مرشدی حضور داعی اسلام عارف باللہ شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی ادام اللہ ظلہ علینا نے ایک مجلس میں فرمایا کہ مومن کی زندگی صبر اور شکر کے درمیان گزرتی ہے۔ نعمت پر شکر اور مصیبت و تنگی پر صبر، ایمان کا حسن ہے۔ شکر کا راستہ پُر خطر ہے کیوں کہ نعمت کے بعد بندے پر غفلت بھی طاری ہوسکتی ہے ، بندہ نعمت پا کر اگر رب سے غافل ہوا تو نعمت اس بندے کے لیے زحمت اور آفت بن جاتی ہے اور اگر نعمت پاکر شاکر رہا تو اللہ اس کی نعمتوں میں مزید اضافہ فرمادیتا ہے ،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ( ابراہیم :۷) اگر تم شکر بجا لاؤ گے تو ہم ضرور تمہاری نعمت میں اضافہ کردیں گے اور اگر ناشکری کروگے تومیرا عذاب بہت سخت ہے۔ صبرکا راستہ دشوار ضرور ہے لیکن صبرکرنے والا خطرے سے باہر ہوتا ہے ، صبر کا انعام بھی بڑا ہے، بندہ جب اللہ کی رضا وخوشنودی پر ثابت رہتا ہے ، مصیبت و تنگی میں اللہ ہی کی طرف مائل رہتا ہے تو اللہ اپنی قربت خاص عطا فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ(بقرۃ:۱۵۳)اللہ صابرین کے صبر کا بدلہ بن جا تا ہے خود اپنی رضا عطا کرتا ہے اورصابرین کو اپنا بنا لیتا ہے۔ عارفین نے فرمایا: اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الصَّبْرِ وَ الشُّکْرِ ایمان کی حلاوت صبر و شکر کے درمیان ہے ۔ کبھی صبر اور کبھی شکر ،صبر و شکر کے علاوہ میں ہلاکت ہے، بندے نے مصیبت میں شکایت کی یا نعمت پر مغرور و غافل ہوا تو اس کا انجام اللہ کا عذاب اور اس کی ناراضگی ہے ـ جو دارین کی بربادی کا سامان ہے۔
خضرِ راہ ، فروری ۲۰۱۶ء
Leave your comment