیہ) روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، یا میں ہی اس کا بدلہ بنوں گا۔
قرآن میں جہاں فرضیت روزہ کا حکم آیا ہے، وہاں اس باطنی وروحانی پہلو پر خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ [البقرة: 183]
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ تم سے پچھلی قوموں پر فرض کیے گئے، مقصد یہ ہے کہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
اس طرح سے دیکھیے تو روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ ربانی معرفت، قلبی تزکیہ اور اخلاقی تطہیر کانام ہے۔ اگر ہم نے پورے ماہ کا روزہ رکھا، لیکن ہمیں اپنے رب کی معرفت حاصل نہیں ہوئی،ہمارا دل کبر ونخوت، حرص وحسد اور نفرت وعداوت کے جذبات سے پاک نہ ہوا اور ہم اخلاق ومعاملات میں بہتر نہ ہوئے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے روزے سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔
روزے کی روحانی واخلاقی آسپیکٹ کے حوالے سے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد بہت اہم ہے:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وشرابه(بخاری: ۱۸۰۴)
جو شخص جھوٹ بولنے اور غلط کرنے سے نہ بچ سکے، بھلااللہ کو اس کی بھوک اورپیاس سے کیا غرض ہوسکتی ہے؟
گویا رمضان میں بھوکا پیاسا رہنا ،یہ اصل مطلوب نہیں ہے، بلکہ رمضان کا اصل مطلوب یہ ہے کہ آدمی خود کو ایک بابصیرت اور باکردار شخصیت میں تبدیل کرے۔
رمضان کے روحانی پہلو کے ساتھ اس کا سماجی پہلو بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا اندازہ صدقۂ فطر کے فلسفے سے بطور خاص ہوتا ہے ، جس کے مطابق عید گاہ جانے سے قبل اسے ادا کردینا چاہیے۔ روزہ دار سے رمضان میں جو چھوٹی موٹی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں، یہ صدقہ ان کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس سے غریبوں کی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) اس سے واضح ہوا کہ روزہ اگرچہ خالص اللہ کی عبادت ہے، لیکن اس عبادت کو خلق خدا کی خدمت سے بھی مربوط رکھنا چاہیے۔چوں کہ نفلی عبادات-خواہ بدنی ہوں کہ مالی – کا ثواب اس مہینے میں فرض کے برابر ہوجاتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس ماہ مبارک میں نفلی نماز واذکار کے ساتھ بطور نفل انفاق اور خدمت خلق پر بھی پوری توجہ دیں اور اس معاملے میں مسلم وغیر مسلم کا فرق بھی نہ رکھیں، سب خلق خدا ہیں، جن کی ضرورت پوری کرنے سے رب کی رضا حاصل ہوگی۔ ان شاء اللہ!
استاذ: جامعہ عارفیہ، رکن : شاہ صفی اکیڈمی، سید سراواں، کوشامبی، یوپی
Leave your comment